کفرانِ نعمت
چاروں جانب اْداسی کے ڈیرے، خوشی کے پیچھے بھاگنا اور تھک کر اپنے خالی ہاتھ ملتے رہ جانا، انسان کا اپنا منتخب کردہ ہے
اللہ رب العزت نے اپنی محبوب مخلوق "انسان" کے شایانِ شان کئی ہزار سال پہلے نہ صرف یہ دنیا بنائی بلکہ اسے بہت پیار سے سجایا، سنوارا اور ساتھ اپنی اس نادر تشکیل کی سیرکرانے اور یہاں موجود آسائشوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اْنھیں زندگی کا انمول تحفہ عطا فرمایا۔
زندگی خالق کا اپنی تخلیق کے لیے ایسا انعام ہے جو اْس کی جھولی میں فقط ایک بار ڈالا جاتا ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا کامل ایمان ہے کہ اس زندگی کے بعد ہمیں دنیا میں آنے کا کوئی دوسرا موقع ہرگز مہیا نہیں کیا جائے گا۔ انسان کو یہ زندگی محض ہنسی، کھیل کے لیے عنایت نہیں کی گئی ہے، حقیقتاً خدا تعالیٰ کا یہ تحفہ بہت بھاری ذمے داری لیے اْس کے بندوں کی قسمت میں لکھا گیا ہے جسے بہترین انداز میں سلیقے اور قرینے کے ساتھ بسر کرنا اْن پر فرض قرار دیا گیا ہے۔
انسان کو زندگی جب ایک بار ملنی ہے تو اسے جینا بھی بھرپور انداز میں چاہیے لیکن اس دوران ایک بات کا خیال رکھنا بیحد ضروری ہے کہ آپ کی جانب سے کسی دوسرے کی زندگی میں کوئی خلل پیدا نہ ہو،کیونکہ جس طرح آپ کی آرزو چین کا راگ سننے کی ہے، سامنے والا بھی شور و غوغا کی خواہش لیے دنیا میں نہیں آیا ہے۔
یہیں انسانوں کی کثیر تعداد غلطی کا ارتکاب کرتی دکھائی دیتی ہے، انسانی وجود میں مطلب پرستی کا جنم اُسی لمحے ہوجاتا ہے جب وہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے اردگرد کی پروا کیے بغیر کامیابی کی خود ساختہ سیڑھی پر آگے سے مزید آگے بڑھتے دوران دوسروں کی زندگیوں میں طوفان برپا کر کے رکھ دیتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو اپنی پیدا کردہ تمام مخلوقات میں "افضل ترین" کا خطاب دیا ہے مگر افسوس دنیا میں آکر وہ اپنے منصب کا پاس رکھنے کے بجائے دوسروں کی زندگیوں میں شیطان بننے میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو انسانی ظلم و زیادتی کے ہولناک واقعات سے جابجا روبرو ہونے کا موقع میسر آتا ہے، نہ صرف ماضی بلکہ زمانہئ حال بھی اس بات کا گواہ ہے کہ جب کسی انسان کے ہاتھ طاقت کی کنجی آئی ہے، وہ خود کو زمینی خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ اب ایسا کہنا قطعی جائز تصور نہیں کیا جاسکتا کہ پوری قومِ بنی نو انسان ابلیس کی شاگرد ہے لیکن ساتھ یہ ماننا بھی خوش فہمی سے کم نہیں ہے کہ تمام انسان فرشتہ صفت ہیں۔
انفرادیت سے اجتماعیت تک، زمین کے چھوٹے ٹکڑے سے بڑے ٹکڑے تک اور شہرکے داروغہ سے ملکوں کے حکمرانوں تک، جہاں جس انسان کا جتنا زور چل رہا ہے وہ اْس کا بے شرمی سے کھلم کُھلا مظاہرہ کر رہا ہے، بِنا اس بات کی پروا کیے کہ سامنے والا فرد اُس کی وجہ سے کرب کی کس نہج پر پہنچا خود کو اور اپنی زندگی کو کوس رہا ہے۔
انسان کی زندگی میں آنے والی تکالیف دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو ربِ کریم کی جانب سے اْس کے بندوں کے ایمان کو جانچنے کیلئے امتحان کی صورت میں لائی جاتی ہیں جسے عام فہم زبان میں "آزمائش" کہا جاتا ہے۔ دوسری تکلیف وہ ہوتی ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کی زندگی میں جان بوجھ کر عذاب ڈھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی جانب سے آئی آزمائش پر جب اْس کا بندہ صبر و شکر کا مظاہرہ کرتا ہے تو بدلے میں وہ بڑی ذات اْسے بیشمار انعامات، نعمتوں اور رحمتوں سے نوازتی ہے، جبکہ دوسروں کی زندگی میں شیطان کا کردار ادا کرنے والا انسان اپنے لیے بعد از مرگ تو جہنم کا انتخاب کرتا ہے بلکہ دنیا میں بھی بے چینی، بیقراری، جسمانی اذیت، ذہنی اضطراب اْس کی زندگی کا مستقبل جْز بن جاتے ہیں۔
دنیا بالکل ایسی نہیں بنائی گئی تھی جیسی وہ آج بن چکی ہے، انسان بھی اتنا بے حس، خود غرض اور مطلبی نہیں پیدا گیا تھا جتنا وہ موجودہ وقتوں میں بن چکا ہے۔ جب دنیا اور انسان دونوں ہی اپنی ساخت و ہیت سے بالکل مختلف منظر پیش کررہے ہیں تو پھر زندگی کیسے پہلے جیسی خوشگوار، خوشنما اور رنگین رہ سکتی تھی؟
میری اپنے قارئین سے گزارش ہے کہ اپنی مصروف زندگی سے فقط چند لمحات نکال کر اپنے اندر جھانکیں اور اپنی ذات کا تجزیہ کریں پھر ایمانداری سے فیصلہ کریں کہ آپ کے اطراف میں جو کچھ بھی غلط ہورہا ہے اْس میں آپ کی ذات کا کس قدر دخل ہے؟ اگر نتیجے میں آپ بری الذمہ نکلے تو پھر خود سے سوال کریں کہ ماحول کی برائی کو ختم کرنے میں آپ کا کیا کردار رہا ہے؟ اس کا جواب مثبت آئے تو خود کی پیٹھ تھپتھپائیں اور منفی آنے پر اپنی انسانیت پر فاتحہ پڑھ کر ایک بار پھر بے حسی کی نیند سوجائیں۔
اس دنیا میں آباد ان گنت معاشروں کے بنیادی مسائل سے لے کر مختلف ریاستوں کے درمیان نت نئے جنم لینے والی چپقلش اور جنگ و جدل تک پہنچنے والے معاملات تک جدید دورکے انسان کا قول و فعل انتہائی مایوس کْن رہا ہے۔ بچپن میں تقریباً ہم سب نے اپنے بزرگوں سے یہ سْن رکھا ہے کہ انسانوں پر ایک دور ایسا آئے گا جب وہ برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیں گے اوراچھائی ناپید ہوجائے گی۔
اْس وقت وہ باتیں ہمارے سر کے اْوپر سے گزر جاتی تھیں لیکن آج جو کچھ ہماری آنکھوں کو دیکھنا اور کانوں کو سننا پڑھ رہا ہے ماضی میں کہی اپنے بڑوں کے اقوالِ زریں من و عن سمجھ آرہے ہیں اور ہم بدقسمتی سے اْس کے عملی نمونہ کے گواہ بھی بن رہے ہیں۔ اس بات میں ہرگز شک کی گنجائش نہیں ہے کہ موجودہ زمانہ بے حد خراب ہے، ساتھ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسے ہم سب انسانوں نے مل کر خرابی کی موجودہ نہج پر پہنچایا ہے۔
اردو زبان کا محاورہ "جس کی لاٹھی اْس کی بھینس" ہم نے صرف درسی کتابوں میں پڑھا نہیں بلکہ اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے۔ آج جب ہم امریکا اور اسرائیل کو اْن کے ناپاک ظالمانہ اعمال پر لعنت ملامت کرتے مختلف اقسام کی مغلظات سے نواز رہے ہوتے ہیں تب ہم منافقت کی جیتی جاگتی بھیانک تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ دراصل اپنے گریبان میں جھانکنا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں ورنہ سچ کا دامن تھامیں تو جو کچھ امریکا اور اسرائیل اختیارات کے نشے اور طاقت کی سر مستی میں دنیا کے مظلوم انسانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
ہم بھی بالکل ویسی ہی زیادتی صبح، شام چھوٹے پیمانے پر خود سے نچلے کمزور طبقے اور اطراف میں موجود ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ کررہے ہوتے ہیں۔ دوسری دنیا سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی کثیر تعداد اس کرہئ ارض پر رونما ہونے والی ہر غلط بات کا ذمے دار مغربی ممالک کو ٹہراتی ہے لیکن ساتھ اْن ترقی یافتہ معاشروں کا حصہ بننے ہر دم تیار بھی رہتی ہے۔
جہاں ایک طرف دنیا میں سب کچھ ہی اتنا غلط ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ ہم وقتِ آخر میں جی رہے ہیں اور روزِ قیامت بہت تیزی سے ہماری جانب رواں دواں ہے تو مجموعی طور پر اس دنیا میں پلنے والی زندگیوں کے رنگ مدھم پڑنے ہی تھے۔ یہ بے رونق زندگی، ہجوم میں تنہائی، تنہائی میں بے ہنگم شور اور شور میں چاروں جانب اْداسی کے ڈیرے، خوشی کے پیچھے بھاگنا اور تھک کر اپنے خالی ہاتھ ملتے رہ جانا، انسان کا اپنا منتخب کردہ ہے۔
انسان اپنا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ خود کی نفی کر کے اپنی ذات کی قدرواہمیت کھو دینا اور رنگوں بھری زندگی کو وقتی تسکین کے لیے تاریکی کی نظر کرنا کوئی اپنے وجود سے محبت کرنے والا کرنے کی جسارت ہرگز نہیں کرسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ زمانہ حال کا انسان کفرانِ نعمت میں اتنا آگے جاچکا ہے کہ اب وہ خودکشی کرنے کے درپے ہے جو کہ دنیا کے تمام ہی مذاہب میں ایک حرام اور ناپسندیدہ امرگردانا جاتا ہے۔