احفاظ الرحمن نمود و نام کا طالب نہ تھا کوئی
وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ذرا پلک جھپکی، ایک پہاڑ آکھڑا ہوا۔ پھر یادیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں
چند دنوں پہلے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ایک یادگاری تقریب ہوئی جس میں ڈاکٹر جعفر احمد کی موجودگی میں مہناز رحمن نے ناصر زیدی کو احفاظ الرحمن ایوارڈ سے نوازا۔ اس تقریب کی تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں کوندا سا لپکا۔
ناصر زیدی نے 70 کی دہائی میں آزادیئ صحافت کے لیے جس جبر و ظلم کا سامنا کیا تھا یہ ایوارڈ اُن کی خدمات کو ایک نذرانہ تھا۔ احفاظ اپنی کتاب "سب سے بڑی جنگ" میں اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
"وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ذرا پلک جھپکی، ایک پہاڑ آکھڑا ہوا۔ پھر یادیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ ذہن پر دھند لاہٹوں کی یلغار ہونے لگتی ہے۔ گزرے واقعات آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں، جو تصویر دل کے آئینے میں جگمگاتی تھی، مٹیالی ہونے لگتی ہے، لیکن جو لمحے چاہت کے چمن کی روشوں سے ہو کر گزرتے ہیں، وہ شاید کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔ آن کی آن میں ایسی یادوں کا ایک ایک گوشہ چمک اٹھتا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے یہ آج ہی کا واقعہ ہو۔"
پاکستان میں آزادیئ صحافت اور "زنجیروں میں جکڑے پریس" کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئیں اور ان میں سے بعض مشہور بھی ہوئیں، لیکن جاننے والے، جن میں منہاج برنا صاحب یقینا سب سے باخبر آدمی تھے، یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ ان میں 1977-78 کی تاریخی اور سب سے بڑی جنگ کا تذکرہ سرسری طور پر کیا گیا ہے۔ اس صرفِ نظر کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
زیادہ حوالہ ضمیر نیازی صاحب کی کتاب کا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب "صحافت پابند سلاسل"(Press in Chains)کے پیش لفظ میں لکھا ہے، "اس کتاب کا مرکزی خیال اخباروں میں لگائی جانے والی پابندیوں اور اختلاف کی جرأت رکھنے والے صحافیوں کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائیوں پر مبنی ہے۔ پہلا باب غیر ملکی تسلط کے پونے دو صدیوں کے جبر اور ظلم کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
باقی چار ابواب ہماری اپنی پُر پیچ تاریخ کے چار مختلف ادوار سے بحث کرتے ہیں، اور ان ادوار میں پریس پر لگائی جانے والی کئی پابندیوں، مختلف حکومتوں اور ایجنسیوں اور اخبار کے مالکوں، ایڈیٹروں، کارکن صحافیوں اور ان کی تنظیموں کے کردار کے معروضی بیا ن پر مشتمل ہیں۔"احفاظ الرحمن اس زمانے میں اپنے ساتھیوں کے لیے زار و زار روتے تھے جنھیں کوڑے مارئے گئے تھے۔ ان ہی میں سے ایک خاور نعیم ہاشمی تھے جنھوں نے لکھا۔
1982ء بھی پوری قوم کے لیے مشکل ترین سال تھا، مجھے معروف اردو روزنامہ میں نئی نئی نوکری ملی تھی، ساری توجہ اپنے پروفیشن پر تھی، دن رات محنت کر رہا تھا کہ اچانک ریاست کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم قرار دے دیا گیا، مجھے رات کے وقت گھر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے لیے درجنوں اہل کار سفید کپڑوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں آئے۔
میرے خلاف تھانہ پرانی انارکلی میں 120 بی ت پ کے تحت پرچہ درج کیا گیا، مدعی ایک پولیس انسپکٹر بنا، ایف آئی آر سیل کردی گئی تھی، ایف آئی کا نمبر تھا 211/ 81۔ مقدمے کی سماعت کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی گئی، مجھ پر جو الزامات تھے، ان کی سزا صرف اور صرف موت تھی، اس سے کم سزا دی جاتی تو عدالت کے لیے اس کی ٹھوس وجہ بیان کرنا لازمی تھا، اس سے پہلے میں نہ صرف کوٹ لکھپت جیل میں مکمل برہنہ حالت میں کوڑوں کی سزا برداشت کرچکا تھا، بلکہ سندھ اور پنجاب کی پانچ جیلوں میں مختلف دورانیہ قید کی سزائیں بھی بھگت چکا تھا، اپنے خلاف اس نئے مقدمے سے میں بالکل خائف نہ تھا۔
نثار عثمانی صاحب نے اپنی ذات میں میرے لیے ایک رکنی رہائی کمیٹی بنا رکھی تھی۔ جنرل ضیا جب بھی لاہور آتا، عثمانی صاحب میری رہائی کا ایشو اس کے سامنے رکھ دیتے، جنرل ضیا کا ایک ہی جواب ہوتا، خاور نعیم ہاشمی صحافی نہیں ایک دہشت گرد ہے، وہ رہا نہیں ہوگا، اس کے جرائم کی سزا ملے گی، اسی مقدمے میں ملک بھر سے میرے ڈھائی سو کے قریب ایسے ساتھی بھی گرفتار کر لیے گئے جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنھیں میں جانتا بھی نہ تھا، میں لاہور کے شاہی قلعہ کے سیل نمبر تین میں قید تھا، مجھے روزانہ ہتھکڑیاں لگا کر سیل سے نکالا جاتا، اور مختلف ٹیمیں باری باری مجھ سے تفتیش کرتیں۔
تفتیش کا طریقہ کار یہ تھا کہ مجھے اپنی پیدائش سے شاہی قلعہ تک پہنچنے تک اپنی ایک ایک یاد ان تفتیش کاروں کے سامنے بیان کرنا پڑتی اور ہر ٹیم کو وہی بات من وعن بتانا پڑتی جو دوسری ٹیموں کو بتائی جاچکی ہوتی، یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، مثلاً میری دو مائیں ہیں، ان کے پانچ بھائی ہیں اور ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں ہیں اور ان کے نام یہ ہیں۔
مجھے اپنے ماموؤں کے دوچار بچوں کے سوا دوسروں کے ناموں کا علم ہی نہ تھا، میں تفتیشی ٹیموں کو ان کے فرضی نام بتاتا اور پھر رات بھر اپنے سیل میں یہ نام ذہن نشین کرتا رہتا، کیونکہ دوسری ٹیموں کو بھی یہی فرضی نام لکھوانے ضروری ہوتے تھے، ان پانچ تفتیشی ٹیموں کا سربراہ مظفر نامی ایک جاسوس ٹائپ افسر تھا، جو کے ٹو سگریٹ پیتا تھا، اس کا باس تھا چوہدری سردار محمد، سابق آئی جی جو باقاعدگی سے ساری نمازیں پڑھتا تھا، مظفر انتہائی کرخت اور بد تمیز افسر تھا اور خود بھی روزانہ مجھ سے تفتیش کرتا، وہ مجھے غلیظ گالیاں نکالتا اور میرے ہاتھ جو ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوتے ان پر اینٹیں رکھواتا اور پھر حکم دیتا کہ گھٹنوں کو خم دے کر دھوپ میں کھڑے ہو جاؤ......
میں ان دنوں پائلز کا مریض تھا، یہ سزا میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی، اللہ نے برداشت کی جو طاقت عطا کر رکھی ہے وہ ان حالات میں بہت مددگار ثابت ہوتی، ایک دن مظفر نے مجھے تفتیش کے لیے اپنے آفس کے باہر کھلے میدان میں بلایا تو میں نے اپنے عقب میں موجود ایک سیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک بہت خوبصورت لڑکی کو کھڑے دیکھا۔
ایک ہی نظر میں اندازہ لگایا کہ بہت پڑھی لکھی اور کسی بڑے خاندان کی لگتی ہے، میں نے فیصلہ کیا کہ مظفر آج جو بھی سزا دے، جو بھی تشدد کرے اسے جوانمردی سے برداشت کرنا ہے تاکہ عقوبت خانے کی سلاخوں کے پیچھے بند اس لڑکی کے حوصلے بلند رہیں، مظفر کی سزا برداشت کرکے اپنے سیل میں واپس جاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا، وہ کوئی عام سیاسی کارکن یا ملزم نہیں لگتی تھی، شاہی قلعہ کے اسیر عام پولیس کی نگرانی میں آجاتے، یہ وہ چند گھنٹے ہوتے جب درجنوں مختلف سیلوں میں بند قیدی ایک دوسرے سے باتیں کر لیا کرتے تھے، اس رات میں نے سب سے سوال کیا کہ آج میں نے عقوبت خانے کے اوپر والے سیل میں جس لڑکی کو دیکھا ہے وہ کون ہے؟
"وہ ڈاکٹر ناصرہ ہیں، رانا شوکت محمود کی اہلیہ، تمہارے والے کیس میں ہی گرفتار کر کے یہاں لایا گیا ہے۔"
شاہی قلعہ میں ایک اور سرگرم سیاسی کارکن شاہدہ جبین بھی قید تھیں، انھیں ہم سے بہت دور ایک سیل میں رکھا گیا تھا اور ان سے بات کرنا ناممکن تھا۔ جئے سندھ کے علی حیدر شاہ، یوسف خٹک، جاوید اختر اور کئی دوسرے ساتھی رات کو سیاسی گفتگو شروع کردیتے، ارشاد حقانی کے کالم زیر بحث آتے، جنرل ضیا سے چھٹکارے کے راستے نکالے جاتے، کبھی کبھی ہم سب ایک دوسرے کو گانے سناتے جب میری باری آتی تو میں ...... "رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا" گاتا ...... ہمیں کھانا بانٹنے والے کا نام تھا بھیا ...... وہ ہم میں سے کسی کو آدھی اور کسی کو پوری روٹی اضافی بھی دے دیا کرتا تھا۔"احفاظ الرحمن نے اسی زمانے میں ایک نظم "سگِ آزاد" لکھی تھی، اس کے چند اشعار آپ کی نذر ہیں۔
تجھے ہے یاد گلوں کی وہ انجمن، ساقی؟/ جب آرزو کے کنول دل میں جگمگاتے تھے/ فصیلِ شب پہ ہم اہلِ جنوں بہ صد پندار/کمندیں ڈالتے تھے
اور اہلِ جبر کی قربان گاہ پر اپنے/مہکتے زخم سجاتے تھے/ مسکراتے تھے/متاع درد کو دام و درم سے وحشت تھی/ نمود و نام کا طالب نہ تھا کوئی اپنا
ناصر زیدی نے 70 کی دہائی میں آزادیئ صحافت کے لیے جس جبر و ظلم کا سامنا کیا تھا یہ ایوارڈ اُن کی خدمات کو ایک نذرانہ تھا۔ احفاظ اپنی کتاب "سب سے بڑی جنگ" میں اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
"وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ذرا پلک جھپکی، ایک پہاڑ آکھڑا ہوا۔ پھر یادیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ ذہن پر دھند لاہٹوں کی یلغار ہونے لگتی ہے۔ گزرے واقعات آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں، جو تصویر دل کے آئینے میں جگمگاتی تھی، مٹیالی ہونے لگتی ہے، لیکن جو لمحے چاہت کے چمن کی روشوں سے ہو کر گزرتے ہیں، وہ شاید کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔ آن کی آن میں ایسی یادوں کا ایک ایک گوشہ چمک اٹھتا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے یہ آج ہی کا واقعہ ہو۔"
پاکستان میں آزادیئ صحافت اور "زنجیروں میں جکڑے پریس" کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئیں اور ان میں سے بعض مشہور بھی ہوئیں، لیکن جاننے والے، جن میں منہاج برنا صاحب یقینا سب سے باخبر آدمی تھے، یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ ان میں 1977-78 کی تاریخی اور سب سے بڑی جنگ کا تذکرہ سرسری طور پر کیا گیا ہے۔ اس صرفِ نظر کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
زیادہ حوالہ ضمیر نیازی صاحب کی کتاب کا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب "صحافت پابند سلاسل"(Press in Chains)کے پیش لفظ میں لکھا ہے، "اس کتاب کا مرکزی خیال اخباروں میں لگائی جانے والی پابندیوں اور اختلاف کی جرأت رکھنے والے صحافیوں کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائیوں پر مبنی ہے۔ پہلا باب غیر ملکی تسلط کے پونے دو صدیوں کے جبر اور ظلم کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
باقی چار ابواب ہماری اپنی پُر پیچ تاریخ کے چار مختلف ادوار سے بحث کرتے ہیں، اور ان ادوار میں پریس پر لگائی جانے والی کئی پابندیوں، مختلف حکومتوں اور ایجنسیوں اور اخبار کے مالکوں، ایڈیٹروں، کارکن صحافیوں اور ان کی تنظیموں کے کردار کے معروضی بیا ن پر مشتمل ہیں۔"احفاظ الرحمن اس زمانے میں اپنے ساتھیوں کے لیے زار و زار روتے تھے جنھیں کوڑے مارئے گئے تھے۔ ان ہی میں سے ایک خاور نعیم ہاشمی تھے جنھوں نے لکھا۔
1982ء بھی پوری قوم کے لیے مشکل ترین سال تھا، مجھے معروف اردو روزنامہ میں نئی نئی نوکری ملی تھی، ساری توجہ اپنے پروفیشن پر تھی، دن رات محنت کر رہا تھا کہ اچانک ریاست کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم قرار دے دیا گیا، مجھے رات کے وقت گھر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے لیے درجنوں اہل کار سفید کپڑوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں آئے۔
میرے خلاف تھانہ پرانی انارکلی میں 120 بی ت پ کے تحت پرچہ درج کیا گیا، مدعی ایک پولیس انسپکٹر بنا، ایف آئی آر سیل کردی گئی تھی، ایف آئی کا نمبر تھا 211/ 81۔ مقدمے کی سماعت کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی گئی، مجھ پر جو الزامات تھے، ان کی سزا صرف اور صرف موت تھی، اس سے کم سزا دی جاتی تو عدالت کے لیے اس کی ٹھوس وجہ بیان کرنا لازمی تھا، اس سے پہلے میں نہ صرف کوٹ لکھپت جیل میں مکمل برہنہ حالت میں کوڑوں کی سزا برداشت کرچکا تھا، بلکہ سندھ اور پنجاب کی پانچ جیلوں میں مختلف دورانیہ قید کی سزائیں بھی بھگت چکا تھا، اپنے خلاف اس نئے مقدمے سے میں بالکل خائف نہ تھا۔
نثار عثمانی صاحب نے اپنی ذات میں میرے لیے ایک رکنی رہائی کمیٹی بنا رکھی تھی۔ جنرل ضیا جب بھی لاہور آتا، عثمانی صاحب میری رہائی کا ایشو اس کے سامنے رکھ دیتے، جنرل ضیا کا ایک ہی جواب ہوتا، خاور نعیم ہاشمی صحافی نہیں ایک دہشت گرد ہے، وہ رہا نہیں ہوگا، اس کے جرائم کی سزا ملے گی، اسی مقدمے میں ملک بھر سے میرے ڈھائی سو کے قریب ایسے ساتھی بھی گرفتار کر لیے گئے جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنھیں میں جانتا بھی نہ تھا، میں لاہور کے شاہی قلعہ کے سیل نمبر تین میں قید تھا، مجھے روزانہ ہتھکڑیاں لگا کر سیل سے نکالا جاتا، اور مختلف ٹیمیں باری باری مجھ سے تفتیش کرتیں۔
تفتیش کا طریقہ کار یہ تھا کہ مجھے اپنی پیدائش سے شاہی قلعہ تک پہنچنے تک اپنی ایک ایک یاد ان تفتیش کاروں کے سامنے بیان کرنا پڑتی اور ہر ٹیم کو وہی بات من وعن بتانا پڑتی جو دوسری ٹیموں کو بتائی جاچکی ہوتی، یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، مثلاً میری دو مائیں ہیں، ان کے پانچ بھائی ہیں اور ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں ہیں اور ان کے نام یہ ہیں۔
مجھے اپنے ماموؤں کے دوچار بچوں کے سوا دوسروں کے ناموں کا علم ہی نہ تھا، میں تفتیشی ٹیموں کو ان کے فرضی نام بتاتا اور پھر رات بھر اپنے سیل میں یہ نام ذہن نشین کرتا رہتا، کیونکہ دوسری ٹیموں کو بھی یہی فرضی نام لکھوانے ضروری ہوتے تھے، ان پانچ تفتیشی ٹیموں کا سربراہ مظفر نامی ایک جاسوس ٹائپ افسر تھا، جو کے ٹو سگریٹ پیتا تھا، اس کا باس تھا چوہدری سردار محمد، سابق آئی جی جو باقاعدگی سے ساری نمازیں پڑھتا تھا، مظفر انتہائی کرخت اور بد تمیز افسر تھا اور خود بھی روزانہ مجھ سے تفتیش کرتا، وہ مجھے غلیظ گالیاں نکالتا اور میرے ہاتھ جو ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوتے ان پر اینٹیں رکھواتا اور پھر حکم دیتا کہ گھٹنوں کو خم دے کر دھوپ میں کھڑے ہو جاؤ......
میں ان دنوں پائلز کا مریض تھا، یہ سزا میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی، اللہ نے برداشت کی جو طاقت عطا کر رکھی ہے وہ ان حالات میں بہت مددگار ثابت ہوتی، ایک دن مظفر نے مجھے تفتیش کے لیے اپنے آفس کے باہر کھلے میدان میں بلایا تو میں نے اپنے عقب میں موجود ایک سیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک بہت خوبصورت لڑکی کو کھڑے دیکھا۔
ایک ہی نظر میں اندازہ لگایا کہ بہت پڑھی لکھی اور کسی بڑے خاندان کی لگتی ہے، میں نے فیصلہ کیا کہ مظفر آج جو بھی سزا دے، جو بھی تشدد کرے اسے جوانمردی سے برداشت کرنا ہے تاکہ عقوبت خانے کی سلاخوں کے پیچھے بند اس لڑکی کے حوصلے بلند رہیں، مظفر کی سزا برداشت کرکے اپنے سیل میں واپس جاتے ہوئے میں نے ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا، وہ کوئی عام سیاسی کارکن یا ملزم نہیں لگتی تھی، شاہی قلعہ کے اسیر عام پولیس کی نگرانی میں آجاتے، یہ وہ چند گھنٹے ہوتے جب درجنوں مختلف سیلوں میں بند قیدی ایک دوسرے سے باتیں کر لیا کرتے تھے، اس رات میں نے سب سے سوال کیا کہ آج میں نے عقوبت خانے کے اوپر والے سیل میں جس لڑکی کو دیکھا ہے وہ کون ہے؟
"وہ ڈاکٹر ناصرہ ہیں، رانا شوکت محمود کی اہلیہ، تمہارے والے کیس میں ہی گرفتار کر کے یہاں لایا گیا ہے۔"
شاہی قلعہ میں ایک اور سرگرم سیاسی کارکن شاہدہ جبین بھی قید تھیں، انھیں ہم سے بہت دور ایک سیل میں رکھا گیا تھا اور ان سے بات کرنا ناممکن تھا۔ جئے سندھ کے علی حیدر شاہ، یوسف خٹک، جاوید اختر اور کئی دوسرے ساتھی رات کو سیاسی گفتگو شروع کردیتے، ارشاد حقانی کے کالم زیر بحث آتے، جنرل ضیا سے چھٹکارے کے راستے نکالے جاتے، کبھی کبھی ہم سب ایک دوسرے کو گانے سناتے جب میری باری آتی تو میں ...... "رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا" گاتا ...... ہمیں کھانا بانٹنے والے کا نام تھا بھیا ...... وہ ہم میں سے کسی کو آدھی اور کسی کو پوری روٹی اضافی بھی دے دیا کرتا تھا۔"احفاظ الرحمن نے اسی زمانے میں ایک نظم "سگِ آزاد" لکھی تھی، اس کے چند اشعار آپ کی نذر ہیں۔
تجھے ہے یاد گلوں کی وہ انجمن، ساقی؟/ جب آرزو کے کنول دل میں جگمگاتے تھے/ فصیلِ شب پہ ہم اہلِ جنوں بہ صد پندار/کمندیں ڈالتے تھے
اور اہلِ جبر کی قربان گاہ پر اپنے/مہکتے زخم سجاتے تھے/ مسکراتے تھے/متاع درد کو دام و درم سے وحشت تھی/ نمود و نام کا طالب نہ تھا کوئی اپنا