جنگ بندی معاہدہ امریکا رفح پر اسرائیلی حملہ نہ ہونے کی ضمانت دے حماس
نیتن یاہو نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ وہ جنگ بندی کے باوجود بھی رفح میں حملے جاری رکھیں گے
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ اُنہیں رفح پر اسرائیلی حملے رُکوانے کیلئے امریکا کی ضمانت درکار ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے سینئر ترجمان اسامہ حمدان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے کسی معاہدے پر رضامند ہونے کے لیے ان کی تنظیم کو امریکا کی طرف سے اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ اسرائیلی افواج رفح پر زمینی حملہ نہیں کریں گی۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ ہم ابھی بھی مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے مسائل پر بات کررہے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہمارے خلاف بیان دے رہے ہیں۔
حماس ترجمان نے کہا کہ بدقسمتی سے، نیتن یاہو نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے باوجود بھی رفح میں حملے جاری رکھیں گے جس کا مطلب ہے کہ کوئی جنگ بندی نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں: شمال سے جنوب! غزہ "مکمل قحط" کا شکار ہے، اقوام متحدہ
اُنہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی اُسی صورت میں ہوگی کہ جب رفح سمیت غزہ میں کہیں بھی مزید اسرائیلی حملے نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور جنگی جرائم کے نتیجے میں 35 ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں جس میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے سینئر ترجمان اسامہ حمدان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے کسی معاہدے پر رضامند ہونے کے لیے ان کی تنظیم کو امریکا کی طرف سے اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ اسرائیلی افواج رفح پر زمینی حملہ نہیں کریں گی۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ ہم ابھی بھی مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے مسائل پر بات کررہے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہمارے خلاف بیان دے رہے ہیں۔
حماس ترجمان نے کہا کہ بدقسمتی سے، نیتن یاہو نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے باوجود بھی رفح میں حملے جاری رکھیں گے جس کا مطلب ہے کہ کوئی جنگ بندی نہیں ہوگی۔
مزید پڑھیں: شمال سے جنوب! غزہ "مکمل قحط" کا شکار ہے، اقوام متحدہ
اُنہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی اُسی صورت میں ہوگی کہ جب رفح سمیت غزہ میں کہیں بھی مزید اسرائیلی حملے نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور جنگی جرائم کے نتیجے میں 35 ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں جس میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔