فیروز ناطق خسرو نفیس انسان اور باکمال شاعر
ان کا ایک بہت بڑے ادبی گھرانے سے تعلق ہے اپنے زمانے کے نامور استاد شاعر ناطق بدایونی ان کے والد محترم تھے
جب میں لاہور کی فلمی دنیا کو خیرباد کہہ کر کراچی کی علمی دنیا کی طرف واپس آیا توکراچی میں جس شاعر نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ فیروز ناطق خسرو تھے، مجھے ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت نے بھی بڑا متاثر کیا تھا ان کی شخصیت میرے نزدیک فلموں کے ہیروز کی طرح ادب کے ایک ہیرو جیسی تھی۔
ان کا ایک بہت بڑے ادبی گھرانے سے تعلق ہے اپنے زمانے کے نامور استاد شاعر ناطق بدایونی ان کے والد محترم تھے، ان کے تایا وامق بدایونی مشہور شاعر ان کے دادا غلام حسین نامور شاعر ان کی والدہ مسلمہ خاتون جن کا تخلص نہاںؔ تھا، ان کے نانا حکیم راحت علی خاں حاذق امروہوی کے نام سے اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے غرض ان کا سارا گھرانہ شاعر تھا اور شاعری سب کا ہی اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ بچپن ہی میں اپنے خاندان کے کمسن شاعر مشہور ہوگئے تھے۔
یہ 1948 میں پاکستان آگئے تھے انھوں نے اردو اور اسلامی ہسٹری میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی جی۔ایس وار اسٹڈیز میں بھی کمال حاصل کیا اور پاکستان ایئرفورس میں اسکواڈرن لیڈر کے عہدے تک پہنچے، 1999 میں ملازمت سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر تدریسی عمل کا آغاز کیا۔ یہ کئی سول اداروں میں ایڈمنسٹریٹر کے فرائض ادا کرتے رہے اور کئی تعلیمی اداروں میں بطور پرنسپل بھی رہے۔ یہ اپنے اسکول کے زمانے ہی سے شاعر مشہور ہوگئے تھے انھوں نے ساتویں جماعت میں آنے کے بعد جو پہلا شعر کہا وہ بھی خوب تھا:
ہوا میں یہ اڑتے پرندوں کے جھنڈ
کتنے آزاد ہیں کتنے مختار ہیں
اور دسویں جماعت میں آنے کے دوران بحیثیت شاعر سارے اسکول میں مشہور ہوگئے تھے اور انھوں نے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا تھا۔ گھر کے ماحول ہی نے انھیں شاعر بنایا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کو پینٹنگ اور مصوری میں بھی کمال حاصل تھا۔ یہ جس شعبے میں بھی قدم رکھتے تھے کامیابی ان کے قدموں میں خود چل کر آجاتی تھی۔ انھوں نے اپنے دور کے ہر شاعر کو بڑا متاثر کیا تھا اور جب یہ مشاعروں میں اپنا کلام سناتے تھے تو بڑے بڑے شاعر عش عش کرنے لگتے تھے۔
ان کے کلام میں بڑی پختگی، سلاست اور خیال کی بلندی ہوتی تھی ان کو منفرد انداز کے باکمال شاعر کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے بے شمار کتابیں تصنیف کیں۔ کئی افسانوں کے مجموعے منظر عام پر آئے ان کی کتابیں قارئین کی توجہ کا مرکز بنتی رہیں سب سے پہلے انھوں نے اپنے والد محترم ناطق بدایونی کے کلام کو یکجا کرکے اسے خوبصورت کتابی شکل میں شایع کیا وہ نعتوں کی صورت میں تھا پھر ان کا اپنا نعتوں کا مجموعہ کتابی شکل میں منظر عام پر آیا، ان کی منظر عام پر آنے والی کچھ کتابوں کی تفصیل قارئین کی دلچسپی کے لیے مندرجہ ذیل ہے۔
کُندِ قلم کی جیبھ (افسانے)'برگد کی جٹیں (افسانے)'مری معصوم شہ بانو (نظمیں)'غزل در غزل (غزلوں کا مجموعہ)'فرصتِ یک نفس (قطعات)
ان کتابوں کے علاوہ یہ روز و شب بغیر کسی تھکان کے بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ ان کی جلد ہی منظر عام پر آنے والی بہت سے زیر طبع کتابیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
کنج جاں میں چراغ ایمانی (حمدیہ مجموعہ)
بیاض سخن (نعتیہ مجموعہ)'پور پور آئینہ (غزلیں، نظمیں)'کلیاتِ غزل (انتخاب غزلیات)'کلیاتِ نظم (نظموں کا انتخاب)
اور اب سب سے دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ اپنی آپ بیتی بھی تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ جس میں زندگی کے سارے نشیب و فراز پر بھی کچھ نہ کچھ روشنی ڈالی جائے گی اور ان سارے کارناموں کا بھی خوبصورت انداز تذکرہ ہوگا جو یہ زندگی میں قدم بہ قدم انجام دیتے رہے ہیں یہ ایئرفورس میں اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں پر اپنے ادارے کے سربراہان سے ایوارڈ، اعزازات اور انعامات جو اکثر کیش کی صورت میں بھی ہوتے تھے حاصل کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے کافی ملی نغمے بھی لکھے جو ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ ان کو ان کے قومی نغمات پر بھی بارہا انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔
میری نظر ہی میں نہیں بلکہ ہزاروں قارئین کی نظر میں یہ ایک ایسے لکھاری ہیں جنھوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور جس موضوع پر بھی لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور یہاں میں ایک اور زبردست بات بتاتا چلوں کہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے ان کی باکمال شاعری پر ایم۔فل اور بی۔ایس لیول کے قابل قدر مقالے بھی کافی تعداد میں لکھے گئے ہیں اور یہ اعزاز شعر و ادب میں شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو اس بڑے پیمانے پر حاصل ہوا ہوگا۔ ان کے اشعار سنانے کا انداز بھی دلوں کو چھو لیتا ہے۔ شاعری میں بھی بڑا دم خم ہے اور شخصیت بھی شاندار ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کے کچھ خاص اشعار پیش خدمت ہیں:
کچھ طبیعت اداس ہے خسرو
ایسی کیا بات خاص ہے خسرو
............
میں نے جس رات بھی لکھی ہے غزل اس کے لیے
پھول تازہ ملے مجھ کو میری تحریر کے پاس
...٭...
بیچ میں سب ہم دونوں خاموش رہے
پھر بھی ہم نے کتنی باتیں کر ڈالیں
...٭...
عجیب لطف تھا موسم کی پہلی بارش میں
کھنک رہے تھے بدن کورے برتنوں کی طرح
...٭...
وہ کم سخن ہے نگاہوں سے بات کرتی ہے
سو چھوڑ آئے ہم اس کے اطاق میں آنکھیں
...٭...
خسروؔ مرے لیے ہے وہ غالب کی اک غزل
سمجھا تھا جس کو میرؔ کے اشعار کی طرح
ہر موضوع پر بڑے ہی منفرد اندازکے اشعار کا ایک گلدستہ ہے جو شاعری کی بھینی بھینی خوشبو سے لبریز ہے۔ دل چاہتا ہے کہ بس پڑھتے چلے جاؤ۔ اتنی لگاوٹ کا انداز میں نے بہت کم شاعروں کے کلام میں پایا ہے۔
میرے پاکستان آنے سے پہلے ان سے میری ایک ٹیلی فونک بات چیت کافی دیر تک رہی تھی، انھوں نے مجھے ملیر میں جہاں ان کی رہائش گاہ ہے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی مگر وہ تاریخ میری امریکا روانگی سے ایک دن پہلے کی تھی اور میں اس دن اپنے بہن بھائیوں سے ملنے ملانے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی جس کی تشنگی برقرار ہے۔ میں ان کی شاعری پر ایک بھرپور مضمون لکھنا چاہتا تھا، مگر کراچی میں میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تھی۔
میں خود بہت مصروف رہا یہ میری ہی کوتاہی تھی کہ میں ان سے ملاقات کا وقت نہ نکال سکا تھا، میری رہائش نارتھ ناظم آباد میں تھی اور وہ ملیر کینٹ میں رہتے تھے، بس ایک دو ادھوری ادھوری ملاقاتیں رہی تھیں۔ یہاں ایک بات میں اور بتاتا چلوں کہ مشہور شاعر رحمان کیانی کا تعلق بھی ایئر فورس سے تھا وہ ایک طویل مدت تک ایئر فورس کے ادارے سے وابستہ رہے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں ایک بہت اچھے افسر بھی رہے اور شاعری کے میدان میں اپنا ایک جداگانہ مقام بنایا تھا۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ان کو بہت ہی مہربان انسان پایا وہ ایک بڑے افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نام ور شاعر بھی تھے۔
ان دنوں میرا پہلا مجموعہ کلام ''کسک'' کے عنوان سے زیر ترتیب تھا اور مجھے چند نامور شاعروں کی رائے بھی درکار تھی، میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار ان سے بھی کیا، میری پہلی کتاب منظر عام پر آنے والے تھی کسی بھی نئے شاعر کی کتاب پر مشہور اور بڑے شاعر مشکل ہی سے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ میری کتاب کے لیے سب سے پہلے رحمان کیانی صاحب نے اپنی رائے سے نوازتے ہوئے میرا حوصلہ بڑھایا تھا۔
فیروز ناطق خسرو بھی میرے لیے بڑے مہربان رہے وہ ایک بڑے شاعر، ایک ماہر تعلیم اور ایک عظیم شخصیت کے حامل ہیں۔ میں اس معاملے میں واقعی قدرے خوش نصیب بھی ہوں کہ میری شاعری کو سراہنے والوں میں نامور ادبی شخصیات خاص طور پر حمایت علی شاعر، کلیم عثمانی، سحر انصاری، محمود شام اور فیروز ناطق خسرو جیسی ادبی شخصیات شامل رہی ہیں۔ میں ان چند شخصیات کا شکر گزار بھی ہوں اور مرہون منت بھی۔
ان کا ایک بہت بڑے ادبی گھرانے سے تعلق ہے اپنے زمانے کے نامور استاد شاعر ناطق بدایونی ان کے والد محترم تھے، ان کے تایا وامق بدایونی مشہور شاعر ان کے دادا غلام حسین نامور شاعر ان کی والدہ مسلمہ خاتون جن کا تخلص نہاںؔ تھا، ان کے نانا حکیم راحت علی خاں حاذق امروہوی کے نام سے اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے غرض ان کا سارا گھرانہ شاعر تھا اور شاعری سب کا ہی اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ بچپن ہی میں اپنے خاندان کے کمسن شاعر مشہور ہوگئے تھے۔
یہ 1948 میں پاکستان آگئے تھے انھوں نے اردو اور اسلامی ہسٹری میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی جی۔ایس وار اسٹڈیز میں بھی کمال حاصل کیا اور پاکستان ایئرفورس میں اسکواڈرن لیڈر کے عہدے تک پہنچے، 1999 میں ملازمت سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر تدریسی عمل کا آغاز کیا۔ یہ کئی سول اداروں میں ایڈمنسٹریٹر کے فرائض ادا کرتے رہے اور کئی تعلیمی اداروں میں بطور پرنسپل بھی رہے۔ یہ اپنے اسکول کے زمانے ہی سے شاعر مشہور ہوگئے تھے انھوں نے ساتویں جماعت میں آنے کے بعد جو پہلا شعر کہا وہ بھی خوب تھا:
ہوا میں یہ اڑتے پرندوں کے جھنڈ
کتنے آزاد ہیں کتنے مختار ہیں
اور دسویں جماعت میں آنے کے دوران بحیثیت شاعر سارے اسکول میں مشہور ہوگئے تھے اور انھوں نے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا تھا۔ گھر کے ماحول ہی نے انھیں شاعر بنایا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کو پینٹنگ اور مصوری میں بھی کمال حاصل تھا۔ یہ جس شعبے میں بھی قدم رکھتے تھے کامیابی ان کے قدموں میں خود چل کر آجاتی تھی۔ انھوں نے اپنے دور کے ہر شاعر کو بڑا متاثر کیا تھا اور جب یہ مشاعروں میں اپنا کلام سناتے تھے تو بڑے بڑے شاعر عش عش کرنے لگتے تھے۔
ان کے کلام میں بڑی پختگی، سلاست اور خیال کی بلندی ہوتی تھی ان کو منفرد انداز کے باکمال شاعر کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ پھر انھوں نے بے شمار کتابیں تصنیف کیں۔ کئی افسانوں کے مجموعے منظر عام پر آئے ان کی کتابیں قارئین کی توجہ کا مرکز بنتی رہیں سب سے پہلے انھوں نے اپنے والد محترم ناطق بدایونی کے کلام کو یکجا کرکے اسے خوبصورت کتابی شکل میں شایع کیا وہ نعتوں کی صورت میں تھا پھر ان کا اپنا نعتوں کا مجموعہ کتابی شکل میں منظر عام پر آیا، ان کی منظر عام پر آنے والی کچھ کتابوں کی تفصیل قارئین کی دلچسپی کے لیے مندرجہ ذیل ہے۔
کُندِ قلم کی جیبھ (افسانے)'برگد کی جٹیں (افسانے)'مری معصوم شہ بانو (نظمیں)'غزل در غزل (غزلوں کا مجموعہ)'فرصتِ یک نفس (قطعات)
ان کتابوں کے علاوہ یہ روز و شب بغیر کسی تھکان کے بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ ان کی جلد ہی منظر عام پر آنے والی بہت سے زیر طبع کتابیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
کنج جاں میں چراغ ایمانی (حمدیہ مجموعہ)
بیاض سخن (نعتیہ مجموعہ)'پور پور آئینہ (غزلیں، نظمیں)'کلیاتِ غزل (انتخاب غزلیات)'کلیاتِ نظم (نظموں کا انتخاب)
اور اب سب سے دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ اپنی آپ بیتی بھی تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ جس میں زندگی کے سارے نشیب و فراز پر بھی کچھ نہ کچھ روشنی ڈالی جائے گی اور ان سارے کارناموں کا بھی خوبصورت انداز تذکرہ ہوگا جو یہ زندگی میں قدم بہ قدم انجام دیتے رہے ہیں یہ ایئرفورس میں اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں پر اپنے ادارے کے سربراہان سے ایوارڈ، اعزازات اور انعامات جو اکثر کیش کی صورت میں بھی ہوتے تھے حاصل کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے کافی ملی نغمے بھی لکھے جو ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ ان کو ان کے قومی نغمات پر بھی بارہا انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔
میری نظر ہی میں نہیں بلکہ ہزاروں قارئین کی نظر میں یہ ایک ایسے لکھاری ہیں جنھوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور جس موضوع پر بھی لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور یہاں میں ایک اور زبردست بات بتاتا چلوں کہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے ان کی باکمال شاعری پر ایم۔فل اور بی۔ایس لیول کے قابل قدر مقالے بھی کافی تعداد میں لکھے گئے ہیں اور یہ اعزاز شعر و ادب میں شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو اس بڑے پیمانے پر حاصل ہوا ہوگا۔ ان کے اشعار سنانے کا انداز بھی دلوں کو چھو لیتا ہے۔ شاعری میں بھی بڑا دم خم ہے اور شخصیت بھی شاندار ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کے کچھ خاص اشعار پیش خدمت ہیں:
کچھ طبیعت اداس ہے خسرو
ایسی کیا بات خاص ہے خسرو
............
میں نے جس رات بھی لکھی ہے غزل اس کے لیے
پھول تازہ ملے مجھ کو میری تحریر کے پاس
...٭...
بیچ میں سب ہم دونوں خاموش رہے
پھر بھی ہم نے کتنی باتیں کر ڈالیں
...٭...
عجیب لطف تھا موسم کی پہلی بارش میں
کھنک رہے تھے بدن کورے برتنوں کی طرح
...٭...
وہ کم سخن ہے نگاہوں سے بات کرتی ہے
سو چھوڑ آئے ہم اس کے اطاق میں آنکھیں
...٭...
خسروؔ مرے لیے ہے وہ غالب کی اک غزل
سمجھا تھا جس کو میرؔ کے اشعار کی طرح
ہر موضوع پر بڑے ہی منفرد اندازکے اشعار کا ایک گلدستہ ہے جو شاعری کی بھینی بھینی خوشبو سے لبریز ہے۔ دل چاہتا ہے کہ بس پڑھتے چلے جاؤ۔ اتنی لگاوٹ کا انداز میں نے بہت کم شاعروں کے کلام میں پایا ہے۔
میرے پاکستان آنے سے پہلے ان سے میری ایک ٹیلی فونک بات چیت کافی دیر تک رہی تھی، انھوں نے مجھے ملیر میں جہاں ان کی رہائش گاہ ہے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی مگر وہ تاریخ میری امریکا روانگی سے ایک دن پہلے کی تھی اور میں اس دن اپنے بہن بھائیوں سے ملنے ملانے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی جس کی تشنگی برقرار ہے۔ میں ان کی شاعری پر ایک بھرپور مضمون لکھنا چاہتا تھا، مگر کراچی میں میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تھی۔
میں خود بہت مصروف رہا یہ میری ہی کوتاہی تھی کہ میں ان سے ملاقات کا وقت نہ نکال سکا تھا، میری رہائش نارتھ ناظم آباد میں تھی اور وہ ملیر کینٹ میں رہتے تھے، بس ایک دو ادھوری ادھوری ملاقاتیں رہی تھیں۔ یہاں ایک بات میں اور بتاتا چلوں کہ مشہور شاعر رحمان کیانی کا تعلق بھی ایئر فورس سے تھا وہ ایک طویل مدت تک ایئر فورس کے ادارے سے وابستہ رہے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں ایک بہت اچھے افسر بھی رہے اور شاعری کے میدان میں اپنا ایک جداگانہ مقام بنایا تھا۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ان کو بہت ہی مہربان انسان پایا وہ ایک بڑے افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نام ور شاعر بھی تھے۔
ان دنوں میرا پہلا مجموعہ کلام ''کسک'' کے عنوان سے زیر ترتیب تھا اور مجھے چند نامور شاعروں کی رائے بھی درکار تھی، میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار ان سے بھی کیا، میری پہلی کتاب منظر عام پر آنے والے تھی کسی بھی نئے شاعر کی کتاب پر مشہور اور بڑے شاعر مشکل ہی سے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ میری کتاب کے لیے سب سے پہلے رحمان کیانی صاحب نے اپنی رائے سے نوازتے ہوئے میرا حوصلہ بڑھایا تھا۔
فیروز ناطق خسرو بھی میرے لیے بڑے مہربان رہے وہ ایک بڑے شاعر، ایک ماہر تعلیم اور ایک عظیم شخصیت کے حامل ہیں۔ میں اس معاملے میں واقعی قدرے خوش نصیب بھی ہوں کہ میری شاعری کو سراہنے والوں میں نامور ادبی شخصیات خاص طور پر حمایت علی شاعر، کلیم عثمانی، سحر انصاری، محمود شام اور فیروز ناطق خسرو جیسی ادبی شخصیات شامل رہی ہیں۔ میں ان چند شخصیات کا شکر گزار بھی ہوں اور مرہون منت بھی۔