مزدور اور امریکی سامراج کی غلامی
پاکستانی عوام کے ساتھ مزدور بھی ایک سازش کے تحت امریکی سامراجی غلامی کا حصہ ہیں
یکم مئی 1886 آج سے 138سال پہلے ہفتے کا دن تھا جب امریکی شہر شکاگوکی سڑکوں پر 65ہزار مزدور اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ ایک چوک میں یہ ہجوم جمع تھا اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔ اس وقت امریکا میں ہفتے کو تعطیل نہیں ہوا کرتی تھی۔ ان احتجاج کرنے والوں کی اکثریت تارکین وطن کی تھی جن کا تعلق جرمنی، فرانس اور یورپ کے مختلف ملکوں سے تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اس سے تقریباً بیس برس قبل امریکن سول وار ہوئی تھی، امریکی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں وجہ تنازعہ افریقی سیاہ فاموں کی غلامی تھی۔ جنھیں امریکی جاگیرداروں نے براعظم افریقہ سے لاکھوں کی تعداد میں اغوا کیا،پھر امریکا میں اپنے بڑے بڑے زرعی فارموں پر ان سے 24گھنٹے بیگار لی جاتی۔ سونے کی مہلت بھی بمشکل ملتی تھی۔
خوراک صرف اتنی ملتی تھی کہ وہ صرف زندہ رہ سکیں اور اپنے آقاؤں کے لیے مزید بچے غلاموں کی شکل میں پیدا کر سکیں۔ امریکا میں مزدور سڑکوں پر اس لیے آئے کہ ان سے اس وقت 16گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ تنخواہ یا اجرت برائے نام تھی۔ اور ٹائم کا تصورنہیں تھا۔ دوران ڈیوٹی اگر مزدور مر جائے یا زخمی تو کوئی اس کا یا اس کے گھر والوں کا پرسان حال نہیں تھا۔
یہ سانحہ شکاگوکی مشہور زمانہ HAY مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ہزاروںصنعتی مزدور انتہائی پر امن انداز میں سفید پرچم اٹھائے ایک جلوس کی شکل میں رواں دواں تھے کہ اچانک ایک مقام پر خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے ایک سازش کے تحت جلوس کے اندر سے پولیس کے ایک دستے پر ہینڈ گرنیڈ پھینکا تاکہ نہتے اور پر امن مزدوروں پر طاقت کے استعمال کا جواز پیدا کیا جا سکے اور ایسا ہی ہوا۔ مسلح پولیس نے وحشیانہ فائرنگ کی۔ دس مزدور جاںبحق اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
8مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر قتل کے مقدمات قائم کیے گئے اور اس سے اگلے سال کے آخر میں تین مزدور رہنماؤں کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈاایک شہید مزدور کے خون میں ڈبو کر ہوا میں لہرا دیا۔ اس کے بعد مزدور تحریک کے جھنڈے کا رنگ ہمیشہ کے لیے سرخ ہو گیا۔ شکاگو کے ان مزدوروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی پوری دنیامیں8گھنٹے کام کے اوقات مقرر ہوئے بلکہ اب تو امریکا یورپ میں ہفتے میں کام کے اوقات صرف 6گھنٹے رہ گئے ہیں باقی دن عوام عیش و آرام سیر تفریخ کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ذوالفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں پہلی مرتبہ یکم مئی کو شایان شان ایک تہوار کے طور پر منانے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن اس کے بعدپاکستان میں بندہ مزدور کے اوقات مسلسل بدسے بدتر ہوتے جاتے رہے۔ اشرافیہ اور سرمایہ دار مزدوروں کا خون چوسنے میں ایک مدت سے متحد ہیں۔ پاکستان میں 8کروڑ سے زائد لیبر فورس میں سے ایک فیصد سے بھی کم محنت کش یونین سازی کے قانونی حق سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کی اکثریت پبلک سیکٹر کے اداروں سے منسلک ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں یونین سازی میں محنت کشوں کی تعداد نصف فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ تناسب اس خطے میں افغانستان کے بعد سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ کل لیبر فورس کا 62فیصد یعنی سوا پانچ کروڑ محنت کشوں کا براہ راست تعلق سروسز اور صنعتی شعبے سے ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کا 84فیصد یعنی 285ارب ڈالرز پیدا کرتے ہیں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے 95فیصد اپنی قانونی شناخت یعنی تحریری تقررناموں سے ہی محروم ہیں۔ ان میں 90فیصد محنت کش بارہ سے چودہ گھنٹے اور بعض شعبوں میں 18گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان محنت کشوں کے اضافی اوقات میں کام کی اجرت کی مد میںواجب الادا 32ارب روپے "ماہانہ "مالکان چرا لیتے ہیں۔ سالانہ کتنے ہوئے آپ خود ہی حساب کر لیں۔ مزدوروں کے مزید استحصال کے لیے سرمایہ داروں نے ٹھیکہ داری نظام متعارف کرایا ہے۔
پرائیوٹائزیشن کے نام پر پبلک سیکٹر کے قیمتی اثاثوں کو اونے پونے من پسند سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر پچھلے تیس برسوںمیں 178حکومتی ادارے بیچ کھائے گئے ہیں۔ ان سے حاصل کردہ ساڑھے 6ارب ڈالر کہاں گئے کچھ پتہ نہیں۔ جب کہ ایک بار پھر25پبلک اداروں کو بیچ کھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یعنی پاکستان اب تو مزدوروں کے لیے بیگار کیمپ میں بدل گیا ہے۔
پاکستانی عوام کے ساتھ مزدور بھی ایک سازش کے تحت امریکی سامراجی غلامی کا حصہ ہیں۔ امریکی جو انسانی حقوق کے دنیا بھر میں چیمپئن بنے ہوئے ہیں انھیں نظر نہیں آتا کہ پاکستان میں مزدوروں پر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ امریکا سے شروع ہوتا ہے اور پاکستانی اشرافیہ جاگیرداروں سرمایہ داروں تک پہنچتا ہے۔ جب کہ اس کی جڑیں امریکی سامراجی غلامی میں پیوست ہیں۔ جب تک پاکستان امریکی سامراجی غلامی سے نجات نہیں پاتا پاکستانی مزدور اور ان کی نسلیں بھی اس غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکیںگی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اس سے تقریباً بیس برس قبل امریکن سول وار ہوئی تھی، امریکی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں وجہ تنازعہ افریقی سیاہ فاموں کی غلامی تھی۔ جنھیں امریکی جاگیرداروں نے براعظم افریقہ سے لاکھوں کی تعداد میں اغوا کیا،پھر امریکا میں اپنے بڑے بڑے زرعی فارموں پر ان سے 24گھنٹے بیگار لی جاتی۔ سونے کی مہلت بھی بمشکل ملتی تھی۔
خوراک صرف اتنی ملتی تھی کہ وہ صرف زندہ رہ سکیں اور اپنے آقاؤں کے لیے مزید بچے غلاموں کی شکل میں پیدا کر سکیں۔ امریکا میں مزدور سڑکوں پر اس لیے آئے کہ ان سے اس وقت 16گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ تنخواہ یا اجرت برائے نام تھی۔ اور ٹائم کا تصورنہیں تھا۔ دوران ڈیوٹی اگر مزدور مر جائے یا زخمی تو کوئی اس کا یا اس کے گھر والوں کا پرسان حال نہیں تھا۔
یہ سانحہ شکاگوکی مشہور زمانہ HAY مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ہزاروںصنعتی مزدور انتہائی پر امن انداز میں سفید پرچم اٹھائے ایک جلوس کی شکل میں رواں دواں تھے کہ اچانک ایک مقام پر خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے ایک سازش کے تحت جلوس کے اندر سے پولیس کے ایک دستے پر ہینڈ گرنیڈ پھینکا تاکہ نہتے اور پر امن مزدوروں پر طاقت کے استعمال کا جواز پیدا کیا جا سکے اور ایسا ہی ہوا۔ مسلح پولیس نے وحشیانہ فائرنگ کی۔ دس مزدور جاںبحق اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
8مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر قتل کے مقدمات قائم کیے گئے اور اس سے اگلے سال کے آخر میں تین مزدور رہنماؤں کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈاایک شہید مزدور کے خون میں ڈبو کر ہوا میں لہرا دیا۔ اس کے بعد مزدور تحریک کے جھنڈے کا رنگ ہمیشہ کے لیے سرخ ہو گیا۔ شکاگو کے ان مزدوروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی پوری دنیامیں8گھنٹے کام کے اوقات مقرر ہوئے بلکہ اب تو امریکا یورپ میں ہفتے میں کام کے اوقات صرف 6گھنٹے رہ گئے ہیں باقی دن عوام عیش و آرام سیر تفریخ کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ذوالفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں پہلی مرتبہ یکم مئی کو شایان شان ایک تہوار کے طور پر منانے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن اس کے بعدپاکستان میں بندہ مزدور کے اوقات مسلسل بدسے بدتر ہوتے جاتے رہے۔ اشرافیہ اور سرمایہ دار مزدوروں کا خون چوسنے میں ایک مدت سے متحد ہیں۔ پاکستان میں 8کروڑ سے زائد لیبر فورس میں سے ایک فیصد سے بھی کم محنت کش یونین سازی کے قانونی حق سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کی اکثریت پبلک سیکٹر کے اداروں سے منسلک ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں یونین سازی میں محنت کشوں کی تعداد نصف فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ تناسب اس خطے میں افغانستان کے بعد سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ کل لیبر فورس کا 62فیصد یعنی سوا پانچ کروڑ محنت کشوں کا براہ راست تعلق سروسز اور صنعتی شعبے سے ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کا 84فیصد یعنی 285ارب ڈالرز پیدا کرتے ہیں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے 95فیصد اپنی قانونی شناخت یعنی تحریری تقررناموں سے ہی محروم ہیں۔ ان میں 90فیصد محنت کش بارہ سے چودہ گھنٹے اور بعض شعبوں میں 18گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان محنت کشوں کے اضافی اوقات میں کام کی اجرت کی مد میںواجب الادا 32ارب روپے "ماہانہ "مالکان چرا لیتے ہیں۔ سالانہ کتنے ہوئے آپ خود ہی حساب کر لیں۔ مزدوروں کے مزید استحصال کے لیے سرمایہ داروں نے ٹھیکہ داری نظام متعارف کرایا ہے۔
پرائیوٹائزیشن کے نام پر پبلک سیکٹر کے قیمتی اثاثوں کو اونے پونے من پسند سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر پچھلے تیس برسوںمیں 178حکومتی ادارے بیچ کھائے گئے ہیں۔ ان سے حاصل کردہ ساڑھے 6ارب ڈالر کہاں گئے کچھ پتہ نہیں۔ جب کہ ایک بار پھر25پبلک اداروں کو بیچ کھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یعنی پاکستان اب تو مزدوروں کے لیے بیگار کیمپ میں بدل گیا ہے۔
پاکستانی عوام کے ساتھ مزدور بھی ایک سازش کے تحت امریکی سامراجی غلامی کا حصہ ہیں۔ امریکی جو انسانی حقوق کے دنیا بھر میں چیمپئن بنے ہوئے ہیں انھیں نظر نہیں آتا کہ پاکستان میں مزدوروں پر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ امریکا سے شروع ہوتا ہے اور پاکستانی اشرافیہ جاگیرداروں سرمایہ داروں تک پہنچتا ہے۔ جب کہ اس کی جڑیں امریکی سامراجی غلامی میں پیوست ہیں۔ جب تک پاکستان امریکی سامراجی غلامی سے نجات نہیں پاتا پاکستانی مزدور اور ان کی نسلیں بھی اس غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکیںگی۔