نریندر مودی علی الاعلان مسلم دشمن بن گیا
بھارت کے الیکشن میں بی جے پی کی فتح بھارتی مسلمانوں کے لیے نئے مصائب ومشکلات کا خطرہ بن جائے گی
بھارت اور پاکستان میں آباد تقریباً پینتالیس کروڑ مسلمان توجانتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی مسلم دشمن ہندو رہنما ہے۔پاکستان سے بھی اسے خدا واسطے کا بیر ہے۔مگر دنیا والوں کی اکثریت اس سچائی سے پوری طرح آگاہ نہیں تھی۔پچھلے دنوں مودی نے آخرکار راجھستان کے ایک عوامی جلسے میں اپنی اصلیت ، خباثت اور مسلم دشمنی سبھی اہل دنیا پہ آشکارا کر دی۔
امید ہے، اب خاص طور پہ خلیجی ممالک کے مسلمان بادشاہ اور سرکاری اہلکار نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے یاد رکھیں گے کہ یہ شاطر وعیار بھارتی لیڈر حقیقتاً مسلم دشمن ہے ۔اور اس نے خوفناک طریقے اپنا کر بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔گویا مودی کی حمایت ومدد کرنا اس کے مسلم دشمن اقدامات کی توثیق کرنے کے مترادف ہو گا۔کیا پیسے اور مادہ پرستی کی خاطر کوئی مسلم راہنما مودی کی حمایت کر کے اپنے ایمان وضمیر کا سودا کر پائے گا؟وہ مودی جو ووٹ حاصل کرنے کے لیے انتہائی گھٹیا اور رکیک سطح تک بھی گر سکتا ہے۔
مسلم دشمنی کی وجہ
ہم میں سے کئی نہیں جانتے کہ مودی کی مسلم دشمنی نے کیونکر جنم لیا؟ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ایک اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مودی کا تعلق غریب گجراتی ہندو گھرانے سے ہے۔اور جب مودی کا لڑکپن تھا تو گجرات میں کئی مسلمان کاروباری ہونے کے ناتے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔لہذا چائے بیچتا اور گلیوں میں پھرتا مودی یہ دیکھ کر جل بھن جاتا ہو گا کہ وہ تو ضروریات زندگی بھی نہیں خرید سکتا جبکہ کئی مسلمان یعنی ٖغیر ہندو آرام وآسائش کی زندگی گذار رہے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے، جب وزیراعلی مودی کی زیرقیادت ریاست گجرات میں کٹر ہندوؤں نے 2002ء میں وسیع پیمانے پر گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کیا تو انھوں نے احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی کو خاص طور پہ نشانہ بنایا جہاں بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان رہتے تھے۔بلوائیوں نے پوری سوسائٹی جلا ڈالی اور بچوں و خواتین تک کو شہید کر ڈالا۔
مودی لڑکپن میں انتہاپسند ہندو جماعت، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا رکن بن گیا تھا۔اس تنظیم کے سبھی راہنما اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے اور انھیں ہندو عوام کے مصائب ومشکلات کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔اس نفرت انگیز پروپیگنڈے نے بھی نوجوان ہوتے مودی کو مسلم دشمن بنا دیا۔چناں چہ وہ بابری مسجد کے خلاف انتہاپسندوں کی تحریک میں پیش پیش رہا۔تاہم اس نے کھلم کھلا کبھی اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا۔بلکہ وہ مسلمانوں کی تقریبات میں جا کر ایسی باتیں کہہ دیتا جو اسے مسلم دشمن ثابت نہیں کرتی تھیں۔
سنگھ پریوار کی حکمت عملی
مودی مگر تب بھی مسلم دشمن تھا۔وجہ یہ ہے کہ اسی مسلم دشمنی نے سنگھ پریوار (انتہا پسند ہندؤںکی جماعتوں )کو بھارت میں مقبول بنایا ۔1980ء تک سنگھ پریوار الیکشنوں میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
اس کے بعد 1984ء سے انھوں نے رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک شروع کر دی۔اسی تحریک نے خصوصاً سنگھ پریوار کے سیاسی روپ، بی جے پی کو بھارت بھر میں مشہور کر دیا اور وہ بتدریج قومی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھانے لگی۔گویا سنگھ پریوار کی مسلم دشمنی نے اسے ہندو عوام میں مقبول بنا دیا۔اسی لیے بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کی تمام جماعتیں ہر الیکشن کے موقع پہ اپنی مسلم دشمنی عیاں کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع تلاش کر لیتی ہیں۔
مثال کے طور 2002ء میں گجراتی مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ریاست گجرات میں ریاستی الیکشن ہونے تھے۔ انتخابی مہم میں مودی نے کئی جلسوں میں مسلم اقلیت کو اشاروں کنایوں میں نشانہ بنایا۔ ایک جلسے میں تو اس نے حد پار کر لی۔مودی پہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ اس نے مسلمانوں کے لیے ریلیف کپمپ قائم نہیں کیے۔مودی نے ایک عوامی جلسے میں کہا:
''مجھے کہا جاتا ہے کہ تم نے مسلمانوں کے لیے ریلیف کیمپ نہیں لگائے۔میں کیوں یہ کیمپ لگاؤں؟مسلمان ان کیمپوں کو بچے پیدا کرنے والے مرکز بنا لیں گے۔ہم ہندو تو یہ نعرہ لگاتے ہیں: ہم دو، ہمارے دو۔مگر مسلمانوں کا نعرہ یہ ہے: ہم پانچ، ہمارے پچیس۔''(مودی نے اس طرف اشارہ کیا کہ ایک مسلم مرد چار بیویاں کر کے پچیس بچے پیدا کر سکتا ہے۔)
طبقہ بالا کی حامی پارٹی
بھارت میں نریندر مودی کو اچھا منتظم سمجھا جاتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی زیرقیادت پچھلے دس سال میں بھارت نے خاطر خواہ معاشی ترقی کی ہے۔مگر اس معاشی ترقی کی بنیاد ڈاکٹر منموہن سنگھ نے رکھی تھی۔مودی نے بس یہ کیا کہ حکومت میں کرپشن کم کر دی جو کانگریسی حکومت میں کافی بڑھ گئی تھی۔
مودی جنتا بھی مگر کانگریسی حکومت کی طرح ایلیٹ طبقوں کو ہی مراعات دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دس برس میں بھارت میں کئی ہزار نئے امرا جنم لے چکے۔جبکہ عام بھارتی شہری کی زندگی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔وہ اب بھی بے روزگاری ، مہنگائی، کم تنخواہ، غربت، بیماری، جہالت جیسے عفریتوں سے نبردآزما ہے۔خاص طور پہ بھارت میں زیادہ ملازمتیں جنم نہیں لے رہیں۔اس لیے متوسط اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتی متفکر وپریشان ہیں۔وہ جزوقتی ملازمتیں کر کے زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلا رہے ہیں اور مودی سرکار سے خوش نہیں۔
بھارت ہندو ریاست بن جائے
حالیہ الیکشن سے قبل مودی کو بھی اس امر کا احساس ہو چکا تھا کہ کروڑوں بھارتی اس کی حکومت سے ناراض ہیں ۔لہذا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ووٹ نہ دیں۔جبکہ مودی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا خواہش مند ہے۔وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے بھارتی آئین میں حسب ِ دل خواہ تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے۔اس کی منزل یہ ہے کہ بھارت کو سرکاری طور پہ ہندو ریاست بنا دیا جائے۔فی الوقت بھارت کا آئین اسے سیکولر ریاست قرار دیتا ہے ، یعنی ایسی مملکت جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں۔
اسی لیے مودی کی ہدایت پر بی جے پی کے وزیر، مشیر، ارکان اسمبلی، امیدوار اور لیڈر عوامی جلسوں میں اپنے مذہبی کارناموں کے گن گانے لگے۔انھوں نے رام مندر کی تعمیر کا خاص طور پہ ذکر کیا جو بابری مسجد شہید کر کے بنایا گیا ہے۔انھوں نے اس کی تعمیر کو اپنا بہترین کارنامہ قرار دیا اور ہندو ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ رام مندر بنانے والوں کو ہی اقتدار میں لائیں۔
رام مندر کی تعمیر ایک کارنامہ
17 اپریل کو رام نومی کے ہندو تہوار پر وزیر اعظم مودی نے آسام میں ایک عوامی میٹنگ میں حاضرین سے کہا کہ وہ ایودھیا کے رام مندر میں ہونے والی "سوریہ تلک" رسم میں شرکت کے لیے اپنے موبائل فون کی فلیش لائٹ آن کریں۔ مودی نے کہا:
''آج پورے ملک میں ایک نیا ماحول ہے۔ اور بھگوان رام کا یہ جنم دن 500 سال بعد آیا ہے، جب انہیں اپنے گھر میں اپنی سالگرہ منانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔"
جلسے کے بعد مودی نے اپنی تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے "سوریہ تلک" کی رسم کا ویڈیو دیکھا۔ بی جے پی کے سرکاری ہینڈل نے اس کیپشن کے ساتھ رسم کی ایک تصویر ٹویٹ کی: "آپ کے 'ایک ووٹ' کی طاقت!"
بی جے پی کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی ووٹ مانگنے کے لیے ہندو دیوتا رام کو بطور نشان استعمال کیا ۔ میرٹھ حلقے سے پارٹی کے امیدوار، ارون گوول کو ایک انتخابی ریلی میں رام دیوتا کی تصویر دکھانے کے بعد ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے نوٹس موصول ہوا۔تاہم اس کارروائی نے بی جے پی لیڈروں کو مذہبی اشارے دہرانے سے نہیں روکا۔ کچھ دن بعدایک انتخابی جلسے میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی رام کی تصویر رکھی۔
18 اپریل کو میرٹھ میں منعقدہ ایک عوامی میٹنگ میں، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ووٹروں پر زور دیا کہ "رام لانے والے کو اقتدار میں لائیں"۔ آدتیہ ناتھ نے پھر کہا: "یہاں، ارون گوول، جنہوں نے شری رام کا کردار ادا کیا تھا، خود آپ کے امیدوار ہیں۔"آدتیہ ناتھ 1990 ء کی دہائی میں ایک مشہور ٹی وی سیریل، رامائن کا حوالہ دے رہا تھا۔اس میں ارون گوول نے رام دیوتا کا کردار ادا کیا تھا۔
ہندی نعرے "جو رام کو لائے ہیں، ہم ان کو لائیں گے" کو بھی بی جے پی لیڈروں نے ہیش ٹیگ اور انتخابی مہم کے نعروں کے طور پر استعمال کیا ۔پورے بھارت سے عوام نے اپنے الیکشن کمیشن سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی کے امیدواروں اور لیڈروں کو مذہبی اشارے استعمال کرنے سے روک دے۔مگر الیکشن کمیشن بی جے پی لیڈروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن بھی مودی سرکار کا غلام بن چکا۔ اسی لیے اپوزیشن لیڈروں اور سوشل میڈیا صارفین نے اپنے الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
مسجد کی جانب تیر
حیدرآباد دکن کی نشست پہ بی جے پی کی امیدوار، مادھوی لتھا حصہ لے رہی ہے۔اس کی ایک ویڈیو نے بھارت میں نیا تنازع کھڑا کر دیا۔وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد کی جانب رخ کر کے تیر چلا رہی ہے۔یوں ہندو عوام کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمانوں کو کھل کر ٹارگٹ کیا جائے۔ حیدرآباد پولیس نے لتھا کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی ہے۔لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں بی جے پی لیڈروں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
تاہم رام مندر کے ذریعے ہندو عوام میں بی جے پی کے لیے ہمدردانہ جذبات ابھارنے کی حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکی۔وجہ یہ ہے کہ بیشتر ہندو عوام اب اس فرسودہ اور گھسے پٹے لالی پوپ سے متاثر ہونے کو تیار نہ تھے۔وہ ملازمتیں، بچوں کے لیے سستی تعلیم، مفت علاج اور سستی ضروریات ِ زندگی چاہتے ہیں۔مودی کے پاس جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ وہ اسے چلائے اور دفعتہً عوام کی ساری مانگیں پوری کر دے۔اس لیے مودی نے سوچا کہ انتخابی مہم میں مسلم دشمنی کا جانا مانا حربہ اختیار کیا جائے۔اسے امید تھی کہ اس چال سے ہندو عوام اپنے مسائل بھول بھال کر مسلمانوں کی مخالفت کرنے میں لگ جائیں گے۔
مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی
چناں چہ21 اپریل کو راجھستان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مودی کے دل ودماغ میں بھرا بغض ، عناد اور نفرت باہر آ گئی۔تب دنیا والوں نے جانا کہ مودی تو کٹر مسلم دشمن ہے اور وہ بھارتی مسلمانوں کو ریاست کا شہری نہیں بلکہ غدار اور دُرانداز سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں مسلمان جنسی حیوان ہیں جنھیں بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔اس جلسے میں مودی نے کہا:
''پہلے جب ان (کانگریس )کی سرکار تھی، تو انھوں نے کہا تھا کہ دیش کی سمپتی (سرکاری وسائل اور پیسے )پر پہلا ادھیکار (حق) مسلمانوں کا ہے۔اس کا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ یہ (کانگریسی عوام کی )سمپتی اکھٹی کر کے کس کو دیں گے؟ان کو دیں گے جن کے زیادہ بچے ہیں (یعنی مسلمان)، یہ گھس بیٹھیوں(یعنی ہندوستان پہ حملہ کرنے والوں ) کو دیں گے۔کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسا گھس بیٹھیوں کو دیا جائے؟کیا آپ کو منظور ہے؟''
بیان کا پس منظر
اس بیان کا پس منظر وہ جملے ہیں جو کانگریسی وزیراعظم، منموہن سنگھ نے 9 دسمبر 2006 ء کو قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئیکہے تھے۔انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کی ترجیحات یہ ہیں کہ شیڈول کاسٹس، شیڈول قبائل، دیگر پسماندہ طبقات(Scheduled Castes, Scheduled Tribes, Other Backward Classes)، اقلیتوں اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے لیے وسائل خرچ کیے جائیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مزید کہا تھا :''ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں: زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری، اور عام بنیادی ڈھانچے کے لیے ضروری عوامی سرمایہ کاری کی ضروریات کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے پروگرام۔ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیینئے منصوبے وضع کرنے ہوں گے کہ اقلیتیں، خاص طور پر مسلم اقلیت ترقی کے ثمرات میں برابری کے ساتھ حصہ لینے کے لیے بااختیار ہو۔ وسائل پر پہلا دعویٰ ان کا ہونا چاہیے۔ مرکز کے پاس بے شمار دیگر ذمے داریاں ہیں جن کے مطالبات کو وسائل کی مجموعی دستیابی میں پورا کرنا ہوگا۔''
اس بیان میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ قوم کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ لیکن نریندر مودی نے بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ہندوؤں میں خوف پیدا کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ یہ جھوٹ بولا کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی ملک کی دولت مسلمانوں کو دے ڈالے گی۔
جھوٹ کا سلسلہ جاری
راجھستان میں تقریر کے دوران ہندئووں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرنے اور دونوں اقوام میں نفرتیں پیدا کر کے انھیں لڑانے کی خاطر مودی نے جھوٹ بولنے کا سلسلہ جاری رکھا۔اس نے کہا:
''یہ کانگریس کامینی فیسٹو کہہ رہا ہے کہ وہ ماتوئوں(مائوں)اور بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے۔اس کی جان کاری (معلومات )لیں گے۔اور پھر یہ سونا تقسیم کر دیں گے۔اور یہ سونا کس کو ملے گا؟یہ مسلمانوں کو ملے گا کیونکہ منموہن سنگھ جی کہہ چکے ہیں کہ ہماری سمپتی کا پہلا حق ان لوگوں کا ہے۔بھائیو اور بہنو! یہ شہری نکسل سوچ ہے ۔میری ماتائوں اور بہنو، یہ لوگ (کانگریسی )آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دیں گے (اور انھیں مسلمانوں کو دے ڈالیں گے۔)''
یوں ایک بار پھر شری مودی نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہندو خواتین کے سونے کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے گی اور اسے مسلمانوں میں تقسیم کردے گی۔
بھارتی الیکشن کمیشن کی بے عملی
یہ واضح رہے، بھارت کے الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم چلانے کے ضمن میں ''انتخابی ضابطہ اخلاق''(یا ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) بنا رکھا ہے۔یہ 1951ء سے نافذ العمل ہے۔یہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم کے دوران جاری کردہ رہنما اصول وقوانین کا مجموعہ ہے۔
یہ ایسے عمومی طرز عمل پر پابندی لگاتا ہے جو گروپوں کے درمیان "موجودہ اختلافات بڑھا سکتا ہے یا باہمی نفرت یا تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔"یہ بھی حکم دیتا ہے کہ پارٹیوں اور امیدواروں کو اپنے مخالفین کی "نجی زندگی کے تمام پہلوؤں پر تنقید سے گریز" کرنا چاہیے۔یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ذات پات یا فرقہ وارانہ جذبات کی اپیلوں پر بھی پابندی لگاتا ہے۔اس میں واضح طور پہ درج ہے : "مساجد، گرجا گھروں، مندروں یا دیگر عبادت گاہوں کو انتخابی پروپیگنڈے کے لیے (ایک) فورم کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا"۔
اس بار لیکن مودی سمیت بی جے پی کے تمام لیڈروں نے اپنی الیکشن مہمات چلاتے ہوئے ''انتخابی ضابطہ اخلاق'' کی دھجیاں اڑا دیں۔یہی وجہ ہے، پورے بھارت سے لاکھوں شہریوں نے اپنے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے کلاف نفرت انگیز انتخابی مہم چلانے پر مودی اور دیگر بی جے پی راہنمائوں کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے۔انھوں نے بی جے پی قائدین کے جملوں کو ''بھارتی مسلمانوں پر براہ راست حملہ''قرار دیا۔شہریوں نے الیکشن کمیشن پہ واضح کیا، ووٹ حاصل کرنے کے لیے مودی کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز زبان کے استعمال نے دنیا میں ''جمہوریت کی ماں'' کے طور پر بھارت کے قد کاٹھ کو سنجیدگی سے مجروح کیا ہے۔''
دہلی میں مقیم سینئر ایڈوکیٹ ،سنجوئے گھوس کہتے ہیں، بانسواڑہ ریلی (راجھستان) میں مودی کے تبصرے ماڈل ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ''الیکشن کمیشن مودی کو، یا جو بھی ایسی تقریر کرتا ہے، ایک مخصوص مدت کے لیے مہم چلانے سے روک سکتا ہے اور ماضی میں ایسا کئی بار کر چکا ۔''
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تقریر نے تعزیرات ہند کی دفعہ 153A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 123 کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر کوئی انتخابی امیدوار ووٹروں سے ان کے مذہب، نسل، ذات، برادری، یا زبان کی بنیاد پرووٹ ڈالنے کی اپیل کرے تو قانون اسے بدعنوان عمل سمجھتا ہے۔
گھوس نے کہا" مودی یا کوئی اور اگر ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔یوں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو یہ اہم پیغامملے گا کہ اگر انھوں نے قوانین توڑے تو اس پہ سزا بھی ملے گی۔لیکن انھیں قانون توڑنے کی چھوٹ مل گئی تو یہ عمل کریاکارتا (فعال و نچلی) سطح تک پہنچ جائے گا' الیکشن کمیشن کو کم از کم ادارے کے وقار وعزت کی خاطر تو عمل کرنا چاہیے۔ حکمران جماعت کھلے عام مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے میں مصروف ہے۔''
مملکت کا سب سے اہم الیکشن
رام چندر گوہا بھارت کے ممتاز مورخ اور ادیب ہیں۔انھوں نے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا کہ2024ء کے الیکشن بھارت کی تاریخ میں 1977 ء کے بعد مملکت کا سب سے اہم الیکشن ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ الیکشن بی جے پی کو عروج یا زوال ، دونوں میں کسی ایک میں مبتلا کر سکتا ہے۔
گوہا لکھتے ہیں ''آمریت روح کو کچل دیتی ہے۔ اکثریت پسندی دماغ اور دل کو زہر دیتی ہے۔ ان کے عروج کو روکنا چاہیے۔اور بی جے پی آج ایک آمر و اکثریتی پارٹی بن چکی۔نریندر مودی کے اقتدار میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ہندوستانی سیاست کے پاتال میں پھینک دیا گیا ہے۔ انہیں روزمرہ زندگی میں سڑکوں پر، بازاروں میں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں مقامی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ اور وزرا مستقل بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کو مذاق کا نشانہ بناتے اور طعنے دیتے ہیں۔ ان کے پیغام کوحامی واٹس ایپ اور یوٹیوب پر پھیلاتے ہیں۔ نصابی کتابیں اسکول کے بچوں کو اپنے ساتھی شہریوں کے خلاف دشمنی کی تربیت دینے کے لیے دوبارہ لکھی گئی ہیں جو ہندو نہیں ہیں۔
''مسلمانوں کی بدنامی کا سلسلہ جاری رہے گا،اور شاید اس سے بھی تیز ہو جائے گا اگر نریندر مودی اور بی جے پی تیسری بار اقتدار میں آتے ہیں۔ ایک اور جیت، خاص طور پر اگر جماعت لوک سبھا میں آرام دہ اکثریت کے ساتھ آتی ہے، مودی اور ان کی پارٹی میں میڈیا ،سول سروسز، عدلیہ اور عوامی ریگولیٹری اداروں کی آزادی مزید مجروح کرنے کا حوصلہ پیدا کرے گی۔ ہندوتوا کا پروپیگنڈہ وفاق کے ڈھانچے کو مزید کمزور کررہا ہے۔''
امید ہے، اب خاص طور پہ خلیجی ممالک کے مسلمان بادشاہ اور سرکاری اہلکار نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے یاد رکھیں گے کہ یہ شاطر وعیار بھارتی لیڈر حقیقتاً مسلم دشمن ہے ۔اور اس نے خوفناک طریقے اپنا کر بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔گویا مودی کی حمایت ومدد کرنا اس کے مسلم دشمن اقدامات کی توثیق کرنے کے مترادف ہو گا۔کیا پیسے اور مادہ پرستی کی خاطر کوئی مسلم راہنما مودی کی حمایت کر کے اپنے ایمان وضمیر کا سودا کر پائے گا؟وہ مودی جو ووٹ حاصل کرنے کے لیے انتہائی گھٹیا اور رکیک سطح تک بھی گر سکتا ہے۔
مسلم دشمنی کی وجہ
ہم میں سے کئی نہیں جانتے کہ مودی کی مسلم دشمنی نے کیونکر جنم لیا؟ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ایک اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مودی کا تعلق غریب گجراتی ہندو گھرانے سے ہے۔اور جب مودی کا لڑکپن تھا تو گجرات میں کئی مسلمان کاروباری ہونے کے ناتے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔لہذا چائے بیچتا اور گلیوں میں پھرتا مودی یہ دیکھ کر جل بھن جاتا ہو گا کہ وہ تو ضروریات زندگی بھی نہیں خرید سکتا جبکہ کئی مسلمان یعنی ٖغیر ہندو آرام وآسائش کی زندگی گذار رہے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے، جب وزیراعلی مودی کی زیرقیادت ریاست گجرات میں کٹر ہندوؤں نے 2002ء میں وسیع پیمانے پر گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کیا تو انھوں نے احمد آباد میں گلبرگ سوسائٹی کو خاص طور پہ نشانہ بنایا جہاں بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان خاندان رہتے تھے۔بلوائیوں نے پوری سوسائٹی جلا ڈالی اور بچوں و خواتین تک کو شہید کر ڈالا۔
مودی لڑکپن میں انتہاپسند ہندو جماعت، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا رکن بن گیا تھا۔اس تنظیم کے سبھی راہنما اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے اور انھیں ہندو عوام کے مصائب ومشکلات کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔اس نفرت انگیز پروپیگنڈے نے بھی نوجوان ہوتے مودی کو مسلم دشمن بنا دیا۔چناں چہ وہ بابری مسجد کے خلاف انتہاپسندوں کی تحریک میں پیش پیش رہا۔تاہم اس نے کھلم کھلا کبھی اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا۔بلکہ وہ مسلمانوں کی تقریبات میں جا کر ایسی باتیں کہہ دیتا جو اسے مسلم دشمن ثابت نہیں کرتی تھیں۔
سنگھ پریوار کی حکمت عملی
مودی مگر تب بھی مسلم دشمن تھا۔وجہ یہ ہے کہ اسی مسلم دشمنی نے سنگھ پریوار (انتہا پسند ہندؤںکی جماعتوں )کو بھارت میں مقبول بنایا ۔1980ء تک سنگھ پریوار الیکشنوں میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
اس کے بعد 1984ء سے انھوں نے رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک شروع کر دی۔اسی تحریک نے خصوصاً سنگھ پریوار کے سیاسی روپ، بی جے پی کو بھارت بھر میں مشہور کر دیا اور وہ بتدریج قومی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھانے لگی۔گویا سنگھ پریوار کی مسلم دشمنی نے اسے ہندو عوام میں مقبول بنا دیا۔اسی لیے بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کی تمام جماعتیں ہر الیکشن کے موقع پہ اپنی مسلم دشمنی عیاں کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع تلاش کر لیتی ہیں۔
مثال کے طور 2002ء میں گجراتی مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد ریاست گجرات میں ریاستی الیکشن ہونے تھے۔ انتخابی مہم میں مودی نے کئی جلسوں میں مسلم اقلیت کو اشاروں کنایوں میں نشانہ بنایا۔ ایک جلسے میں تو اس نے حد پار کر لی۔مودی پہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ اس نے مسلمانوں کے لیے ریلیف کپمپ قائم نہیں کیے۔مودی نے ایک عوامی جلسے میں کہا:
''مجھے کہا جاتا ہے کہ تم نے مسلمانوں کے لیے ریلیف کیمپ نہیں لگائے۔میں کیوں یہ کیمپ لگاؤں؟مسلمان ان کیمپوں کو بچے پیدا کرنے والے مرکز بنا لیں گے۔ہم ہندو تو یہ نعرہ لگاتے ہیں: ہم دو، ہمارے دو۔مگر مسلمانوں کا نعرہ یہ ہے: ہم پانچ، ہمارے پچیس۔''(مودی نے اس طرف اشارہ کیا کہ ایک مسلم مرد چار بیویاں کر کے پچیس بچے پیدا کر سکتا ہے۔)
طبقہ بالا کی حامی پارٹی
بھارت میں نریندر مودی کو اچھا منتظم سمجھا جاتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی زیرقیادت پچھلے دس سال میں بھارت نے خاطر خواہ معاشی ترقی کی ہے۔مگر اس معاشی ترقی کی بنیاد ڈاکٹر منموہن سنگھ نے رکھی تھی۔مودی نے بس یہ کیا کہ حکومت میں کرپشن کم کر دی جو کانگریسی حکومت میں کافی بڑھ گئی تھی۔
مودی جنتا بھی مگر کانگریسی حکومت کی طرح ایلیٹ طبقوں کو ہی مراعات دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دس برس میں بھارت میں کئی ہزار نئے امرا جنم لے چکے۔جبکہ عام بھارتی شہری کی زندگی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔وہ اب بھی بے روزگاری ، مہنگائی، کم تنخواہ، غربت، بیماری، جہالت جیسے عفریتوں سے نبردآزما ہے۔خاص طور پہ بھارت میں زیادہ ملازمتیں جنم نہیں لے رہیں۔اس لیے متوسط اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتی متفکر وپریشان ہیں۔وہ جزوقتی ملازمتیں کر کے زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلا رہے ہیں اور مودی سرکار سے خوش نہیں۔
بھارت ہندو ریاست بن جائے
حالیہ الیکشن سے قبل مودی کو بھی اس امر کا احساس ہو چکا تھا کہ کروڑوں بھارتی اس کی حکومت سے ناراض ہیں ۔لہذا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ووٹ نہ دیں۔جبکہ مودی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا خواہش مند ہے۔وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے بھارتی آئین میں حسب ِ دل خواہ تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے۔اس کی منزل یہ ہے کہ بھارت کو سرکاری طور پہ ہندو ریاست بنا دیا جائے۔فی الوقت بھارت کا آئین اسے سیکولر ریاست قرار دیتا ہے ، یعنی ایسی مملکت جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں۔
اسی لیے مودی کی ہدایت پر بی جے پی کے وزیر، مشیر، ارکان اسمبلی، امیدوار اور لیڈر عوامی جلسوں میں اپنے مذہبی کارناموں کے گن گانے لگے۔انھوں نے رام مندر کی تعمیر کا خاص طور پہ ذکر کیا جو بابری مسجد شہید کر کے بنایا گیا ہے۔انھوں نے اس کی تعمیر کو اپنا بہترین کارنامہ قرار دیا اور ہندو ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ رام مندر بنانے والوں کو ہی اقتدار میں لائیں۔
رام مندر کی تعمیر ایک کارنامہ
17 اپریل کو رام نومی کے ہندو تہوار پر وزیر اعظم مودی نے آسام میں ایک عوامی میٹنگ میں حاضرین سے کہا کہ وہ ایودھیا کے رام مندر میں ہونے والی "سوریہ تلک" رسم میں شرکت کے لیے اپنے موبائل فون کی فلیش لائٹ آن کریں۔ مودی نے کہا:
''آج پورے ملک میں ایک نیا ماحول ہے۔ اور بھگوان رام کا یہ جنم دن 500 سال بعد آیا ہے، جب انہیں اپنے گھر میں اپنی سالگرہ منانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔"
جلسے کے بعد مودی نے اپنی تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے "سوریہ تلک" کی رسم کا ویڈیو دیکھا۔ بی جے پی کے سرکاری ہینڈل نے اس کیپشن کے ساتھ رسم کی ایک تصویر ٹویٹ کی: "آپ کے 'ایک ووٹ' کی طاقت!"
بی جے پی کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی ووٹ مانگنے کے لیے ہندو دیوتا رام کو بطور نشان استعمال کیا ۔ میرٹھ حلقے سے پارٹی کے امیدوار، ارون گوول کو ایک انتخابی ریلی میں رام دیوتا کی تصویر دکھانے کے بعد ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے نوٹس موصول ہوا۔تاہم اس کارروائی نے بی جے پی لیڈروں کو مذہبی اشارے دہرانے سے نہیں روکا۔ کچھ دن بعدایک انتخابی جلسے میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی رام کی تصویر رکھی۔
18 اپریل کو میرٹھ میں منعقدہ ایک عوامی میٹنگ میں، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے ووٹروں پر زور دیا کہ "رام لانے والے کو اقتدار میں لائیں"۔ آدتیہ ناتھ نے پھر کہا: "یہاں، ارون گوول، جنہوں نے شری رام کا کردار ادا کیا تھا، خود آپ کے امیدوار ہیں۔"آدتیہ ناتھ 1990 ء کی دہائی میں ایک مشہور ٹی وی سیریل، رامائن کا حوالہ دے رہا تھا۔اس میں ارون گوول نے رام دیوتا کا کردار ادا کیا تھا۔
ہندی نعرے "جو رام کو لائے ہیں، ہم ان کو لائیں گے" کو بھی بی جے پی لیڈروں نے ہیش ٹیگ اور انتخابی مہم کے نعروں کے طور پر استعمال کیا ۔پورے بھارت سے عوام نے اپنے الیکشن کمیشن سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی کے امیدواروں اور لیڈروں کو مذہبی اشارے استعمال کرنے سے روک دے۔مگر الیکشن کمیشن بی جے پی لیڈروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن بھی مودی سرکار کا غلام بن چکا۔ اسی لیے اپوزیشن لیڈروں اور سوشل میڈیا صارفین نے اپنے الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
مسجد کی جانب تیر
حیدرآباد دکن کی نشست پہ بی جے پی کی امیدوار، مادھوی لتھا حصہ لے رہی ہے۔اس کی ایک ویڈیو نے بھارت میں نیا تنازع کھڑا کر دیا۔وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد کی جانب رخ کر کے تیر چلا رہی ہے۔یوں ہندو عوام کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمانوں کو کھل کر ٹارگٹ کیا جائے۔ حیدرآباد پولیس نے لتھا کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی ہے۔لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں بی جے پی لیڈروں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
تاہم رام مندر کے ذریعے ہندو عوام میں بی جے پی کے لیے ہمدردانہ جذبات ابھارنے کی حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکی۔وجہ یہ ہے کہ بیشتر ہندو عوام اب اس فرسودہ اور گھسے پٹے لالی پوپ سے متاثر ہونے کو تیار نہ تھے۔وہ ملازمتیں، بچوں کے لیے سستی تعلیم، مفت علاج اور سستی ضروریات ِ زندگی چاہتے ہیں۔مودی کے پاس جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ وہ اسے چلائے اور دفعتہً عوام کی ساری مانگیں پوری کر دے۔اس لیے مودی نے سوچا کہ انتخابی مہم میں مسلم دشمنی کا جانا مانا حربہ اختیار کیا جائے۔اسے امید تھی کہ اس چال سے ہندو عوام اپنے مسائل بھول بھال کر مسلمانوں کی مخالفت کرنے میں لگ جائیں گے۔
مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی
چناں چہ21 اپریل کو راجھستان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مودی کے دل ودماغ میں بھرا بغض ، عناد اور نفرت باہر آ گئی۔تب دنیا والوں نے جانا کہ مودی تو کٹر مسلم دشمن ہے اور وہ بھارتی مسلمانوں کو ریاست کا شہری نہیں بلکہ غدار اور دُرانداز سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں مسلمان جنسی حیوان ہیں جنھیں بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔اس جلسے میں مودی نے کہا:
''پہلے جب ان (کانگریس )کی سرکار تھی، تو انھوں نے کہا تھا کہ دیش کی سمپتی (سرکاری وسائل اور پیسے )پر پہلا ادھیکار (حق) مسلمانوں کا ہے۔اس کا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ یہ (کانگریسی عوام کی )سمپتی اکھٹی کر کے کس کو دیں گے؟ان کو دیں گے جن کے زیادہ بچے ہیں (یعنی مسلمان)، یہ گھس بیٹھیوں(یعنی ہندوستان پہ حملہ کرنے والوں ) کو دیں گے۔کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسا گھس بیٹھیوں کو دیا جائے؟کیا آپ کو منظور ہے؟''
بیان کا پس منظر
اس بیان کا پس منظر وہ جملے ہیں جو کانگریسی وزیراعظم، منموہن سنگھ نے 9 دسمبر 2006 ء کو قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئیکہے تھے۔انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کی ترجیحات یہ ہیں کہ شیڈول کاسٹس، شیڈول قبائل، دیگر پسماندہ طبقات(Scheduled Castes, Scheduled Tribes, Other Backward Classes)، اقلیتوں اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے لیے وسائل خرچ کیے جائیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مزید کہا تھا :''ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں: زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری، اور عام بنیادی ڈھانچے کے لیے ضروری عوامی سرمایہ کاری کی ضروریات کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے پروگرام۔ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیینئے منصوبے وضع کرنے ہوں گے کہ اقلیتیں، خاص طور پر مسلم اقلیت ترقی کے ثمرات میں برابری کے ساتھ حصہ لینے کے لیے بااختیار ہو۔ وسائل پر پہلا دعویٰ ان کا ہونا چاہیے۔ مرکز کے پاس بے شمار دیگر ذمے داریاں ہیں جن کے مطالبات کو وسائل کی مجموعی دستیابی میں پورا کرنا ہوگا۔''
اس بیان میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ قوم کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ لیکن نریندر مودی نے بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ہندوؤں میں خوف پیدا کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ یہ جھوٹ بولا کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی ملک کی دولت مسلمانوں کو دے ڈالے گی۔
جھوٹ کا سلسلہ جاری
راجھستان میں تقریر کے دوران ہندئووں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرنے اور دونوں اقوام میں نفرتیں پیدا کر کے انھیں لڑانے کی خاطر مودی نے جھوٹ بولنے کا سلسلہ جاری رکھا۔اس نے کہا:
''یہ کانگریس کامینی فیسٹو کہہ رہا ہے کہ وہ ماتوئوں(مائوں)اور بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے۔اس کی جان کاری (معلومات )لیں گے۔اور پھر یہ سونا تقسیم کر دیں گے۔اور یہ سونا کس کو ملے گا؟یہ مسلمانوں کو ملے گا کیونکہ منموہن سنگھ جی کہہ چکے ہیں کہ ہماری سمپتی کا پہلا حق ان لوگوں کا ہے۔بھائیو اور بہنو! یہ شہری نکسل سوچ ہے ۔میری ماتائوں اور بہنو، یہ لوگ (کانگریسی )آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دیں گے (اور انھیں مسلمانوں کو دے ڈالیں گے۔)''
یوں ایک بار پھر شری مودی نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہندو خواتین کے سونے کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے گی اور اسے مسلمانوں میں تقسیم کردے گی۔
بھارتی الیکشن کمیشن کی بے عملی
یہ واضح رہے، بھارت کے الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم چلانے کے ضمن میں ''انتخابی ضابطہ اخلاق''(یا ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) بنا رکھا ہے۔یہ 1951ء سے نافذ العمل ہے۔یہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے انتخابی مہم کے دوران جاری کردہ رہنما اصول وقوانین کا مجموعہ ہے۔
یہ ایسے عمومی طرز عمل پر پابندی لگاتا ہے جو گروپوں کے درمیان "موجودہ اختلافات بڑھا سکتا ہے یا باہمی نفرت یا تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔"یہ بھی حکم دیتا ہے کہ پارٹیوں اور امیدواروں کو اپنے مخالفین کی "نجی زندگی کے تمام پہلوؤں پر تنقید سے گریز" کرنا چاہیے۔یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ذات پات یا فرقہ وارانہ جذبات کی اپیلوں پر بھی پابندی لگاتا ہے۔اس میں واضح طور پہ درج ہے : "مساجد، گرجا گھروں، مندروں یا دیگر عبادت گاہوں کو انتخابی پروپیگنڈے کے لیے (ایک) فورم کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا"۔
اس بار لیکن مودی سمیت بی جے پی کے تمام لیڈروں نے اپنی الیکشن مہمات چلاتے ہوئے ''انتخابی ضابطہ اخلاق'' کی دھجیاں اڑا دیں۔یہی وجہ ہے، پورے بھارت سے لاکھوں شہریوں نے اپنے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے کلاف نفرت انگیز انتخابی مہم چلانے پر مودی اور دیگر بی جے پی راہنمائوں کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے۔انھوں نے بی جے پی قائدین کے جملوں کو ''بھارتی مسلمانوں پر براہ راست حملہ''قرار دیا۔شہریوں نے الیکشن کمیشن پہ واضح کیا، ووٹ حاصل کرنے کے لیے مودی کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز زبان کے استعمال نے دنیا میں ''جمہوریت کی ماں'' کے طور پر بھارت کے قد کاٹھ کو سنجیدگی سے مجروح کیا ہے۔''
دہلی میں مقیم سینئر ایڈوکیٹ ،سنجوئے گھوس کہتے ہیں، بانسواڑہ ریلی (راجھستان) میں مودی کے تبصرے ماڈل ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ''الیکشن کمیشن مودی کو، یا جو بھی ایسی تقریر کرتا ہے، ایک مخصوص مدت کے لیے مہم چلانے سے روک سکتا ہے اور ماضی میں ایسا کئی بار کر چکا ۔''
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تقریر نے تعزیرات ہند کی دفعہ 153A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 123 کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر کوئی انتخابی امیدوار ووٹروں سے ان کے مذہب، نسل، ذات، برادری، یا زبان کی بنیاد پرووٹ ڈالنے کی اپیل کرے تو قانون اسے بدعنوان عمل سمجھتا ہے۔
گھوس نے کہا" مودی یا کوئی اور اگر ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔یوں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو یہ اہم پیغامملے گا کہ اگر انھوں نے قوانین توڑے تو اس پہ سزا بھی ملے گی۔لیکن انھیں قانون توڑنے کی چھوٹ مل گئی تو یہ عمل کریاکارتا (فعال و نچلی) سطح تک پہنچ جائے گا' الیکشن کمیشن کو کم از کم ادارے کے وقار وعزت کی خاطر تو عمل کرنا چاہیے۔ حکمران جماعت کھلے عام مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے میں مصروف ہے۔''
مملکت کا سب سے اہم الیکشن
رام چندر گوہا بھارت کے ممتاز مورخ اور ادیب ہیں۔انھوں نے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا کہ2024ء کے الیکشن بھارت کی تاریخ میں 1977 ء کے بعد مملکت کا سب سے اہم الیکشن ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ الیکشن بی جے پی کو عروج یا زوال ، دونوں میں کسی ایک میں مبتلا کر سکتا ہے۔
گوہا لکھتے ہیں ''آمریت روح کو کچل دیتی ہے۔ اکثریت پسندی دماغ اور دل کو زہر دیتی ہے۔ ان کے عروج کو روکنا چاہیے۔اور بی جے پی آج ایک آمر و اکثریتی پارٹی بن چکی۔نریندر مودی کے اقتدار میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ہندوستانی سیاست کے پاتال میں پھینک دیا گیا ہے۔ انہیں روزمرہ زندگی میں سڑکوں پر، بازاروں میں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں مقامی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ اور وزرا مستقل بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کو مذاق کا نشانہ بناتے اور طعنے دیتے ہیں۔ ان کے پیغام کوحامی واٹس ایپ اور یوٹیوب پر پھیلاتے ہیں۔ نصابی کتابیں اسکول کے بچوں کو اپنے ساتھی شہریوں کے خلاف دشمنی کی تربیت دینے کے لیے دوبارہ لکھی گئی ہیں جو ہندو نہیں ہیں۔
''مسلمانوں کی بدنامی کا سلسلہ جاری رہے گا،اور شاید اس سے بھی تیز ہو جائے گا اگر نریندر مودی اور بی جے پی تیسری بار اقتدار میں آتے ہیں۔ ایک اور جیت، خاص طور پر اگر جماعت لوک سبھا میں آرام دہ اکثریت کے ساتھ آتی ہے، مودی اور ان کی پارٹی میں میڈیا ،سول سروسز، عدلیہ اور عوامی ریگولیٹری اداروں کی آزادی مزید مجروح کرنے کا حوصلہ پیدا کرے گی۔ ہندوتوا کا پروپیگنڈہ وفاق کے ڈھانچے کو مزید کمزور کررہا ہے۔''