مقدس مقامات پر اسکرٹ اور حجاب رکھے جاتے ہیں
گلابوں سے بھرے باغات ، سرسبز میدان اور سورج مکھی کے کھیت
(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ سولہواں پڑاؤ)
''اور مشرق و مغرب سب اﷲ ہی کا ہے''
(سورۃ البقرہ آیت نمبر155)
اب ہم ترکی کے مشرقی حصے سے مغربی حصے میں موجود تھے، جس کے لیے ترکی کا دعویٰ ہے کہ یہ مغربی حصہ ہے تاہم یورپ اسے یورپ میں شامل کرنے پر تیار نہیں ہے، مگر ترکی کے کچھ لوگ خود کو یورپین ہی سمجھتے ہیں، خاص طور پر نوجوان طبقے کے کچھ افراد ان کے لباس و طور طریقے بالکل یورپین ہیں۔ بعض اوقات تو ہم خالص مشرقی اطوار کے افراد جو لوگوں کو دیکھنے کی بجائے کبھی سمندر میں تیرتی کشتیاں دیکھنے لگتے ہیں، کبھی بسوں کے نام اور نمبر دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب نوجوان اولاد ساتھ ہو تو ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔
مگر اتفاق کی بات ہے ہمیں یہ مناظر یک سرائے کی طرف نظر نہیں آئے۔ یہ سب میٹرو ٹرین اسٹیشن، بس اسٹاپ اور سمندر کنارے ہی نظر سے گزرے۔
استنبول کا یہ طبقہ مغربی تقلید میں خود کو یورپین ہی سمجھتا ہے کیوںکہ استنبول ترکی کا چہرہ ہے۔ اس لیے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ تمام ٹرکش قوم ایسی ہی ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے جس طرح فلموں اور ڈراموں میں ہمارے ملک میں دکھایا جاتا ہے بالکل ایسے ہی وہاں کے ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے جو خواتین اسکرٹ اور سر کھول کر رکھتی ہیں ان کے لیے مقدس مقامات پر اسکرٹ اور حجاب رکھے ہوتے ہیں جو وہ پہن کر مقدس جگہوں پر جانے کی اجازت ہے اکثر خواتین حجاب لیتی ہیں مگر نقاب کا رواج نہیں ہے۔
ترکی سیکولر ملک ہے۔ مذہبی پابندیاں نہیں ہیں اور ہر شخص اپنے معاملات میں آزاد ہے۔ ہم یک سرائے پر جس بس سروس سے آئے تھے وہ دوسری سڑک پر تھا۔ ہم دوسری طرف تھے یہاں سے بس سروس اور ٹرام سروس دونوں ہی چلتی ہیں۔ ہم جب کھانا کھانے جانے لگے تو جیسے ہی ریسیپشن پر آئے تو وہاں نادر موجود تھا۔ وہ اپنا کمپیوٹر کھولے کام کررہا تھا۔
ہم کو دیکھتے ہی اس نے کمپیوٹر بند کیا اور ہمارے پاس آگیا۔ میرا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوگیا تھا۔ میں ہوسٹل جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتا تھا کیوںکہ کل میری یونیورسٹی میں کافی دیر تک کی کلاسز ہیں۔ کل میں تم سے مل نہیں پاتا۔ عزیز نے پوچھا ابھی تم فری ہو ہاں ابھی تو فری ہوں۔ پھر ہمارے ساتھ چلو۔ اچھا ہوگا کچھ راستے وغیرہ سمجھ لیں گے اور کھانا بھی کھالیں گے۔
پھر ہم ہوٹل سے باہر آگئے۔ دکانیں وغیرہ تو بند ہوچکی تھیں مگر ہوٹل ریسٹورینٹ اور جن دکانوں میں گروسری اور کھانے پینے کی اشیاء مل رہی تھیں وہ تمام کھلی ہوئی تھیں۔ استنبول تو مکمل طور پر ہوٹل، ریسٹورینٹ اور کھانے پینے کی دکانوں سے پٹا پڑا ہے۔ کوئی گلی، کوئی سڑک ایسی نہیں کہ جہاں کھانا چائے نہ ملے۔ ہم کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔
اس لیے جیسے ہی ہم ہوٹل سے نکلے تو پہلی گلی میں ہی مڑگئے۔ یہ گلی پہلی دکان جو بند تھی اس کے ساتھ ہی تھی اور اونچائی کی سمت جارہی تھی اور چار چھے دکانوں کے بعد پھر ایک گلی میں مڑگئی تھی۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کرسیاں اور نیچی میزیں سڑک کنارے لگی تھیں یہ ایک چھوٹا چائے خانہ تھا، بالکل ٹرکش انداز کا تھا۔ ہم وہ جگہ چھوڑ کر آگے آگئے تو ادھر لائن سے ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ سب اِن ڈور اور آؤٹ ڈور دونوں طرح کے تھے۔
عزیز نے کہا اماں بہت کنجوسی کرلی اب ان دو دنوں میں بچے ہوئے سب پیسے اڑا دیں گے۔ ترکی کے لیرا ہمارے ملک میں کس کام کے ہوں ۔ میں نے کہا ہولا ہاتھ رکھ بیٹا ابھی تو بہت شاپنگ کرنی ہے ۔ نادر کو ہماری اس گفتگو میں صرف کنجوس سمجھ میں آیا۔ اس نے دو دفعہ یہ لفظ دہرایا پھر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم کو انگریزی میں بات کرنی چاہیے تھی۔ نادر نے کہا کہ یہ لفظ میری دادی بولتی تھیں اس کا مطلب ہے کم پیسے خرچ کرنے والا۔
اوہو یہ تو بہت زبردست بات ہے اردو کے کئی الفاظ تو ٹرکش زبان میں بھی بولے جاتے ہیں جیسے دوست، لشکر وغیرہ کیوںکہ اردو ایک لشکری زبان ہے، دوسری زبانوں سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا۔ نادر کہنے لگا اس کا مطلب ہے ازبکی زبان کے بھی بہت سے الفاظ ہوں گے۔
ہاں ضرور ہوں گے کیوںکہ ازبکستان ہم سے بہت قریب ہے۔ میں نے کہا تو وہ کہنے لگا اور دل سے بھی قریب ہے۔ اتنے میں کھانا آگیا۔ کھانے میں ٹرکش کباب، پلاؤ، روٹی اور سوپ تھا۔ کھانا بہت مزے کا تھا۔ جب ہم چائے پی رہے تھے تو نادر نے پروفیسر یوسف کا نمبر ملایا وہ فوری طور پر ویڈیو لنک پر آگئے اور عایلا اور اپنی بہن کو بھی بلالیا وہ تو عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتیں تھیں وہ ساری گفتگو کے دوران صرف ہنستی رہیں اور عربی میں کہتی رہی کہ مجھے تم لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اب تم لوگ اردن آنا اور میرے گھر میں قیام کرنا۔
پروفیسر یوسف نے بتایا کہ میں نے نادر کے پیپر داخل کیے ہیں تم امتحان ختم ہوتے ہی آجانا ان سے کافی دیر بات ہوتی رہی۔ ان کی بہن نے کہا تم کو اتنے اچھے دوست ملے ہیں اور مجھے ایک بہن مل گئی وہ کہنے لگی میں تمہارے نمبر پر بات کروں گی انشاء اﷲ اور ہم جلد ملیں گے۔
صبح نادر کی یونیورسٹی تھی اور ہمارا مقصد بھی زیادہ دیر باہر رہنے کا نہیں تھا، جو تھوڑی بہت شاپنگ کرنی تھی وہ بھی کل ہی کرنی تھی۔ نادر نے ہم کو بتادیا تھا کہ تم لوگ گرانڈ بازار سے شاپنگ مت کرنا وہ بہت مہنگا ہے۔ شاپنگ صرف Spice bazar سے کرنا Spice bazar فاتح مسجد کے بالکل ساتھ ہی تھا۔
ہم نے ابھی تک فاتح مسجد کا بھی وزٹ نہیں کیا تھا۔ اس میں ٹرکش ڈیلائٹ اور چائے شامل تھی۔ ہمارے استنبول کے پہلے والے Historia hotleکی میزبان نے ہم کو چائے کے برانڈ کے مطابق بتادیا تھا کہ وہ کون سی کمپنی کا ہے اور کون سی دکان سے ملے گا جب ہم Historia hotle سے نکل کر بس ٹرمینل کی طرف آتے ہیں تو یہ بازار راستے میں پڑتا تھا۔ ہم نے ایک بار وہاں کا چکر بھی لگایا تھا، اس لیے ہمیں بھی قیمتوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔ یہ بالکل کراچی کے بوہری بازار کے اسٹائل کا تھا۔
نادر نے گرینڈ بازار اور فاتح جانے کے لیے بسوں کے نمبر وغیرہ بھی بتا دیے تھے۔ عزیز کو بھی اس عرصے میں بسوں کے روٹ اور ٹرام کے روٹ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ آج ہمیں گرینڈ بازار کا چکر لگانا تھا۔ گرینڈ بازار استنبول کا سب سے بڑا بازار ہے اور مکمل کورڈ بازار ہے۔ یہ بہت قدیم بازار ہے۔ کبھی یہاں کوئی چاردیواری رہی ہوگی مگر اب صرف اس بازار کے داخلی دروازے موجود ہیں جو بہت قدیم طرز پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ بازار ایک بھول بھلیاں کی طرح ہے، اگر ہم ایک دروازے سے داخل ہوں تو گھومتے پھرتے جب باہر نکلیں گے تو وہ کوئی اور علاقہ ہوگا۔ اس لیے داخلی دروازوں کے نمبر ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔
اس بازار میں بہت رش تھا۔ زیادہ تر یہاں یورپی اور آسٹریلین سیاح شاپنگ کررہے تھے۔ عرب بھی خاصی بڑی تعداد میں تھے تو قیمتیں بھی اسی حساب سے تھیں۔ کافی اور ٹی شاپ بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ یہاں بھی قیمتیں ان کے حساب سے تھیں۔ ہمیں داخل ہوتے وقت اندازہ نہیں ہوا کہ کم از کم نمبر ہی دیکھ لیتے۔ ہم جب دوسرے دروازے سے باہر آئے تو علاقہ ہی دوسرا تھا اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ساری دکانیں ایک طرز پر بنی ہوئی ہیں۔ ہم جس دروازے سے باہر آتے دکانیں تو ایک جیسی ہوتی مگر علاقہ بدلا ہوا ہوتا۔
آخر کار تھک کر ہم ایک دکان کے باہر رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے یہ کارنر کی دکان تھی۔ چائے اور میوہ جات اور مختلف صابن (ترکی میں صابن بھی بہت قسم کے ہوتے ہیں۔ کھیرے، گلاب، بادام اور نہ جانے کتنے اقسام) اور چائے بھی اسٹرابیری، انار، گلاب، جڑی بوٹیوں وغیرہ وغیرہ مجھے تو نام بھی یاد نہیں رہنے کی تھیں۔ خاصی بڑی دکان تھی۔
ہاں یاد آیا شہد کی کئی اقسام مٹھائیوں اور پھلوں سے بنی ہوئی ٹرکش ڈیلائٹ، یہ ایک بڑی دکان تھی اور لدالد سامان سے بھری ہوئی، باہر کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی دکان دار نے ہمارے لیے انار کی چائے بناکر سامنے رکھ دی یہاں یہی طریقہ ہے آپ جیسے ہی کسی دکان میں داخل ہوں دکان دار پہلے پیپر گلاس میں آپ کو چائے بناکر پیش کرے گا بے شک آپ اس سے کچھ نہ خریدیں۔ ابھی ہم ایک ایسی ہی دکان سے اسٹرابیری کی چائے پی کر آئے تھے۔ یہ دکان شامی لوگوں کی تھی وہاں ایک ہی نقش و نگار کے کوئی پانچ لڑکے کام کررہے تھے۔ جب ہم دکان کے اندر آئے تو اس نے ہم سے چائے کے ذائقے کے مطابق پوچھا۔
واقعی مزے دار چائے تھی ہم نے اسٹرابیری کی چائے کا پیکٹ لے لیا تھا یہاں سے انار کی چائے کا پیکٹ لیا تو وہ کہنے لگا ہماری پاس ایک چائے تو نیند لانے والی ہے اور ایک اعصاب کو سکون پہنچانے والی ہے۔
میں نے کہا ایسے تو رہنے دو اگر ہم عادی ہوگئے تو ہر ایک دو مہینے بعد استنبول کا چکر لگانا پڑے گا۔ میری بات سن کر وہ شامی ہنسنے لگا۔ ایسا کچھ نہیں ہے میم بس اعصاب پرسکون ہوجاتے ہیں۔ لوگ تو ہمارے پاس سے کئی کئی پیکٹ لے جاتے ہیں لیکن میں تم کو ایک چھوٹا پیکٹ مفت میں ضرور دوں گا۔
میں نے کہا دے دو ''مفت کی تو قاضی کو بھی حلال ہوتی ہے'' یہ بات میں نے اردو میں کہی تو وہ عزیز کے پیچھے پڑگیا جو بات میم نے کہی ہے اس کا ترجمہ کرکے بتاؤ جب عزیز نے اسے ترجمہ کرکے بتایا تو وہ اچھل پڑا same same ہمارے شام میں بھی ایسے ہی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا اب اسی خوشی میں ایک جڑی بوٹیوں والی چائے پی لو، اس سے جسم چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ اس نے چائے بناکر دی تو ہم نے اس سے ایک پیکٹ خرید لیا۔ یہ طریقہ اپنی چیز بیچنے کا تھا مگر محبت اور خوش گوار دوستانہ انداز سے وہ لوگ ہر گاہک کو ایسے ہی ڈیل کرتے ہیں جیسے آپ ان کے پہلے اور آخری گاہک ہیں۔
ہم نے اس شامی لڑکے سے کہا، اب تم ہم کو باہر جانے کا راستہ بتادو جہاں ٹرام اسٹیشن ہے اوہو تم لوگ گیٹ نمبر5 پر ہو اور ٹرام اسٹیشن کے پاس گیٹ نمبر2 ہے۔ اس نے ہمیں جانے کا راستہ بتا دیا۔ یہ ہماری اس گرینڈ بازار سے معمولی سی شاپنگ تھی۔
جب ہم بازار سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔ عزیز نے کہا اماں توپ کاپی چلتے ہیں۔ ہاں بالکل ہم نے ابھی تک کوئی میوزیم نہیں دیکھا۔ عزیز نے گوگل کھول کر نقشہ دیکھا۔ یہاں بس اور ٹرام دونوں کے روٹ موجود تھے۔ لیکن جب ہم توپ کاپی پہنچے تو وہاں تو کئی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک لڑکے سے پوچھا جو کوئی یورپین تھا کہ تم کتنی دیر سے لائن میں کھڑے ہو اس نے گھڑی دیکھ کر بے زاری سے کہا opp 35 to 40 mints اور بے زاری سے منہ دوسری طرف کرلیا۔ چلو عزیز ہمیں توپ کاپی دیکھنے نہیں جانا ابھی یہ لڑکا اتنی دیر سے کھڑا ہے کم از کم ہم کو بھی اتنی ہی دیر لگے گی۔
عزیز کہنے لگا مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ کچھ کھالیتے ہیں پیٹ بھرے تو دماغ سوچنے کے قابل ہو۔ واقعی دما غ بھی پیٹ کے ساتھ کچھ خالی خالی لگ رہا تھا۔ اسی خالی دماغی کے ساتھ ہم جب اسٹاپ پر آئے تو کسی غلط بس میں بیٹھ گئے۔ حالاںکہ عزیز نے بس کا نمبرGPR سے خود چیک کیا تھا۔
ہم جس وقت بس میں بیٹھے تھے تو ڈیڑھ پونے دو بجے کا وقت ہوگا مگر بس نے ہمیں پہلے تو پل کراس کیا اور تقسیم کے علاقے یعنی مشرقی حصے کی طرف آئی پورا مشرقی حصہ گھمایا پھر دوبارہ پل کراس کیا اور دوسری طرف کا پل کراس کرکے انا صوفیہ اور مسجد سلطان کی طرف آگئی۔ اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ عزیز نے کہا اماں یہاں اتر جاتے ہیں یہاں سے یک سرائے کے لیے بس آسانی سے مل جائے گی مجھے راستہ بھی معلوم ہے ورنہ ٹرام سے چلیں گے۔
میں نے کہا ٹھیک ہے مگر میری تو بس میں بیٹھے بیٹھے حالت خراب ہورہی تھی۔
ہم بس سے اتر کر وہاں پارک میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ عزیز نے ٹک شاپ سے دو گلاس جوس اور وہاں ہی ایک بھٹے بیچنے والے سے اپنے لیے بھٹا اور میرے لیے بھنے ہوئے کچے اخروٹ لے لیے جو کھانے کے بعد طبیعت کچھ بحال ہوئی ہم وہاں تقریباً ایک گھنٹے بیٹھے رہے۔ ترکی میں جگہ جگہ اس طرح کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ کچھ اسٹالز پر بھٹے اور بھنے ہوئے اخروٹ اور کچھ اسٹالز پر ڈارک براؤن کلر کی رنگ نما روٹی بھی ملتی ہے جو کھانے بہت مزے دار ہوتی ہے۔
لیکن کبھی بھی اسٹال کے باہر ہمیں ایک چھلکا بھی پڑا نظر نہیں آتا۔ اسٹال والوں کے پاس ایک باکس لگا ہوتا ہے وہ تمام چھلکے اس میں ڈالتے جاتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک برش اپنے اسٹال سے نکالتے ہیں اور اپنے آس پاس کو صاف کردیتے ہیں۔ یہی طریقہ جوس کے اسٹالز کا ہے۔ ہمیں وہاں کہیں بھی مکھی اور دوسرے کیڑے مکوڑے نظر نہ آئے ایک تو حلال کھانا اور صاف ستھرا۔
صاف جگہ بے شک بڑی ہو یا چھوٹی، وہاں ہمیں ہر جگہ لوگ کھاتے پیتے نظر آئے مگر کوئی گلاس، پلیٹ یا تھیلی سڑک پر پڑی نظر نہ آئی جو شخص بھی کچھ استعمال کرتا یا کھاتا پیتا وہ ڈس بن میں کچرا ڈالتا، جو ہاکر تھے وہ بھی گند نہیں پھیلارہے تھے۔ میں نے پھر موازنہ شروع کردیا تھا اس بار تو عزیز کو بھی کوئی اختلاف نہ تھا کہ اماں آپ تو ہر جگہ موازنہ شروع کردیتی ہیں اگر ہم صرف ٹھیلے والوں کو پابند کردیں کہ کچرا نہ پھیلائیں تو آدھا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ اسلام نے تو ہماری بنیادی تربیت کی بنیاد ہی صفائی پر رکھی ہے۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔
ترکی والوں نے اسلام کا یہ بنیادی اصول سمجھ لیا ہے۔ ہم ابھی تک محروم ہیں۔ یہاں بیٹھنا بہت اچھا لگ رہا تھا مگر ابھی ایک پڑاؤ اور باقی تھا مگر ادھر جانے سے پہلے ہمیں ٹرام لینی تھی اور ٹرام اسٹیشن کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا تھا۔ یہاں ایک میوزیم تھا جو فاتح اور اناصوفیہ کے متعلق تھا مگر نہ جانے کیوں میوزیم جانے کا دل نہیں چاہا کچھ دل بھی اداس تھا۔ ہم جس پاتھ وے پر چل رہے تھے ہمارے سامنے دو لڑکیاں چل رہی تھیں جو مکمل طور پر مغربی لباس میں تھیں یہاں ایک چھوٹا سا گیٹ تھا جو کھلا ہوا تھا ساتھ میں ایک تختی نصب تھی۔ لڑکیوں نے اپنے ہینڈ بیگ کھولے اور اپنے اپنے اسکارف نکال کر سر پر جمائے اور وہیں کھڑے کھڑے اپنے لباس کے اوپر ایک نے عبایا نما کوٹ اور دوسری نے اسکرٹ پہن لیا اور دونوں اندر چلی گئیں۔ ہم نے تختی پر لکھی عبارت کو پڑھا یہ فیروزآغا مسجد تھی۔ یہ بھی بہت تاریخی مسجد تھی، جو ۱۹۴۱ میں تعمیر ہوئی تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ نماز کا وقت ہورہا تھا۔ آپ پہلے نماز پڑھیں گی کہ میں چلاجاؤں۔ تم پڑھ کر آجاؤ جب تک میں باہر بینچ پر بیٹھتی ہوں۔
میں ایک خالی بینچ پر بیٹھ گئی یہاں دوسری بینچ پر ایک عورت اپنے چھوٹے بیٹے اور پرام والے بچے کے ساتھ بیٹھی تھی لیکن میاں کے آتے ہی جلدی سے واش رومز کی طرف چلی گئی لیکن وضوخانہ باہر تھا۔ اس نے جلدی جلدی وضو کیا۔
میں نے سوچا عصر اور مغرب کے درمیان وقت کم ہوتا ہے اس لیے میں بھی وضو کرلیتی ہوں لیکن پھر میں وضو کرکے مسجد کے اندر آگئی یہ بڑی سادہ سی مسجد تھی مردوں کی صفیں سامنے تھیں کو کافی بھری ہوئی تھیں میں خواتین والے حصے میں آگئی یہاں بھی بیس کے قریب خواتین موجود تھیں۔ میں تو نماز ختم کرکے باہر آگئی مگر عزیز تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ اماں ذرا یہ ویڈیو تو دیکھیں اس نے مسجد کے اندر کی ویڈیو بنائی تھی کچھ دنوں پہلے ایک بلی کی ویڈیو وائرل ہورہی تھی جس میں ایک بلی مولوی صاحب کے کاندھے پر چڑھی ہوئی تھی ۔ اس ویڈیو میں ایک کالی بلی مولوی صاحب کے مائیک کے تار سے کھیل رہی تھی اور وہ اسے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ ترکی میں ہوٹلوں، دکانوں، مارکیٹوں میں بہت بلیاں ہوتی ہیں اور وہاں انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا ہے۔ اکثر دیکھاگیا ہے کہ بلی تو مزے سے کرسی پر سورہی ہے اور دکان میں موجود شخص کھڑا ہوا ہے مگر اسے وہ کرسی سے نہیں ہٹائے گا۔
یک سرائے جانے کے لیے ہم نے ٹرام لے لی تھی۔ مجھے میٹرو اور بس سے زیادہ ٹرام کا سفر اچھا لگتا تھا۔ ٹرام اسٹیشن بھی ہمارے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم نے جو کچھ ہلکا پھلکا کھایا تھا وہی کافی تھا۔ ہمارا ہوٹل جاکر آرام کا موڈ تھا مگر جب ہم ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ لفٹ میں ہوٹل کا سامان رکھا جارہا ہے۔ ابھی سامان رکھنے کے بعد سامان اوپر جاکر اتارا جائے گا تو پندرہ بیس منٹ تو لگ جائیں گے۔ ہم سامنے بچھے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ایک لڑکے نے چائے بناکر سامنے رکھ دی۔
تھوڑا فاصلے پر کچھ افریقی عورتیں اور مرد موجود تھے جو شاپنگ بیگ میں سے سامان نکال کر بڑے بڑے کارٹن میں پیک کررہے تھے۔ اس وقت وہاں کوئی آٹھ نو افریقی موجود تھے۔ یقیناً یہ لوگ تجارتی سامان لے کر افریقی ملک جارہے تھے۔
لیکن جیسے ہی لفٹ نیچے آئی انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سامان اٹھاکر دھڑادھڑ لفٹ میں لوڈ کرنا شروع کردیا اور جیسے ہی سامان اِن لوڈ کرکے لفٹ نیچے آئی باقی ماندہ سامان بھی لوڈ کردیا اور ساتھ بھی کچھ لوگ چلے گئے۔ ابھی بھی کچھ سامان اور خواتین باقی تھیں جیسے ہی لفٹ نیچے آئی وہ سامان لوڈ کرکے چلی گئیں۔ چائے والا لڑکا ہم سے کہنے لگا آپ لوگوں سے معذرت ہے یہ لوگ پہلے بھی آئے تھے اور ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہ رات کو شور بھی بہت کرتے ہیں آپ کے فلور پر ان کے پاس دو روم ہیں کل صبح چیک آؤٹ ہے ہماری مینجمنٹ نے کہا ہے کہ اب ان کو روم دینے سے معذرت کرنی ہے۔ ابھی ہم بات ہی کررہے تھے کہ لفٹ واپس آگئی اس میں سے ایک لمبی تڑنگی عورت نکلی جو مجھے تو اس گروپ کی ہیڈ لگ رہی تھی کیوںکہ یہی عورت صوفے پر بیٹھی ہدایات دے رہی تھی۔ وہ لفٹ سے اترتے ہی سیدھی ریسیپشن پر گئی اور زور زور سے چلانے لگی۔ معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہی ہے یہ کیسا ہوٹل ہے یہاں لائٹیں تو جل ہی نہیں رہی ہیں۔
ریسیپشن نے چائے والا لڑکا اس کے ساتھ بھیج دیا۔ لفٹ میں وہی عورت، میں اور عزیز اور وہ لڑکا تھے۔ ترکی میں تمام ہوٹلز میں جب ہم دروازہ کھولتے ہیں تو چابی نکال کر سائیڈ میں لگا دیتے ہیں تو کمرے کی لائٹیں روشن ہوجاتی ہیں۔
اب جو ہم نے جاکر دیکھا تو سارے مرد عورتیں سامان سمیت کوری ڈور میں موجود تھے۔ کمروں کے دروازے کھلے تھے اور کوئی بھی اندر نہیں جارہا تھا۔ لڑکے نے دروازے کے پاس لگا ہولڈر انہیں دکھایا تو وہ ہی ہی کرکے ہنسنے لگے جس میں چابی لگانے سے لائٹ جل جاتی ہے۔ اب اندازہ ہوا کہ یہ معصوم سے لوگ ہیں صرف ان کے جسم بڑے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ پہلے بھی آ چکے ہوں اور ان کو یہ نہ معلوم ہو کہ ہولڈر کہاں ہے۔
کافی دیر تک تو کمروں میں ہلچل رہی پھر خاموشی چھاگئی۔ ہم جب کھانا کھانے باہر جانے لگے تب بھی خاموشی تھی اس کا مطلب تھا سب سوچکے تھے۔ یہ یک سرائے کا علاقہ تھا اور بہت خوب صورت تھا۔ مگر یہاں افریقی بہت تھے۔ ہم جہاں کھانا کھارہے تھے وہاں بالکل شیشے کی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف دو افریقی اور دو ٹرکش لوگ بیٹھے تھے۔ عزیز نے میری توجہ دلائی اماں ایسا فلموں میں دکھایا جاتا ہے جب کوئی ڈیلنگ ہورہی ہوتی ہے۔ میز کے نیچے سے ایک بندہ گھڑی دیتا ہے دوسرا لے لیتا اور اسے چیک کرتا جاتا، دوسرا دیتا وہ چیک کرتا اور واپس کرتا ۔ اشاروں اشاروں میں باتیں ہورہی تھیں۔
میں نے عزیز سے کہا اب ادھر مت دیکھنا نہ جانے کیا معاملہ ہے مگر یہ معاملہ زیادہ دیر نہیں چلا نہ جانے کہاں سے پولیس نمودار ہوئی۔
خاموشی سے آکر کھڑے ہوئے اور پھر چارو ں کو اپنے ساتھ لے کر سامنے کھڑی کاروں میں لے جاکر بٹھا دیا۔ صرف ایک نے کچھ مزاحمت کی کوشش کی جس کا ہاتھ پکڑ کر ایک پولیس والے نے موڑ دیا۔ یہ وہ پولیس مین تھے جو دو دو کی تعداد میں گشت کرتے تھے۔ اب زیادہ آگئے تھے۔ سب کی کمر میں گن لگی ہوئی تھی۔
آس پاس کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی کیوںکہ ہم کھڑکی کے نزدیک تھے اس لیے ہم نے دیکھ لیا۔ میں نے عزیز سے کہا ان کو خبر کیسے ہوئی۔ عزیز کہنے لگا مجھے تو لگتا ہے ہوٹل کے ریسیپشن سے اطلاع دی گئی ہوگی کیوںکہ وہ مسلسل ادھر ہی دیکھ رہا تھا یا پھر پولیس کو پہلے سے خبر ہوگی اور وہ ان کے پیچھے ہوں گے واقعی یہ استنبول پولیس کا کارنامہ ہے کہ جرم ہونے سے پہلے ہی پکڑلیا۔
جب ہم ہوٹل واپس آئے تو دونوں طرف کمروں میں سکون تھا مگر صبح سویرے ہماری آنکھ دھڑ دھڑ کی آواز سے کھلی۔ نیند میں تو ایسا لگ تھا کہ جیسے کسی ٹرک میں سامان لوڈ کیا جارہا ہے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے شورشرابے کے بعد سکون ہوگیا۔ میں تو گھبراکر بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی تھی البتہ عزیز تو اتنا نیند میں تھا کہ اس نے لیٹے لیٹے پوچھا کہ کیا ہورہا ہے، پھر بے خبر ہوگیا۔ صبح کے ہنگامے کے بعد تو کافی دیر بعد آنکھ لگی۔ یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ گیارہ بجے آنکھ کھلی ناشتے کا وقت تو ختم ہوچکا تھا۔ عزیز کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو کافی دیر بعد بارآور ہوئی کیوںکہ آج ہمارا ترکی میں آخری دن تھا۔ اس لیے شاپنگ بھی کرنی تھی اور پیکنگ بھی کرنی تھی۔ جتنی دیر میں عزیز تیار ہوا میں نے صرف ضروری سامان باہر رکھا باقی سب پیک کردیا کچھ بسکٹ ہمارے پاس تھے۔ تیار ہوکر جب ڈائننگ روم میں آئے تو چائے کے ساتھ وہی کھالیے اب ہمیں نکلنا تھا۔ ریسیپشن پر نادر موجود تھا مگر آج اس کی ڈیوٹی تھی۔ عزیز نے اس کے لیے کچھ چاکلیٹ اور بسکٹ لیے تھے اور پاکستان سے لائی ہوئی بنیان دی۔
نادر نے کہا تم لوگ کب تک واپس آؤگے میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی انتظار کروں گا اور مل کر ہوسٹل جاؤں گا۔
یہاں ہمارے سولہواں پڑاؤ کا اختتام ہوتا ہے۔ اگلا پڑاؤ ہمارا آخری پڑاؤ ہوگا اور واپسی کا سفر بھی ہوگا۔
''اور مشرق و مغرب سب اﷲ ہی کا ہے''
(سورۃ البقرہ آیت نمبر155)
اب ہم ترکی کے مشرقی حصے سے مغربی حصے میں موجود تھے، جس کے لیے ترکی کا دعویٰ ہے کہ یہ مغربی حصہ ہے تاہم یورپ اسے یورپ میں شامل کرنے پر تیار نہیں ہے، مگر ترکی کے کچھ لوگ خود کو یورپین ہی سمجھتے ہیں، خاص طور پر نوجوان طبقے کے کچھ افراد ان کے لباس و طور طریقے بالکل یورپین ہیں۔ بعض اوقات تو ہم خالص مشرقی اطوار کے افراد جو لوگوں کو دیکھنے کی بجائے کبھی سمندر میں تیرتی کشتیاں دیکھنے لگتے ہیں، کبھی بسوں کے نام اور نمبر دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب نوجوان اولاد ساتھ ہو تو ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔
مگر اتفاق کی بات ہے ہمیں یہ مناظر یک سرائے کی طرف نظر نہیں آئے۔ یہ سب میٹرو ٹرین اسٹیشن، بس اسٹاپ اور سمندر کنارے ہی نظر سے گزرے۔
استنبول کا یہ طبقہ مغربی تقلید میں خود کو یورپین ہی سمجھتا ہے کیوںکہ استنبول ترکی کا چہرہ ہے۔ اس لیے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ تمام ٹرکش قوم ایسی ہی ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے جس طرح فلموں اور ڈراموں میں ہمارے ملک میں دکھایا جاتا ہے بالکل ایسے ہی وہاں کے ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے جو خواتین اسکرٹ اور سر کھول کر رکھتی ہیں ان کے لیے مقدس مقامات پر اسکرٹ اور حجاب رکھے ہوتے ہیں جو وہ پہن کر مقدس جگہوں پر جانے کی اجازت ہے اکثر خواتین حجاب لیتی ہیں مگر نقاب کا رواج نہیں ہے۔
ترکی سیکولر ملک ہے۔ مذہبی پابندیاں نہیں ہیں اور ہر شخص اپنے معاملات میں آزاد ہے۔ ہم یک سرائے پر جس بس سروس سے آئے تھے وہ دوسری سڑک پر تھا۔ ہم دوسری طرف تھے یہاں سے بس سروس اور ٹرام سروس دونوں ہی چلتی ہیں۔ ہم جب کھانا کھانے جانے لگے تو جیسے ہی ریسیپشن پر آئے تو وہاں نادر موجود تھا۔ وہ اپنا کمپیوٹر کھولے کام کررہا تھا۔
ہم کو دیکھتے ہی اس نے کمپیوٹر بند کیا اور ہمارے پاس آگیا۔ میرا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوگیا تھا۔ میں ہوسٹل جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتا تھا کیوںکہ کل میری یونیورسٹی میں کافی دیر تک کی کلاسز ہیں۔ کل میں تم سے مل نہیں پاتا۔ عزیز نے پوچھا ابھی تم فری ہو ہاں ابھی تو فری ہوں۔ پھر ہمارے ساتھ چلو۔ اچھا ہوگا کچھ راستے وغیرہ سمجھ لیں گے اور کھانا بھی کھالیں گے۔
پھر ہم ہوٹل سے باہر آگئے۔ دکانیں وغیرہ تو بند ہوچکی تھیں مگر ہوٹل ریسٹورینٹ اور جن دکانوں میں گروسری اور کھانے پینے کی اشیاء مل رہی تھیں وہ تمام کھلی ہوئی تھیں۔ استنبول تو مکمل طور پر ہوٹل، ریسٹورینٹ اور کھانے پینے کی دکانوں سے پٹا پڑا ہے۔ کوئی گلی، کوئی سڑک ایسی نہیں کہ جہاں کھانا چائے نہ ملے۔ ہم کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔
اس لیے جیسے ہی ہم ہوٹل سے نکلے تو پہلی گلی میں ہی مڑگئے۔ یہ گلی پہلی دکان جو بند تھی اس کے ساتھ ہی تھی اور اونچائی کی سمت جارہی تھی اور چار چھے دکانوں کے بعد پھر ایک گلی میں مڑگئی تھی۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کرسیاں اور نیچی میزیں سڑک کنارے لگی تھیں یہ ایک چھوٹا چائے خانہ تھا، بالکل ٹرکش انداز کا تھا۔ ہم وہ جگہ چھوڑ کر آگے آگئے تو ادھر لائن سے ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ سب اِن ڈور اور آؤٹ ڈور دونوں طرح کے تھے۔
عزیز نے کہا اماں بہت کنجوسی کرلی اب ان دو دنوں میں بچے ہوئے سب پیسے اڑا دیں گے۔ ترکی کے لیرا ہمارے ملک میں کس کام کے ہوں ۔ میں نے کہا ہولا ہاتھ رکھ بیٹا ابھی تو بہت شاپنگ کرنی ہے ۔ نادر کو ہماری اس گفتگو میں صرف کنجوس سمجھ میں آیا۔ اس نے دو دفعہ یہ لفظ دہرایا پھر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم کو انگریزی میں بات کرنی چاہیے تھی۔ نادر نے کہا کہ یہ لفظ میری دادی بولتی تھیں اس کا مطلب ہے کم پیسے خرچ کرنے والا۔
اوہو یہ تو بہت زبردست بات ہے اردو کے کئی الفاظ تو ٹرکش زبان میں بھی بولے جاتے ہیں جیسے دوست، لشکر وغیرہ کیوںکہ اردو ایک لشکری زبان ہے، دوسری زبانوں سے مل کر بنی ہوئی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا۔ نادر کہنے لگا اس کا مطلب ہے ازبکی زبان کے بھی بہت سے الفاظ ہوں گے۔
ہاں ضرور ہوں گے کیوںکہ ازبکستان ہم سے بہت قریب ہے۔ میں نے کہا تو وہ کہنے لگا اور دل سے بھی قریب ہے۔ اتنے میں کھانا آگیا۔ کھانے میں ٹرکش کباب، پلاؤ، روٹی اور سوپ تھا۔ کھانا بہت مزے کا تھا۔ جب ہم چائے پی رہے تھے تو نادر نے پروفیسر یوسف کا نمبر ملایا وہ فوری طور پر ویڈیو لنک پر آگئے اور عایلا اور اپنی بہن کو بھی بلالیا وہ تو عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتیں تھیں وہ ساری گفتگو کے دوران صرف ہنستی رہیں اور عربی میں کہتی رہی کہ مجھے تم لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اب تم لوگ اردن آنا اور میرے گھر میں قیام کرنا۔
پروفیسر یوسف نے بتایا کہ میں نے نادر کے پیپر داخل کیے ہیں تم امتحان ختم ہوتے ہی آجانا ان سے کافی دیر بات ہوتی رہی۔ ان کی بہن نے کہا تم کو اتنے اچھے دوست ملے ہیں اور مجھے ایک بہن مل گئی وہ کہنے لگی میں تمہارے نمبر پر بات کروں گی انشاء اﷲ اور ہم جلد ملیں گے۔
صبح نادر کی یونیورسٹی تھی اور ہمارا مقصد بھی زیادہ دیر باہر رہنے کا نہیں تھا، جو تھوڑی بہت شاپنگ کرنی تھی وہ بھی کل ہی کرنی تھی۔ نادر نے ہم کو بتادیا تھا کہ تم لوگ گرانڈ بازار سے شاپنگ مت کرنا وہ بہت مہنگا ہے۔ شاپنگ صرف Spice bazar سے کرنا Spice bazar فاتح مسجد کے بالکل ساتھ ہی تھا۔
ہم نے ابھی تک فاتح مسجد کا بھی وزٹ نہیں کیا تھا۔ اس میں ٹرکش ڈیلائٹ اور چائے شامل تھی۔ ہمارے استنبول کے پہلے والے Historia hotleکی میزبان نے ہم کو چائے کے برانڈ کے مطابق بتادیا تھا کہ وہ کون سی کمپنی کا ہے اور کون سی دکان سے ملے گا جب ہم Historia hotle سے نکل کر بس ٹرمینل کی طرف آتے ہیں تو یہ بازار راستے میں پڑتا تھا۔ ہم نے ایک بار وہاں کا چکر بھی لگایا تھا، اس لیے ہمیں بھی قیمتوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔ یہ بالکل کراچی کے بوہری بازار کے اسٹائل کا تھا۔
نادر نے گرینڈ بازار اور فاتح جانے کے لیے بسوں کے نمبر وغیرہ بھی بتا دیے تھے۔ عزیز کو بھی اس عرصے میں بسوں کے روٹ اور ٹرام کے روٹ کا اندازہ ہوگیا تھا۔ آج ہمیں گرینڈ بازار کا چکر لگانا تھا۔ گرینڈ بازار استنبول کا سب سے بڑا بازار ہے اور مکمل کورڈ بازار ہے۔ یہ بہت قدیم بازار ہے۔ کبھی یہاں کوئی چاردیواری رہی ہوگی مگر اب صرف اس بازار کے داخلی دروازے موجود ہیں جو بہت قدیم طرز پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ بازار ایک بھول بھلیاں کی طرح ہے، اگر ہم ایک دروازے سے داخل ہوں تو گھومتے پھرتے جب باہر نکلیں گے تو وہ کوئی اور علاقہ ہوگا۔ اس لیے داخلی دروازوں کے نمبر ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔
اس بازار میں بہت رش تھا۔ زیادہ تر یہاں یورپی اور آسٹریلین سیاح شاپنگ کررہے تھے۔ عرب بھی خاصی بڑی تعداد میں تھے تو قیمتیں بھی اسی حساب سے تھیں۔ کافی اور ٹی شاپ بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ یہاں بھی قیمتیں ان کے حساب سے تھیں۔ ہمیں داخل ہوتے وقت اندازہ نہیں ہوا کہ کم از کم نمبر ہی دیکھ لیتے۔ ہم جب دوسرے دروازے سے باہر آئے تو علاقہ ہی دوسرا تھا اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ساری دکانیں ایک طرز پر بنی ہوئی ہیں۔ ہم جس دروازے سے باہر آتے دکانیں تو ایک جیسی ہوتی مگر علاقہ بدلا ہوا ہوتا۔
آخر کار تھک کر ہم ایک دکان کے باہر رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے یہ کارنر کی دکان تھی۔ چائے اور میوہ جات اور مختلف صابن (ترکی میں صابن بھی بہت قسم کے ہوتے ہیں۔ کھیرے، گلاب، بادام اور نہ جانے کتنے اقسام) اور چائے بھی اسٹرابیری، انار، گلاب، جڑی بوٹیوں وغیرہ وغیرہ مجھے تو نام بھی یاد نہیں رہنے کی تھیں۔ خاصی بڑی دکان تھی۔
ہاں یاد آیا شہد کی کئی اقسام مٹھائیوں اور پھلوں سے بنی ہوئی ٹرکش ڈیلائٹ، یہ ایک بڑی دکان تھی اور لدالد سامان سے بھری ہوئی، باہر کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی دکان دار نے ہمارے لیے انار کی چائے بناکر سامنے رکھ دی یہاں یہی طریقہ ہے آپ جیسے ہی کسی دکان میں داخل ہوں دکان دار پہلے پیپر گلاس میں آپ کو چائے بناکر پیش کرے گا بے شک آپ اس سے کچھ نہ خریدیں۔ ابھی ہم ایک ایسی ہی دکان سے اسٹرابیری کی چائے پی کر آئے تھے۔ یہ دکان شامی لوگوں کی تھی وہاں ایک ہی نقش و نگار کے کوئی پانچ لڑکے کام کررہے تھے۔ جب ہم دکان کے اندر آئے تو اس نے ہم سے چائے کے ذائقے کے مطابق پوچھا۔
واقعی مزے دار چائے تھی ہم نے اسٹرابیری کی چائے کا پیکٹ لے لیا تھا یہاں سے انار کی چائے کا پیکٹ لیا تو وہ کہنے لگا ہماری پاس ایک چائے تو نیند لانے والی ہے اور ایک اعصاب کو سکون پہنچانے والی ہے۔
میں نے کہا ایسے تو رہنے دو اگر ہم عادی ہوگئے تو ہر ایک دو مہینے بعد استنبول کا چکر لگانا پڑے گا۔ میری بات سن کر وہ شامی ہنسنے لگا۔ ایسا کچھ نہیں ہے میم بس اعصاب پرسکون ہوجاتے ہیں۔ لوگ تو ہمارے پاس سے کئی کئی پیکٹ لے جاتے ہیں لیکن میں تم کو ایک چھوٹا پیکٹ مفت میں ضرور دوں گا۔
میں نے کہا دے دو ''مفت کی تو قاضی کو بھی حلال ہوتی ہے'' یہ بات میں نے اردو میں کہی تو وہ عزیز کے پیچھے پڑگیا جو بات میم نے کہی ہے اس کا ترجمہ کرکے بتاؤ جب عزیز نے اسے ترجمہ کرکے بتایا تو وہ اچھل پڑا same same ہمارے شام میں بھی ایسے ہی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا اب اسی خوشی میں ایک جڑی بوٹیوں والی چائے پی لو، اس سے جسم چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ اس نے چائے بناکر دی تو ہم نے اس سے ایک پیکٹ خرید لیا۔ یہ طریقہ اپنی چیز بیچنے کا تھا مگر محبت اور خوش گوار دوستانہ انداز سے وہ لوگ ہر گاہک کو ایسے ہی ڈیل کرتے ہیں جیسے آپ ان کے پہلے اور آخری گاہک ہیں۔
ہم نے اس شامی لڑکے سے کہا، اب تم ہم کو باہر جانے کا راستہ بتادو جہاں ٹرام اسٹیشن ہے اوہو تم لوگ گیٹ نمبر5 پر ہو اور ٹرام اسٹیشن کے پاس گیٹ نمبر2 ہے۔ اس نے ہمیں جانے کا راستہ بتا دیا۔ یہ ہماری اس گرینڈ بازار سے معمولی سی شاپنگ تھی۔
جب ہم بازار سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔ عزیز نے کہا اماں توپ کاپی چلتے ہیں۔ ہاں بالکل ہم نے ابھی تک کوئی میوزیم نہیں دیکھا۔ عزیز نے گوگل کھول کر نقشہ دیکھا۔ یہاں بس اور ٹرام دونوں کے روٹ موجود تھے۔ لیکن جب ہم توپ کاپی پہنچے تو وہاں تو کئی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک لڑکے سے پوچھا جو کوئی یورپین تھا کہ تم کتنی دیر سے لائن میں کھڑے ہو اس نے گھڑی دیکھ کر بے زاری سے کہا opp 35 to 40 mints اور بے زاری سے منہ دوسری طرف کرلیا۔ چلو عزیز ہمیں توپ کاپی دیکھنے نہیں جانا ابھی یہ لڑکا اتنی دیر سے کھڑا ہے کم از کم ہم کو بھی اتنی ہی دیر لگے گی۔
عزیز کہنے لگا مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ کچھ کھالیتے ہیں پیٹ بھرے تو دماغ سوچنے کے قابل ہو۔ واقعی دما غ بھی پیٹ کے ساتھ کچھ خالی خالی لگ رہا تھا۔ اسی خالی دماغی کے ساتھ ہم جب اسٹاپ پر آئے تو کسی غلط بس میں بیٹھ گئے۔ حالاںکہ عزیز نے بس کا نمبرGPR سے خود چیک کیا تھا۔
ہم جس وقت بس میں بیٹھے تھے تو ڈیڑھ پونے دو بجے کا وقت ہوگا مگر بس نے ہمیں پہلے تو پل کراس کیا اور تقسیم کے علاقے یعنی مشرقی حصے کی طرف آئی پورا مشرقی حصہ گھمایا پھر دوبارہ پل کراس کیا اور دوسری طرف کا پل کراس کرکے انا صوفیہ اور مسجد سلطان کی طرف آگئی۔ اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ عزیز نے کہا اماں یہاں اتر جاتے ہیں یہاں سے یک سرائے کے لیے بس آسانی سے مل جائے گی مجھے راستہ بھی معلوم ہے ورنہ ٹرام سے چلیں گے۔
میں نے کہا ٹھیک ہے مگر میری تو بس میں بیٹھے بیٹھے حالت خراب ہورہی تھی۔
ہم بس سے اتر کر وہاں پارک میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ عزیز نے ٹک شاپ سے دو گلاس جوس اور وہاں ہی ایک بھٹے بیچنے والے سے اپنے لیے بھٹا اور میرے لیے بھنے ہوئے کچے اخروٹ لے لیے جو کھانے کے بعد طبیعت کچھ بحال ہوئی ہم وہاں تقریباً ایک گھنٹے بیٹھے رہے۔ ترکی میں جگہ جگہ اس طرح کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ کچھ اسٹالز پر بھٹے اور بھنے ہوئے اخروٹ اور کچھ اسٹالز پر ڈارک براؤن کلر کی رنگ نما روٹی بھی ملتی ہے جو کھانے بہت مزے دار ہوتی ہے۔
لیکن کبھی بھی اسٹال کے باہر ہمیں ایک چھلکا بھی پڑا نظر نہیں آتا۔ اسٹال والوں کے پاس ایک باکس لگا ہوتا ہے وہ تمام چھلکے اس میں ڈالتے جاتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک برش اپنے اسٹال سے نکالتے ہیں اور اپنے آس پاس کو صاف کردیتے ہیں۔ یہی طریقہ جوس کے اسٹالز کا ہے۔ ہمیں وہاں کہیں بھی مکھی اور دوسرے کیڑے مکوڑے نظر نہ آئے ایک تو حلال کھانا اور صاف ستھرا۔
صاف جگہ بے شک بڑی ہو یا چھوٹی، وہاں ہمیں ہر جگہ لوگ کھاتے پیتے نظر آئے مگر کوئی گلاس، پلیٹ یا تھیلی سڑک پر پڑی نظر نہ آئی جو شخص بھی کچھ استعمال کرتا یا کھاتا پیتا وہ ڈس بن میں کچرا ڈالتا، جو ہاکر تھے وہ بھی گند نہیں پھیلارہے تھے۔ میں نے پھر موازنہ شروع کردیا تھا اس بار تو عزیز کو بھی کوئی اختلاف نہ تھا کہ اماں آپ تو ہر جگہ موازنہ شروع کردیتی ہیں اگر ہم صرف ٹھیلے والوں کو پابند کردیں کہ کچرا نہ پھیلائیں تو آدھا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ اسلام نے تو ہماری بنیادی تربیت کی بنیاد ہی صفائی پر رکھی ہے۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔
ترکی والوں نے اسلام کا یہ بنیادی اصول سمجھ لیا ہے۔ ہم ابھی تک محروم ہیں۔ یہاں بیٹھنا بہت اچھا لگ رہا تھا مگر ابھی ایک پڑاؤ اور باقی تھا مگر ادھر جانے سے پہلے ہمیں ٹرام لینی تھی اور ٹرام اسٹیشن کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا تھا۔ یہاں ایک میوزیم تھا جو فاتح اور اناصوفیہ کے متعلق تھا مگر نہ جانے کیوں میوزیم جانے کا دل نہیں چاہا کچھ دل بھی اداس تھا۔ ہم جس پاتھ وے پر چل رہے تھے ہمارے سامنے دو لڑکیاں چل رہی تھیں جو مکمل طور پر مغربی لباس میں تھیں یہاں ایک چھوٹا سا گیٹ تھا جو کھلا ہوا تھا ساتھ میں ایک تختی نصب تھی۔ لڑکیوں نے اپنے ہینڈ بیگ کھولے اور اپنے اپنے اسکارف نکال کر سر پر جمائے اور وہیں کھڑے کھڑے اپنے لباس کے اوپر ایک نے عبایا نما کوٹ اور دوسری نے اسکرٹ پہن لیا اور دونوں اندر چلی گئیں۔ ہم نے تختی پر لکھی عبارت کو پڑھا یہ فیروزآغا مسجد تھی۔ یہ بھی بہت تاریخی مسجد تھی، جو ۱۹۴۱ میں تعمیر ہوئی تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ نماز کا وقت ہورہا تھا۔ آپ پہلے نماز پڑھیں گی کہ میں چلاجاؤں۔ تم پڑھ کر آجاؤ جب تک میں باہر بینچ پر بیٹھتی ہوں۔
میں ایک خالی بینچ پر بیٹھ گئی یہاں دوسری بینچ پر ایک عورت اپنے چھوٹے بیٹے اور پرام والے بچے کے ساتھ بیٹھی تھی لیکن میاں کے آتے ہی جلدی سے واش رومز کی طرف چلی گئی لیکن وضوخانہ باہر تھا۔ اس نے جلدی جلدی وضو کیا۔
میں نے سوچا عصر اور مغرب کے درمیان وقت کم ہوتا ہے اس لیے میں بھی وضو کرلیتی ہوں لیکن پھر میں وضو کرکے مسجد کے اندر آگئی یہ بڑی سادہ سی مسجد تھی مردوں کی صفیں سامنے تھیں کو کافی بھری ہوئی تھیں میں خواتین والے حصے میں آگئی یہاں بھی بیس کے قریب خواتین موجود تھیں۔ میں تو نماز ختم کرکے باہر آگئی مگر عزیز تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ اماں ذرا یہ ویڈیو تو دیکھیں اس نے مسجد کے اندر کی ویڈیو بنائی تھی کچھ دنوں پہلے ایک بلی کی ویڈیو وائرل ہورہی تھی جس میں ایک بلی مولوی صاحب کے کاندھے پر چڑھی ہوئی تھی ۔ اس ویڈیو میں ایک کالی بلی مولوی صاحب کے مائیک کے تار سے کھیل رہی تھی اور وہ اسے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ ترکی میں ہوٹلوں، دکانوں، مارکیٹوں میں بہت بلیاں ہوتی ہیں اور وہاں انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا ہے۔ اکثر دیکھاگیا ہے کہ بلی تو مزے سے کرسی پر سورہی ہے اور دکان میں موجود شخص کھڑا ہوا ہے مگر اسے وہ کرسی سے نہیں ہٹائے گا۔
یک سرائے جانے کے لیے ہم نے ٹرام لے لی تھی۔ مجھے میٹرو اور بس سے زیادہ ٹرام کا سفر اچھا لگتا تھا۔ ٹرام اسٹیشن بھی ہمارے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم نے جو کچھ ہلکا پھلکا کھایا تھا وہی کافی تھا۔ ہمارا ہوٹل جاکر آرام کا موڈ تھا مگر جب ہم ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ لفٹ میں ہوٹل کا سامان رکھا جارہا ہے۔ ابھی سامان رکھنے کے بعد سامان اوپر جاکر اتارا جائے گا تو پندرہ بیس منٹ تو لگ جائیں گے۔ ہم سامنے بچھے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ایک لڑکے نے چائے بناکر سامنے رکھ دی۔
تھوڑا فاصلے پر کچھ افریقی عورتیں اور مرد موجود تھے جو شاپنگ بیگ میں سے سامان نکال کر بڑے بڑے کارٹن میں پیک کررہے تھے۔ اس وقت وہاں کوئی آٹھ نو افریقی موجود تھے۔ یقیناً یہ لوگ تجارتی سامان لے کر افریقی ملک جارہے تھے۔
لیکن جیسے ہی لفٹ نیچے آئی انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سامان اٹھاکر دھڑادھڑ لفٹ میں لوڈ کرنا شروع کردیا اور جیسے ہی سامان اِن لوڈ کرکے لفٹ نیچے آئی باقی ماندہ سامان بھی لوڈ کردیا اور ساتھ بھی کچھ لوگ چلے گئے۔ ابھی بھی کچھ سامان اور خواتین باقی تھیں جیسے ہی لفٹ نیچے آئی وہ سامان لوڈ کرکے چلی گئیں۔ چائے والا لڑکا ہم سے کہنے لگا آپ لوگوں سے معذرت ہے یہ لوگ پہلے بھی آئے تھے اور ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہ رات کو شور بھی بہت کرتے ہیں آپ کے فلور پر ان کے پاس دو روم ہیں کل صبح چیک آؤٹ ہے ہماری مینجمنٹ نے کہا ہے کہ اب ان کو روم دینے سے معذرت کرنی ہے۔ ابھی ہم بات ہی کررہے تھے کہ لفٹ واپس آگئی اس میں سے ایک لمبی تڑنگی عورت نکلی جو مجھے تو اس گروپ کی ہیڈ لگ رہی تھی کیوںکہ یہی عورت صوفے پر بیٹھی ہدایات دے رہی تھی۔ وہ لفٹ سے اترتے ہی سیدھی ریسیپشن پر گئی اور زور زور سے چلانے لگی۔ معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہی ہے یہ کیسا ہوٹل ہے یہاں لائٹیں تو جل ہی نہیں رہی ہیں۔
ریسیپشن نے چائے والا لڑکا اس کے ساتھ بھیج دیا۔ لفٹ میں وہی عورت، میں اور عزیز اور وہ لڑکا تھے۔ ترکی میں تمام ہوٹلز میں جب ہم دروازہ کھولتے ہیں تو چابی نکال کر سائیڈ میں لگا دیتے ہیں تو کمرے کی لائٹیں روشن ہوجاتی ہیں۔
اب جو ہم نے جاکر دیکھا تو سارے مرد عورتیں سامان سمیت کوری ڈور میں موجود تھے۔ کمروں کے دروازے کھلے تھے اور کوئی بھی اندر نہیں جارہا تھا۔ لڑکے نے دروازے کے پاس لگا ہولڈر انہیں دکھایا تو وہ ہی ہی کرکے ہنسنے لگے جس میں چابی لگانے سے لائٹ جل جاتی ہے۔ اب اندازہ ہوا کہ یہ معصوم سے لوگ ہیں صرف ان کے جسم بڑے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ پہلے بھی آ چکے ہوں اور ان کو یہ نہ معلوم ہو کہ ہولڈر کہاں ہے۔
کافی دیر تک تو کمروں میں ہلچل رہی پھر خاموشی چھاگئی۔ ہم جب کھانا کھانے باہر جانے لگے تب بھی خاموشی تھی اس کا مطلب تھا سب سوچکے تھے۔ یہ یک سرائے کا علاقہ تھا اور بہت خوب صورت تھا۔ مگر یہاں افریقی بہت تھے۔ ہم جہاں کھانا کھارہے تھے وہاں بالکل شیشے کی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف دو افریقی اور دو ٹرکش لوگ بیٹھے تھے۔ عزیز نے میری توجہ دلائی اماں ایسا فلموں میں دکھایا جاتا ہے جب کوئی ڈیلنگ ہورہی ہوتی ہے۔ میز کے نیچے سے ایک بندہ گھڑی دیتا ہے دوسرا لے لیتا اور اسے چیک کرتا جاتا، دوسرا دیتا وہ چیک کرتا اور واپس کرتا ۔ اشاروں اشاروں میں باتیں ہورہی تھیں۔
میں نے عزیز سے کہا اب ادھر مت دیکھنا نہ جانے کیا معاملہ ہے مگر یہ معاملہ زیادہ دیر نہیں چلا نہ جانے کہاں سے پولیس نمودار ہوئی۔
خاموشی سے آکر کھڑے ہوئے اور پھر چارو ں کو اپنے ساتھ لے کر سامنے کھڑی کاروں میں لے جاکر بٹھا دیا۔ صرف ایک نے کچھ مزاحمت کی کوشش کی جس کا ہاتھ پکڑ کر ایک پولیس والے نے موڑ دیا۔ یہ وہ پولیس مین تھے جو دو دو کی تعداد میں گشت کرتے تھے۔ اب زیادہ آگئے تھے۔ سب کی کمر میں گن لگی ہوئی تھی۔
آس پاس کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی کیوںکہ ہم کھڑکی کے نزدیک تھے اس لیے ہم نے دیکھ لیا۔ میں نے عزیز سے کہا ان کو خبر کیسے ہوئی۔ عزیز کہنے لگا مجھے تو لگتا ہے ہوٹل کے ریسیپشن سے اطلاع دی گئی ہوگی کیوںکہ وہ مسلسل ادھر ہی دیکھ رہا تھا یا پھر پولیس کو پہلے سے خبر ہوگی اور وہ ان کے پیچھے ہوں گے واقعی یہ استنبول پولیس کا کارنامہ ہے کہ جرم ہونے سے پہلے ہی پکڑلیا۔
جب ہم ہوٹل واپس آئے تو دونوں طرف کمروں میں سکون تھا مگر صبح سویرے ہماری آنکھ دھڑ دھڑ کی آواز سے کھلی۔ نیند میں تو ایسا لگ تھا کہ جیسے کسی ٹرک میں سامان لوڈ کیا جارہا ہے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے شورشرابے کے بعد سکون ہوگیا۔ میں تو گھبراکر بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی تھی البتہ عزیز تو اتنا نیند میں تھا کہ اس نے لیٹے لیٹے پوچھا کہ کیا ہورہا ہے، پھر بے خبر ہوگیا۔ صبح کے ہنگامے کے بعد تو کافی دیر بعد آنکھ لگی۔ یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ گیارہ بجے آنکھ کھلی ناشتے کا وقت تو ختم ہوچکا تھا۔ عزیز کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو کافی دیر بعد بارآور ہوئی کیوںکہ آج ہمارا ترکی میں آخری دن تھا۔ اس لیے شاپنگ بھی کرنی تھی اور پیکنگ بھی کرنی تھی۔ جتنی دیر میں عزیز تیار ہوا میں نے صرف ضروری سامان باہر رکھا باقی سب پیک کردیا کچھ بسکٹ ہمارے پاس تھے۔ تیار ہوکر جب ڈائننگ روم میں آئے تو چائے کے ساتھ وہی کھالیے اب ہمیں نکلنا تھا۔ ریسیپشن پر نادر موجود تھا مگر آج اس کی ڈیوٹی تھی۔ عزیز نے اس کے لیے کچھ چاکلیٹ اور بسکٹ لیے تھے اور پاکستان سے لائی ہوئی بنیان دی۔
نادر نے کہا تم لوگ کب تک واپس آؤگے میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی انتظار کروں گا اور مل کر ہوسٹل جاؤں گا۔
یہاں ہمارے سولہواں پڑاؤ کا اختتام ہوتا ہے۔ اگلا پڑاؤ ہمارا آخری پڑاؤ ہوگا اور واپسی کا سفر بھی ہوگا۔