سانحہ ماڈل ٹاؤن پولیس کی جانب سے متعدد غلطیاں کی گئیں

مقدمہ ضلعی انتظامیہ کی مدعیت میں کیوں درج نہ ہوا؟ پولیس خود شکایت کنندہ کیوں بنی؟

طبی امداد کیلیے لیجاتے ہوئے منہاج القرآن کے بے ہوش کارکن کو پولیس اہلکار لاٹھی ماررہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ماڈل ٹاؤن میں تجاوزات کیخلاف آپریشن کے دوران پولیس کی جانب سے متعدد غلطیاں سامنے آئی ہیں۔


تجاوزات کیخلاف کسی بھی مقام پر آپریشن ہوتا ہے تو اس کیلئے پہلے ڈی سی او پولیس کے سربراہ کو لیٹر لکھ کر مدد طلب کرتا ہے جس کی روشنی میں متعلقہ پولیس کو احکامات جاری کیے جاتے ہیں کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ٹیم کیساتھ ملکرآپریشن کیا جائے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے، ڈی سی او کی طرف سے ٹی ایم او کی نگرانی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور انہیں سرکاری مشینری دیکرمتعلقہ تھانے بھیجا جاتا ہے، متعلقہ افسر آمد کی رپٹ درج کراتا ہے جس میں پولیس سے معاونت کا کہا جاتا ہے۔

پولیس تب بروئے کار آتی ہے جب سرکاری عملے پر تشدد یا مزاحمت کی جائے، سانحہ ماڈل ٹائون میں ٹی ایم او یا کسی اہلکار کی طرف سے نہیں کہا گیا کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا سرکاری مشینری کو کسی نے آگ لگائی ہے اور پولیس اپنا رول ادا کرے، یہاں پولیس نے پہلے ہی مارکٹائی شروع کر دی، آپریشن کے دوران جھگڑے پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہی مدعی بن کر مقدمہ درج کرواتی ہے، مدعی ڈی سی او، ٹی ایم او یا کوئی اور افسر ہوتا تو پھر انکوئری ان سے ہونا تھی لیکن پولیس نے خود مدعی بن کر اپنے آپ کو انکوئری میں شامل کروا لیا۔
Load Next Story