غز ہ میں جنگ بندی ضروری
اسلامی تعاون تنظیم نے غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کو یقینی بنانے اور فلسطینی عوام کے خلاف ہر قسم کی جارحیت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔تنظیم نے انسانی بنیادوں پر طبی امداد، پانی ،بجلی اور غزہ کی پٹی تک فوری امداد پہنچانے کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداری کھولنے پر بھی زور دیا ہے۔
بلاشبہ اسرائیل اور عالمی برادری پر جو دباؤ ڈالا گیا ہے اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا ہے او ریہ او آئی سی کی کاوشوں کا ہی رد عمل ہے کہ غزہ کی صورتحال پر مغربی ممالک اور اسرائیل کے بیانیہ کو دنیا تسلیم نہیں کر رہی اور دنیا بھر میں ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہرے اس کا ثبوت ہیں، اب فلسطین کا مسئلہ مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینا چاہیے۔
دوسری جانب پاکستان ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جنھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔یہ کہنا درست ہے کہ فلسطین کا مسئلہ خالصتاً انسانی ہے اس لیے ہر دردمند شخص کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے۔ فلسطین کے عوام کی جد وجہد ِ آزادی پاکستان کے عوام کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بننے سے پہلے فلسطین کے حق میں قرار داد منظور کی تھی بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی ملّی طور پر ہم اسے عالم ِ اسلام کا ایک مسئلہ سمجھتے آرہے ہیں۔
پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، حکومتی سطح پر پاکستان نے واضح پوزیشن لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، غزہ میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے، نہتے فلسطینیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے، اس لیے اقوام متحدہ غزہ میں سیز فائر کی بھرپور کوشش کرے، غذائی اشیاء روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انسانی حقوق، حریت، فکری آزادی اور قوموں کے حق خود ارادیت کے موجودہ دور میں دنیا میں فلسطینی اور کشمیری ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ خصوصاً فلسطینی خطہ نما عرب میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے 7دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے اپنی ہی سر زمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ان سے ان کی ریاست ہی نہیں بلکہ باعزت اور پروقار زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطینی مظلوموں کی چیخیں عالمی برادری کے دل دہلانے کے لیے ناکافی ہیں؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کی تکالیف سے عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
1947کی فلسطین جنگ اور1967کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993کے اوسلو معاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل ہر چند برس کے وقفے کے بعد کبھی حماس تو کبھی نام نہاد فلسطینی شورش کا بہانہ بنا کر بچے کھچے فلسطین کوبھی تہس نہس کر دیتا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستوں کے دباؤ سے زیادہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاؤ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے پہلی مرتبہ ریاستی مفادات اور عوامی جذبات میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ تمام عرب مقبوضات کے پیش ِ نظر، غزہ سے اس کاانخلا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے، لیکن مسئلہ فلسطین کا اونٹ آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے۔ آج اسے جس کروٹ بٹھایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ذمے داری ہم مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرما ہیں۔
ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ظلم کرنے سے روک نہ سکی۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہونا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟ ہم سب اپنے اپنے سچ کے دائروں میں قید ہیں۔ ہم سب دوہرے انسان ہیں، منتشر ہیں، بٹے ہوئے ہیں۔ ہاں! ہم سب اکائی سے محروم ہیں۔
مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒاورانکی زیر قیادت مسلم لیگ اور دیگر ساتھیوں نے جو موقف اختیار کیا، وہ جمہوری، قانونی، انسانی و اخلاقی لحاظ سے سوفیصد جائز، ٹھوس اور منطقی تھا۔ مسئلہ فلسطین برصغیر کے مسلمانوں کی سیاست سے زیادہ ان کے ڈی این اے میں شامل تھا اور اسی کے سبب حریت پسندی اور مظلومین جہان کی حمایت میں وہ سبھی پیش پیش رہے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے علامہ اقبال ؒکو قومی شاعر قرار دیا اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبالؒ نے یہودی نسل پرستوں کے غیر منطقی دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ:ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق۔ ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم ؒنے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہیے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ اس کے حل کے لیے کوششیں تیز کی جاسکیں۔
مسئلہ فلسطین اور کشمیر کی حمایت بانی پاکستان کے اصولوں کا بنیادی جز ہے۔پاکستانی عوام نے شعوری طور پر فلسطین کے حق میں اپنے تئیں آواز بلند کی،تاہم سرکاری سطح پر باہمی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ فلسطینی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اہل پاکستان نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرکے فلسطینیوں کے حوصلے اور بلند کردیے ہیں۔ پوری دنیا میں حق پرست لوگ اسرائیل امریکا کے خلاف سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں جو فلسطینیوں کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور خارجی فتح کے مترادف ہے۔
قطر اور مصر کی جانب سے غزہ میں نئی جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں، نئی جنگ بندی پربات چیت کے لیے قطری اور اسرائیلی حکام کی گزشتہ دنوں ملاقات بھی ہوئی تھی۔دوسری جانب حماس غزہ میں مکمل جنگ بندی تک یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت کے امکان کو مسترد کرچکی ہے، حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے حملے مکمل رکنے تک یرغمالیوں سے متعلق بات چیت نہیں کریں گے۔
اسرائیلی پولیس نے قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ پر پابندی کے بعد مقبوضہ بیت المقدس کے ہوٹل میں قائم ادارے کے دفتر پر چھاپا مارکر سامان ضبط کرلیا جب کہ الجزیرہ کی ویب سائٹ کو بھی بلاک کردیا گیا ہے۔انٹرنیٹ پر الجزیرہ کے دفتر پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کی گردش کرتی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اسرائیلی پولیس اہلکار کیمروں سمیت دیگر سامان اکھاڑ کر لے جارہے ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیلی حکومت کے احکامات پر سیٹلائٹ اور کیبل فراہم کرنے والوں نے الجزیرہ چینل کی نشریات معطل کردی تھیں، اسرائیلی سیٹلائٹ سروس کے مطابق اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر اسرائیل میں الجزیرہ کی نشریات روک دی گئی ہیں۔ اگر پاکستان کا ذکر کیا جائے تواسرائیل پر پاکستانی موقف بڑا واضح ہے جس کے مطابق فلسطین مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس پر نام نہاد اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جا نب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے عالم اسلام کو واضح مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے کونے کونے تک اس انداز سے پیش کرنا ہوگا کہ اسرائیل آیندہ ایسا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔
بلاشبہ اسرائیل اور عالمی برادری پر جو دباؤ ڈالا گیا ہے اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا ہے او ریہ او آئی سی کی کاوشوں کا ہی رد عمل ہے کہ غزہ کی صورتحال پر مغربی ممالک اور اسرائیل کے بیانیہ کو دنیا تسلیم نہیں کر رہی اور دنیا بھر میں ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہرے اس کا ثبوت ہیں، اب فلسطین کا مسئلہ مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینا چاہیے۔
دوسری جانب پاکستان ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جنھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔یہ کہنا درست ہے کہ فلسطین کا مسئلہ خالصتاً انسانی ہے اس لیے ہر دردمند شخص کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے۔ فلسطین کے عوام کی جد وجہد ِ آزادی پاکستان کے عوام کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بننے سے پہلے فلسطین کے حق میں قرار داد منظور کی تھی بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی ملّی طور پر ہم اسے عالم ِ اسلام کا ایک مسئلہ سمجھتے آرہے ہیں۔
پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، حکومتی سطح پر پاکستان نے واضح پوزیشن لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، غزہ میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے، نہتے فلسطینیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے، اس لیے اقوام متحدہ غزہ میں سیز فائر کی بھرپور کوشش کرے، غذائی اشیاء روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انسانی حقوق، حریت، فکری آزادی اور قوموں کے حق خود ارادیت کے موجودہ دور میں دنیا میں فلسطینی اور کشمیری ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ خصوصاً فلسطینی خطہ نما عرب میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے 7دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے اپنی ہی سر زمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ان سے ان کی ریاست ہی نہیں بلکہ باعزت اور پروقار زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطینی مظلوموں کی چیخیں عالمی برادری کے دل دہلانے کے لیے ناکافی ہیں؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کی تکالیف سے عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
1947کی فلسطین جنگ اور1967کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993کے اوسلو معاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل ہر چند برس کے وقفے کے بعد کبھی حماس تو کبھی نام نہاد فلسطینی شورش کا بہانہ بنا کر بچے کھچے فلسطین کوبھی تہس نہس کر دیتا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستوں کے دباؤ سے زیادہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاؤ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے پہلی مرتبہ ریاستی مفادات اور عوامی جذبات میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ تمام عرب مقبوضات کے پیش ِ نظر، غزہ سے اس کاانخلا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے، لیکن مسئلہ فلسطین کا اونٹ آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے۔ آج اسے جس کروٹ بٹھایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ذمے داری ہم مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرما ہیں۔
ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ظلم کرنے سے روک نہ سکی۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہونا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟ ہم سب اپنے اپنے سچ کے دائروں میں قید ہیں۔ ہم سب دوہرے انسان ہیں، منتشر ہیں، بٹے ہوئے ہیں۔ ہاں! ہم سب اکائی سے محروم ہیں۔
مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒاورانکی زیر قیادت مسلم لیگ اور دیگر ساتھیوں نے جو موقف اختیار کیا، وہ جمہوری، قانونی، انسانی و اخلاقی لحاظ سے سوفیصد جائز، ٹھوس اور منطقی تھا۔ مسئلہ فلسطین برصغیر کے مسلمانوں کی سیاست سے زیادہ ان کے ڈی این اے میں شامل تھا اور اسی کے سبب حریت پسندی اور مظلومین جہان کی حمایت میں وہ سبھی پیش پیش رہے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے علامہ اقبال ؒکو قومی شاعر قرار دیا اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبالؒ نے یہودی نسل پرستوں کے غیر منطقی دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ:ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق۔ ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم ؒنے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہیے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ اس کے حل کے لیے کوششیں تیز کی جاسکیں۔
مسئلہ فلسطین اور کشمیر کی حمایت بانی پاکستان کے اصولوں کا بنیادی جز ہے۔پاکستانی عوام نے شعوری طور پر فلسطین کے حق میں اپنے تئیں آواز بلند کی،تاہم سرکاری سطح پر باہمی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ فلسطینی پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اہل پاکستان نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرکے فلسطینیوں کے حوصلے اور بلند کردیے ہیں۔ پوری دنیا میں حق پرست لوگ اسرائیل امریکا کے خلاف سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں جو فلسطینیوں کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور خارجی فتح کے مترادف ہے۔
قطر اور مصر کی جانب سے غزہ میں نئی جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں، نئی جنگ بندی پربات چیت کے لیے قطری اور اسرائیلی حکام کی گزشتہ دنوں ملاقات بھی ہوئی تھی۔دوسری جانب حماس غزہ میں مکمل جنگ بندی تک یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت کے امکان کو مسترد کرچکی ہے، حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے حملے مکمل رکنے تک یرغمالیوں سے متعلق بات چیت نہیں کریں گے۔
اسرائیلی پولیس نے قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ پر پابندی کے بعد مقبوضہ بیت المقدس کے ہوٹل میں قائم ادارے کے دفتر پر چھاپا مارکر سامان ضبط کرلیا جب کہ الجزیرہ کی ویب سائٹ کو بھی بلاک کردیا گیا ہے۔انٹرنیٹ پر الجزیرہ کے دفتر پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کی گردش کرتی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اسرائیلی پولیس اہلکار کیمروں سمیت دیگر سامان اکھاڑ کر لے جارہے ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیلی حکومت کے احکامات پر سیٹلائٹ اور کیبل فراہم کرنے والوں نے الجزیرہ چینل کی نشریات معطل کردی تھیں، اسرائیلی سیٹلائٹ سروس کے مطابق اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر اسرائیل میں الجزیرہ کی نشریات روک دی گئی ہیں۔ اگر پاکستان کا ذکر کیا جائے تواسرائیل پر پاکستانی موقف بڑا واضح ہے جس کے مطابق فلسطین مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس پر نام نہاد اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جا نب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے عالم اسلام کو واضح مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے کونے کونے تک اس انداز سے پیش کرنا ہوگا کہ اسرائیل آیندہ ایسا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔