اور کتنی چاہیے آزادی
ملک میں پہلی بار آئینی طور پر ہٹائے گئے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے حقیقی آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا جو وہ اپنی حکومت میں ملنے والے پونے چار سال کے اقتدار میں ملک و قوم کو نہیں دے سکے تھے مگر اپنے پہلے کامیاب جلسے کے بعد اپنے حامیوں کو عمومی طور پر مگر اپنے اقتدار میں پہلے اپنے طور پر اور بعد میں پی ٹی آئی کے وفاقی اور پنجاب و کے پی کے اقتدار میں سرکاری طور پر آزادی دی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے ملک کی سیاست میں پہلی بار سوشل میڈیا کو استعمال کیا اور بھرپور استعمال کرکے باقی جماعتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور اقتدار سے محرومی کے دو سال بعد بھی پی ٹی آئی اپنے سوشل میڈیا ونگ کو کامیابی سے استعمال کر رہی ہے جس نے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ان اپنوں کو بھی نہیں بخشا جو پارٹی چیئرمین کے موقف سے معمولی اختلاف کر بیٹھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی سوشل میڈیا ونگ کی ٹیم کے تمام ارکان بھرپور چھترول شروع کر دیتے تھے اور کسی کو نہیں بخشتے تھے۔
پی ٹی آئی میں سوشل میڈیا پر مخالفین کی بے عزتی کے لیے ہزاروں نوجوان سرکاری تنخواہ پر مخالفین کی کامیاب کردار کشی کے ماہر تھے۔ بانی پی ٹی آئی بطور وزیراعظم سرکاری میڈیا سے زیادہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتے اور انھیں ضروری ہدایات دیا کرتے تھے جب کہ پی ٹی آئی حکومت کی زبردست ترجمانی کے لیے انھیں وفاقی، پنجاب و کے پی کے ہتھ چھٹ وزرا بھی میسر تھے اور پنجاب میں انھیں ایسے وزیر بھی ملے ہوئے تھے جو پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کو میڈیا میں وہ جواب دیتے تھے کہ دوسری جماعتوں کے رہنما ان کا منہ دیکھتے رہ جاتے اور اپنی عزت بچاتے تھے۔
پی ٹی آئی کے جو تیز طرار اور جارحانہ مزاج کے حامل رہنما تھے انھیں میڈیا ٹاک شوز میں مخالفین کی درگت بنانے کا خصوصی ٹاسک دیا جاتا تھا اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک رہنما نے تو گندی گالیوں سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ وزیر اعظم خود ایسے رہنماؤں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ ان کے جارحانہ رویے پر انھیں شاباش بھی دیتے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت میں ان کی سوشل میڈیا ٹیم نہ صرف مکمل آزاد اور بااختیار تھی جس سے اپوزیشن کا کوئی رہنما محفوظ نہیں تھا بلکہ بے عزتی سے ڈرتا تھا۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے اورکرپشن کے الزامات میں ڈوبی ہوئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، جیسی بڑی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی بھی محفوظ نہیں تھے جو اب پی ٹی آئی کی ضرورت بنے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اعتدال پسند رہنماؤں کو بھی اس وقت یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کیا ان کی سوشل میڈیا ٹیم کو ہی مخالفین کی شرمناک کردار کشی سے روک سکتے۔ اس وقت صرف بعض بااثر شخصیات نے ہی وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کا نام نہ بگاڑیں اور یہ بات خود وزیر اعظم نے اپنے جلسے میں لوگوں کو بتائی تو جلسے کے شرکا نے خود تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا کیونکہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں مخالفین کی تضحیک معمول تھا اور لوگ اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔
حالیہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن ہے جس کے دو ارکان نے اپنے رہنماؤں کے منع کرنے کے باوجود صدر مملکت کے آئینی خطاب کے دوران جس آزادی کا اظہار کیا ایسی آزادی تو پی ٹی آئی حکومت میں اپوزیشن کو میسر نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کے ایوان کے تقدس سے آشنا ایک وکیل رکن نے پہلی بار ایوان میں سگریٹ نوشی کا نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے پہلی بار منتخب ارکان ایوان میں جو کچھ کر رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔ پی ٹی آئی اب دو سال سے وفاق اور پنجاب کے اقتدار سے باہر ہے مگر کے پی کے مشیر اطلاعات جو (ق) لیگ اور ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی میں آئے تھے بیرسٹر ہوتے ہوئے پنجاب کی لیگی قیادت کے لیے جو الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ملک کی اہم شخصیات کے خلاف جو گھٹیا مہم چلا رہی ہے اس کا کسی مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حیرت تو یہ ہے کہ حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور (ن) لیگ پی ٹی آئی کے دباؤ میں بے بس ہیں۔نامناسب حرکت پر اسپیکر نے دو ارکان کے خلاف کارروائی کی تو پی ٹی آئی تلملا اٹھی ہے مگر آصفہ بھٹو کی حلف برداری اور صدر مملکت کے خطاب میں پی ٹی آئی ارکان نے جس آزادی کا مظاہرہ کیا، کیا وہ حقیقی آزادی نہیں جو پی ٹی آئی کا نعرہ ہے۔
بے بس حکومت میں پی ٹی آئی کو مادر پدر آزادی تو ملی ہوئی ہے بس یورپ جیسی فحش آزادی ملنے کی دیر ہے شاید پی ٹی آئی اسی کو حقیقی آزادی سمجھتی ہو جو اسلامی ملک پاکستان میں ملنا تو ممکن نہیں ہے۔ ملک میں کسی ادارے اور پی ٹی آئی مخالفین کی عزت تو محفوظ نہیں رہی ہے تو پی ٹی آئی والوں کو اور کتنی آزادی چاہیے حد تو ہو چکی ہے اورکیا رہ گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے ملک کی سیاست میں پہلی بار سوشل میڈیا کو استعمال کیا اور بھرپور استعمال کرکے باقی جماعتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور اقتدار سے محرومی کے دو سال بعد بھی پی ٹی آئی اپنے سوشل میڈیا ونگ کو کامیابی سے استعمال کر رہی ہے جس نے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ان اپنوں کو بھی نہیں بخشا جو پارٹی چیئرمین کے موقف سے معمولی اختلاف کر بیٹھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی سوشل میڈیا ونگ کی ٹیم کے تمام ارکان بھرپور چھترول شروع کر دیتے تھے اور کسی کو نہیں بخشتے تھے۔
پی ٹی آئی میں سوشل میڈیا پر مخالفین کی بے عزتی کے لیے ہزاروں نوجوان سرکاری تنخواہ پر مخالفین کی کامیاب کردار کشی کے ماہر تھے۔ بانی پی ٹی آئی بطور وزیراعظم سرکاری میڈیا سے زیادہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتے اور انھیں ضروری ہدایات دیا کرتے تھے جب کہ پی ٹی آئی حکومت کی زبردست ترجمانی کے لیے انھیں وفاقی، پنجاب و کے پی کے ہتھ چھٹ وزرا بھی میسر تھے اور پنجاب میں انھیں ایسے وزیر بھی ملے ہوئے تھے جو پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کو میڈیا میں وہ جواب دیتے تھے کہ دوسری جماعتوں کے رہنما ان کا منہ دیکھتے رہ جاتے اور اپنی عزت بچاتے تھے۔
پی ٹی آئی کے جو تیز طرار اور جارحانہ مزاج کے حامل رہنما تھے انھیں میڈیا ٹاک شوز میں مخالفین کی درگت بنانے کا خصوصی ٹاسک دیا جاتا تھا اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک رہنما نے تو گندی گالیوں سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ وزیر اعظم خود ایسے رہنماؤں کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ ان کے جارحانہ رویے پر انھیں شاباش بھی دیتے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت میں ان کی سوشل میڈیا ٹیم نہ صرف مکمل آزاد اور بااختیار تھی جس سے اپوزیشن کا کوئی رہنما محفوظ نہیں تھا بلکہ بے عزتی سے ڈرتا تھا۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے اورکرپشن کے الزامات میں ڈوبی ہوئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، جیسی بڑی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی بھی محفوظ نہیں تھے جو اب پی ٹی آئی کی ضرورت بنے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اعتدال پسند رہنماؤں کو بھی اس وقت یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ وزیر اعظم کیا ان کی سوشل میڈیا ٹیم کو ہی مخالفین کی شرمناک کردار کشی سے روک سکتے۔ اس وقت صرف بعض بااثر شخصیات نے ہی وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کا نام نہ بگاڑیں اور یہ بات خود وزیر اعظم نے اپنے جلسے میں لوگوں کو بتائی تو جلسے کے شرکا نے خود تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا کیونکہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں مخالفین کی تضحیک معمول تھا اور لوگ اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔
حالیہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن ہے جس کے دو ارکان نے اپنے رہنماؤں کے منع کرنے کے باوجود صدر مملکت کے آئینی خطاب کے دوران جس آزادی کا اظہار کیا ایسی آزادی تو پی ٹی آئی حکومت میں اپوزیشن کو میسر نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کے ایوان کے تقدس سے آشنا ایک وکیل رکن نے پہلی بار ایوان میں سگریٹ نوشی کا نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے پہلی بار منتخب ارکان ایوان میں جو کچھ کر رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔ پی ٹی آئی اب دو سال سے وفاق اور پنجاب کے اقتدار سے باہر ہے مگر کے پی کے مشیر اطلاعات جو (ق) لیگ اور ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی میں آئے تھے بیرسٹر ہوتے ہوئے پنجاب کی لیگی قیادت کے لیے جو الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ملک کی اہم شخصیات کے خلاف جو گھٹیا مہم چلا رہی ہے اس کا کسی مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حیرت تو یہ ہے کہ حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور (ن) لیگ پی ٹی آئی کے دباؤ میں بے بس ہیں۔نامناسب حرکت پر اسپیکر نے دو ارکان کے خلاف کارروائی کی تو پی ٹی آئی تلملا اٹھی ہے مگر آصفہ بھٹو کی حلف برداری اور صدر مملکت کے خطاب میں پی ٹی آئی ارکان نے جس آزادی کا مظاہرہ کیا، کیا وہ حقیقی آزادی نہیں جو پی ٹی آئی کا نعرہ ہے۔
بے بس حکومت میں پی ٹی آئی کو مادر پدر آزادی تو ملی ہوئی ہے بس یورپ جیسی فحش آزادی ملنے کی دیر ہے شاید پی ٹی آئی اسی کو حقیقی آزادی سمجھتی ہو جو اسلامی ملک پاکستان میں ملنا تو ممکن نہیں ہے۔ ملک میں کسی ادارے اور پی ٹی آئی مخالفین کی عزت تو محفوظ نہیں رہی ہے تو پی ٹی آئی والوں کو اور کتنی آزادی چاہیے حد تو ہو چکی ہے اورکیا رہ گیا ہے۔