پیپلزپارٹی کی مرکز میں وزارتوں کی خواہش
سعودی عرب کا پچاس رکنی وفد پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پہنچ گیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عر ب کے درمیان سرمایہ کاری کے لیے بات چیت اب حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے چند دن بعد پاکستان کا ایک وفد سعودی عرب جائے گا جہاں معاملات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسی مہینہ پاکستان کا دورہ کریں گے جس میں سعودی سرمایہ کاری کے حتمی معاہدوں پر دستخط ہونگے۔سعودی سرمایہ کاری کی اس وقت کے لیے وہی اہمیت ہے جو وینٹی لیٹر پر لیٹے مریض کے لیے آکسیجن کی ہوتی ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری بھی حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ مقامی کاروباری لوگوں نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے ساتھ باہر سے بھی کاروباری گروپس نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ امید ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری بھی اسی مہینہ میں مکمل ہو جائے گی۔ ورنہ اس سے پہلے یہی بتایا جاتا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری عملی طو رپر نا ممکن ہے۔ کون لے گا۔ حکومت کیسے بیچے گی۔ لیکن شہباز شریف کی حکومت نے دو ماہ میں ہی یہ سب ممکن کر دکھایا ہے۔
آئی ایم ایف سے تیسری قسط مل چکی ہے اور ایک نئے معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچنے والا ہے۔ آئی ایم ایف سے بغیر کسی تنازعہ کے تیسری قسط کے اجرا نے پاکستانی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ ایک معاشی ماحول میں بھی بہتری آئی ہے۔ پاکستانی معیشت کے بہتر ہونے کا لوگوں کو یقین آیا ہے۔
ورنہ اس سے پہلے آئی ایم ایف کی قسط کے موقع پر پوری پاکستان کی معیشت داؤ پر لگ جاتی تھی۔ ڈالر کا سٹہ شروع ہو جاتا تھا۔ پورا ملک معاشی طور پر مفلوج ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ آئی ایم ایف کی قسط روکنے والا امریکا اب اگلے معاہدے کے لیے بھی گرین سگنل دے رہا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج نے تو ریکارڈ ہی بنا دیے ہیں۔ ریکارڈ بلندی سب کے سامنے ہے۔ورنہ ہم روز خبریں سنتے تھے کہ آج اسٹاک ایکسچینج میں اتنے ارب ڈوب گئے۔ یہ درست ہے کہ اسٹاک ایکسچینج معیشت کی بہتری کا کوئی واحد اشارہ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ گر جائے تو معیشت کے برے ہونے کا یہ واحد اور کلیدی اشارہ بن جاتا ہے۔ مہنگائی کم ہونے کے اعداد و شمار سب کے سامنے ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ بتدریج مہنگائی کم ہو رہی ہے۔ ابھی شاید عام آدمی کو اس کے کم ہونے کے وہ اثرات نہیں پہنچے ہیں جو پہنچنے چاہیے۔ لیکن پھر بھی مہنگائی میں کمی عالمی سطح پر مانی جا رہی ہے۔
میں یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ یہ خبریں بہت گرم ہیں کہ پیپلزپارٹی نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کو آٹھ وزارتیں دینے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اور بلاول بھٹو بھی دوبارہ وزارت خارجہ سنبھالنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حکومت بن رہی تھی تو پیپلزپارٹی وزارتیں لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ لیکن اب وہ وزارتیں لینے کے لیے بے تاب کیوں ہو گئے ہیں۔ ایسے کیا عوامل ہیں جو پہلے پیپلزپارٹی نے وزارتیں لینے کے لیے انکار کیا۔ اور پھر اب وہ وزارتیں لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ فرق کیا ہوگیا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سادہ سی بات ہے دو ماہ پہلے کسی کو بھی یہ خیال نہیں تھا کہ شہباز شریف دو ماہ میں معاشی حالات کا رخ اس قدر بدل دیں گے۔ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر بہت بڑے بڑے سیاستدان اس بات کے حامی تھے کہ پنجاب کی حکومت تو لے لی جائے لیکن مرکز کی حکومت لینے سے معذرت کر لی جائے۔ سب دوستوں کی یہی رائے تھی کہ صوبہ کی حکومت اس وقت جنت ہے اور مرکز کی حکومت جہنم ہے۔ اس لیے جہنم کی آگ سے دور ہی رہا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کا خیال تھا کہ مرکزی حکومت کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے بلکہ دامن چھڑا لیا جائے۔ سب کی رائے تھی ابھی بہت غیر مقبول ہو گئے ہیں۔ آگے تو ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے کہ مزید غیر مقبول ہو جائیں گے۔ ایسے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے کہ عوام میں جانا مشکل ہو جائے گا۔
ایسی ہی رائے پیپلزپارٹی کے اندر بھی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اندر بھی یہی رائے تھی کہ مرکزی حکومت ایک آگ کا دریا ہے اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ ملائی کھائی جائے لیکن آگ کے دریا سے دور رہا جائے۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں پکی کی جائیں ۔ صوبائی حکومتیں تو ملائی ہیں۔ صدر کا عہدہ لیا جائے۔
کوئی ذمے داری نہیں۔ دو صوبوں کی حکومتیں لے لی جائیں باقی دو صوبوں میں گورنر لے لیے جائیں۔ چاروں صوبوں میں حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن مرکزی حکومت سے دور رہا جائے۔ چیئرمین سینیٹ لے لیا جائے۔ ہر وہ عہدہ لے لیا جائے جس میں کوئی عوامی ذمے داری نہ ہو بس ملائی ہی ملائی ہو۔ اس لیے جب مرکزی حکومت بن رہی تھی تو ن لیگ منتیں کر رہی تھی کہ پیپلزپارٹی کو حکومت میں ساتھ شامل ہونا چاہیے۔ لیکن پیپلزپارٹی مسلسل انکار کر رہی تھی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے مرکزی حکومت میں شامل نہیں ہونا وہ سمجھ رہے تھے ن لیگ اور گر جائے گی۔ تحریک انصاف کا تو پہلے ہی پتہ کٹ گیا ہے۔ ن لیگ مرکزی حکومت میں اپنے وزن سے خود ہی گر جائے گی۔ پھر میدان میں پیپلزپارٹی اکیلی آپشن کے طور پر رہ جائے گی۔ اس لیے ن لیگ کو اکیلے مرکزی حکومت کرنے دیں۔ وہ مزید غیر مقبول فیصلے کریں گے، سخت فیصلے کریں گے۔ ہم ان سے اعلان لا تعلقی رکھیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے ہم اس میں شامل نہیں ہیں۔اس طرح ایک ٹکٹ میں دو مزے ہو جائیں گے۔
لیکن حالات تو بدل گئے ہیں۔ شہباز شریف نے دو ماہ میں سارے اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ لوگ مزید تباہی کا اندازہ لگائے بیٹھے تھے اور یہاں بہتری کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ لوگ غیر مقبول ہونے کے اندازے لگائے بیٹھے تھے اور یہاں امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگر کارکردگی بہتر ہوتی گئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لوگوں کے اندازوں سے بر عکس ن لیگ پنجاب میں تمام ضمنی انتخابات جیت گئی۔ ورنہ 2018 میں عمران خان ضمنی انتخابات ہارے جا رہے تھے۔ حکومت کے لیے ضمنی انتخابات جیتنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ن لیگ نے پنجاب میں اور بالخصوص لاہور کے تمام ضمنی انتخابات جیت کر سب سیاسی اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں۔
دو ماہ پہلے جب حکومت بن رہی تھی تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ سعودی سرمایہ کاری اتنی جلدی ممکن ہو جائے گی۔ اسٹاک ایکسچینج اتنی اوپر چلی جائے گی۔ سب ایسے بہتر ہو جائے گا۔ لوگ ناکامی کا حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔ کامیابی میں تو سب حصہ دار بننا چاہتے ہیں۔ اب جب پیپلزپارٹی کے سب سیاسی اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں تو انھوں نے مرکزی حکومت میں شامل ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ کامیاب حکومت سے کون دور رہے۔ اب جب یہ یقین ہو گیا ہے کہ شہباز شریف نے معاملات سنبھال لیے ہیں اور یہ نظام، تو پانچ سال چل جائے گا تو وزارتیں لینے کا شوق زور پکڑ گیا ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کو پیپلزپارٹی کو وزارتیں دے دینی چاہیے۔ن لیگ کے اندر اب یہ رائے موجود ہے کہ اب نہیں دینی چاہیے۔ تب ہم دینا چاہتے تھے لیکن اب نہیں دینا چاہتے۔ جیسے تب وہ نہیں لینا چاہتے تھے اب لینا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اب ہم نے کام چلا لیا ہے۔ اب ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی نظام کو چلنا چاہیے۔
جو معاہدہ ہو گیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ ن لیگ کے اندر یہ رائے ہے کہ ہم نے جس اسپیڈ سے کام شروع کیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کابینہ میں آگئی تو اسپیڈ کم ہو جائے گی۔ حکومت کی کارکرد گی خراب ہو جائے گی۔ پہلے بھی ناکامی کی بڑی وجہ پیپلزپارٹی تھی اور ملبہ ہم پر ڈال دیا۔ اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ باقی کل کیا ہوجائے کسی کو کیا پتہ، تادم تحریر یہی سوچ پائی جا رہی ہے۔
اس کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسی مہینہ پاکستان کا دورہ کریں گے جس میں سعودی سرمایہ کاری کے حتمی معاہدوں پر دستخط ہونگے۔سعودی سرمایہ کاری کی اس وقت کے لیے وہی اہمیت ہے جو وینٹی لیٹر پر لیٹے مریض کے لیے آکسیجن کی ہوتی ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری بھی حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ مقامی کاروباری لوگوں نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے ساتھ باہر سے بھی کاروباری گروپس نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ امید ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری بھی اسی مہینہ میں مکمل ہو جائے گی۔ ورنہ اس سے پہلے یہی بتایا جاتا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری عملی طو رپر نا ممکن ہے۔ کون لے گا۔ حکومت کیسے بیچے گی۔ لیکن شہباز شریف کی حکومت نے دو ماہ میں ہی یہ سب ممکن کر دکھایا ہے۔
آئی ایم ایف سے تیسری قسط مل چکی ہے اور ایک نئے معاہدے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچنے والا ہے۔ آئی ایم ایف سے بغیر کسی تنازعہ کے تیسری قسط کے اجرا نے پاکستانی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ ایک معاشی ماحول میں بھی بہتری آئی ہے۔ پاکستانی معیشت کے بہتر ہونے کا لوگوں کو یقین آیا ہے۔
ورنہ اس سے پہلے آئی ایم ایف کی قسط کے موقع پر پوری پاکستان کی معیشت داؤ پر لگ جاتی تھی۔ ڈالر کا سٹہ شروع ہو جاتا تھا۔ پورا ملک معاشی طور پر مفلوج ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ آئی ایم ایف کی قسط روکنے والا امریکا اب اگلے معاہدے کے لیے بھی گرین سگنل دے رہا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج نے تو ریکارڈ ہی بنا دیے ہیں۔ ریکارڈ بلندی سب کے سامنے ہے۔ورنہ ہم روز خبریں سنتے تھے کہ آج اسٹاک ایکسچینج میں اتنے ارب ڈوب گئے۔ یہ درست ہے کہ اسٹاک ایکسچینج معیشت کی بہتری کا کوئی واحد اشارہ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ گر جائے تو معیشت کے برے ہونے کا یہ واحد اور کلیدی اشارہ بن جاتا ہے۔ مہنگائی کم ہونے کے اعداد و شمار سب کے سامنے ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ بتدریج مہنگائی کم ہو رہی ہے۔ ابھی شاید عام آدمی کو اس کے کم ہونے کے وہ اثرات نہیں پہنچے ہیں جو پہنچنے چاہیے۔ لیکن پھر بھی مہنگائی میں کمی عالمی سطح پر مانی جا رہی ہے۔
میں یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ یہ خبریں بہت گرم ہیں کہ پیپلزپارٹی نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کو آٹھ وزارتیں دینے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اور بلاول بھٹو بھی دوبارہ وزارت خارجہ سنبھالنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حکومت بن رہی تھی تو پیپلزپارٹی وزارتیں لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ لیکن اب وہ وزارتیں لینے کے لیے بے تاب کیوں ہو گئے ہیں۔ ایسے کیا عوامل ہیں جو پہلے پیپلزپارٹی نے وزارتیں لینے کے لیے انکار کیا۔ اور پھر اب وہ وزارتیں لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ فرق کیا ہوگیا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سادہ سی بات ہے دو ماہ پہلے کسی کو بھی یہ خیال نہیں تھا کہ شہباز شریف دو ماہ میں معاشی حالات کا رخ اس قدر بدل دیں گے۔ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر بہت بڑے بڑے سیاستدان اس بات کے حامی تھے کہ پنجاب کی حکومت تو لے لی جائے لیکن مرکز کی حکومت لینے سے معذرت کر لی جائے۔ سب دوستوں کی یہی رائے تھی کہ صوبہ کی حکومت اس وقت جنت ہے اور مرکز کی حکومت جہنم ہے۔ اس لیے جہنم کی آگ سے دور ہی رہا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کا خیال تھا کہ مرکزی حکومت کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے بلکہ دامن چھڑا لیا جائے۔ سب کی رائے تھی ابھی بہت غیر مقبول ہو گئے ہیں۔ آگے تو ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے کہ مزید غیر مقبول ہو جائیں گے۔ ایسے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے کہ عوام میں جانا مشکل ہو جائے گا۔
ایسی ہی رائے پیپلزپارٹی کے اندر بھی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اندر بھی یہی رائے تھی کہ مرکزی حکومت ایک آگ کا دریا ہے اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ ملائی کھائی جائے لیکن آگ کے دریا سے دور رہا جائے۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں پکی کی جائیں ۔ صوبائی حکومتیں تو ملائی ہیں۔ صدر کا عہدہ لیا جائے۔
کوئی ذمے داری نہیں۔ دو صوبوں کی حکومتیں لے لی جائیں باقی دو صوبوں میں گورنر لے لیے جائیں۔ چاروں صوبوں میں حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن مرکزی حکومت سے دور رہا جائے۔ چیئرمین سینیٹ لے لیا جائے۔ ہر وہ عہدہ لے لیا جائے جس میں کوئی عوامی ذمے داری نہ ہو بس ملائی ہی ملائی ہو۔ اس لیے جب مرکزی حکومت بن رہی تھی تو ن لیگ منتیں کر رہی تھی کہ پیپلزپارٹی کو حکومت میں ساتھ شامل ہونا چاہیے۔ لیکن پیپلزپارٹی مسلسل انکار کر رہی تھی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے مرکزی حکومت میں شامل نہیں ہونا وہ سمجھ رہے تھے ن لیگ اور گر جائے گی۔ تحریک انصاف کا تو پہلے ہی پتہ کٹ گیا ہے۔ ن لیگ مرکزی حکومت میں اپنے وزن سے خود ہی گر جائے گی۔ پھر میدان میں پیپلزپارٹی اکیلی آپشن کے طور پر رہ جائے گی۔ اس لیے ن لیگ کو اکیلے مرکزی حکومت کرنے دیں۔ وہ مزید غیر مقبول فیصلے کریں گے، سخت فیصلے کریں گے۔ ہم ان سے اعلان لا تعلقی رکھیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے ہم اس میں شامل نہیں ہیں۔اس طرح ایک ٹکٹ میں دو مزے ہو جائیں گے۔
لیکن حالات تو بدل گئے ہیں۔ شہباز شریف نے دو ماہ میں سارے اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ لوگ مزید تباہی کا اندازہ لگائے بیٹھے تھے اور یہاں بہتری کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ لوگ غیر مقبول ہونے کے اندازے لگائے بیٹھے تھے اور یہاں امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگر کارکردگی بہتر ہوتی گئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لوگوں کے اندازوں سے بر عکس ن لیگ پنجاب میں تمام ضمنی انتخابات جیت گئی۔ ورنہ 2018 میں عمران خان ضمنی انتخابات ہارے جا رہے تھے۔ حکومت کے لیے ضمنی انتخابات جیتنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ن لیگ نے پنجاب میں اور بالخصوص لاہور کے تمام ضمنی انتخابات جیت کر سب سیاسی اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں۔
دو ماہ پہلے جب حکومت بن رہی تھی تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ سعودی سرمایہ کاری اتنی جلدی ممکن ہو جائے گی۔ اسٹاک ایکسچینج اتنی اوپر چلی جائے گی۔ سب ایسے بہتر ہو جائے گا۔ لوگ ناکامی کا حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔ کامیابی میں تو سب حصہ دار بننا چاہتے ہیں۔ اب جب پیپلزپارٹی کے سب سیاسی اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں تو انھوں نے مرکزی حکومت میں شامل ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ کامیاب حکومت سے کون دور رہے۔ اب جب یہ یقین ہو گیا ہے کہ شہباز شریف نے معاملات سنبھال لیے ہیں اور یہ نظام، تو پانچ سال چل جائے گا تو وزارتیں لینے کا شوق زور پکڑ گیا ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کو پیپلزپارٹی کو وزارتیں دے دینی چاہیے۔ن لیگ کے اندر اب یہ رائے موجود ہے کہ اب نہیں دینی چاہیے۔ تب ہم دینا چاہتے تھے لیکن اب نہیں دینا چاہتے۔ جیسے تب وہ نہیں لینا چاہتے تھے اب لینا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اب ہم نے کام چلا لیا ہے۔ اب ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی نظام کو چلنا چاہیے۔
جو معاہدہ ہو گیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ ن لیگ کے اندر یہ رائے ہے کہ ہم نے جس اسپیڈ سے کام شروع کیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کابینہ میں آگئی تو اسپیڈ کم ہو جائے گی۔ حکومت کی کارکرد گی خراب ہو جائے گی۔ پہلے بھی ناکامی کی بڑی وجہ پیپلزپارٹی تھی اور ملبہ ہم پر ڈال دیا۔ اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ باقی کل کیا ہوجائے کسی کو کیا پتہ، تادم تحریر یہی سوچ پائی جا رہی ہے۔