پیوٹن نے مزید 6 سال کیلئے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

مغرب سے جوہری ہتھیاروں سمیت ہرمعاملے پرمذاکرات کے لیے تیارہوں، اب ان پر منحصر ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں یا جارحیت، پیوٹن


ویب ڈیسک May 07, 2024
پیوٹن نے کہا کہ مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات سے انکاری نہیں ہوں—فوٹو: رائٹرز

روسی صدر ویلادیمیرپیوٹن نے مغرب سے بدترین کشیدگی کے دوران مزید 6 سالہ مدت کے لیے صدارت کا باقاعدہ حلف اٹھالیا۔

غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کریملن میں منعقدہ تقریب میں ویلادیمیر پیوٹن نے اگلے 6 سال کے لیے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا جبکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تقریب کا بائیکاٹ کردیا گیا۔

پیوٹن نے صدارت کی نئی مدت کی افتتاحی تقریر میں کہا کہ یوکرین میں دوسال سے زائد عرصے سے جنگ لڑنے والے فوجیوں کے سامنے سرجھکانا چاہتا ہوں اور مارچ میں ان کا انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک متحد او درست سمت پر ہے۔

کریملن ہال میں غیرملکی مہمانوں اور سفارت کاروں سے گفتگو میں روسی صدر نے کہا کہ روس کے شہریوں نے ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے مہر ثبت کردی ہے اور ایسے وقت میں جب ہمیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے تو اس کی بڑی اہمیت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس کو ہمارے مشترکہ تاریخی اہداف، اپنے حقوق، اقدار، آزادی اور روس کے قومی مفادات کا بہادری سے دفاع سمجھتا ہوں۔

خیال رہے کہ 71 سالہ پیوٹن کو قومی سطح پر سیاسی میدان میں برتری حاصل ہے جہاں بڑے اپوزیشن لیڈرز قید یا جلاوطنی میں ہیں اور ان کے سب سے بڑے مخالف الیکسی نیوالنی رواں برس فروری میں دوران حراست اچانک جاں بحق ہوگئے تھے۔

نیوالنی کی بیوہ نے پیوٹن کی حلف برداری کے موقع پر اپنے حامیوں کو ویڈیو پیغام میں کہا کہ پیوٹن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں کیونکہ ان کی ہرمدت میں حالات خراب تر ہوگئے ہیں اور اپنے حکمرانی میں خوف کے عالم کیا ہوگا۔

ویلادیمیر پیوٹن کو عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی کا سامنا ہے اور یوکرین جنگ میں جہاں امریکا سمیت دیگر نیٹو ممالک ان کے مخالف ہیں وہیں پیوٹن ان پر الزام عائد کر رہے ہیں وہ یوکرین کے بہانے روس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔

پیوٹن نے حلف برداری کے بعد روسی سیاست دانوں سے کہا کہ وہ مغرب سے جوہری ہتھیاروں سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات سے انکاری نہیں ہیں، اب فیصلہ ان کا ہے کہ آیا وہ روس کو برداشت کرنے کے خواہاں ہیں یا جارحیت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہیں، ہمارے ملک پر برسوں سے بدترین دباؤ ہے، جس کو وہ جاری رکھنا چاہتے ہیں یا تعاون اور امن کی راہ پر چلتے ہیں۔

واضح رہے کہ ویلادیمیر پیوٹن 1999 سے وزیراعظم یا صدر کی حیثیت سے روس کے حکمران ہیں اور اب گر وہ 6 سالہ مدت مکمل کرتے ہیں تو سابق سوویت رہنما جوزف اسٹالن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 18 ویں صدی میں ایمپریس کیتھرین کا روس کے طویل عرصے تک حکمرانی کا ریکارڈ توڑ دیں گے اور ایک مرتبہ پھر منتخب ہونے کی کوشش کریں گے۔

رواں برس انہوں نے جنگ مخالف دو اہم امیدواروں کو شکست دے کر ریکارڈ مارجن سے صدارت انتخاب جیت لیا تھا جبکہ اپوزیشن نے اس سے شرم ناک قرار دیا تھا۔

امریکا نے ردعمل میں کہا تھا کہ پیوٹن کا انتخاب آزادانہ، شفاف یا غیرجانب دار نہیں سمجھتے ہیں، اسی لیے منگل کو منعقدہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کی، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے اکثر ممالک نے بھی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا لیکن فرانس نے کہا تھا کہ وہ اپنا سفیر بھیج دے گا۔

ادھر یوکرین نے بھی پیوٹن کے انتخاب پر اعتراض کیا اور قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اس سے آمرانہ حکومت قرار دیا۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں