انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی کمی کالجوں میں چار سالہ پروگرام میں رکاوٹ ہے وائس چانسلرز

اجلاس میں سندھ کے ہر ضلعے سے کم از کم ایک ایک سرکاری کالج میں بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا

اجلاس میں محکمہ کالج ایجوکیشن کو سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا—فوٹو: فائل

کراچی سمیت سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے صوبے کے سرکاری کالجوں میں انفرا اسٹریکچر کے فقدان اور متعلقہ مضامین میں اساتذہ کی کمی اور سیمسٹر سسٹم نہ ہونے سمیت دیگر مشکلات کو بی ایس چار سالہ پروگرام کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ سے کہا ہے کہ چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کرنے سے قبل کالجوں میں مطلوبہ بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔

سندھ ایچ ای سی میں ایک اہم اجلاس منگل کو چیئرمین سندھ ایچ ای سی ڈاکٹر طارق رفیع کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں کراچی سمیت سندھ کے سرکاری کالجوں کو چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کے الحاق کے اجرا کا معاملہ زیر غور آیا۔

ذرائع کے مطابق سیکریٹری کالج ایجوکیشن کی تجویز پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کالجوں کے موجودہ حالات کے تناظر میں کراچی سمیت سندھ کے ہر ضلعے سے کم از کم ایک ایک سرکاری کالج میں بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کیا جائے اور اس سلسلے میں ایسے کالجوں کا انتخاب کیا جائے جو ایچ ای سی اور جامعات کی ایفیلیشن پالیسی سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتا ہو اور سہولیات کے حوالے سے بہتر ہو تاکہ نئے تعلیمی سیشن 2025 سے ان کالجوں میں ڈگری پروگرام شروع ہوسکے۔

اجلاس میں شریک محکمہ کالج ایجوکیشن کے ایک افسر کی جانب سے بتایا گیا کہ اس وقت سرکاری کالجوں میں گریجویشن ختم کرکے دو سالہ ایسوسی ایٹ پروگرام چلایا جا رہا ہے جس میں انرولمنٹ مسلسل کم ہو رہی ہیں اور اب صرف چند ہزار طلبہ اس پروگرام میں انرولڈ ہیں۔

اجلاس میں شریک ایک وائس چانسلر نے اس معاملے کی بنیادی وجہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسوسی ایٹ ڈگری باہر کے ممالک سے کاپی کی گئی ہے وہاں یہ پروگرام ٹیکنیکل یا ووکیشنل ایجوکیشن کے طور پر چلایا جاتا ہے جبکہ ہم نے یہ پروگرام روایتی انداز میں شروع کر رکھا ہے جبکہ طلبہ کو ہم گریجویشن کی ڈگری نہیں دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح یہ پروگرام سیمسٹر کے بجائے سالانہ نظام امتحانات پر چل رہا ہے۔

اس موقع پر ایک اور وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ جن کالجوں کو بی ایس چار سالہ پروگرام کی ایفیلیشن دی گئی ہے وہاں انرولمنٹ اس قدر کم ہے کہ پروگرام چلانا ہی مشکل ہے۔

شرکا کو بتایا گیا کہ کالجوں میں مختلف مضامین میں اساتذہ کی شدید کمی ہے اگر کہیں مطلوبہ پروگرام شروع کرنے کے لیے استاد موجود بھی ہوتا ہے تو چند ماہ ہی میں اس کا تبادلہ ہوجاتا ہے، جس کے سبب پروگرام چلانا مشکل ہوجاتا ہے اور طلبہ کے نتائج اثر انداز ہوتے ہیں۔


اجلاس میں شریک ایک وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ بی ایس پروگرام چلانے کے لیے کالجوں میں سیمسٹر سسٹم متعارف کرانا ہوگا کیونکہ چار سالہ ڈگری سیمسٹر سسٹم کے بغیر نہیں ہوسکتی جبکہ کالجوں کے اساتذہ کو اب تک اس کی تربیت دی گئی ہے نہ ہی وہ اس کے رموز سے واقف ہیں، کالج انتظامیہ صرف سالانہ نظام امتحانات سے آشنا ہے۔

اس موع پر وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے جاری کردہ نئی ایفیلیشن پالیسی کے نقائص پر بھی بات کی گئی اور لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن کا کہنا تھا کہ پالیسی کے مطابق اگر کسی کالج کو یونیورسٹی ایک بار ڈی ایفلیٹ کردے تو اسے دوبارہ الحاق نہیں دیا جاسکتا جو اس کالج اور اس طلبہ کے ساتھ ایک نامناسب عمل ہے جبکہ کالج دوبارہ الحاق کی مطلوبہ شرائط کو بھی پورا کرلے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئی پالیسی میں کہا گیا ہے اگر کسی کالج کا الحاق ہو گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی منظوری یونیورسٹی اپنی سینڈیکیٹ سے کرائے جبکہ سینڈیکیٹ کے اجلاس کئی کئی ماہ تک نہیں ہوپاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ ایسی صورت حال میں کیا وہ کالج اپنا سیشن شروع نہ کرے اور کئی ماہ تک سینڈیکیٹ کے اجلاس کا انتظار کرے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ ایچ ای سی اس طرح کے نکات وفاقی ایچ ای سی سے شیئر کرے گی، اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ سندھ ایچ ای سی جامعات کو ایک پروفارما جاری کرے گی، جس میں چار سالہ ڈگری پروگرام چلانے والے کالجوں، ایفیلیشن کی درخواست دینے والے کالج اور ان کی انسپیکشن کی صورتحال اس پر درج کی جاسکے اور اس کے بعد یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی جائے گی۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کالجوں بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کریں۔

"ایکسپریس" نے سیکریٹری کالج ایجوکیشن سے رابطہ کرکے ڈپارٹمنٹ کا مؤقف جاننے کی کوشش کی کہ چار سالہ ڈگری پروگرام کے الحاق میں بنیادی رکاوٹ کیا ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ "محکمہ اور جامعات کے مابین رابطے کا فقدان الحاق نہیں ملنے کی بنیادی وجہ ہے لہذا چیئرمین ایچ ای سی نے ان کی سفارش پر اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ معاملات کے حل کے لیے ہر ماہ ایک اجلاس ضرور کیا جائے"۔

انہوں نے کہا کہ وہ چیئرمین سندھ ایچ ای سی اور سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کا اس سلسلے میں شکر گزار ہیں کہ محکمہ کی سفارش پر اس اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔

اجلاس میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل اور لیاری یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی، ڈاکٹر جلبانی، سندھ یونیورسٹی جامشوروکے وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق کلہوڑو کے علاوہ صوبے کی دیگر جنرل سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈ نور سموں، سیکریٹری کالج ایجوکیشن صدف شیخ اور سیکریٹری سندھ ایچ ای سی معین الدین کے علاوہ جامعات کے ایفیلیشن سیکریٹریز شریک ہوئے۔
Load Next Story