پاک سعودی تجارتی تعلقات نئے دور کا آغاز

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقعے سے فائدہ اٹھائیں۔ ایس آئی ایف سی کے ذریعے سعودی سرمایہ کاروں کو رکاوٹوں سے پاک کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سرمایہ کاروں کے وفد کے اعزاز میں عشایے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سعودی عرب کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گی ۔ متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین بھی پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہیں، سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی وجہ سے امریکا، جنوبی کوریا، جاپان اور یورپی ممالک کے سرمایہ کاروں کو بھی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔

پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کار اچھا منافع کما سکتے ہیں، پاکستان کی حکومت اس حوالے سے اچھے اقدامات کررہی ہے۔ پاکستان میں دنیا کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل تشکیل دے کر کھولے گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے معاشی بحالی ایک چیلنج ہے، بلاشبہ سعودی عرب اس حوالے سے بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔

سعودی عرب مشکل حالات میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔ سعودی عرب کو بھی جب ضرورت پڑی تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیا، کئی مواقعے ایسے آئے کہ سعودی عرب کو کچھ طاقتوں کی طرف سے تنہا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان کبھی دباؤ میں نہیں آیا۔ پاکستان کی مالی مشکلات کا سعودی عرب کی طرف سے ہمیشہ ادراک کیا گیا۔ حکومت کوئی بھی ہو سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، مختلف مواقعے پر پاکستان میں سعودی عرب کی طرف سے پانچ ارب ڈالر کے ڈیپازٹس کرائے گئے تھے۔

سعودی وفد کے دورے کی کامیابی پاک سعودی تعلقات میں نئے اور خوش آیند باب کی آمد کی دلیل ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنا اور معاشی مشکلات پر قابو پانا اس کی ترجیحات میں سب سے اہم ہے۔ پاکستان میں معدنیات اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش ہے، منافع کی شرح بھی خاصی بلند ہوسکتی ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب ایک ارب ڈالر کا سرمایہ لگانے کا جلد ہی آغاز کرے گا۔ ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے جب کہ امکان ہے کہ زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مجوزہ منصوبوں کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔

2021 میں جب پاکستان کی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی تھی اور اس کی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ ئی تھی تب بھی سعودی حکومت نے پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر بطور ڈیپازٹ جمع کرائے تھے۔ ان ڈپازٹس کی قابل واپسی مدت میں سعودی عرب کی طرف سے دو بار توسیع بھی کی جا چکی ہے جب کہ سعودی عرب پاکستان کو ادھار تیل کی سہولت بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب میں لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی پروفیشنلز، ہنرمند اور کاروبار کرنے والے لوگ مقیم ہیں جو نہ صرف سعودی عرب کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ سالانہ اربوں ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک سے ہر سال پاکستان بھیجنے جانے والے زرمبادلہ کا سب سے بڑا حصہ سعودی عرب ہی سے آتا ہے۔

برادر اسلامی ملک کے اعلیٰ سطح کے بڑے وفد اور سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد کو دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود پرجوش تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک بڑا بریک تھرو ہو سکتا ہے، جو ہماری جامد معیشت کو متحرک کرنے میں بہت مددگار ہو گا۔ میڈیا کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کے تمام بڑے خدشات کے سدِ باب کا وعدہ کرتے ہوئے اربوں ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے 25 منصوبوں کی پیشکش کی ہے جن میں پی آئی اے، ایئر پورٹس کی نجکاری، کانکنی، بھاشا ڈیم، مٹیاری، مورو، رحیم یار خان اور غازی بروتھا سے فیصل آباد ٹرانسمیشن لائنز اور سیمی کنڈکٹر بنانے سمیت کئی دیگر شعبے شامل ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے معیشت میں استحکام آئے گا اور روزگار کے نئے مواقعے میسر آئیں گے۔


توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ حالیہ پاک سعودیہ معاہدوں کے بعد ملک کی معاشی حالت میں واضح بہتری نظر آئے گی۔ بیرونی قرضوں اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی دیکھا جائے گا۔ پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز سعودی عرب کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس سے چند اہم شعبوں پر ملک کا انحصار کم کرنے اور اس کی معیشت کو مزید لچکدار بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس وقت ہمیں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانا بہت ضروری یہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ مقامی تاجر اپنی مصنوعات کو سرمایہ کار کی گھریلو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ملک کے تجارتی توازن کو بہتر بنانے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سعودی عرب پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہشمند ہے، اس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے پر ہماری معاشی حالت میں واضح بہتری نظر آئے گی۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں نئے اقتصادی و عسکری اتحاد ابھر رہے ہیں، علاقائی ممالک کا باہمی تعاون نہ صرف ریاستی بلکہ پورے خطے کے بہتر مفاد اور مضبوط علاقائی دفاع کے لیے ناگزیر ہے۔ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی معاشی قوت ہے جب کہ پاکستان بلاشبہ ایک بڑی دفاعی قوت، ان دونوں ممالک کا اتحاد دونوں ملکوں کے دفاعی و معاشی تعلقات کو نئی جہت سے روشناس کرا سکتا ہے جب کہ خطے میں امن و استحکام کے تناظر میں بھی یہ تعلق بے حد اہم اور کار آمد نظر آتا ہے۔

سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک کی قیادت میں 30 سے زائد سعودی کمپنیوں کے سرمایہ کاروں کا وفد پاکستان آیا ہے۔ تین روزہ سعودی دورہ کا مقصد پاکستان میں کاروبار کے مختلف مواقع پر دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کی آپس میں ایک دوسرے سے تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔

پاکستانی وفاقی وزیر کے مطابق سعودی عرب کے انفارمیشن ٹیکنالوجی، میرین، کان کنی، تیل اور گیس، ادویات سازی اور ایوی ایشن کی بڑی کمپنیوں کے 30 سے زائد سربراہان اس وفد کا حصہ ہیں۔ 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ فنانس، زراعت، ٹیلی کمیونیکیشن، تعمیرات، لاجسٹک سروسز، پراپرٹی ڈیویلپرز، ریٹیلرز اور دیگر کمپنیوں کے سربراہان بھی وفد کا حصہ ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اپنے وژن 2030 کی روشنی میں ایک نئی دنیا تشکیل دینا چاہتے ہیں جو باقی تمام دنیاؤں میں بسنے والوں کی آنکھیں خیرہ کردے گی۔ اس بابت سعودی عرب کو پاکستان کے بھرپور ساتھ کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی مشکلات سے نکلنے کے لیے سعودی عرب کے خصوصی تعاون کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے۔سعودی عرب کی حکومت اور سعودی سرمایہ جس اعتماد اور اطمینان کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہورہے ہیں، اس کی وجہ سے پاکستان میں تعمیر و ترقی کا نیا ماحول پیدا ہو گا اور روزگار کے مواقعے بڑھیں گے۔ ملک اس وقت جس معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کا بڑا حصہ کرپشن اور اسمگلنگ کی نذر ہو رہا ہے صرف پٹرول کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ دو ارب ڈالر نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں پاکستان سعودی عرب اور دوسرے دوست ملکوں اور ذرایع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک معاشی ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ روزگار میں اضافہ ہو گا، مہنگائی میں کمی ہو گی اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

حکومت کو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس معاملے میں اپنا کردار نبھانا پڑے گا۔ چین پہلے ہی اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کی سیکیورٹی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب سی پیک کا بھی حصہ ہے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت نہ صرف سی پیک کو مضبوط کرے گی بلکہ پاکستان کے توسط سے چین اور سعودی عرب کے درمیان بھی شراکت داری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جو عالمی سطح پر بھی نئی تبدیلیوں کا باعث ہوگا۔
Load Next Story