زندہ قوم تو اب دیکھی ہے
شدید قسم کا احساسِ جرم ہے جو بار بار ضمیر کو جنجھوڑتا اور کچوکے لگاتا ہے اور اس مجرمانہ بے حسی اور کوتاہی پر ملامت کرتا ہے کہ غزہ میں قیامت گزر گئی ہمارے مسلمان بھائی بہنیں اور معصوم بچے وحشی بھیڑیوں کے ہاتھوں تاریخ کی سب سے بڑی درندگی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور ہم بے حسی کی چادر اوڑھے اپنے شغل میلوں میں مگن ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں زندہ قوم کے الفاظ سنے بہت تھے مگر غزہ میں پہلی بار ایک زندہ قوم نظر آئی ہے۔
آہنی عزم کے الفاظ ہزاروں مرتبہ پڑھے تھے، غزہ میں اپنے تباہ شدہ مکانوں کے ملبوں اور جوان بیٹوں کے لاشوں پر کھڑے فلسطینی مسلمانوں کو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے دیکھا تو آہنی عزم کے معنی سمجھ میں آگئے۔ دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ کیسے انسان ہیں؟ کیا یہ گوشت پوست کے ہی بنے ہوئے ہیں، اگر یہ گوشت پوست ہی کے انسان ہیں تو ان میں آگ اور بارود کا خوف کیوں نہیں ہے؟ ان کی ماؤں میں پہاڑوں جیسا حوصلہ کہاں سے آگیا؟ ان کے نوجوانوں اور بچوں میں اتنی جرأتیں کیسے پیدا ہوگئیں؟ یہاں تو ایک بیٹے کی وفات پر مائیں دماغی توازن کھودیتی ہیں اور کئی برسوں تک ماتم کناں رہتی ہیں مگر یہ کس مٹی کی بنی ہوئی مائیں ہیں کہ چار چار بیٹوں کی لاشوں پر کھڑی ہیں اور صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنی ہوئی ہیں۔
دو دو پھول جیسے بچوں کی لاشیں اٹھائے ہوئے ہیں اور زبان پر صرف خالق ومالک کی تعریف اور عظمت کی گواہی ہے۔ الحمداللہ۔ اللہ اکبر۔ ان کے منہ سے صرف یہی الفاظ نکلتے ہیں ''ہمیں کسی کا کوئی ڈر نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے''۔ فلسطینی ماؤں کا اپنے خالق پر اس قدر پختہ ایمان اور آہنی عزم دیکھ کر سیکڑوں غیر مسلم یورپی خواتین مسلمان ہورہی ہیں۔ ان کے لیڈر بھی دوسروں سے مختلف ہیں دوسرے مسلمان ملکوں کے لیڈر صرف تقریریں کرتے ہیں مگر اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کو ہمیشہ محفوظ پناہ گاہوں میں رکھتے ہیں مگر اُن کے قائد اسماعیل ہانیہ نے اپنا کنبہ اور اپنے بیٹے بھی اسی مقتل میں رکھے جہاں دوسرے فلسطینی رہتے ہیں۔
ان کی فیمیلی بھی اسی طرح آگ اور بارود کی بارش کا مقابلہ کرتی رہی جس طرح دوسرے کرتے رہے اور بالآخر اسرائیل نے ان کے کنبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جس سے اسماعیل ہانیہ کے تین جوان خوبرو بیٹے اور تین پوتے شہید ہوگئے۔ پوتے تو بیٹوں سے بھی پیارے ہوتے ہیں، حادثہ ایسا تھا کہ جیسے کسی نے اسماعیل کے جسم سے دل اور جگر نکال کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہوں۔ ایسے حادثوں کے بعد انسان کا بچنا یا دماغ درست رہنا مشکل ہوتا ہے، مگر فلسطین کے اسماعیل اپنے جدامجد حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی سنت ادا کرنا جانتے ہیں۔
اسرائیل کا خیال تھا کہ اس کے خاندان کو قتل کردیں گے تو اسماعیل کے اعصاب جواب دے دیں گے مگر جب اسماعیل ہانیہ پر صدموں کا کوہِ ہمالیہ گرا تو اس نے پورے حوصلے کے ساتھ کہا کہ ''میرے بیٹے دوسرے فلسطینی بیٹوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں، انشاء اللہ میں اپنے اور دوسرے فلسطینی بیٹوں کے ساتھ جنت میں ملوںگا''۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ جنت میں آپ کی، اپنے پورے خاندان اور فلسطین کے تمام شہداء سے ضرور ملاقات ہوگی۔ آپ ہی تو جنت کے صحیح حقدار ہیں، آپ نے اپنی جرأت، آہنی عزم اور قربانیوں سے ثابت کردیا ہے کہ جنت کے وعدے آپ جیسے عظیم مسلمانوں کے لیے ہوئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ وہاں بنی کریم ﷺ خود آپ کا استقبال کریں گے اور فرشتے خود فلسطینی شہیدوں پر جنت کے پھول نچھاور کریں گے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خطرے کے وقت مدد کے لیے پکارتا ہے، اہلِ غزہ بھی پہلے پہل مدد کے لیے پکارتے رہے، کیا آپ اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات سے لاعلم ہیں، کیا غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد آپ کا فرض نہیں ہے۔ مگر مسلمان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی روئی کانوں میںٹھونس لی ۔ کلمہ گو بھائیوں سے مایوس ہوکر انھوں نے انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو پکارا ۔ انھیں انسانی حقوق کے سوداگروں سے بھی کچھ نہ کچھ خوش گمانی تھی کہ وہ اسرائیل کے دوست اور سرپرست سہی مگر انسان تو ہیں۔
تاریخ انسانی کی اس سب سے بڑی ٹریجیڈی کو دیکھ کر ان کے دل پسیج جائیں گے اور وہ ظالم اسرائیل کو لگام ڈالیں گے اور فلسطینی مظلومین کے لیے خوراک اور دوائیں بھیجیں گے۔ مگر دنیا کے چوہدریوں نے بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں اور زخموں سے چُور ماؤں پر بمباری روکنے والی قرارداد ناکام بنا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ جب مظلوم فلسطینیوں نے یہ دیکھا کہ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے دل مسلم دشمنی اور نسل پرستی کے تعصبات سے آلودہ ہیں تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔
انھیں سب سے تلخ سچ نظر آگیا اور اس کے بعد انھوں نے مدد کے لیے کسی اور کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا اور صرف اپنے خالق اور مالک کی جانب رجوع کرلیا، اور اسی سے مدد مانگنا شروع کردی۔ مظلوم کی فریاد آسمانوں کو چیر کر دربارِ الٰہی میں پہنچتی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مظلوموں کی آہ آسمانوں پر نہ سنی جائے۔ وہ ان کی پکار سنتا ہے۔ مظلوموں کی مدد ہوتی ہے مگر مدد کا اس کا اپنا نظام اور اپنا طریقۂ کار ہے۔
لگتا ہے قدرت نے اس بار مسلمانوں کو پھر ایک بار مغرب کے ایوانوں اور صنم خانوں سے مدد فراہم کرنے کا بندوبست کردیا ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے معصوم فلسطینیوں کا مقدس خون رنگ لارہا ہے۔ سب سے پہلے یہ ہوا ہے کہ امریکا میں بڑی محنت اور مہارت سے تعمیر کیا گیا اسرائیل سے محبت اور عقیدت کا قلعہ مسمار ہوگیاہے۔
امریکا اور یورپ کے ہر ایوان میں وہاں کے غیر مسلم ممبران نے اسرائیل کی اتنی شدید مذمت کی ہے جتنی کوئی مسلمان بھی نہیں کرسکا۔ امریکا اور یورپ کے ہر بڑے شہر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے ہیں اور وہ فلسطین کی آزادی کا عہد کررہے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کا بہنے والا خون امریکی اور یورپی طالب علموں کی آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی تحریک پورے امریکا میں پھیل چکی ہے۔ نوجوان طلباء وطالبات نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کیمپس کے اندر ہی ٹینٹ لگادیے ہیں، پہلی بار یونیورسٹیوں کے اندر پولیس کو بلایا گیا ہے جو زبردستی کیمپ اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اسٹوڈنٹس دوبارہ لگالیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے طلباء اور خواتین پروفیسروں پر بدترین تشدد کیا گیا ہے مگر تحریک کی شدّت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ طالب علموں کی یہ تحریک امریکا سے نکل کر یورپ کی درسگاہوں تک آن پہنچی ہے اور وہاں بھی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں نوجوانوں کے نعروں سے درودیوار ہل رہے ہیں۔غزہ کے شہیدوں نے اپنے خون سے لکھ دیا ہے کہ اب فلسطین کی آزادی کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا رویہ بے حد شرمناک رہا ہے، غزہ کے مظلوم بھائیوں کے لیے پاکستانی حکومت اور قوم دونوں کی بے حسی بے حد تشویشناک ہے۔ دنیا پر اپنا نظامِ حیات نافذ کرنے کے خواہشمند عالمی چوہدریوں کو پاکستان سے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں جس پر وہ یقیناً مطمئن اور خوش ہوںگے۔ وہ کئی دھائیوں سے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کررہے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل کے سینوں میں دبی ہوئی اپنے دین اور وطن سے محبت کی چنگاری بجھادی جائے، اس کے لیے انھوں نے احساسِ کمتری توڑنے اور امید اور حوصلے کا پیغام دینے والے اقبالؒ کے ذکر اور فکر کو کتاب اور نصاب سے نکلوادیا۔ پھر پرائیویٹ چینل شروع کرنے کے نام پر میڈیا پر کنٹرول حاصل کیا، وہاں سے غیرمعیاری ڈرامے چلا کر اخلاقیات اور فیملی سسٹم پر ضرب لگائی۔
انٹرنیٹ پر فحش، غیر اخلاقی اور انڈین مواد کی بھرمار کردی۔ تعلیمی اداروں میں مخلوط ناچ گانے شروع کرائے اور آہستہ آہستہ نوجوانوں کو صرف کھیل تماشوں اور ناچ گانے کے جنون اور نشے میں مبتلا کردیا۔ اہم قومی دنوں پر جب کہ دنیا بھر میں ٹی وی پر بہترین استادوں، قابل ڈاکٹروں، دیانتدار انجینئروں اور باضمیر سول سرونٹس کے انٹرویو دکھائے جاتے ہیں، ہمارے چینلوں پر صرف ڈانسرز یا اداکاراؤں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ جب دنیا بھر میں لاکھوں افراد غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کررہے تھے تو پاکستانی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک دو جگہوں پر اگر چند سو افراد نے مظاہرہ کرنے کی کوشش بھی کی تو پولیس نے اُن پر لاٹھیاں برسائیں اور تشدد کے ذریعے احتجاج روک دیا۔ پولیس کے اس شرمناک رویّے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی سطح پر اس قومی المیے کا ادراک نہیں ہے اوراصلاحِ احوال کے لیے اردہ، خلوص اور نیک نیتی کہیں نظر نہیں آتی۔
آہنی عزم کے الفاظ ہزاروں مرتبہ پڑھے تھے، غزہ میں اپنے تباہ شدہ مکانوں کے ملبوں اور جوان بیٹوں کے لاشوں پر کھڑے فلسطینی مسلمانوں کو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے دیکھا تو آہنی عزم کے معنی سمجھ میں آگئے۔ دنیا محوِ حیرت ہے کہ یہ کیسے انسان ہیں؟ کیا یہ گوشت پوست کے ہی بنے ہوئے ہیں، اگر یہ گوشت پوست ہی کے انسان ہیں تو ان میں آگ اور بارود کا خوف کیوں نہیں ہے؟ ان کی ماؤں میں پہاڑوں جیسا حوصلہ کہاں سے آگیا؟ ان کے نوجوانوں اور بچوں میں اتنی جرأتیں کیسے پیدا ہوگئیں؟ یہاں تو ایک بیٹے کی وفات پر مائیں دماغی توازن کھودیتی ہیں اور کئی برسوں تک ماتم کناں رہتی ہیں مگر یہ کس مٹی کی بنی ہوئی مائیں ہیں کہ چار چار بیٹوں کی لاشوں پر کھڑی ہیں اور صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنی ہوئی ہیں۔
دو دو پھول جیسے بچوں کی لاشیں اٹھائے ہوئے ہیں اور زبان پر صرف خالق ومالک کی تعریف اور عظمت کی گواہی ہے۔ الحمداللہ۔ اللہ اکبر۔ ان کے منہ سے صرف یہی الفاظ نکلتے ہیں ''ہمیں کسی کا کوئی ڈر نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے''۔ فلسطینی ماؤں کا اپنے خالق پر اس قدر پختہ ایمان اور آہنی عزم دیکھ کر سیکڑوں غیر مسلم یورپی خواتین مسلمان ہورہی ہیں۔ ان کے لیڈر بھی دوسروں سے مختلف ہیں دوسرے مسلمان ملکوں کے لیڈر صرف تقریریں کرتے ہیں مگر اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کو ہمیشہ محفوظ پناہ گاہوں میں رکھتے ہیں مگر اُن کے قائد اسماعیل ہانیہ نے اپنا کنبہ اور اپنے بیٹے بھی اسی مقتل میں رکھے جہاں دوسرے فلسطینی رہتے ہیں۔
ان کی فیمیلی بھی اسی طرح آگ اور بارود کی بارش کا مقابلہ کرتی رہی جس طرح دوسرے کرتے رہے اور بالآخر اسرائیل نے ان کے کنبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جس سے اسماعیل ہانیہ کے تین جوان خوبرو بیٹے اور تین پوتے شہید ہوگئے۔ پوتے تو بیٹوں سے بھی پیارے ہوتے ہیں، حادثہ ایسا تھا کہ جیسے کسی نے اسماعیل کے جسم سے دل اور جگر نکال کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہوں۔ ایسے حادثوں کے بعد انسان کا بچنا یا دماغ درست رہنا مشکل ہوتا ہے، مگر فلسطین کے اسماعیل اپنے جدامجد حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی سنت ادا کرنا جانتے ہیں۔
اسرائیل کا خیال تھا کہ اس کے خاندان کو قتل کردیں گے تو اسماعیل کے اعصاب جواب دے دیں گے مگر جب اسماعیل ہانیہ پر صدموں کا کوہِ ہمالیہ گرا تو اس نے پورے حوصلے کے ساتھ کہا کہ ''میرے بیٹے دوسرے فلسطینی بیٹوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں، انشاء اللہ میں اپنے اور دوسرے فلسطینی بیٹوں کے ساتھ جنت میں ملوںگا''۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ جنت میں آپ کی، اپنے پورے خاندان اور فلسطین کے تمام شہداء سے ضرور ملاقات ہوگی۔ آپ ہی تو جنت کے صحیح حقدار ہیں، آپ نے اپنی جرأت، آہنی عزم اور قربانیوں سے ثابت کردیا ہے کہ جنت کے وعدے آپ جیسے عظیم مسلمانوں کے لیے ہوئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ وہاں بنی کریم ﷺ خود آپ کا استقبال کریں گے اور فرشتے خود فلسطینی شہیدوں پر جنت کے پھول نچھاور کریں گے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خطرے کے وقت مدد کے لیے پکارتا ہے، اہلِ غزہ بھی پہلے پہل مدد کے لیے پکارتے رہے، کیا آپ اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات سے لاعلم ہیں، کیا غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد آپ کا فرض نہیں ہے۔ مگر مسلمان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی روئی کانوں میںٹھونس لی ۔ کلمہ گو بھائیوں سے مایوس ہوکر انھوں نے انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو پکارا ۔ انھیں انسانی حقوق کے سوداگروں سے بھی کچھ نہ کچھ خوش گمانی تھی کہ وہ اسرائیل کے دوست اور سرپرست سہی مگر انسان تو ہیں۔
تاریخ انسانی کی اس سب سے بڑی ٹریجیڈی کو دیکھ کر ان کے دل پسیج جائیں گے اور وہ ظالم اسرائیل کو لگام ڈالیں گے اور فلسطینی مظلومین کے لیے خوراک اور دوائیں بھیجیں گے۔ مگر دنیا کے چوہدریوں نے بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں اور زخموں سے چُور ماؤں پر بمباری روکنے والی قرارداد ناکام بنا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ جب مظلوم فلسطینیوں نے یہ دیکھا کہ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے دل مسلم دشمنی اور نسل پرستی کے تعصبات سے آلودہ ہیں تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔
انھیں سب سے تلخ سچ نظر آگیا اور اس کے بعد انھوں نے مدد کے لیے کسی اور کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا اور صرف اپنے خالق اور مالک کی جانب رجوع کرلیا، اور اسی سے مدد مانگنا شروع کردی۔ مظلوم کی فریاد آسمانوں کو چیر کر دربارِ الٰہی میں پہنچتی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مظلوموں کی آہ آسمانوں پر نہ سنی جائے۔ وہ ان کی پکار سنتا ہے۔ مظلوموں کی مدد ہوتی ہے مگر مدد کا اس کا اپنا نظام اور اپنا طریقۂ کار ہے۔
لگتا ہے قدرت نے اس بار مسلمانوں کو پھر ایک بار مغرب کے ایوانوں اور صنم خانوں سے مدد فراہم کرنے کا بندوبست کردیا ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے معصوم فلسطینیوں کا مقدس خون رنگ لارہا ہے۔ سب سے پہلے یہ ہوا ہے کہ امریکا میں بڑی محنت اور مہارت سے تعمیر کیا گیا اسرائیل سے محبت اور عقیدت کا قلعہ مسمار ہوگیاہے۔
امریکا اور یورپ کے ہر ایوان میں وہاں کے غیر مسلم ممبران نے اسرائیل کی اتنی شدید مذمت کی ہے جتنی کوئی مسلمان بھی نہیں کرسکا۔ امریکا اور یورپ کے ہر بڑے شہر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے ہیں اور وہ فلسطین کی آزادی کا عہد کررہے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کا بہنے والا خون امریکی اور یورپی طالب علموں کی آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی تحریک پورے امریکا میں پھیل چکی ہے۔ نوجوان طلباء وطالبات نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کیمپس کے اندر ہی ٹینٹ لگادیے ہیں، پہلی بار یونیورسٹیوں کے اندر پولیس کو بلایا گیا ہے جو زبردستی کیمپ اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اسٹوڈنٹس دوبارہ لگالیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے طلباء اور خواتین پروفیسروں پر بدترین تشدد کیا گیا ہے مگر تحریک کی شدّت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ طالب علموں کی یہ تحریک امریکا سے نکل کر یورپ کی درسگاہوں تک آن پہنچی ہے اور وہاں بھی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں نوجوانوں کے نعروں سے درودیوار ہل رہے ہیں۔غزہ کے شہیدوں نے اپنے خون سے لکھ دیا ہے کہ اب فلسطین کی آزادی کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا رویہ بے حد شرمناک رہا ہے، غزہ کے مظلوم بھائیوں کے لیے پاکستانی حکومت اور قوم دونوں کی بے حسی بے حد تشویشناک ہے۔ دنیا پر اپنا نظامِ حیات نافذ کرنے کے خواہشمند عالمی چوہدریوں کو پاکستان سے مطلوبہ نتائج حاصل ہورہے ہیں جس پر وہ یقیناً مطمئن اور خوش ہوںگے۔ وہ کئی دھائیوں سے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کررہے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل کے سینوں میں دبی ہوئی اپنے دین اور وطن سے محبت کی چنگاری بجھادی جائے، اس کے لیے انھوں نے احساسِ کمتری توڑنے اور امید اور حوصلے کا پیغام دینے والے اقبالؒ کے ذکر اور فکر کو کتاب اور نصاب سے نکلوادیا۔ پھر پرائیویٹ چینل شروع کرنے کے نام پر میڈیا پر کنٹرول حاصل کیا، وہاں سے غیرمعیاری ڈرامے چلا کر اخلاقیات اور فیملی سسٹم پر ضرب لگائی۔
انٹرنیٹ پر فحش، غیر اخلاقی اور انڈین مواد کی بھرمار کردی۔ تعلیمی اداروں میں مخلوط ناچ گانے شروع کرائے اور آہستہ آہستہ نوجوانوں کو صرف کھیل تماشوں اور ناچ گانے کے جنون اور نشے میں مبتلا کردیا۔ اہم قومی دنوں پر جب کہ دنیا بھر میں ٹی وی پر بہترین استادوں، قابل ڈاکٹروں، دیانتدار انجینئروں اور باضمیر سول سرونٹس کے انٹرویو دکھائے جاتے ہیں، ہمارے چینلوں پر صرف ڈانسرز یا اداکاراؤں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ جب دنیا بھر میں لاکھوں افراد غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کررہے تھے تو پاکستانی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک دو جگہوں پر اگر چند سو افراد نے مظاہرہ کرنے کی کوشش بھی کی تو پولیس نے اُن پر لاٹھیاں برسائیں اور تشدد کے ذریعے احتجاج روک دیا۔ پولیس کے اس شرمناک رویّے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی سطح پر اس قومی المیے کا ادراک نہیں ہے اوراصلاحِ احوال کے لیے اردہ، خلوص اور نیک نیتی کہیں نظر نہیں آتی۔