جو ’’تھا‘‘ نہیں ہے جو ’’ہے‘‘ نہ ہوگا
یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
جو ''تھا'' نہیں ہے جو ''ہے''نہ ہوگا
یہی ہے ایک حرف مجرمانہ
یعنی کتنے تھے اور کیسے کیسے ''تھے''جو اب نہیں ہیں، اسی طرح جو یہ اتنے بڑے بڑے ''ہیں'' جو نہیں ہوں گے۔ سکندر تھے، چنگیز تھے، ہلاکو تھے، تیمور و مغل تھے۔ ایوب خان تھے، بھٹو تھے، ضیاء الحق تھے، پرویز مشرف تھے جو اپنے وقت میں سب سے بڑے ہوا کرتے تھے اور آج کتنے بڑے بڑے ''ہے'' موجود ہیں اور جن کی ہر طرف ''ہیں'' ہیں ہے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ''باباجی ڈیمووالی سرکار'' اس ملک کے چپے چپے پر ہرکابوس کی طرح مسلط تھے۔لیکن اب کہاں ہیں؟یہ تو ہم آپ کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ان کا یہ ''ہونا'' یا اتنا زیادہ''ہونا'' بھی دراصل اپنے اعمال کی سزا ''خود''کو ''خود'' دینے کا قدرتی عمل ہے۔ یہ خود اپنی خوشی سے بلکہ کوشش سے اپنا آرام بلکہ قیام و طعام تک عذاب کرکے اپنے آپکو چیونٹیوں کے ''بل'' پر بٹھا دیتے ہیں اورا نجام کیا ہوتا ہے، وہی جو پہلے والے ''ہے'' کا ہوتا رہا ہے۔
زندگی میں ہزاروں لوگوں کی گالیوں اور موت کے بعد ''بد دعاؤں'' کے مورد وہدف۔ ایک کہانی بہت پرانی اپنی زبانی شاید کہیں پہلے بھی سنا چکے ہوں گا، اس امیرترین شخص کی کہانی جس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں۔تو میری یہ پھٹی پرانی جراب پہنا کر دفن کرنا۔لیکن جب دفن کا وقت آیا اور بیٹوں نے اسے پھٹی پرانی جراب پہنانا چاہی تو علماء نے منع کیا کہ کفن کے سوا مردے کو اور کچھ بھی نہیں پہنایا جا سکتا۔ جھگڑا بڑھا تو ایک بزرگ سامنے آیا جو مرحوم کا گہرا دوست تھا۔اس نے کہا، مرحوم نے یہ راز مجھے بتایا تھا، اس کا مقصد جراب نہیں تھا بلکہ وہ اپنے بیٹوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اس نے یہ ساری دولت جائز ناجائز، ہر طریقے سے کمائی ہے۔
وہ اس میں سے پھٹی پرانی جراب بھی نہیں لے جاسکتا۔انسان کیا کیا کرتا ہے اور کتنا کتنا کمالیتا ہے، جمع کرتا ہے۔لیکن اپنے ساتھ وہ صرف اعمال کے سوا کچھ نہیں لے جاسکتا ہے۔ ساری دولت اور جائیداد لواحقین آپس میں بانٹ لیتے ہیں ، بیچ دیتے ہیں، پھر بہت جلد مرحوم کو بھلا دیتے ہیں۔
اگر کچھ باقی رہتا ہے تو وہ اس کا نام ہوتا ہے۔ نام اگر ''بُرا'' کمایا ہے تو ''بُرا'' اور اچھا کمایا ہے تو اچھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ مرحوم نے اتنی دولت کمائی اور جائیداد بنائی، حتی کہ موحوم کے لواحقین بھی نہیں کہتے۔اگر کچھ یاد رکھا جاتا ہے تو وہ اس کا اچھا یا برُا نام ہوتا ہے۔ وہ دنیا میںجو کچھ کرکے جاتا ہے، وہ ترکہ ہمیشہ کے لیے اس کے نام کے ساتھ لگ جاتا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد وتالاب بنا
اب یہ جو ایک صاحب ہے جس نے ایک پاکستان اور عوام کو بے شمار عذابوں میں مبتلااور خوابوں کا اسیر کیا ہواہے، اگر کینسر اسپتال تک محدود رہتا تو ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا، دنیا میں نام تو ہے ہی 'اگلے جہاں میںبھی سرخرو ہوتا لیکن اس نے آخرت میں ''انعام ''کے بجائے ''دنیا'' لینے کا آپشن قبول کرلیا، یوں خود بھی مبتلائے آلام ہے' اور اپنے چیلوں کی دنیا بھی تاریک کردی ہے۔یہ سب تب ہوتا ہے جب باطن اور روح قناعت پسند نہیںرہتی۔ قناعت ''اندر'' سے بھر جانے کا نام ہے۔ انسان اندر سے خالی ہوجائے تو باہر سے ساری دنیا بھی مل جائے توبھوک ختم نہیں ہوتی ، حسد مزید بڑھتا ہے اور لالچ اس سے بھی سوا ہوجاتا ہے ۔
اک سمندر نے آواز دی
مجھ کو پانی پلا دیجیے
کہتے ہیں کسی نے ملکہ زبیدہ ( بادشاہ ہارون الرشید کی بیوی ) کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے۔ خواب دیکھنے والے نے کہا، آپ کو تو جنت ملنی ہی تھی، اتنی بڑی''نہر'' جو آپ نے بنائی تھی۔(زبیدہ نہر) لیکن ملکہ زبیدہ نے کہا، مجھے جنت اس نہر کے عوض نہیں ملی ہے۔نہر کے بارے میں تو مجھے بتایا گیا کہ اس کا صلہ تو تم دنیا میں ''شہرت'' کی شکل میں لے چکی ہو۔یہ جنت مجھے اس وجہ سے ملی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ایک زخمی، بیمار اور بھوکی پیاسی بلی کو دیکھا تو اسے اٹھا کر گھر لے گئی۔ اس کا علاج کیا، کھلایا پلایا تھا۔
کینسر اسپتال اس شخص کو دین و دنیا دونوں میں سرخرو کر سکتا تھا لیکن اس نے اسے حکمرانی کا خبط تھا۔ صرف یہ ہی واحد مثال نہیںاور بھی بہت ہیں۔ جو خیراتی کام کرتے تو ہیں لیکن بیچنے کے لیے۔ باوجود اس کے کہ سب کو پتہ ہے کہ ایسے کتنے ہوا کرتے ''تھے'' لیکن اب نہیں ہیں۔ یہ جو آج بڑے بڑے ''ہے'' بنے پھرتے ہیں، کل یہ بھی نہیں ہوں گے۔ البتہ اعمال یاد رہیں گے ، وہ اس کے نام کا حصہ رہیں گے ۔وہی نام جو اس نے کمایا ہوگا۔
جو ''تھا'' نہیں ہے جو ''ہے'' نہ ہوگا
جو ''تھا'' نہیں ہے جو ''ہے''نہ ہوگا
یہی ہے ایک حرف مجرمانہ
یعنی کتنے تھے اور کیسے کیسے ''تھے''جو اب نہیں ہیں، اسی طرح جو یہ اتنے بڑے بڑے ''ہیں'' جو نہیں ہوں گے۔ سکندر تھے، چنگیز تھے، ہلاکو تھے، تیمور و مغل تھے۔ ایوب خان تھے، بھٹو تھے، ضیاء الحق تھے، پرویز مشرف تھے جو اپنے وقت میں سب سے بڑے ہوا کرتے تھے اور آج کتنے بڑے بڑے ''ہے'' موجود ہیں اور جن کی ہر طرف ''ہیں'' ہیں ہے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ''باباجی ڈیمووالی سرکار'' اس ملک کے چپے چپے پر ہرکابوس کی طرح مسلط تھے۔لیکن اب کہاں ہیں؟یہ تو ہم آپ کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ان کا یہ ''ہونا'' یا اتنا زیادہ''ہونا'' بھی دراصل اپنے اعمال کی سزا ''خود''کو ''خود'' دینے کا قدرتی عمل ہے۔ یہ خود اپنی خوشی سے بلکہ کوشش سے اپنا آرام بلکہ قیام و طعام تک عذاب کرکے اپنے آپکو چیونٹیوں کے ''بل'' پر بٹھا دیتے ہیں اورا نجام کیا ہوتا ہے، وہی جو پہلے والے ''ہے'' کا ہوتا رہا ہے۔
زندگی میں ہزاروں لوگوں کی گالیوں اور موت کے بعد ''بد دعاؤں'' کے مورد وہدف۔ ایک کہانی بہت پرانی اپنی زبانی شاید کہیں پہلے بھی سنا چکے ہوں گا، اس امیرترین شخص کی کہانی جس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں۔تو میری یہ پھٹی پرانی جراب پہنا کر دفن کرنا۔لیکن جب دفن کا وقت آیا اور بیٹوں نے اسے پھٹی پرانی جراب پہنانا چاہی تو علماء نے منع کیا کہ کفن کے سوا مردے کو اور کچھ بھی نہیں پہنایا جا سکتا۔ جھگڑا بڑھا تو ایک بزرگ سامنے آیا جو مرحوم کا گہرا دوست تھا۔اس نے کہا، مرحوم نے یہ راز مجھے بتایا تھا، اس کا مقصد جراب نہیں تھا بلکہ وہ اپنے بیٹوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اس نے یہ ساری دولت جائز ناجائز، ہر طریقے سے کمائی ہے۔
وہ اس میں سے پھٹی پرانی جراب بھی نہیں لے جاسکتا۔انسان کیا کیا کرتا ہے اور کتنا کتنا کمالیتا ہے، جمع کرتا ہے۔لیکن اپنے ساتھ وہ صرف اعمال کے سوا کچھ نہیں لے جاسکتا ہے۔ ساری دولت اور جائیداد لواحقین آپس میں بانٹ لیتے ہیں ، بیچ دیتے ہیں، پھر بہت جلد مرحوم کو بھلا دیتے ہیں۔
اگر کچھ باقی رہتا ہے تو وہ اس کا نام ہوتا ہے۔ نام اگر ''بُرا'' کمایا ہے تو ''بُرا'' اور اچھا کمایا ہے تو اچھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ مرحوم نے اتنی دولت کمائی اور جائیداد بنائی، حتی کہ موحوم کے لواحقین بھی نہیں کہتے۔اگر کچھ یاد رکھا جاتا ہے تو وہ اس کا اچھا یا برُا نام ہوتا ہے۔ وہ دنیا میںجو کچھ کرکے جاتا ہے، وہ ترکہ ہمیشہ کے لیے اس کے نام کے ساتھ لگ جاتا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد وتالاب بنا
اب یہ جو ایک صاحب ہے جس نے ایک پاکستان اور عوام کو بے شمار عذابوں میں مبتلااور خوابوں کا اسیر کیا ہواہے، اگر کینسر اسپتال تک محدود رہتا تو ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا، دنیا میں نام تو ہے ہی 'اگلے جہاں میںبھی سرخرو ہوتا لیکن اس نے آخرت میں ''انعام ''کے بجائے ''دنیا'' لینے کا آپشن قبول کرلیا، یوں خود بھی مبتلائے آلام ہے' اور اپنے چیلوں کی دنیا بھی تاریک کردی ہے۔یہ سب تب ہوتا ہے جب باطن اور روح قناعت پسند نہیںرہتی۔ قناعت ''اندر'' سے بھر جانے کا نام ہے۔ انسان اندر سے خالی ہوجائے تو باہر سے ساری دنیا بھی مل جائے توبھوک ختم نہیں ہوتی ، حسد مزید بڑھتا ہے اور لالچ اس سے بھی سوا ہوجاتا ہے ۔
اک سمندر نے آواز دی
مجھ کو پانی پلا دیجیے
کہتے ہیں کسی نے ملکہ زبیدہ ( بادشاہ ہارون الرشید کی بیوی ) کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے۔ خواب دیکھنے والے نے کہا، آپ کو تو جنت ملنی ہی تھی، اتنی بڑی''نہر'' جو آپ نے بنائی تھی۔(زبیدہ نہر) لیکن ملکہ زبیدہ نے کہا، مجھے جنت اس نہر کے عوض نہیں ملی ہے۔نہر کے بارے میں تو مجھے بتایا گیا کہ اس کا صلہ تو تم دنیا میں ''شہرت'' کی شکل میں لے چکی ہو۔یہ جنت مجھے اس وجہ سے ملی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ایک زخمی، بیمار اور بھوکی پیاسی بلی کو دیکھا تو اسے اٹھا کر گھر لے گئی۔ اس کا علاج کیا، کھلایا پلایا تھا۔
کینسر اسپتال اس شخص کو دین و دنیا دونوں میں سرخرو کر سکتا تھا لیکن اس نے اسے حکمرانی کا خبط تھا۔ صرف یہ ہی واحد مثال نہیںاور بھی بہت ہیں۔ جو خیراتی کام کرتے تو ہیں لیکن بیچنے کے لیے۔ باوجود اس کے کہ سب کو پتہ ہے کہ ایسے کتنے ہوا کرتے ''تھے'' لیکن اب نہیں ہیں۔ یہ جو آج بڑے بڑے ''ہے'' بنے پھرتے ہیں، کل یہ بھی نہیں ہوں گے۔ البتہ اعمال یاد رہیں گے ، وہ اس کے نام کا حصہ رہیں گے ۔وہی نام جو اس نے کمایا ہوگا۔
جو ''تھا'' نہیں ہے جو ''ہے'' نہ ہوگا