سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی
ملک میں 26.2 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں سندھ کے 7.63 ملین بچے بھی شامل ہیں
سندھ میں پرائمری جماعت پاس کرنے والے 54 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ کراچی میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ بچوں کے تعلیم حاصل نہ کرنے کی بنیادی وجوہات میں کم تعداد میں مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کا ہونا بھی ہے۔
سردار علی شاہ نے اپنے وزیر اعلیٰ کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ 45 لاکھ بچے مختلف وجوہات کی بنا ء پر اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ میں صرف 36 ہزار 234 پرائمری اسکول ہیں اور مڈل اسکولوں کی تعداد 4 ہزار 730 ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان نے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ صوبہ میں 3 ہزار 234 پرائمری اسکول اور 4 ہزار 730 مڈل اسکول ہیں، جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے 54 فیصد کے قریب طلبہ نے مزید تعلیم حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسکولوں کو چھوڑ گئے۔
سردار علی شاہ نے اپنی اس بریفنگ میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (PIE) کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔ انسٹی ٹیوٹ نے ایک مربوط سروے کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں 26.2 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں سندھ کے 7.63 ملین بچے بھی شامل ہیں۔ سردار شاہ نے پی آئی ای کی رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے وفاقی وزارت تعلیم کی رپورٹ کو معتبر قرار دیا ہے۔
وزارت تعلیم کی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں 4.1 ملین بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ سردار علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں 14,208,257 بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سندھ میں 50,000 بچے مذہبی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کو بھی اگر درست مان لیا جائے تو 21ویں صدی کے پہلے 24 برسوں میں 54 فیصد طلبہ کا ناخواندہ رہنا اور جدید تعلیم حاصل نا کرنا پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے۔
ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرپرسن خضر حبیب جنھوں نے برسوں شعبہ تعلیم میں تحقیق کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ جب 2008میں صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پانچویں دفعہ قائم ہوئی تو اس وقت اسکول نہ جانے والے طلبہ کی تعداد 7.6 ملین تھی، یوں ان اعداد و شمار کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ میں گزشتہ 16 برسوں میں تعلیم کے شعبے میں کوئی قابلِ قدر ترقی نہیں ہوئی۔ جب پیپلز پارٹی نے 2008میں سندھ میں حکومت بنائی تھی تو وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کی مدد سے آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی اور اس ترمیم میں نئے این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ طے ہوا اور صوبے کی آمدنی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ پانچ سال یعنی 2008سے 2013 تک سندھ کی حکومت کو وفاق کی مدد حاصل رہی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ان کے مشیروں نے یہ بات سمجھادی ہے ۔ دو سال قبل آنے والے سیلاب سے اندرون سندھ اسکولوں میں بیشتر عمارتیں تباہ ہوگئیں جس سے شعبہ تعلیم میں خسارہ ہوا ہے۔
سینئر صحافی اور فلم میکر عزیز سنگھور کراچی کے ساحلی علاقہ مبارک ولیج کے قریب رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی یہ ساحلی پٹی حب سے ریڑھی گوٹھ تک پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی میں 1200 گوٹھ آباد ہیں۔ اس آبادی کا بیشتر حصہ پیپلز پارٹی کا قدیم حامی ہے مگر اس بستی میں سرکاری اسکولوں کی عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولتیں نہیں ہیں۔ لاپتہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اس علاقے کے اسکولوں میں تعینات ہے اور سیکنڈری اسکولوں میں سائنس کے مضامین کی تدریس کا باقاعدہ انتظام نہیں ہے۔
ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ میں کراچی کے ایک پرائمری اسکول کے طلبہ کی مشکلات کا ذکر تھا۔ اس میں فرنیچر نہ ہونے کی بناء پر طلبہ فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اندرون سندھ ان علاقوں میں جہاں سیلاب سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ہے، وہاں کے اسکولوں کے حالات کراچی کی ساحلی پٹی میں قائم اسکولوں جیسے ہیں۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تھرپارکر کے ضلع چاچھرو سمیت تین اضلاع میں کوئی گرلز ہائی اسکول نہیں ہے اور سات میں سے پانچ تحصیلوں میں کوئی کالج موجود نہیں ہے۔ دراصل سندھ میں تعلیمی زبوں حالی کا جائزہ لینے کے لیے ماضی کی طرف جانا ہوگا۔ جب پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنے معمر رہنما سید قائم علی شاہ کی قیادت میں حکومت بنائی تو پیر مظہر الحق کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔
اس وقت کئی بااثر رہنما صوبائی کابینہ میں موجود تھے جن کے ایوان صدر سے براہِ راست تعلقات تھے، یوں اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وزیر اعلیٰ کے مکمل اختیارات کس وزیر کے پاس ہیں تو شعبہ تعلیم میں لوٹ مار کا ایک نیا طریقہ سامنے آیا۔ ورلڈ بینک عرصہ دراز سے سندھ میں اسکول ایجوکیشن کے لیے گرانٹ دیتا تھا۔ ورلڈ بینک نے شرط رکھی کہ اساتذہ کا منصب حاصل کرنے کے خواہاں امیدواروں کی اہلیت جانچنے کے لیے ایک معیاری انٹری ٹیسٹ ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی سے پہلے مسلم لیگ کی حکومت نے ورلڈ بینک کی اس شرط پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا مگر پیپلز پارٹی کے وزیر تعلیم کو یہ شرط پسند نہ آئی۔ انھوں نے ہزاروں افراد کو بطور استاد تقرر نامے جاری کر دیے، یوں سندھ میں باقاعدہ تقرر کے خطوط حاصل کرنے کے لیے کاروبار شروع ہوا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ ورلڈ بینک نے گرانٹ بند کرنے کی دھمکی دیدی۔ صدر آصف زرداری کو مداخلت کرنی پڑی اور اپنے ایک عزیزکو سیکریٹری تعلیم مقرر کیا۔
یوں یہ تقررنامے منسوخ ہوئے ۔ مگر ان ہزاروں افراد نے احتجاجی مہم شروع کردی۔ کراچی پریس کلب، حیدرآباد پریس کلب اور سکھر پریس کلب کے سامنے دھرنے شروع ہوئے۔ ان افراد نے کئی دفعہ وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو پولیس نے لاٹھی چارج، ٹھنڈے پانی کے چھڑکاؤ اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے۔ ٹی وی چینلز پر یہ مناظر براہِ راست دکھائے گئے۔ یہ افراد بار بار کہتے تھے کہ ان کے خاندان والوں نے قرضہ لے کر یا کچھ زیورات فروخت کرکے بااثر افراد کو لاکھوں روپے ادا کیے ہیں، وہ تو واپس ہونے چاہئیں۔ کئی سال تک یہ ڈرامہ جاری رہا۔ کئی لوگ تکنیکی بنیادوں پر اعلیٰ عدالتوں سے بحال ہوئے اور باقی افراد کو شاید کہیں اور ملازمتیں فراہم کردی گئیں۔
اس وقت سے سندھ کے محکمہ تعلیم کے بارے میں یہ تاثر تقویت پاگیا کہ ہر تقرر اور اچھی پوسٹنگ کے لیے طے شدہ سرمایہ کا بندوبست ضروری ہے۔ حتیٰ کہ جو اساتذہ اور دیگر عملہ کو عمرہ، زیارتوں اور حج جانے کے لیے این او سی کی ضرورت ہوتی تھی انھیں بھی یہ این او سی بڑی رقم ادا کرکے دی جاتی تھی۔
مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ مراد علی شاہ نے امریکا کی یونیورسٹی سے انجنیئرنگ جیسے جدید شعبے میں پوسٹ گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔ ان کے والد جو پہلے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے ان پر اساتذہ کے تقرر کے لیے آسامیوں کو فروخت کرنے کا کوئی الزام نہ تھا، یوں امید تھی کہ مراد علی شاہ کے دور میں سندھ میں ایسی ہی طرزِ حکومت رائج ہوگی جیسی شہباز شریف نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے رائج کی تھی مگر مراد علی شاہ کے زوردار بیانات اور پرجوش عزم کا اظہار ہونے کے باوجود حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ محکمہ تعلیم میں اسکول سے لے کر کالج تک اور پھر یونیورسٹیوں میں بھی ہر طرف ایڈہاک ازم ہے۔ بہت سے اساتذہ اور افسران مسلسل یہ شکایت کرتے ہیں کہ اندرون سندھ کے جونیئر افسروں کو اہم اسامیوں پر لگایا جاتا ہے اورکوئی بھی اہم پوسٹنگ سفارش یا کثیر سرمائے کے بغیر نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر کرن سنگھ اردو کے استاد ہیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ سندھ میں سب سے سینئر پروفیسر تھے مگر انھیں بڑے کالج کا پرنسپل نہیں بنایا گیا نہ کسی تعلیمی بورڈ میں چیئرمین کا عہدہ دیا گیا۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصے پہلے ڈاکٹر کرن سندھ کو سکھر ریجن کا ڈائریکٹر مقررکیا گیا۔ سندھ کی پہلی لاء یونیورسٹی میں برسوں سے وائس چانسلر کا تقرر نہ ہوا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایک بڑے لاء کالج اور لیاری یونیورسٹی کے عارضی وائس چانسلر میڈیکل کے پروفیسر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تک سندھ میں صد فی صد خواندگی نہیں ہوگی اور ہر بچے کے لیے اسکول جانا لازمی نہیں ہوگا غربت ختم نہیں ہوگی۔ پڑوسی ملک بھارت میں والدین کو بچوں کو اسکول میں تعلیم دلانے کے لیے مالیاتی پیکیج دیا تھا، یوں وہاں خواندگی کا تناسب صد فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ وہ دانشور جو سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے کارناموں کو بیان کرتے نہیں تھکتے، انھیں ان حقائق کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے۔ سندھ کی ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب سندھ میں خواندگی سو فیصد ہوجائے مگر یہ ہدف کب حاصل ہوگا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔