فروغ تعلیم کا مشن

پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، ان کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہی نہیں تھی

پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، ان کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہی نہیں تھی—فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسکول سے باہر دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچوں کا لازمی اسکول میں داخلہ کرائیں گے۔

تعلیم سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تعلیم کے بغیرکوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ تعلیم کے فروغ کے لیے مالی وسائل کی فراہمی سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن جب عزم پختہ ہو تو چیلنجز پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ وہ مسئلے کی اہمیت سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں اور فروغ تعلیم ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ دنیا میں بنیادی تعلیم دینا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، ان کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہی نہیں تھی۔پاکستان تعلیم کے لیے دنیا بھر سے امداد لیتا ہے لیکن اس کا عملی استعمال کرپٹ سسٹم کی وجہ سے ملکی تعلیمی نظام کو فائدہ نہیں دے رہا۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں خواندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہاں بچوں کے اسکول میں داخلوں میں اضافے کی شرح محض 0.92فیصد ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ملک کے تمام بچوں کے اسکول میں داخلوں کی سو فیصد شرح کا ہدف حاصل کرنے میں ابھی ہمیں مزید وقت درکار ہے۔

ہمارے سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا خراب ہے کہ وہاں سے فارغ ہونے والے بیشتر بچے میٹرک کرنے کے باوجود لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی بنیادی صلاحیت تک پیدا نہیں کر پاتے۔ انگریزی تعلیم کے لیے بچے پرائیویٹ اداروں کا رخ کرتے ہیں جب کہ سولہ فیصد بچے دینی تعلیم کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں میں بھی تعلیم دینے کا سلسلہ انتہائی کمتر درجے کا ہے۔ تمام پرائیویٹ ادارے جو اسکول چلا رہے ہیں، ان کا زور انگریزی بولنے اور انگریزی رٹنے پر ہوتا ہے اور ان اسکولوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان کی بیشتر آبادی یہ اخراجات نہیں اٹھا سکتی۔

آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے لائے گئے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ریاست کی ذمے داری ہے کہ چھ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے، لیکن ہمارے ہاں تو دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مزید دس سال بعد تو صورت حال اور بھی پریشان کن ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہر دو سال بعد جب پاکستان میں بچوں کی تعلیم سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ جاری ہوتی ہے، تو اس کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ جواب ہے، کچھ نہیں کرتی۔

اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے کے لیے وفاقی حکومت کا کم بجٹ، غربت اور سرکاری اسکولوں کی کمی ہے۔ چودہ سال کی صرف تیرہ فیصد بچیاں تعلیم حاصل کر پا رہی ہیں، اس کی بڑی وجہ لڑکیوں کے سکینڈری اسکولوں کی کمی، کم عمری کی شادیاں اور مار پیٹ کرنے والے استاد ہیں۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا شدید بحران ہے، اکثر لڑکیوں کو اسکول جانے کے لیے طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے، بچیوں کے لیے محفوظ اور گھروں سے قریب اسکول فراہم کرنا ابھی ایک خواب جیسا ہے۔ پاکستان اپنے سالانہ بجٹ کا صرف 2.8 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا تجویز کردہ بجٹ چار فیصد ہے۔

معیاری تعلیم کی فراہمی ہر مہذب ریاست کی اولین ترجیحی حیثیت کی حامل ہے جب کہ معیاری تعلیم کا حصول ہر فرد کا حق ہے پاکستان میں تعلیم کا شدید فقدان پایا جاتا جس میں عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب برابر کے شریک ہیں اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں کم تعلیمی بجٹ، تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیم نسواں کا نہ ہونا، وسائل کی کمی، والدین کی غفلت۔ ہر سال بجٹ میں ایک تو تعلیم کے لیے بجٹ بہت کم رکھا جاتا ہے دوسرا جو رکھا جاتا ہے وہ بھی ایمانداری سے نہیں لگتا وہ بھی کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے یہ بہت بڑ المیہ ہے۔


ہمارے کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے تو محروم ہیں جب کہ لاکھوں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سہولیات بھی میسر نہیں۔ پورے ملک میں کل ملا کر 200کے قریب نجی اور سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، جو کہ آبادی کے جم غفیر کے لیے ناکافی ہیں اسی طرح تعلیم کی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے جیسا کہ لیبارٹریز، بہترین انفرا اسٹرکچر، مفت تعلیمی مواد خصوصاً کتابیں، بیگز اور اسٹیشنری وغیرہ کی کمی ہے۔

تعلیم کا نہ ہونا غربت سے بھی جڑا ہے، انتہائی کم فی کس آمدن والے غربت کے زمرے میں آتے ہیں جنھیں جیسے تیسے دو وقت کی روٹی تو نصیب ہے مگر دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جو لوگ غربت کی اس بھٹی میں جل رہے ہیں ان کے لیے تعلیم کی اہمیت کیا ہوتی کوئی خبر نہیں، انھیں تو بس اپنی دو وقت کی روٹی کی فکر ہے۔پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی تیاری پر کبھی سنجیدگی سے کام کیا ہی نہیں گیا۔

دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن بجٹ میں تعلیم کے لیے مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد سے زائد وسائل رکھے ہی نہیں جاتے۔ ملک میں ایک چوتھائی سے زائد پرائمری اسکول ایک دو کمروں اور ایک دو ٹیچرز پر مشتمل ہیں۔ ایک تہائی پرائمری اسکولوں میں بجلی، پانی اور چار دیواری بھی نہیں۔ ہمارے ہاں سب سے نالائق لوگوں کو اس شعبہ میں لایا جاتا ہے زیادہ تر سیاسی سفارش، رشوت یا کوٹے میں ملازمت دی جاتی ہے اور ان کی کوئی عملی تربیت نہیں کی جاتی۔

دوران ملازمت ان کو جانچا نہیں جاتا اور ان کو معاشرے کے دوسرے افراد کے مقابلے میں تنخواہ اور مراعات بھی بہت کم دی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ اپنا کام حقیقی معنوں میں سرانجام نہیں دیتے اور رفتہ رفتہ اس کلچر نے ایک ایسی صورت اختیار کی ہے کہ اب اس سے چھٹکارا پانا عملاً ممکن بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں تعلیم کی جگہ ڈگری کی اہمیت ہے۔

یہاں بازاروں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کھلے عام نقل کرنے کے لیے نوٹس بک رہے ہوتے ہیں مگر اس کو کوئی نہیں روکتا۔ سرکاری اسکولوں کے لاکھوں بچے ہر برس امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں، مگر آج تک اس کی وجہ سے کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ یہ نظام تعلیم اتنا سڑ چکا ہے کہ اب اس سے بدبو آنے لگی ہے۔ملک کی بیوروکریسی اور دیگر ملازمین کی شاہ خرچیاں ختم کردی جائیں اور اس پیسے کو تعلیم پر لگائیں تو چند برسوں میں پاکستان بھی دنیا کے ساتھ آگے بڑھ پائے گا ورنہ دنیا ترقی کے راستے پر جائے گی اور ہم غربت اور جنگوں کا ایندھن بنیں گے۔

گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں ہم نے عملاً اس ملک کو ترقی کی راستے سے دور رکھا۔ اس وقت ملکی سطح پر یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے کوئی عملی کام نہیں ہو رہا۔ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے، لیکن چونکہ اس کام سے حکومتوں میں آنے والے لوگوں کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں ہے اس لیے وہ یہ کام نہیں کرتے۔ کسی بھی پاکستانی حکومت نے تعلیمی شعبے میں طویل عرصے سے پیدا ہونے والی اس ہنگامی حالت کے تدارک کے لیے کافی اور دیرپا عملی اقدامات نہیں کیے۔

مسئلے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ ہے، جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسے بچوں کے لیے خصوصی منصوبے ہونا چاہییں۔

انھیں وظیفے دیے جانا چاہییں اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے۔سماجی علوم کے ماہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک خاص کر امریکا یا پھر یورپی یونین کے کسی رکن ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایسے میں آج کے پاکستانی معاشرے میں اگر ریاست نے اپنے فرائض ادا نہ کیے اور پرائمری اور ہائی اسکولوں میں تعلیم کی عمر کے کروڑوں بچوں کو ناخواندہ رہنے دیا، تو دس پندرہ سال بعد ملک میں جسمانی مشقت کرنے والے مزدوروں میں کروڑوں نئے مزدور شامل ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کو ایک دو عشرے بعد ہی اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت اور ماہر پیشہ ور کارکنوں کی کمی کا سامنا بھی ہو گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے فروغ کے لیے مؤثر پالیسی بنائے اور بجٹ میں ایک بڑا حصہ تعلیم کیلیے مختص کرے۔ اس کے علاوہ غریب بچوں کی مفت تعلیم کا کوئی انتظام کرے۔ صاحب ثروت حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ اجتماعی طور پر ایسے ادارے بنائیں جو ان بچوں کی صحیح طور پر کفالت کریں اور اگر اجتماعی طور پر کوئی صورت نہ بن سکے تو انفرادی طور پر ہی حسبِ توفیق ایک یا دو بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لیں تو بھی کافی حد تک ایسے بچوں کی تعداد کم ہوجائے۔

حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی اچھی تعلیم کے ریاستی اور عوامی مستقبل سے لازمی تعلق کو سمجھے اور اس شعبے میں بھرپور نئی سرمایہ کاری کرے۔ والدین بھی ہر حال میں بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام دونوں کو نئی نسل کی تعلیم سے متعلق اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
Load Next Story