قومی مفاد مقدم ہے
مثبت سوچ اور تعمیری رویوں کا گہرا فقدان نظر آتا ہے
بلاشبہ انسان فطرتاً خودپسند اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ وہ اپنی ضد اور اناؤں کے خول میں رہنا پسند کرتا ہے۔اسے صرف اپنے نظریات، جذبات، احساسات اور خیالات کا پرچار کرنا اور دوسروں پر حاوی ہونا اچھا لگتا ہے۔
معاشرت سے لے کر مذہب تک اور معیشت سے لے کر سیاست تک اور صحافت سے لے کر عدالت تک غرض ہر شعبہ ہائے زندگی انسانی فطرت کے یہ مظاہر آپ کو جا بجا نظر آئیں گے۔ یہی چیزیں قوموں کے اور ملکوں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک ہر شعبہ فکری افلاس میں مبتلا ہے۔ مذہبی، سیاسی، صحافتی، عدالتی، جماعتی، گروہی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تقسیم کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد اپنی اپنی جھوٹی اناؤں کے خول میں اس طرح قید ہیں کہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مثبت سوچ اور تعمیری رویوں کا گہرا فقدان نظر آتا ہے۔ منافقانہ طرز عمل اور مفاد پرستانہ کردار نے ہر شخص کے قول و عمل کے تضادات کو کچھ اس طرح نمایاں کر دیا ہے کہ عوام الناس کا بھروسہ ریزہ ریزہ ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص ملک کے بالائی اور حکمراں طبقے سے وابستہ افراد ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہان سب اپنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے مفادات کو تحفظ دینے اور اختیارات و وسائل پر قابض رہنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں اور آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ مملکت کے معاملات چلانے کے لیے آئین بنیادی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کیا جاتا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب کے آئینی بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔
انفرادی و اجتماعی ہر دو حوالوں سے فرد اور اداروں پر لازم ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق فرائض منصبی ادا کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی استحکام کی علامت ہے، معیشت کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہے، عوام کے حقوق کے تحفظ کی دلیل ہے اور ملک کی ترقی کا راز بھی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ملک کی ترقی کے اس راز حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود آئین کے مطابق امور سلطنت چلانے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔ سات دہائیاں گزر گئیں، آئین آج بھی بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔
حکمرانوں سے لے کر اپوزیشن تک اور اداروں سے لے کر ایوانوں تک سب کا دعویٰ ہے کہ ہم آئین کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پھر تضادات کیوں ہیں؟ اختلافات کیوں ہیں؟ رنجشیں کیوں ہیں؟ چپقلش کیوں ہے؟ ایک دوسرے کے موقف کو سننے، سمجھنے اور افہام و تفہیم سے مسائل و معاملات کو سلجھانے اور حل کرنے کی کاوشیں رنگ نہیں لا رہی ہیں جو افسوس ناک ہے۔
آپ عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بروقت اور مربوط نظام کی تشکیل سے لے کر مستقبل کے ٹھوس لائحہ عمل تک عدالتی ارباب اختیار میں تذبذب نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے؟ افسوس کہ ایسا کہیں کچھ نہیں ہے، تو ایسا عمل آئین پاکستان کی پاسداری ہے یا پامالی؟ عدلیہ کو اس حوالے سے اپنا صائب اور ٹھوس موقف دیتے ہوئے فیصلہ دینا چاہیے۔
آپ 9 مئی کے واقعے کو لے لیجیے، ایک سال گزر گیا، اس کی بازگشت آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ سنائی دے رہی ہے کہ 9 مئی سانحے کے ملزمان کو سزا ہر صورت دینا ہوگی اور پی ٹی آئی قوم کے سامنے معافی مانگے اور تعمیری سیاست کی یقین دہانی کرائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے جو تہہ تک جائے اور یہ بھی دیکھے کہ 2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے۔
پی ٹی آئی کا موقف بھی سامنے آیا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعے پر عدالتی تحقیقات کے لیے تیار ہے اور جوڈیشل کمیشن دھرنے سمیت عمران خان پر حملے، سائفر کیس، آڈیو لیکس اور رجیم چینج وغیرہ کی بھی تفتیش کرے۔ ملکی سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
سانحہ 9 مئی کے کرداروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کی رضامندی سے عدالتی کمیشن بنا دیا جائے۔ نگراں حکومت کے دور میں گندم کی درآمد کے حوالے سے جو اسکینڈل سامنے آیا ہے اور ملک کے غریب کسانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کی تحقیقات کے لیے بھی عدالتی کمیشن بنایا جانا چاہیے۔ ہمیں انفرادی و اجتماعی فیصلوں میں ملکی مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنا چاہیے۔
معاشرت سے لے کر مذہب تک اور معیشت سے لے کر سیاست تک اور صحافت سے لے کر عدالت تک غرض ہر شعبہ ہائے زندگی انسانی فطرت کے یہ مظاہر آپ کو جا بجا نظر آئیں گے۔ یہی چیزیں قوموں کے اور ملکوں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک ہر شعبہ فکری افلاس میں مبتلا ہے۔ مذہبی، سیاسی، صحافتی، عدالتی، جماعتی، گروہی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تقسیم کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد اپنی اپنی جھوٹی اناؤں کے خول میں اس طرح قید ہیں کہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مثبت سوچ اور تعمیری رویوں کا گہرا فقدان نظر آتا ہے۔ منافقانہ طرز عمل اور مفاد پرستانہ کردار نے ہر شخص کے قول و عمل کے تضادات کو کچھ اس طرح نمایاں کر دیا ہے کہ عوام الناس کا بھروسہ ریزہ ریزہ ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص ملک کے بالائی اور حکمراں طبقے سے وابستہ افراد ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہان سب اپنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے مفادات کو تحفظ دینے اور اختیارات و وسائل پر قابض رہنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں اور آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ مملکت کے معاملات چلانے کے لیے آئین بنیادی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کیا جاتا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب کے آئینی بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔
انفرادی و اجتماعی ہر دو حوالوں سے فرد اور اداروں پر لازم ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق فرائض منصبی ادا کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی استحکام کی علامت ہے، معیشت کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہے، عوام کے حقوق کے تحفظ کی دلیل ہے اور ملک کی ترقی کا راز بھی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ملک کی ترقی کے اس راز حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود آئین کے مطابق امور سلطنت چلانے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔ سات دہائیاں گزر گئیں، آئین آج بھی بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے۔
حکمرانوں سے لے کر اپوزیشن تک اور اداروں سے لے کر ایوانوں تک سب کا دعویٰ ہے کہ ہم آئین کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پھر تضادات کیوں ہیں؟ اختلافات کیوں ہیں؟ رنجشیں کیوں ہیں؟ چپقلش کیوں ہے؟ ایک دوسرے کے موقف کو سننے، سمجھنے اور افہام و تفہیم سے مسائل و معاملات کو سلجھانے اور حل کرنے کی کاوشیں رنگ نہیں لا رہی ہیں جو افسوس ناک ہے۔
آپ عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بروقت اور مربوط نظام کی تشکیل سے لے کر مستقبل کے ٹھوس لائحہ عمل تک عدالتی ارباب اختیار میں تذبذب نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے؟ افسوس کہ ایسا کہیں کچھ نہیں ہے، تو ایسا عمل آئین پاکستان کی پاسداری ہے یا پامالی؟ عدلیہ کو اس حوالے سے اپنا صائب اور ٹھوس موقف دیتے ہوئے فیصلہ دینا چاہیے۔
آپ 9 مئی کے واقعے کو لے لیجیے، ایک سال گزر گیا، اس کی بازگشت آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ سنائی دے رہی ہے کہ 9 مئی سانحے کے ملزمان کو سزا ہر صورت دینا ہوگی اور پی ٹی آئی قوم کے سامنے معافی مانگے اور تعمیری سیاست کی یقین دہانی کرائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے جو تہہ تک جائے اور یہ بھی دیکھے کہ 2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے۔
پی ٹی آئی کا موقف بھی سامنے آیا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعے پر عدالتی تحقیقات کے لیے تیار ہے اور جوڈیشل کمیشن دھرنے سمیت عمران خان پر حملے، سائفر کیس، آڈیو لیکس اور رجیم چینج وغیرہ کی بھی تفتیش کرے۔ ملکی سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
سانحہ 9 مئی کے کرداروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کی رضامندی سے عدالتی کمیشن بنا دیا جائے۔ نگراں حکومت کے دور میں گندم کی درآمد کے حوالے سے جو اسکینڈل سامنے آیا ہے اور ملک کے غریب کسانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کی تحقیقات کے لیے بھی عدالتی کمیشن بنایا جانا چاہیے۔ ہمیں انفرادی و اجتماعی فیصلوں میں ملکی مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنا چاہیے۔