غزہ کی حمایت میں طلبا احتجاج
بارہا ایسا ہوا ہے کہ اچھائی نے قلیل تعداد کے باوجود بدی کی بڑی اکثریت کو پچھاڑ دیا
بدیEvil کو پنپنے اور کامیاب ہونے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ اچھائی غیرمتحرک رہے۔ اچھائی اگر متحرک ہو گی تو خیر کی قوت میں اضافہ ہو گا اور ایسے میں بدی سر نہیں اُٹھا سکے گی۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ اچھائی نے قلیل تعداد کے باوجود بدی کی بڑی اکثریت کو پچھاڑ دیا لیکن اس کے لیے اچھائی اور خیر کو اپنی پوری قوت سے بے خوف ہو کر اُٹھنا ہوتا ہے۔
پچھلے سات ماہ سے اسرائیلی بدی کھُل کر کھیل رہی ہے۔ غزہ کے باسیوں پر آگ برس رہی ہے،عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں،عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔ بچیوں اور بچوں کو بے آسرا اور یتیم بنایا جا رہا ہے۔ ماؤں کی گودیں اُجاڑی جا رہی ہیں۔لاشیں ملبے کے ڈھیروں تلے دبی بے گورو کفن پڑی ہیں۔
قتل ِ عام کیا جا رہا ہے۔کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب غزہ کے لوگوں پر بموں کی بارش نہ ہو رہی ہو، وہاںکوئی ایک چپہ زمین ایسی نہیں جہاں غزہ کے مقیم اس یقین کے ساتھ سر چھپا سکیں کہ اس جگہ ان کی جانیں اور عزت و آبرو محفوظ ہے۔غزہ کی ساری پٹی ملبے کا ایک بڑا ڈھیر اور کھلا زندان بن چکی ہے لیکن ان کے بھائی بند،ان کے مسلم ہمسائے ممالک چین کی نیند سو رہے ہیں جیسے کہ ان کے پڑوس میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ عرب دنیا اور غیر متعلق مسلمان ممالک تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔اسرائیل کی پشت پر یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور مشرقِ بعید کے ممالک ہیں اور کیوں نہ ہوں،یہ سب غزہ کی پٹی کے ان چند لاکھ عوام کو مٹانے کا مقصد لیے جسدِ واحد ہیں۔
غزہ کے بندگانِ خدا کو کہیں سے مدد و نصرت نہیں مل رہی،ایسے میں ان بے یارو مدد گار معصوم لوگوں کو اﷲ نے وہاں سے مدد فراہم کرنی شروع کر دی ہے جہاں سے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دنیا بھر کی اور خاص کر اسرائیل کی پشت پر کھڑی اقوام کی یونیورسٹیوں کے طلبا اور طالبات نے اسرائیلی قتل عام کے خلاف اور غزہ کو آزادی دلانے کے حق میں احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔
سب سے زیادہ طلبا مظاہرے اور دھرنے اسرائیل کے سب سے بڑے اور سب سے طاقتور ساتھی ملک امریکا میں ہو رہے ہیں۔ایک طرف اسرائیلی مظالم کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں،مظاہروں میں شدت آ رہی ہے لیکن یہ سب کچھ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ پر امن طریقے سے ہو رہا ہے تو دوسری طرف امریکی پولیس کی کارستانیاں بڑھ رہی ہیں۔امریکا کے طول و عرض میں واقع یونیورسٹیوں کے طلبا جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی کے رہنے والوں کے ساتھ یک جہتی دکھا رہے ہیں لیکن امریکی پولیس ان معصوم طلبا کے اوپر آنسو گیس کے گولے پھینک رہی ہے اور ربڑ کی گولیاں برسا کر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
طلبا کا عزم و حوصلہ مثالی ہے اس لیے ان کو توڑنے کے لیے گرفتار ی کے ساتھ ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔18اپریل کو نیو یارک کی کو لمبیا یونیورسٹی میں طلبا کے دھرنے سے یہ احتجاج شروع ہوا۔یہ طلبا مطالبہ کر رہے تھے کہ امریکا کی وہ کمپنیاں جو فلسطین پر قابض اسرائیل کے ساتھ کاروبار کر کے اسے مالی منفعت پہنچا رہی ہیں وہ امریکی کمپنیاں یہ غلیظ کام بند کریں۔طلبا کا مرکزی مطالبہ یہ ہے کہ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیلی تعلیمی اداروں سے روابط ختم کریں اور اسرائیل کے لیے جنگی ہتھیار بنانے والے کارخانوں کو مالی امداد روکیں۔
یہ مظاہرے نیویارک کے بعد امریکا کے شہروں میں واقع دوسری یونیورسٹیوں میں سرعت سے پھیل گئے۔نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی، Yale یونیورسٹی، نارتھ کیرولینا کی مشہور ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور ہارورڈکے طلبا بھی اس احتجاج میں شریک ہو گئے۔ یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ غزہ کی جنگ بند کی جائے اور غاصب حکومت کی امداد روک دی جائے۔ جس طرح کہ عام طور پر ہوتا ہے،امریکی یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی غزہ کی مدد کی یہ تحریک جلد ہی دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئی۔
جرمنی،جاپان، کینیڈا، فرانس،اسپین،اٹلی اور یونان کی یونیورسٹیوں کے طلبا نے بھی اسرائیلی مظالم اور قتلِ عام کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک صرف امریکا ہی میں 2600 طلبا و طالبات کو گرفتار کیا گیا ہے۔امریکی پولیس پر الزام ہے کہ اس نے ان مظاہروں کو ختم کروانے کے لیے اور طلبا کو دھرنے سے اٹھانے کے لیے ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔
پولیس پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسانے کے علاوہ آہنی مکے استعمال کرنے کا الزام ہے جس سے کئی طلبا و طالبات کے سر پھٹ گئے ہیں،وہ شدید زخمی ہیں۔ایک طالبہ نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یونیورسٹی لان میں اپنے ٹینٹ میں سو رہی تھی کہ اچانک صبح اڑھائی بجے اس کے ٹینٹ کو اکھاڑ پھینکا گیا اور اس پر پولیس نے مکوں اور گھونسوں کی بارش کر دی تاکہ وہ خوف زدہ ہو کر وہاں سے چلی جائے۔یہ زیادتیاں طلبا کے عزم و حوصلے کو توڑنے اور انھیں بھگانے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔1960اور 1970 کی دہائیوں میں امریکا کی ویت نام جنگ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد فلسطین اور خاص کر غزہ کی پٹی کے باسیوں کے حق میں یہ دھرنے اور احتجاج امریکی تاریخ کے دوسرے بڑے مظاہرے ہیں۔
دراصل امریکی پولیس اکیلی احتجاج کرنے والوں کے خلاف برسرِ پیکار نہیں ہے۔امریکی پولیس کے ساتھ اسرائیلی افواج کے سولجرز طلباء پر تشدد میں ملوث ہیں۔بعض اوقات وہ مخصوص فلسطینی رومال کندھے یا سر پر ڈال کر اور بظاہر فلسطین کا حامی بن کر طلبا کی صفوں میں شامل ہو جاتے ، مخبری کرتے اور طلبا کا مورال گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ زیادہ متحرک طلبا کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ان طلبا اور طالبات کو مارک کر لیتے ہیں جن کی ٹھکائی کرنی مقصود ہوتی ہے یا جن کو گرفتار کیا جانا مطلوب ہوتا ہے۔حال ہی میں ٹویٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک اسرائیلی سولجر ایرون کوہن خود کہہ رہا ہے کہ وہ امریکی پولیس کی معیت میں طلبا کی جاسوسی کرکے نشان دہی کروا رہا ہے۔اس سے یہ بات بخوبی پتہ چل جاتی ہے کہ امریکی پولیس کی صفوں میں اسرائیلی فوجی گھس کر طلبا پر حملے کر رہے ہیں۔یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی پولیس کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔
ہمیں اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ امریکا کی ٹاپ آٹھ یونیورسٹیوں میں سے سات یونیورسٹیوں کے صدور صیہونی یہودی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے یہودی اساتذہ اور کچھ یہودی طلبا بھی پولیس گردی میں ملوث ہیں۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ مغربی میڈیا احتجاج میں پرامن طور پر شریک طلبا و طالبات کو امن دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور سارا الزام ان معصوم طلبا کے سر دھر رہا ہے۔
اسرائیلی قبضے اور غزہ پر مسلسل بمباری کے خلاف دھرنا دئے طلبا کی کمپوزیشن بہت دلچسپ ہے۔ یونیورسٹی کیمپسز احتجاج میں شریک طلبا میں جہاں فلسطینی اور عرب طلبا و طالبات شامل ہیں وہیں کچھ یہودی، عیسائی،افریقی النسل،امریکا کے اصلی باشندوں اور بہت سے سفید فام امریکی بھی شامل ہیں۔یہ سب طلبا انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں سات ماہ سے جاری بربریت و جارحیت ختم کی جائے۔
امریکا میں درمیانی اور بڑی عمر کے وہ شہری جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا،مالی امداد سے نوازا اور ہتھیاروں کے انبار مہیا کر کے جارح بنایا،وہ امریکی اور مغربی اقوام کی نئی نسل کے اس اسرائیل مخالف رویے سے انگشت بدندان ہے۔انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔
ان کی زبان میں کنفیوژن ہے۔یہ لوگ اسرائیل کی حمایت میں اپنی ہی نئی نسل کو بدنام کرنے پر تلے ہیں لیکن اب اس مقولے کی سچائی جانچنے کا وقت آ گیا ہے،ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔غزہ پر ہونے والا ظلم حد سے بڑھ گیا ہے۔اسی طرح سنا کرتے تھے کہ Evil is self consuming۔دیکھتے ہیں کہ کیا اسرائیل اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے کہ نہیں۔
پچھلے سات ماہ سے اسرائیلی بدی کھُل کر کھیل رہی ہے۔ غزہ کے باسیوں پر آگ برس رہی ہے،عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں،عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔ بچیوں اور بچوں کو بے آسرا اور یتیم بنایا جا رہا ہے۔ ماؤں کی گودیں اُجاڑی جا رہی ہیں۔لاشیں ملبے کے ڈھیروں تلے دبی بے گورو کفن پڑی ہیں۔
قتل ِ عام کیا جا رہا ہے۔کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب غزہ کے لوگوں پر بموں کی بارش نہ ہو رہی ہو، وہاںکوئی ایک چپہ زمین ایسی نہیں جہاں غزہ کے مقیم اس یقین کے ساتھ سر چھپا سکیں کہ اس جگہ ان کی جانیں اور عزت و آبرو محفوظ ہے۔غزہ کی ساری پٹی ملبے کا ایک بڑا ڈھیر اور کھلا زندان بن چکی ہے لیکن ان کے بھائی بند،ان کے مسلم ہمسائے ممالک چین کی نیند سو رہے ہیں جیسے کہ ان کے پڑوس میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ عرب دنیا اور غیر متعلق مسلمان ممالک تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔اسرائیل کی پشت پر یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور مشرقِ بعید کے ممالک ہیں اور کیوں نہ ہوں،یہ سب غزہ کی پٹی کے ان چند لاکھ عوام کو مٹانے کا مقصد لیے جسدِ واحد ہیں۔
غزہ کے بندگانِ خدا کو کہیں سے مدد و نصرت نہیں مل رہی،ایسے میں ان بے یارو مدد گار معصوم لوگوں کو اﷲ نے وہاں سے مدد فراہم کرنی شروع کر دی ہے جہاں سے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دنیا بھر کی اور خاص کر اسرائیل کی پشت پر کھڑی اقوام کی یونیورسٹیوں کے طلبا اور طالبات نے اسرائیلی قتل عام کے خلاف اور غزہ کو آزادی دلانے کے حق میں احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔
سب سے زیادہ طلبا مظاہرے اور دھرنے اسرائیل کے سب سے بڑے اور سب سے طاقتور ساتھی ملک امریکا میں ہو رہے ہیں۔ایک طرف اسرائیلی مظالم کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں،مظاہروں میں شدت آ رہی ہے لیکن یہ سب کچھ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ پر امن طریقے سے ہو رہا ہے تو دوسری طرف امریکی پولیس کی کارستانیاں بڑھ رہی ہیں۔امریکا کے طول و عرض میں واقع یونیورسٹیوں کے طلبا جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی کے رہنے والوں کے ساتھ یک جہتی دکھا رہے ہیں لیکن امریکی پولیس ان معصوم طلبا کے اوپر آنسو گیس کے گولے پھینک رہی ہے اور ربڑ کی گولیاں برسا کر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
طلبا کا عزم و حوصلہ مثالی ہے اس لیے ان کو توڑنے کے لیے گرفتار ی کے ساتھ ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔18اپریل کو نیو یارک کی کو لمبیا یونیورسٹی میں طلبا کے دھرنے سے یہ احتجاج شروع ہوا۔یہ طلبا مطالبہ کر رہے تھے کہ امریکا کی وہ کمپنیاں جو فلسطین پر قابض اسرائیل کے ساتھ کاروبار کر کے اسے مالی منفعت پہنچا رہی ہیں وہ امریکی کمپنیاں یہ غلیظ کام بند کریں۔طلبا کا مرکزی مطالبہ یہ ہے کہ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیلی تعلیمی اداروں سے روابط ختم کریں اور اسرائیل کے لیے جنگی ہتھیار بنانے والے کارخانوں کو مالی امداد روکیں۔
یہ مظاہرے نیویارک کے بعد امریکا کے شہروں میں واقع دوسری یونیورسٹیوں میں سرعت سے پھیل گئے۔نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی، Yale یونیورسٹی، نارتھ کیرولینا کی مشہور ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور ہارورڈکے طلبا بھی اس احتجاج میں شریک ہو گئے۔ یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ غزہ کی جنگ بند کی جائے اور غاصب حکومت کی امداد روک دی جائے۔ جس طرح کہ عام طور پر ہوتا ہے،امریکی یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی غزہ کی مدد کی یہ تحریک جلد ہی دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئی۔
جرمنی،جاپان، کینیڈا، فرانس،اسپین،اٹلی اور یونان کی یونیورسٹیوں کے طلبا نے بھی اسرائیلی مظالم اور قتلِ عام کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک صرف امریکا ہی میں 2600 طلبا و طالبات کو گرفتار کیا گیا ہے۔امریکی پولیس پر الزام ہے کہ اس نے ان مظاہروں کو ختم کروانے کے لیے اور طلبا کو دھرنے سے اٹھانے کے لیے ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔
پولیس پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسانے کے علاوہ آہنی مکے استعمال کرنے کا الزام ہے جس سے کئی طلبا و طالبات کے سر پھٹ گئے ہیں،وہ شدید زخمی ہیں۔ایک طالبہ نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یونیورسٹی لان میں اپنے ٹینٹ میں سو رہی تھی کہ اچانک صبح اڑھائی بجے اس کے ٹینٹ کو اکھاڑ پھینکا گیا اور اس پر پولیس نے مکوں اور گھونسوں کی بارش کر دی تاکہ وہ خوف زدہ ہو کر وہاں سے چلی جائے۔یہ زیادتیاں طلبا کے عزم و حوصلے کو توڑنے اور انھیں بھگانے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔1960اور 1970 کی دہائیوں میں امریکا کی ویت نام جنگ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد فلسطین اور خاص کر غزہ کی پٹی کے باسیوں کے حق میں یہ دھرنے اور احتجاج امریکی تاریخ کے دوسرے بڑے مظاہرے ہیں۔
دراصل امریکی پولیس اکیلی احتجاج کرنے والوں کے خلاف برسرِ پیکار نہیں ہے۔امریکی پولیس کے ساتھ اسرائیلی افواج کے سولجرز طلباء پر تشدد میں ملوث ہیں۔بعض اوقات وہ مخصوص فلسطینی رومال کندھے یا سر پر ڈال کر اور بظاہر فلسطین کا حامی بن کر طلبا کی صفوں میں شامل ہو جاتے ، مخبری کرتے اور طلبا کا مورال گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ زیادہ متحرک طلبا کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ان طلبا اور طالبات کو مارک کر لیتے ہیں جن کی ٹھکائی کرنی مقصود ہوتی ہے یا جن کو گرفتار کیا جانا مطلوب ہوتا ہے۔حال ہی میں ٹویٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک اسرائیلی سولجر ایرون کوہن خود کہہ رہا ہے کہ وہ امریکی پولیس کی معیت میں طلبا کی جاسوسی کرکے نشان دہی کروا رہا ہے۔اس سے یہ بات بخوبی پتہ چل جاتی ہے کہ امریکی پولیس کی صفوں میں اسرائیلی فوجی گھس کر طلبا پر حملے کر رہے ہیں۔یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی پولیس کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔
ہمیں اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ امریکا کی ٹاپ آٹھ یونیورسٹیوں میں سے سات یونیورسٹیوں کے صدور صیہونی یہودی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے یہودی اساتذہ اور کچھ یہودی طلبا بھی پولیس گردی میں ملوث ہیں۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ مغربی میڈیا احتجاج میں پرامن طور پر شریک طلبا و طالبات کو امن دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور سارا الزام ان معصوم طلبا کے سر دھر رہا ہے۔
اسرائیلی قبضے اور غزہ پر مسلسل بمباری کے خلاف دھرنا دئے طلبا کی کمپوزیشن بہت دلچسپ ہے۔ یونیورسٹی کیمپسز احتجاج میں شریک طلبا میں جہاں فلسطینی اور عرب طلبا و طالبات شامل ہیں وہیں کچھ یہودی، عیسائی،افریقی النسل،امریکا کے اصلی باشندوں اور بہت سے سفید فام امریکی بھی شامل ہیں۔یہ سب طلبا انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں سات ماہ سے جاری بربریت و جارحیت ختم کی جائے۔
امریکا میں درمیانی اور بڑی عمر کے وہ شہری جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا،مالی امداد سے نوازا اور ہتھیاروں کے انبار مہیا کر کے جارح بنایا،وہ امریکی اور مغربی اقوام کی نئی نسل کے اس اسرائیل مخالف رویے سے انگشت بدندان ہے۔انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔
ان کی زبان میں کنفیوژن ہے۔یہ لوگ اسرائیل کی حمایت میں اپنی ہی نئی نسل کو بدنام کرنے پر تلے ہیں لیکن اب اس مقولے کی سچائی جانچنے کا وقت آ گیا ہے،ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔غزہ پر ہونے والا ظلم حد سے بڑھ گیا ہے۔اسی طرح سنا کرتے تھے کہ Evil is self consuming۔دیکھتے ہیں کہ کیا اسرائیل اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے کہ نہیں۔