تربیت اطفال کے اہم راہ نما اصول و ضوابط
بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں، زندگی کے ابتدائی سال بہتر زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں
اپنی اولاد کو اس معاشرے کا بہترین فرد بنانے کے لیے ان کی بہترین تربیت بے حد ضروری ہے کیوں کہ یہی بچے کل کے معمار ہیں اور بڑے ہوکر اس معاشرے کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے۔
اگر یہ اپنی ذمے داریاں شریعت کے مطابق احسن طریقے سے ادا کرنے میں کام یاب ہوگئے تو یہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا اور ہر طرف سکون کی بہار آ جائے گی، ان سب کے لیے بچوں کی تربیت بہت ضروری ہے۔
تربیت اولاد کی اہمیت
اگر ہم اسلامی اقدار کے حامل ماحول کے خواہش مند ہیں، تو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت بھی کرنا ہوگی کیوں کہ اگر ہم تربیت اولاد کی اہم ذمے داریوں کو بوجھ تصور کر کے اس سے غفلت کرتے رہے اور بچوں کو ان ماحول میں آزاد چھوڑ دیا تو نفس و شیطان انہیں اپنا آلہ کار بنا لیں گی جس کا نتیجا یہ ہوگا کہ نفسانی خواہشات کی آندھیاں انہیں گناہوں کے صحرا میں سرگرداں رکھیں گی اور وہ عمر عزیز کے چار دن آخرت بنانے کی بہ جائے دنیا جمع کرنے میں صرف کر دیں گے۔
اور یوں گناہوں کا انبار لیے وادی موت کے کنارے پہنچ جائیں گے۔ رحمت الہی شامل حال ہوئی تو مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے گی، وگرنہ دنیا سے افسوس کرتے ہوئے نکلیں گے اور قبر کے گڑھے میں جاسوئیں گے۔
ذرا سوچیے! جب بچوں کی تربیت نہیں ہوگی تو وہ معاشرے کی بھاگ دوڑ کرنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکیں گے ؟ جو خود ڈوب رہا ہو وہ دوسروں کو کیا بچائے گا، جو خود خواب غفلت میں ہو وہ دوسروں کو کیا بیدار کرے گا، جو خود پستیوں کی طرف عازم سفر ہو وہ کسی کو بلندی کا راستہ کیا دکھائے گا۔۔۔ ؟
بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے
ایسے والدین کی اکثریت ہے جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں۔ کیوں کہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارات مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیوں کہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے ۔ اسے جس سانچے میں ڈالنا چاہے ڈالا جا سکتا ہے۔
بچے کی یادداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے، اس پر جو لکھا جائے گا ساری عمر کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔ بچے کا ذہن زرخیز زمین کی مثال ہے اس میں جیسا بیچ بوئیں گے اسی معیار کی فصل حاصل ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ اگر اسے بچپن ہی سے سلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ عمر بھر اس عادت کو نہیں چھوڑتا۔ اگر اسے سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بے زار رہتا ہے۔ اگر اسے سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا عادی بنا دیا جائے تو وہ ناصرف خود ان پاکیزہ عادات کو اپنائے رکھتا ہے۔ بل کہ اس کے لیے یہ اوصاف اس کی محبت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہے۔
اپنے بچوں کو کیا سکھائیں!
حُسن اخلاق: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دیں کیوں کہ اس میں بہت سی دنیاوی و اُخروی سعادتیں پوشیدہ ہیں۔ حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: حسن اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح دھوپ برف کو پگھلا دیتی ہیں۔
پاکیزگی: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا رہنے کی تاکید کریں۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالی پاک ہے، پاکی پسند فرماتا ہے، ستھرا ہے اور ستھرائی پسند کرتا ہے اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ اپنی اولاد کو مختلف دعائیں سکھائیں، کھانا کھانے کی دعا، سونے جاگنے کی دعا، مصیبت زدہ کو دیکھ کر پڑھنے والی دعا، کسی نقصان پر پڑھی جانے والی دعا وغیرہ۔
سخاوت: اپنی اولاد کو بچپن ہی سے صدقہ و خیرات کرنے کا عادی بنائیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انہیں صدقہ کے فضائل بتا کر کسی غریب کو ان کے ہاتھوں سے کوئی شے دلوائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سخی آدمی اﷲ تعالی کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے لوگوں کے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے۔ بخیل آدمی اﷲ سے دور، جنت سے دور اور دوزخ سے قریب ہے۔
ذوق عبادت: والدین کو چاہیے کہ کم سنی سے اپنی اولاد کے دل میں عبادت کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
توکل: اپنی اولاد کو توکل کی صفت سے متصف کرنے کے لیے ان کا ذہن بنائیں کہ ہماری نظر اسباب پر نہیں خالق اسباب اور مسبب الاسباب یا یعنی رب پر ہونی چاہیے۔
خوف خدا: اُخروی کام یابی کے حصول کے لیے ہمارے دل میں خوف خدا کا ہونا بھی از حد ضروری ہے۔ جب تک ایک نعمت حاصل نہ ہو گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے لیے اپنی اولاد کو ان کے جسم و جاں کی ناتوانی کا احساس دلانے کے ساتھ رب تعالی کی بے نیازی سے ڈراتے رہیں۔
دیانت داری: اپنی اولاد کو معاشرتی اثرات کے بنا پر بدیانتی کا عادی بننے سے بچانے کے لیے اسے گھر سے دیانت داری کا درس دیجیے۔ اﷲ تعالی کے محبوب حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جس میں امانت نہیں اس کا دین کامل نہیں۔
شکر کرنا: اپنی اولاد کو شکر نعمت کا عادی بنائیں اور ان کا ذہن بنائیں کہ جب بھی کوئی نعمت ملے ہمیں اﷲ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ ہر نوالے اور ہر گھونٹ پر اﷲ تعالی کا شکر ادا کریں۔
ایثار: بچے کو سکھایا جائے کہ کسی مسلمان کی ضرورت پر اپنی ضرورت قربان کر دینے کا بڑا اجر و ثواب ہے۔ بچے کو اس کا عادی بنانے کے لیے مختلف اوقات میں اسے ایثار کی عملی مشق کروائیں اور اس سے کہیں کہ اپنی فلاں ضرورت کی چیزیں فلاں بچے کو دے دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی ضرورت کی چیز دوسرے کو دے دے تو اﷲ اسے بخش دیتا ہے۔
صبر: بچے کو بیماری، مصائب و آلام اور دکھ تکلیف پر صبر کی تلقین کی جائے۔
قناعت: اپنی اولاد کو قناعت کی تعلیم دیجیے کہ رب تعالی کی طرف سے جو مل جائیں اس پر راضی ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قناعت کبھی ختم نہ ہونے والا خزانہ ہے۔
وقت کی اہمیت: اپنی اولاد کو وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے ان کا ذہن بنائیں کہ وقت ضایع کرنا عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔
خود اعتمادی: بچوں کو بلاوجہ ڈانٹنے سے بچوں کی خود اعتمادی بُرے طریقے سے مجروح ہوتی ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ بچوں کی غلطی پر انہیں تنبیہ ضرور کریں مگر اتنی سختی نہ کریں کہ وہ احساس کم تری میں مبتلا ہو جائیں۔
پڑوسیوں سے حسن سلوک: بچوں کو سمجھائیں کہ پڑوسی گھرانوں کے بڑے افراد کا احترام کریں اور چھوٹے بچوں سے حسن سلوک برتیں۔ ایک شخص نے اﷲ تعالی کے محبوب ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے اچھا کیا یا برا؟ ارشاد فرمایا: جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو بے شک! تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے بُرا کیا تو بے شک! تم نے بُرا کیا۔
غم خواری: بچوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ غم خواری بہت ضروری ہے کہ جب کسی کو غم زدہ دیکھیں تو اس کی دل جوئی کرے اور جہاں تک ممکن ہو اُس کے غم، دکھ درد میں اس کے ساتھ شریک رہیں۔
بزرگوں کی عزت: اپنی اولاد کو بزرگوں کے احترام کا خوگر بنائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو نوجوان کسی بزرگ کے سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے اس کی عزت کریں تو اﷲ تعالی اس کے لیے کسی کو مقرر کر دیتا ہے جو اس نوجوان کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔
اساتذہ و علماء کا ادب: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو اساتذہ و علماء کا ادب سکھائے۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور حقیقی والد جسم کا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرو اور علم کے لیے برد باری اور وقار سیکھو اور جس سے علم حاصل کر رہے ہو اُس کے سامنے اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرو۔
عاجزی: اپنے بچوں کو تکبر میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے انہیں عاجزی کی تعلیم دیا کریں کہ ہر مسلمان کو اپنے سے افضل جانے۔ اﷲ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جو اﷲ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اﷲ اس سے بلندیاں عطا فرماتا ہے ۔
اخلاص: والدین اپنے بچوں کا ذہن بنائیں کہ ہر جائز کام اﷲ تعالی کی رضا کے لیے کریں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں میں اپنے اچھے عمل کا چرچا کرے گا تو خدائے تعالی اس کے ریاکاری کو لوگوں میں مشہور کر دے گا اور اسے ذلیل و رسوا کرے گا۔
سچ بولنا: والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ہر وقت سچ بولنے کی تلقین کریں اور جھوٹ سے ڈرائیں۔ آپؐ نے فرمایا: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق وہ فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔
اپنے بچوں کو ان امور سے بچائیں
سوال کرنا یعنی بھیک مانگنا: کسی کا نام بگاڑنا یعنی اصل نام سے ہٹ کر نام لینا۔ مذاق اڑانا۔ عیب اچھالنا۔ تکبر یعنی خود کو دوسروں سے افضل سمجھنا۔ جھوٹ بولنا۔ غیبت۔ لعنت۔ چوری۔ بغض و کینہ۔ حسد اور بات چیت بند کرنا۔ گالی دینا، وعدہ خلافی کرنا۔ بچوں کو ہر ایسے کام سے روکیے جس سے کسی دوسرے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔
پیدائش کے بعد کرنے والے کام: اولاد پیدا ہونے کی خوشی میں اﷲ تعالی کی نافرمانی والے کام مثلاً ڈھول بجانے بنگڑا ڈالنے اور میوزک پروگرام کرنے کی بہ جائے صدقہ و خیرات کیجیے اور شکرانے کے نوافل ادا کیجیے۔
کان میں اذان
جب بچہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتدا ہی سے بچے کے کان میں اﷲ اور اس کے پیارے محبوب ﷺ کا نام پہنچ جائے گا۔ اس طرح ایک مسلمان بچے کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد سکھانے کا بھی آغاز ہو جاتا ہے اور بچے کی روح نور توحید سے منور ہوتی ہے اور اس کے دل میں عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں ہوتی ہے۔
تحنیک (گھٹی): دور رسالتؐ سراپا برکت میں صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب ان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اسے رحمت دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں لاتے اور رسول اﷲ ﷺ کھجور اپنے دہن اقدس میں چبا کر بچے کے منہ میں ڈال دیتے جسے تحنیک کہتے ہیں۔
عقیقہ: بچے کی پیدائش اس کے والدین اور خاندان بھر کے لیے مسرت و شادمانی کا پیغام لاتی ہے بارگاہ الہی میں اس نعمت کے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ بہ طور شکرانہ جانور ذبح کیا جائے۔ اسے عقیقہ کہتے ہیں اور یہ مستحب ہے ۔
رضاعت: بچے کو ماں خود پوری مدت تک دودھ پلائے۔ بچوں سے محبت کیجیے۔
شیر خوار بچے کے رونے کے چند اسباب اور چپ کرانے کے طریقے: بھوک۔ پیاس۔ کپڑے گیلے ہونا۔ پیٹ کی خرابی۔ بوریت۔ دانت کا نکلنا۔ نیند پوری نہ ہونا۔ کان کا درد۔
بچے کی اچھی تربیت کے لیے اس کے ماں باپ کا تعلیم اور تربیت یافتہ یعنی دنیاوی اور اُخروی علم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بچے کی تربیت ماں پر منحصر ہوتی ہے۔ کیوں کہ بچہ دن کے بڑے حصوں میں ماں کے پاس رہتا ہے۔ تو ماں ہی کی زیادہ ذمے داری ہے اپنے بچے کی اچھی تربیت کرے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ اگر آج کل کی ماؤں کو اپنی ذمے داریوں کا پتا ہوتا تو کوئی بھی بچہ نافرمان بدکار نہ ہوتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس وقت سے اس کو تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہم جو کچھ باتیں کریں کرتے ہیں وہ بچہ ساری باتیں ذہن میں بٹھاتا ہے اور جب وہ بولنا شروع کر دیتا ہے تو وہ باتیں جو وہ پہلے دن سے سنتا آرہا تھا وہی بات ہے دہرائے گا۔ اچھی تربیت کے لیے ماں کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے کیوں کہ ایک ماں ہی سے بچہ ہر چیز سیکھتا ہے۔