نماز میں خشوع و خضوع
یہ تصور رکھیں کہ میں خداوند کریم کے سامنے ہوں
حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''پانچ نمازیں ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔
پس جس شخص نے ان نمازوں کے لیے اچھی طرح وضو کیا، ان کے وقت پر ان کو پڑھا اور رکوع کو خوبی کے ساتھ ادا کیا اور خشوع سے نماز ادا کی، اس کے لیے خدا کا وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا اور جو ایسا نہ کرے اس کے لیے خدا کا کوئی وعدہ نہیں، چاہے اسے بخشے اور چاہے عذاب دے۔''
(رواہ ابوداؤد ، مشکوٰۃ)
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ بوادرالنواد میں فرماتے ہیں: ''خشوع لغت میں مطلقاً سکو ن کو کہتے ہیں۔'' قرآن وسنت میں جہاں خشوع کی ترغیب دی گئی ہے اس سے مراد قلبی سکون و انکساری ہے جو اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے سامنے اپنی حقارت کے علم سے پیدا ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں اطاعت و عبادت آسان ہوجاتی ہے۔
کبھی خشوع کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ باادب متواضع نظر آتا ہے۔ اگر دل میں خوف خدا اور تواضع نہ ہوتو وہ ظاہر میں چاہے کتنا ہی باادب اور متواضع نظر آئے لیکن وہ خشوع کا حامل نہیں ہوتا۔ خشوع کے اثرات کو جان بوجھ کر ظاہر کرنا بھی پسندیدہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک نوجوان کو دیکھ کر (جو سر جھکائے بیٹھا تھا) فرمایا: ''سر اٹھا، خشوع دل میں ہوتا ہے۔'' حضرت ابراہیم نخعیؒ کا ارشاد ہے: ''موٹا پہننے، موٹا کھانے اور سر جھکانے کا نام خشوع نہیں' خشوع تو یہ ہے کہ تم پر جو کام فرض کیا گیا ہے اُسے ادا کرنے میں اﷲ کے لیے قلب کو فارغ کرلو۔''
خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ''خضوع'' بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی بار بار آیا ہے ان دونوں کا معنی ملتا جلتا ہے لیکن خشوع کا لفظ اصل کے اعتبار سے آواز اور نگاہ کی پستی کے لیے بولا جاتا ہے جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بل کہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو قرآن حکیم میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''آوازیں پست ہوگئیں۔''
اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لیے استعمال ہوتا ہے، قرآن حکیم میں ہے، مفہوم: ''پس ان کی گردنیں اس کے سامنے جھک گئیں۔''
نماز میں خشوع کی تاکید قرآن وسنت میں بار بار آئی ہے ارشاد باری کا مفہوم: ''اور نماز قائم کر مجھے یاد کرنے کے لیے۔'' ظاہر ہے کہ غفلت یاد کرنے کی ضد ہے۔ جو نماز میں اﷲ تعالیٰ سے غافل ہے وہ اﷲ تعالیٰ کو یاد کرنے کا فریضہ انجام نہیں دے رہا۔ ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اور تو غافلوں میں سے نہ ہو۔'' ارشاد نبویؐ ہے، مفہوم: ''جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ اﷲ سے دُور ہی ہوتا جاتا ہے۔''
احیاء العلوم میں امام غزالی ؒ نے مذکورہ آیات، روایات اور دوسرے دلائل پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کا تقاضا یہ ہے کہ خشوع نماز کے لیے شرط ہوتا اور نماز کی صحت اس پر موقوف ہوتی، پھر فرمایا کہ سفیان ثوریؒ، حسن بصریؒ اور معاذ بن جبلؓ کا موقف یہی تھا کہ خشوع کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی۔
لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے خشوع کو شرطِ صلوٰۃ قرار نہیں دیا بل کہ اسے نماز کی روح قرار دینے کے باوجود صرف اتنا شرط ٹھہرایا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قلب کو حاضر کرکے اﷲ کے لیے نماز کی نیت کرے، باقی نماز میں اگر خشوع حاصل نہ ہو تو اگرچہ اتنی نماز کا ثواب اسے نہیں ملے گا جتنے حصہ میں خشوع نہیں رہا لیکن فقہ کی رو سے وہ تارک صلوٰۃ (نماز چھوڑنے والا) نہیں کہلائے گا اور نہ اس پر تعزیر وغیرہ کے وہ احکام مرتب ہوں گے جو تارکِ صلوٰۃ پر ہوتے ہیں۔
امام غزالیؒ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ فقہاء باطنی احوال اور قلبی کیفیات پر حکم نہیں لگاتے بل کہ وہ صرف ظاہری اعضاء کے اعمال پر ظاہری احکام بیان کرتے ہیں۔ یہ بات کہ فلاں عمل کا ثواب آخرت میں ملے گا یا نہیں یہ فقہ کی حدود سے خارج ہے، چوں کہ باطنی کیفیات پر حکم لگانا ان کی بحث سے خارج ہے اور خشوع ایک باطنی کیفیت ہے اس لیے انہوں نے خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہیں دیا بل کہ خشوع کے ادنیٰ مرتبہ کو شرط کہا ہے اور وہ یہ کہ کم از کم تکبیر تحریمہ کے وقت محض اﷲ کی عبادت و تعظیم کی نیت کرے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ معارف القرآن
(جلد اول) میں فرماتے ہیں :
''خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم کی دوسری آیات میں تشریع احکام کا یہ واضح اصول بتایا گیا ہے کہ انسانوں پر کوئی ایسی چیز فرض نہیں کی جاتی جو ان کی طاقت و امکان سے باہر ہو اور پوری نماز میں خشوع برقرار رکھنے سے (ماسوائے چند خاص افراد کے) اکثر لوگ عاجز ہوتے ہیں۔ اس لیے تکلیف مَالایُطَاق سے بچنے کے لیے پوری نماز کی بہ جائے صرف ابتداء صلوٰۃ میں خشوع کو شرط قرار دیا گیا۔''
امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ''خشوع کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود ہمیں اﷲ تعالیٰ سے یہی امید ہے کہ غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والا بھی بالکل نماز چھوڑنے والے کے درجہ میں نہیں ہوگا، کیوں کہ اس نے بہ ہر حال ادائے فرض کا اقدام تو کیا ہے اور تھوڑی سی دیر کے لیے قلب کو اﷲ تعالیٰ کے لیے فارغ بھی کیا ایسی نماز کا کم از کم یہ فائدہ تو ضرور ہے کہ اس کا نام نافرمانوں اور بے نمازوں سے نکل گیا۔''
حضرت تھانویؒ تصوف و سلوک میں فرماتے ہیں: ''اگر صفت خشوع موجود نہیں تو خود اس کے حاصل کرنے کے چار اسباب ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ اس کے آثار کا اختیار کرنا ضروری ہے اور اس کے ظاہر آثار یہ ہیں کہ جب چلے گردن جھکا کر چلے بات چیت اور معاملات میں سختی نہ کرے، غصہ اور غضب میں آپے سے باہر نہ ہو، بدلہ لینے کی فکر میں نہ رہے، اپنی رفتار میں میانہ روی پیدا ہو، اور آواز پست ہو، دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل خشوع کی صحبت اختیار کی جائے۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف دل میں بٹھایا جائے اس خوف کو پیدا کرنے کے لیے یہ تدبیر کی جائے کہ کوئی مناسب وقت تجویز کرکے اس میں تنہا بیٹھ کر نافرمانی کی حالت اور پھر خداوند کریم کی نعمتیں سوچے کہ نافرمانی کی وجہ سے یہ موقوف نہ ہوجائیں اور عذاب آخرت ، قیامت کی ہول ناک باتوں اور دوزخ وغیرہ کے حالات کو سوچا جائے تو ان شاء اﷲ بہت فائدہ ہوگا اور پھر خوف سے خشوع پیدا ہوگا۔
چوتھا سبب خشوع کے پیدا ہونے کا یہ ہے (اور کتابوں وغیرہ کی تعلیم سے بھی فراغت کے بعد ضروری ہے) اگر ظاہری علم حاصل کرنے میں دس سال ختم کیے ہیں تو باطن کی درستی میں فی سال ایک مہینہ ہی خرچ کر دیجیے یعنی دس مہینے ہی کسی کامل بزرگ کی صحبت میں خرچ کیجیے اور اس کے ارشاد کے مطابق عمل کیجیے خداوند کریم کی عادت ہے کہ اس کی برکت سے خشوع کی دولت عطا فرماتے ہیں۔'' ''یہ تصور رکھیں کہ میں خداوند کریم کے سامنے ہوں اور خداوند کریم سن اور دیکھ رہے ہیں اس طریقے سے خشوع جلد حاصل ہوجائے گا۔''