میرا ہیرو گلو بٹ‘ گلو بھائی اور گلو شیر
شاید یہی حکم تھا کیونکہ حکم دینے والے پولیس کے بڑے افسر اس ہنگامے میں ہنگامہ خیز تھے ...
SANAA:
یہ سب نام ہیں میرے ہیرو گلو بٹ کے جو پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت کا خاص بٹ ہے اور وہ اسے لاہور کا شیر بھی کہتے ہیں یقیناً بھائی صاحب کی اجازت کے بعد کیونکہ شیر تو صرف ان کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ بدھ کا دن تھا اور کیمرے کی آنکھ کھلی تھی وہ جو کہتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولتی تو اس دن بھی اس کا یہی حال تھا مگر اس کی آنکھ کچھ ضرورت سے زیادہ سچ بول رہی تھی اور بولتی چلی جا رہی تھی چپ ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے ٹی وی تو بس یونہی لگا لیا لیکن وہاں تو ایک تماشا جاری تھا۔ ایسا تماشا تو کبھی قسمت سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس پاگل ہوگئی تھی۔
عورت، مرد، بوڑھا، جوان، بچہ اور اس کی ماں جو بھی پولیس کے سامنے آیا 'وہ قسمت ہوئی تو جان بچا گیا ورنہ پولیس کو میں نے اپنی طول طویل صحافتی اور رپورٹری کی زندگی میں پہلی بار سر، سینوں اور چہروں پر گولیاں مارتے دیکھا اور یہ مظاہرین نہیں تھے بس حالات کو بے حد بگڑتا دیکھ کر کچھ لوگ باہر نکل آئے تھے۔ پولیس شاذونادر فائرنگ بھی کیا کرتی ہے مگر واضح حکم ہوتا ہے کہ ٹانگوں میں گولی مارنی ہے اور زندگی کو ہر حال میں بچانا ہے۔ یہاں جو پولیس برسر روز گار تھی اس کو شاید حکم تھا کہ اس نے پہلے انسان کو قتل کرنا ہے اگر بھیڑ بھاڑ میں بچ جائے تو اس کی قسمت اور زندگی۔
شاید یہی حکم تھا کیونکہ حکم دینے والے پولیس کے بڑے افسر اس ہنگامے میں ہنگامہ خیز تھے اور موقع ملنے پر شاباش بھی دے رہے تھے۔ میں نے اس دوران ایک لمحے کے لیے ضرب عضب یاد کیا لیکن فوراً ذہن دوسری طرف کر لیا کیونکہ سامنے کے اس ماحول میں اس مقدس جنگ کا تصور بھی گناہ تھا کہ وہاں تو پاکستانی جوان زندگیاں دے رہے ہیں اور ہم یہاں پاکستانی زندگیوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ہم بذات خود ان پاکستانیوں کی زندگیوں سے کیسے کھیل رہے ہیں۔ بہرکیف کئی کیمروں کی آنکھوں سے میں اپنے سامنے یہ عبرت انگیز اور حیران کن تماشا دیکھ رہا تھا۔ میں نے پولیس اور عوام کے درمیان ایسی جنگ کبھی نہیں دیکھی مگر یہ تو یک طرفہ جنگ تھی اس میں پولیس تھی اور بس پولیس تھی۔
پتہ نہیں یہ خیال کوندا کہ 67 برس پہلے ہمارے سیاسی پرامن اور قانون کے پابند بزرگوں نے ہمیں یہ ملک اس قسم کے غیر پاکستانی تماشوں کے لیے بنا کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان قائدین میں کوئی بھی زندہ نہیں ہے ورنہ وہ یا تو کسی کو مار دیتا یا خود کشی کر لیتا۔ معلوم نہیں کون ماہر عمرانیات اور نفسیات میری اس کیفیت کو نارمل کر سکے گا جس میں اس وقت صرف مارنے والے سرکاری ملازمین کے لیے برسرزمین موت ہے لیکن اگر ہم کبھی اس قابل ہو گئے کہ قصہ زمیں بر سرزمین چکانے لگے تو پھر پاکستان ایک نیا ملک ہو گا پرامن اور حقیقت کا شریف۔
گزشتہ کالم میں، میں نے اطہر حسن کا ذکر کیا تھا لیکن وہ میری بدخطی کی وجہ سے رہ گیا اور اب پورا جملہ مجھے یاد بھی نہیں کہ ازالہ ہو سکے۔ اس میں کوئی میرا ہیرو نہیں ہو گا لیکن میں کسی ہیرو کے بغیر کیسے زندگی بسر کروں گا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ایک صاحب کو دیکھا اور انتہائی حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہے اور وہ ہر اس موٹر کار کو جو اس کے سامنے نظر آتی ہے اس کے شیشے توڑ رہا ہے اور اس حال میں کہ پولیس والے اس کے قریب سے یعنی اس کے آگے پیچھے سے گزرتے رہے لیکن کوئی اس شیشہ توڑ ڈنڈا بردار کو ہاتھ نہیں لگاتا۔
اس حیرت انگیز شخصیت پر ٹی وی والوں کا تبصرہ بھی جاری تھا جو کہہ رہے تھے کہ میاں شہباز شریف اسے شیر پنجاب کے نام سے پکارتے ہیں اور یہ پولیس کے کسی تھانے کا بندہ ہے مگر اتنا خود سر کہ پولیس کے اعلیٰ افسر اسے گلے لگا کر ملتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کوئی عمران خان میرا ہیرو نہیں ہے جو زبردست اور کسرتی جسم رکھنے کے باوجود بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتا ہے اور جلسوں سے خطاب کرتا ہے۔
معلوم یہ ہوا ہے کہ میرا یہ ہیرو مسلم لیگ ن کا کارکن ہے اور فیصل ٹائون کا رہائشی ہے۔ اپنے بازو پر پولیس کا بیج لگائے یہ تخریب کاری میں پیش پیش رہا۔ غریب دکانداروں کا مال لوٹ کر پولیس والوں کو ٹھنڈی بوتلیں پیش کرتا رہا۔ آئی جی کے واضح احکامات کے باوجود پولیس نے اسے گرفتار نہ کیا، اس کی گرفتاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایس پی ماڈل ٹائون طارق عزیز تھے۔ انھیں فوری طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایس پی، گلو بٹ کو گلے لگا کر شاباش دیتے رہے اور وہ اس پر ڈانس کر کے اپنی کامیابی پر جشن مناتا رہا۔ اخبار والوں نے بڑے مزے لے لے کر میرے اس ہیرو کے بارے میں مزید معلومات بھی دی ہیں مثلاً الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی کے حق میں تمبو لگا کر کام کرتا ہے۔
وہ خود پولیس کا ٹائوٹ بھی ہے اور پولیس افسر کے اشارے پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ موٹروں کے شیشے توڑنے کے لیے اس کو پولیس کا ڈنڈا دیا گیا۔ پولیس کا بیج اس نے پہلے سے ہی لگایا ہوا تھا۔ اس نے شیشے توڑنے کا ریکارڈ قائم کر دیا میں حیرت زدہ ہو کر یہ سب دیکھتا رہا اور طے کیا کہ ایسا لاہوری ہی میرا ہیرو ہو سکتا ہے جس کے سامنے کوئی گاڑی سلامت نہ ہو اور کوئی عام شہری بچ جائے۔ اب میں اپنے اس گلو بٹ کو اپنا ہیرو سمجھوں گا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حکمرانوں کا پسندیدہ ہے بلکہ اسے شیر تک بھی کہا جاتا ہے چنانچہ حکمرانوںکا پسندیدہ یہ لاہوری میرا ہیرو ہے۔ گلو بٹ زندہ باد۔
یہ سب نام ہیں میرے ہیرو گلو بٹ کے جو پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت کا خاص بٹ ہے اور وہ اسے لاہور کا شیر بھی کہتے ہیں یقیناً بھائی صاحب کی اجازت کے بعد کیونکہ شیر تو صرف ان کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ بدھ کا دن تھا اور کیمرے کی آنکھ کھلی تھی وہ جو کہتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولتی تو اس دن بھی اس کا یہی حال تھا مگر اس کی آنکھ کچھ ضرورت سے زیادہ سچ بول رہی تھی اور بولتی چلی جا رہی تھی چپ ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے ٹی وی تو بس یونہی لگا لیا لیکن وہاں تو ایک تماشا جاری تھا۔ ایسا تماشا تو کبھی قسمت سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس پاگل ہوگئی تھی۔
عورت، مرد، بوڑھا، جوان، بچہ اور اس کی ماں جو بھی پولیس کے سامنے آیا 'وہ قسمت ہوئی تو جان بچا گیا ورنہ پولیس کو میں نے اپنی طول طویل صحافتی اور رپورٹری کی زندگی میں پہلی بار سر، سینوں اور چہروں پر گولیاں مارتے دیکھا اور یہ مظاہرین نہیں تھے بس حالات کو بے حد بگڑتا دیکھ کر کچھ لوگ باہر نکل آئے تھے۔ پولیس شاذونادر فائرنگ بھی کیا کرتی ہے مگر واضح حکم ہوتا ہے کہ ٹانگوں میں گولی مارنی ہے اور زندگی کو ہر حال میں بچانا ہے۔ یہاں جو پولیس برسر روز گار تھی اس کو شاید حکم تھا کہ اس نے پہلے انسان کو قتل کرنا ہے اگر بھیڑ بھاڑ میں بچ جائے تو اس کی قسمت اور زندگی۔
شاید یہی حکم تھا کیونکہ حکم دینے والے پولیس کے بڑے افسر اس ہنگامے میں ہنگامہ خیز تھے اور موقع ملنے پر شاباش بھی دے رہے تھے۔ میں نے اس دوران ایک لمحے کے لیے ضرب عضب یاد کیا لیکن فوراً ذہن دوسری طرف کر لیا کیونکہ سامنے کے اس ماحول میں اس مقدس جنگ کا تصور بھی گناہ تھا کہ وہاں تو پاکستانی جوان زندگیاں دے رہے ہیں اور ہم یہاں پاکستانی زندگیوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ہم بذات خود ان پاکستانیوں کی زندگیوں سے کیسے کھیل رہے ہیں۔ بہرکیف کئی کیمروں کی آنکھوں سے میں اپنے سامنے یہ عبرت انگیز اور حیران کن تماشا دیکھ رہا تھا۔ میں نے پولیس اور عوام کے درمیان ایسی جنگ کبھی نہیں دیکھی مگر یہ تو یک طرفہ جنگ تھی اس میں پولیس تھی اور بس پولیس تھی۔
پتہ نہیں یہ خیال کوندا کہ 67 برس پہلے ہمارے سیاسی پرامن اور قانون کے پابند بزرگوں نے ہمیں یہ ملک اس قسم کے غیر پاکستانی تماشوں کے لیے بنا کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان قائدین میں کوئی بھی زندہ نہیں ہے ورنہ وہ یا تو کسی کو مار دیتا یا خود کشی کر لیتا۔ معلوم نہیں کون ماہر عمرانیات اور نفسیات میری اس کیفیت کو نارمل کر سکے گا جس میں اس وقت صرف مارنے والے سرکاری ملازمین کے لیے برسرزمین موت ہے لیکن اگر ہم کبھی اس قابل ہو گئے کہ قصہ زمیں بر سرزمین چکانے لگے تو پھر پاکستان ایک نیا ملک ہو گا پرامن اور حقیقت کا شریف۔
گزشتہ کالم میں، میں نے اطہر حسن کا ذکر کیا تھا لیکن وہ میری بدخطی کی وجہ سے رہ گیا اور اب پورا جملہ مجھے یاد بھی نہیں کہ ازالہ ہو سکے۔ اس میں کوئی میرا ہیرو نہیں ہو گا لیکن میں کسی ہیرو کے بغیر کیسے زندگی بسر کروں گا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ایک صاحب کو دیکھا اور انتہائی حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہے اور وہ ہر اس موٹر کار کو جو اس کے سامنے نظر آتی ہے اس کے شیشے توڑ رہا ہے اور اس حال میں کہ پولیس والے اس کے قریب سے یعنی اس کے آگے پیچھے سے گزرتے رہے لیکن کوئی اس شیشہ توڑ ڈنڈا بردار کو ہاتھ نہیں لگاتا۔
اس حیرت انگیز شخصیت پر ٹی وی والوں کا تبصرہ بھی جاری تھا جو کہہ رہے تھے کہ میاں شہباز شریف اسے شیر پنجاب کے نام سے پکارتے ہیں اور یہ پولیس کے کسی تھانے کا بندہ ہے مگر اتنا خود سر کہ پولیس کے اعلیٰ افسر اسے گلے لگا کر ملتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کوئی عمران خان میرا ہیرو نہیں ہے جو زبردست اور کسرتی جسم رکھنے کے باوجود بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتا ہے اور جلسوں سے خطاب کرتا ہے۔
معلوم یہ ہوا ہے کہ میرا یہ ہیرو مسلم لیگ ن کا کارکن ہے اور فیصل ٹائون کا رہائشی ہے۔ اپنے بازو پر پولیس کا بیج لگائے یہ تخریب کاری میں پیش پیش رہا۔ غریب دکانداروں کا مال لوٹ کر پولیس والوں کو ٹھنڈی بوتلیں پیش کرتا رہا۔ آئی جی کے واضح احکامات کے باوجود پولیس نے اسے گرفتار نہ کیا، اس کی گرفتاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایس پی ماڈل ٹائون طارق عزیز تھے۔ انھیں فوری طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایس پی، گلو بٹ کو گلے لگا کر شاباش دیتے رہے اور وہ اس پر ڈانس کر کے اپنی کامیابی پر جشن مناتا رہا۔ اخبار والوں نے بڑے مزے لے لے کر میرے اس ہیرو کے بارے میں مزید معلومات بھی دی ہیں مثلاً الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی کے حق میں تمبو لگا کر کام کرتا ہے۔
وہ خود پولیس کا ٹائوٹ بھی ہے اور پولیس افسر کے اشارے پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ موٹروں کے شیشے توڑنے کے لیے اس کو پولیس کا ڈنڈا دیا گیا۔ پولیس کا بیج اس نے پہلے سے ہی لگایا ہوا تھا۔ اس نے شیشے توڑنے کا ریکارڈ قائم کر دیا میں حیرت زدہ ہو کر یہ سب دیکھتا رہا اور طے کیا کہ ایسا لاہوری ہی میرا ہیرو ہو سکتا ہے جس کے سامنے کوئی گاڑی سلامت نہ ہو اور کوئی عام شہری بچ جائے۔ اب میں اپنے اس گلو بٹ کو اپنا ہیرو سمجھوں گا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حکمرانوں کا پسندیدہ ہے بلکہ اسے شیر تک بھی کہا جاتا ہے چنانچہ حکمرانوںکا پسندیدہ یہ لاہوری میرا ہیرو ہے۔ گلو بٹ زندہ باد۔