کویت میں چار دن
افسوس کی بات یہ ہے کہ چند لوگوں کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو بھگتنا پڑ رہی ہے
کویت کے دوست بہت دنوں سے ایک ایسے مشاعرے کے انعقاد کے لیے کوشاں تھے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی نمایندگی ہو مگر کسی نہ معلوم وجہ سے گزشتہ پانچ چھ برسوں سے پاکستانیوں کے لیے کم و بیش ہر طرح کے ویزے تقریباً بند ہیں جب کہ بھارت کے ضمن میں چشم ما روشن دل ماشاد کا سا معاملہ ہے جو اڑتی اڑتی وجوہات سامنے آئیں ان میں سے زیادہ زور کویتی حکام کو لاحق اس خطرے پر تھا کہ کہیں کوئی طالبان یا القاعدہ نظریات اور مشن والا پاکستانی پاسپورٹ پر کویت میں داخل نہ ہو جائے اور دیکھا جائے تو یہ پیش بینی کوئی اتنی غلط بھی نہیں کہ افغان جنگ کے آغاز سے اب تک گزشتہ تقریباً 35 برس میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں افغان مہاجرین حکومت پاکستان کے متعلقہ محکموں کی ناکامی' بدانتظامی اور رشوت ستانی کی وجہ سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا چکے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ چند لوگوں کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو بھگتنا پڑ رہی ہے اور یہ اتنا اہم اور وسائل سے معمور اسلامی ملک اپنے ہم مذہبوں کے لیے ایک نوگو ایریا بن چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کویت اور سعودی عرب دو ملک ایسے ہیں جہاں پاکستانی مزدور' کاریگر اور تاجر سب سے پہلے یعنی پچھلی صدی کی پانچویں دہائی میں آباد ہونا شروع ہو گئے تھے شروع شروع میں ان کا استقبال بہت خوشدلی سے کیا گیا لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ پاکستانیوں کی سب سے زیادہ توہین انھی دو برادر ملکوں میں کی جاتی ہے۔
ایک محاورے کے مطابق تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے سو یقیناً اس ردعمل میں کچھ پاکستانی تارکین وطن کے ''کارنامے'' بھی شامل ہوں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آنکھیں بند کرکے اور پوری صورت حال کو سمجھنے اور اس کا کوئی مثبت اور قابل عمل حل نکالنے کے بجائے دروازہ ہی بند کر دیا جائے۔ سفارت خانے سے متعلق کچھ احباب نے بتایا کہ حکومت کویت کا عمومی رویہ بہت اچھا ہے اور ماضی قریب میں دونوں ملکوں کے سربراہان کی سطح پر بھی میل جول اور بات چیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کویتی حکومت پاکستان سے تعلقات میں گہرائی اور وسعت اور گرم جوشی چاہتی ہے مگر کچھ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی ویزا پالیسی سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔
تقریباً دس برس قبل انور مسعود اور میں کویت کے احباب رانا منیر' عارف بٹ اور ان کے ساتھیوں کی دعوت پر وہاں گئے تھے تب وہاں پاکستانی کمیونٹی بہت خوش' محفوظ اور خوش حال تھی اور اگرچہ عراق کے کویت پر حملے کے دنوں میں تقریباً سب لوگ وہاں سے نکل آئے تھے مگر ان میں سے 80% واپس آ چکے تھے اور کچھ نئے لوگ بھی ملازمت یا بزنس کے لیے مسلسل اور بآسانی آ جا رہے تھے۔ ایک لنچ کے دوران رانا منیر نے بتایا کہ ان کے مشاعرے سے کچھ عرصہ بعد ہی ویزوں پر پابندی لگ گئی اور باوجود کوشش کے وہ دوبارہ کسی پروگرام کا اہتمام نہ کر سکے اب یہ کمال عبداللہ عباسی کا ہے جو ریڈیو کویت کی اردو سروس سے گزشتہ پچیس برس سے وابستہ ہیں کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح میرا ویزا نکلوا لیا اور یوں اس مشاعرے کا انعقاد ممکن ہوا۔
میری فلائٹ 11 جون کی رات ساڑھے نو بجے چل کر کویت کے مقامی وقت کے مطابق رات ایک بج کر پچاس منٹ پر وہاں پہنچی اس دوران میں جہاز بدلنے کے لیے تقریباً دو گھنٹے بحرین کے ایئر پورٹ پر رکنا پڑا لیکن فلائٹ کا کل وقت ساڑھے چار گھنٹے ہی رہا کیونکہ کویت ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ ایئر پورٹ پر نعمت فائونڈیشن والے برادرم شاہد اقبال بھی میزبان عبداللہ عباسی' ان کے بیٹے اور چند احباب سمیت موجود تھے میرے قیام کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا جہاں کمرہ نمبر1704 میں مجھے آیندہ چار راتیں گزارنا تھیں۔
اگلی صبح مقامی شاعر افروز عالم اور خالد سجاد سب سے پہلے آئے اور اس کے بعد ''قطار لگتی چلی جائے آبگینوں کی'' سا معاملہ بن گیا مگر پچھلے دورے کے میزبانوں میں سے کوئی نظر نہ آیا ذرا سا کریدنے پر جو نتیجہ سامنے آیا وہ اگرچہ نیا یا غیر متوقع نہیںتھا کہ کم و بیش ہر ملک میں ہماری ادبی برادری کے لوگ اسی مرض میں مبتلا ہیں جسے عرف عام میں گروہ بندی کہا جاتا ہے اور گنتی کے چند سخن پرور ہونے کے باوجود ہمارے دوست مل کر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چلتے اس سے ان کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا ہے مگر میری طرح سے جو لوگ ایک محدود مدت کے لیے وہاں مہمان ہوتے ہیں ان کی پریشانی اور الجھن بھی قابل توجہ ہے کہ مقامی اور تقریباً بے معنی اختلافات کے باعث ہم بہت سے سخن اور سخن پرور خواتین و حضرات کی ملاقات سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہی گلہ ان دوستوں کو بھی رہتا ہے کہ منتظمین نے انھیں مہمانوں سے ملنے کا موقع ہی نہیں دیا جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ بیماری ایک وبا کی طرح بیرون ملک مقیم پوری اردو دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔
کویت کا ذکر تو یونہی چلتے چلتے درمیان میں آ گیا۔مشاعرے کے مہمانان خصوصی بھارت سے ندا فاضلی اور پاکستان سے راقم الحروف تھے، مجھے مشاعرے کی صدارت کا اعزاز بھی بخشا گیا، چار مقامی شاعروں کے علاوہ قطر سے عزیز نبیل اور بحرین سے الطاف رانا کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا، سامعین نے بہت توجہ اور دلچسپی سے آخر تک مشاعرے کا لطف لیا۔ افروز عالم نے تعارفی حصے اور عزیز نبیل نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔ عبداللہ عباسی اور ان کے رفقاء بہت خوش تھے کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی۔
اگلے دو دن مختلف کھانوں کی نذر ہو گئے لیکن ان کے ذکر سے قبل جمعے کی نماز کا ذکر ایک خاص وجہ سے ضروری ہے مسجد بہت وسیع اور خوبصورت تھی لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ امام صاحب نے جو پی ایچ ڈی تھے خطبہ انگریزی میں پڑھا۔ شاہد اقبال بھائی نے بتایا کہ یہاں بہت سی مساجد میں مختلف زبانوں مثلاً اردو' پشتو' ہندی' گجراتی وغیرہ میں بھی خطبہ دیا جاتا ہے اور یہ پہلے سے تحریر شدہ تمام خطبے باقاعدہ آڈیو ویڈیو ریکارڈ بھی کیے جاتے ہیں، مسجد میں صرف فرض نماز ادا کی جاتی ہے اور آدھے گھنٹے سے کم وقت میں لوگ اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں۔ 13 جون کا ڈنر مقامی کمیونٹی کی طرف سے تھا جس کی نمایندگی حافظ شبیر اور عارف بٹ کر رہے تھے۔
یہاں ایک نوجوان ستار ملک سے بھی ملاقات کرائی گئی جو اپنی کار پر پاک بھارت دوستی کا پیغام لے کر تین مرحلوں میں طویل سفر کر رہا ہے پہلا مرحلہ یورپ کے مختلف ممالک پر مشتمل تھا کہ یہ نوجوان لندن میں مقیم ہے دوسرا مرحلہ 17 جون سے کویت سے شروع ہو کر مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک اور تیسرا پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں پر محیط ہے، مہمانوں سمیت تمام شرکائے محفل نے اس نوجوان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ 14 جون کی دوپہر کا لنچ مقامی تاجر محمد آصف کی طرف سے تھا جہاں کچھ اور احباب سے بھی ملاقات ہوئی جن میں سے سابقہ میزبان رانا منیر کے علاوہ رانا عبدالستار' عتیق الرحمن اور نثار صاحب کے نام حافظے میں رہ گئے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ چند لوگوں کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو بھگتنا پڑ رہی ہے اور یہ اتنا اہم اور وسائل سے معمور اسلامی ملک اپنے ہم مذہبوں کے لیے ایک نوگو ایریا بن چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کویت اور سعودی عرب دو ملک ایسے ہیں جہاں پاکستانی مزدور' کاریگر اور تاجر سب سے پہلے یعنی پچھلی صدی کی پانچویں دہائی میں آباد ہونا شروع ہو گئے تھے شروع شروع میں ان کا استقبال بہت خوشدلی سے کیا گیا لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ پاکستانیوں کی سب سے زیادہ توہین انھی دو برادر ملکوں میں کی جاتی ہے۔
ایک محاورے کے مطابق تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے سو یقیناً اس ردعمل میں کچھ پاکستانی تارکین وطن کے ''کارنامے'' بھی شامل ہوں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آنکھیں بند کرکے اور پوری صورت حال کو سمجھنے اور اس کا کوئی مثبت اور قابل عمل حل نکالنے کے بجائے دروازہ ہی بند کر دیا جائے۔ سفارت خانے سے متعلق کچھ احباب نے بتایا کہ حکومت کویت کا عمومی رویہ بہت اچھا ہے اور ماضی قریب میں دونوں ملکوں کے سربراہان کی سطح پر بھی میل جول اور بات چیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کویتی حکومت پاکستان سے تعلقات میں گہرائی اور وسعت اور گرم جوشی چاہتی ہے مگر کچھ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی ویزا پالیسی سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔
تقریباً دس برس قبل انور مسعود اور میں کویت کے احباب رانا منیر' عارف بٹ اور ان کے ساتھیوں کی دعوت پر وہاں گئے تھے تب وہاں پاکستانی کمیونٹی بہت خوش' محفوظ اور خوش حال تھی اور اگرچہ عراق کے کویت پر حملے کے دنوں میں تقریباً سب لوگ وہاں سے نکل آئے تھے مگر ان میں سے 80% واپس آ چکے تھے اور کچھ نئے لوگ بھی ملازمت یا بزنس کے لیے مسلسل اور بآسانی آ جا رہے تھے۔ ایک لنچ کے دوران رانا منیر نے بتایا کہ ان کے مشاعرے سے کچھ عرصہ بعد ہی ویزوں پر پابندی لگ گئی اور باوجود کوشش کے وہ دوبارہ کسی پروگرام کا اہتمام نہ کر سکے اب یہ کمال عبداللہ عباسی کا ہے جو ریڈیو کویت کی اردو سروس سے گزشتہ پچیس برس سے وابستہ ہیں کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح میرا ویزا نکلوا لیا اور یوں اس مشاعرے کا انعقاد ممکن ہوا۔
میری فلائٹ 11 جون کی رات ساڑھے نو بجے چل کر کویت کے مقامی وقت کے مطابق رات ایک بج کر پچاس منٹ پر وہاں پہنچی اس دوران میں جہاز بدلنے کے لیے تقریباً دو گھنٹے بحرین کے ایئر پورٹ پر رکنا پڑا لیکن فلائٹ کا کل وقت ساڑھے چار گھنٹے ہی رہا کیونکہ کویت ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ ایئر پورٹ پر نعمت فائونڈیشن والے برادرم شاہد اقبال بھی میزبان عبداللہ عباسی' ان کے بیٹے اور چند احباب سمیت موجود تھے میرے قیام کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا جہاں کمرہ نمبر1704 میں مجھے آیندہ چار راتیں گزارنا تھیں۔
اگلی صبح مقامی شاعر افروز عالم اور خالد سجاد سب سے پہلے آئے اور اس کے بعد ''قطار لگتی چلی جائے آبگینوں کی'' سا معاملہ بن گیا مگر پچھلے دورے کے میزبانوں میں سے کوئی نظر نہ آیا ذرا سا کریدنے پر جو نتیجہ سامنے آیا وہ اگرچہ نیا یا غیر متوقع نہیںتھا کہ کم و بیش ہر ملک میں ہماری ادبی برادری کے لوگ اسی مرض میں مبتلا ہیں جسے عرف عام میں گروہ بندی کہا جاتا ہے اور گنتی کے چند سخن پرور ہونے کے باوجود ہمارے دوست مل کر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چلتے اس سے ان کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑا ہے مگر میری طرح سے جو لوگ ایک محدود مدت کے لیے وہاں مہمان ہوتے ہیں ان کی پریشانی اور الجھن بھی قابل توجہ ہے کہ مقامی اور تقریباً بے معنی اختلافات کے باعث ہم بہت سے سخن اور سخن پرور خواتین و حضرات کی ملاقات سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہی گلہ ان دوستوں کو بھی رہتا ہے کہ منتظمین نے انھیں مہمانوں سے ملنے کا موقع ہی نہیں دیا جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ بیماری ایک وبا کی طرح بیرون ملک مقیم پوری اردو دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔
کویت کا ذکر تو یونہی چلتے چلتے درمیان میں آ گیا۔مشاعرے کے مہمانان خصوصی بھارت سے ندا فاضلی اور پاکستان سے راقم الحروف تھے، مجھے مشاعرے کی صدارت کا اعزاز بھی بخشا گیا، چار مقامی شاعروں کے علاوہ قطر سے عزیز نبیل اور بحرین سے الطاف رانا کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا، سامعین نے بہت توجہ اور دلچسپی سے آخر تک مشاعرے کا لطف لیا۔ افروز عالم نے تعارفی حصے اور عزیز نبیل نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔ عبداللہ عباسی اور ان کے رفقاء بہت خوش تھے کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی۔
اگلے دو دن مختلف کھانوں کی نذر ہو گئے لیکن ان کے ذکر سے قبل جمعے کی نماز کا ذکر ایک خاص وجہ سے ضروری ہے مسجد بہت وسیع اور خوبصورت تھی لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ امام صاحب نے جو پی ایچ ڈی تھے خطبہ انگریزی میں پڑھا۔ شاہد اقبال بھائی نے بتایا کہ یہاں بہت سی مساجد میں مختلف زبانوں مثلاً اردو' پشتو' ہندی' گجراتی وغیرہ میں بھی خطبہ دیا جاتا ہے اور یہ پہلے سے تحریر شدہ تمام خطبے باقاعدہ آڈیو ویڈیو ریکارڈ بھی کیے جاتے ہیں، مسجد میں صرف فرض نماز ادا کی جاتی ہے اور آدھے گھنٹے سے کم وقت میں لوگ اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں۔ 13 جون کا ڈنر مقامی کمیونٹی کی طرف سے تھا جس کی نمایندگی حافظ شبیر اور عارف بٹ کر رہے تھے۔
یہاں ایک نوجوان ستار ملک سے بھی ملاقات کرائی گئی جو اپنی کار پر پاک بھارت دوستی کا پیغام لے کر تین مرحلوں میں طویل سفر کر رہا ہے پہلا مرحلہ یورپ کے مختلف ممالک پر مشتمل تھا کہ یہ نوجوان لندن میں مقیم ہے دوسرا مرحلہ 17 جون سے کویت سے شروع ہو کر مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک اور تیسرا پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں پر محیط ہے، مہمانوں سمیت تمام شرکائے محفل نے اس نوجوان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ 14 جون کی دوپہر کا لنچ مقامی تاجر محمد آصف کی طرف سے تھا جہاں کچھ اور احباب سے بھی ملاقات ہوئی جن میں سے سابقہ میزبان رانا منیر کے علاوہ رانا عبدالستار' عتیق الرحمن اور نثار صاحب کے نام حافظے میں رہ گئے ہیں۔