عرب افواج بھاری بھرکم ہو کر بھی کامیاب کیوں نہیں
سعودی عرب امریکا کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدے کے لیے کئی برس سے کوشاں ہے
برطانوی جریدہ اکانومسٹ کے مطابق گزشتہ ماہ اسرائیل پر ایرانی میزائل اور ڈرون یلغار روکنے کے سلسلے میں عرب ممالک کے ایر ڈیفنس سسٹم کی کارکردگی کو مغربی عسکری حلقوں نے ضرور سراہا ہے۔ مگر عمومی شہرت یہ ہے کہ عرب افواج حجم اور وسائل کی وسعت کے باوجود ایک سست عسکری قوت ہیں۔ انھوں نے ( انیس سو تہتر کی محدود کامیابی کے علاوہ) اسرائیل سے پے درپے شکست ہی کھائی ہے۔
امریکی جرنیلوں کو شکوہ ہے کہ کویت پر عراقی قبضے کے بعد فروری انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج میں عرب دستوں نے مایوس کن کارکردگی دکھائی۔مثلاً مصر کے دو آرمڈ ڈویژن امریکا قیادت میں بننے والے اتحاد کا حصہ بنے مگر میدانِ جنگ میں عراقیوں کی جانب سے معمولی مزاحمت پر بھی وہ قابو نہ پا سکے۔ چنانچہ امریکیوں نے ان دو مصری ڈویژنز کو محاذِ جنگ سے ہٹا کے ثانوی نوعیت کا کام دے دیا۔
حال ہی میں بھرپور امریکی فوجی امداد و حمایت کے باوجود سعودی قیادت میں علاقائی فوجی اتحاد یمن میں کوئی قابلِ ذکر فوجی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ مسئلہ پیسے یا ہتھیاروں کی کمی کا نہیں۔
اگر خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک بشمول اردن اور مصر کو ساتھ ملا لیا جائے تو ان آٹھ ممالک کے سالانہ مجموعی دفاعی اخراجات ایک سو بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ان کے فوجیوں کی مجموعی تعداد نو لاکھ چوالیس ہزار ہے۔
ان کے پاس اڑتالیس سو ٹینک اور ایک ہزار سے زائد لڑاکا طیارے ہیں۔مصر اور اردن کو امریکا سالانہ ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی الگ سے دیتا ہے۔مگر دفاعی بجٹ کا بیشتر حصہ دکھاوے کے ایسے اسلحے پر اڑا دیا جاتا ہے جو درپیش فوجی خطرات اور ممکنہ محاذِ جنگ کے لیے اتنا فائدہ مند نہیں ہے۔
قاہرہ میں بحثیت برطانوی فوجی اتاشی وقت گذارنے والے پال کولنز کے بقول مغربی ممالک میں اپنا اثر و نفوذ قائم رکھنے کے لیے حقیقی جنگی افادیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مہنگے مہنگے ہتھیار خرید لیے جاتے ہیں۔مثلاً قطر نے امریکی ایف پندرہ ، فرانسیسی رافیل اور برطانوی ٹارنیڈو طیارے خرید لیے۔حالانکہ ان کے اسکواڈرنز کو جنگی حالات کے لیے مسلسل تیار رکھنا کوئی سستا کھیل نہیں مگر پیسے کی بھی کمی نہیں۔
شوق کی انتہا یہ ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ دس برس میں اسلحے پر جتنا پیسہ خرچ کیا۔اس کا چون فیصد طیاروں کی خریداری میں صرف ہو گیا۔اس شوق کا خمیازہ عموماً بری اور بحری افواج کی ضروریات نظرانداز کرنے کی شکل میں نکلتا ہے۔
زیادہ تر امیر خلیجی ریاستیں ساحلی ہیں اور ان کی خوشحالی کا دارومدار ایسی فعال بحری قوت بننے میں ہے جو معاشی مفادات کو درپیش خطرات کا موثر جواب دے سکے۔مگر ان میں سے اکثر ریاستوں کی بحریہ مختصر اور ساحلی نگرانی تک محدود ہے۔ایک جدید بحریہ کا اپنا فضائی طاقت اور پیشگی خبردار کرنے کا نظام ہوتا ہے۔مگر اسے بہتر کرنے کے بجائے ان ریاستوں کا تکیہ تجارتی راستے ہر قیمت پر کھلے رکھنے کی امریکی و مغربی ضمانت پر ہے۔
جو ریاستیں اپنی بحری طاقت کو توسیع دینا بھی چاہتی ہیں انھیں تربیت یافتہ افرادی قوت کا بحران درپیش ہے۔مثلاً قطر نے اٹلی سے سات جنگی بحری جہاز خریدنے کا آرڈر دے تو دیا لیکن اس بیڑے کو رواں اور فعال رکھنے کے لیے کم ازکم چھ سو ساٹھ رکنی تربیت یافتہ بحری عملہ چاہیے ۔یہ تعداد قطر کی موجودہ بحریہ کا ایک چوتھائی بنتی ہے۔
جیسی حکمرانوں کی شاہانہ نفسیات ہے ویسی ہی فوجی کمانڈروں کی نفسیات ہے۔فوری خطرے کی جانچ اور اس کے مطابق ضروری حکمتِ عملی اوپر سے نیچے سفر کرتی ہے اور اسرائیلی فوجی حکمت عملی کے برعکس عرب کمان میں جونئیر سطح پر فوری فیصلہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
جنگی مشقیں بھی درسی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہیں اور نئے ابھرنے والے ممکنہ خطرات کو مشقوں کا حصہ شاید ہی بنایا جاتا ہو۔یعنی ان مشقوں کا حقیقی محاذِ جنگ سے تعلق طے نہیں ہے۔
فوج کے ایک بڑے حصے کو حکمران پیشہ ورانہ انداز میں استعمال کرنے کے بجائے بطور ذاتی محافظ استعمال کرتے ہیں۔مثلاً ایک لاکھ تیس ہزار نیشنل گارڈز عملاً حکمران سعودی خاندان کے باڈی گارڈز ہیں۔
مصر نے اسرائیل سے آخری جنگ انیس سو تہتر میں لڑی تھی۔اس کے بعد سے فوج کی ترجیحات عسکری سے زیادہ کمرشل ہوتی چلی گئیں۔آج مصری فوج ایک کاروباری سلطنت کا نام ہے جو سیاحتی و تفریحی مراکز سے لے کے تعمیراتی کمپنیوں تک ہر بڑے اور درمیانے کاروبار میں دخیل ہے۔
کیا یہ افواج ایک موثر متحدہ طاقت کی شکل میں کسی مشترکہ کمان میں لڑ سکتی ہیں ؟ عرب افواج کے موضو ع پر ایک سرکردہ امریکی محقق کینتھ پولاک کا مشاہدہ ہے کہ یک زبان و یک نسل و یک ثقافت ہونے کے باوجود باہمی شکوک و شبہات کی بنیادیں بہت گہری اور قبائلی انداز کی ہیں۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل دو ہزار چودہ سے ایک مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم وضع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔مگر آج تک اس لیے کامیابی نہیں ہو سکی کہ چھوٹی ریاستیں اپنے سے بڑی ریاستوں کے عسکری کنٹرول میں ممکنہ موثر کردار سے خوفزدہ ہیں۔ انھیں مقامی کمانڈ سسٹم تشکیل دینے سے زیادہ یقین علاقے کی سلامتی سے متعلق امریکی ضمانتوں پر ہے۔ ان میں سے بہت سی ریاستیں امریکی تائید و مدد کے بغیر کسی جنگ میں کودنے کا تصور نہیں کر سکتیں۔
زیادہ تر خلیجی ریاستوں کا تکیہ امریکی انٹیلی جنس ، زمینی ، فضائی و بحری نگرانی کی امریکی صلاحیت ، امریکی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور فضا میں لڑاکا طیاروں کی ری فیولنگ کرنے والے امریکی فضائیہ کے طیاروں پر ہے۔قطر امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر اور خطے میں سب سے بڑا امریکی ایر بیس ہے۔بحرین نے پانچویں امریکی بیڑے کو لنگرانداز رہنے کی مستقل سہولت فراہم کر رکھی ہے۔یہ سہولتیں ہی انشورنس پالیسی بھی سمجھی جاتی ہیں۔
سعودی عرب امریکا کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدے کے لیے کئی برس سے کوشاں ہے۔مگر امریکا نے اس کے لیے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی شرط لگا رکھی ہے۔جیسا کہ بحرین اور امارات نے تسلیم کیا ہے۔امریکا خلیجی ممالک کا مضبوط ترین حلیف ہونے کے باوجود جدید ترین اسلحہ بشمول ایف تھرٹی فائیو فائٹر جیٹ طیاروں کا جب امارات سے سودا کرتا ہے تو اس کے لیے اسرائیل سے بھی رضامندی لیتا ہے۔یہ رضامندی اس اصول کے تحت ضروری ہے کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کی برتری ہر قیمت پر برقرار رکھے گا۔
مگر اچھی عسکری کارکردگی کے مظاہرے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔مثلاً اماراتی اسپیشل فورسز نے جس طرح دو ہزار پندرہ میں یمن کی بندرگاہ عدن کو حوثی ملیشیا سے چھڑوانے کا پیچیدہ مشن انجام دیا۔اس کی مغربی عسکری ماہرین تعریف کرتے ہیں۔اردن غزہ کی گنجان پٹی میں فضا سے امداد گرانے کا مشکل کام جس مہارت سے کر رہا ہے وہ اس کی خصوصی جنگی صلاحیت کا غماز ہے۔
مگر مسئلہ پھر مقامی مہارت میں خودکفالت کا ہے۔جیسے امارات کی اسپیشل فورسز اور صدارتی محافظوں میں مغربی فوجی مشیروں کی ایک تعداد موجود ہے اور ان کی کمان ایک آسٹریلوی جنرل کرتا ہے۔
دو ہزار انیس میں جب مبینہ ایرانی ڈرون حملے میں سعودی عرب کی نصف تیل پیداوار معطل ہو گئی۔تو اس کے بعد سے خلیجی ریاستوں نے ایک مربوط مشترکہ فضائی دفاعی نظام بنانے کے بارے میں کچھ سنجیدہ اقدامات کیے۔دو ہزار بائیسں میں امریکی دوست عرب ممالک اور اسرائیل نے پیشگی وارننگ سسٹم کو مربوط بنایا ۔اس کا نتیجہ اسرائیل پر براہ راست ایرانی میزائل حملے کی روک تھام میں عرب ممالک کی حصہ داری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مگر روائیتی فوجی ڈھانچے میں تب ہی دوررس تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جب نظام بھی تبدیلی کے لیے تیار ہو۔ عرب ریاستیں نئے دور کے تقاضوں کی تپش محسوس کرتے ہوئے چیونٹی کی رفتار سے ہی سہی اپنی اسلحہ شاپنگ فہرست میں تبدیلی لا رہی ہیں اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔غزہ کی لڑائی میں اے آئی کے عسکری استعمال نے کچھ عرب ممالک کی آنکھیں کھولی تو ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
امریکی جرنیلوں کو شکوہ ہے کہ کویت پر عراقی قبضے کے بعد فروری انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج میں عرب دستوں نے مایوس کن کارکردگی دکھائی۔مثلاً مصر کے دو آرمڈ ڈویژن امریکا قیادت میں بننے والے اتحاد کا حصہ بنے مگر میدانِ جنگ میں عراقیوں کی جانب سے معمولی مزاحمت پر بھی وہ قابو نہ پا سکے۔ چنانچہ امریکیوں نے ان دو مصری ڈویژنز کو محاذِ جنگ سے ہٹا کے ثانوی نوعیت کا کام دے دیا۔
حال ہی میں بھرپور امریکی فوجی امداد و حمایت کے باوجود سعودی قیادت میں علاقائی فوجی اتحاد یمن میں کوئی قابلِ ذکر فوجی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ مسئلہ پیسے یا ہتھیاروں کی کمی کا نہیں۔
اگر خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک بشمول اردن اور مصر کو ساتھ ملا لیا جائے تو ان آٹھ ممالک کے سالانہ مجموعی دفاعی اخراجات ایک سو بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ان کے فوجیوں کی مجموعی تعداد نو لاکھ چوالیس ہزار ہے۔
ان کے پاس اڑتالیس سو ٹینک اور ایک ہزار سے زائد لڑاکا طیارے ہیں۔مصر اور اردن کو امریکا سالانہ ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی الگ سے دیتا ہے۔مگر دفاعی بجٹ کا بیشتر حصہ دکھاوے کے ایسے اسلحے پر اڑا دیا جاتا ہے جو درپیش فوجی خطرات اور ممکنہ محاذِ جنگ کے لیے اتنا فائدہ مند نہیں ہے۔
قاہرہ میں بحثیت برطانوی فوجی اتاشی وقت گذارنے والے پال کولنز کے بقول مغربی ممالک میں اپنا اثر و نفوذ قائم رکھنے کے لیے حقیقی جنگی افادیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مہنگے مہنگے ہتھیار خرید لیے جاتے ہیں۔مثلاً قطر نے امریکی ایف پندرہ ، فرانسیسی رافیل اور برطانوی ٹارنیڈو طیارے خرید لیے۔حالانکہ ان کے اسکواڈرنز کو جنگی حالات کے لیے مسلسل تیار رکھنا کوئی سستا کھیل نہیں مگر پیسے کی بھی کمی نہیں۔
شوق کی انتہا یہ ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ دس برس میں اسلحے پر جتنا پیسہ خرچ کیا۔اس کا چون فیصد طیاروں کی خریداری میں صرف ہو گیا۔اس شوق کا خمیازہ عموماً بری اور بحری افواج کی ضروریات نظرانداز کرنے کی شکل میں نکلتا ہے۔
زیادہ تر امیر خلیجی ریاستیں ساحلی ہیں اور ان کی خوشحالی کا دارومدار ایسی فعال بحری قوت بننے میں ہے جو معاشی مفادات کو درپیش خطرات کا موثر جواب دے سکے۔مگر ان میں سے اکثر ریاستوں کی بحریہ مختصر اور ساحلی نگرانی تک محدود ہے۔ایک جدید بحریہ کا اپنا فضائی طاقت اور پیشگی خبردار کرنے کا نظام ہوتا ہے۔مگر اسے بہتر کرنے کے بجائے ان ریاستوں کا تکیہ تجارتی راستے ہر قیمت پر کھلے رکھنے کی امریکی و مغربی ضمانت پر ہے۔
جو ریاستیں اپنی بحری طاقت کو توسیع دینا بھی چاہتی ہیں انھیں تربیت یافتہ افرادی قوت کا بحران درپیش ہے۔مثلاً قطر نے اٹلی سے سات جنگی بحری جہاز خریدنے کا آرڈر دے تو دیا لیکن اس بیڑے کو رواں اور فعال رکھنے کے لیے کم ازکم چھ سو ساٹھ رکنی تربیت یافتہ بحری عملہ چاہیے ۔یہ تعداد قطر کی موجودہ بحریہ کا ایک چوتھائی بنتی ہے۔
جیسی حکمرانوں کی شاہانہ نفسیات ہے ویسی ہی فوجی کمانڈروں کی نفسیات ہے۔فوری خطرے کی جانچ اور اس کے مطابق ضروری حکمتِ عملی اوپر سے نیچے سفر کرتی ہے اور اسرائیلی فوجی حکمت عملی کے برعکس عرب کمان میں جونئیر سطح پر فوری فیصلہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
جنگی مشقیں بھی درسی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہیں اور نئے ابھرنے والے ممکنہ خطرات کو مشقوں کا حصہ شاید ہی بنایا جاتا ہو۔یعنی ان مشقوں کا حقیقی محاذِ جنگ سے تعلق طے نہیں ہے۔
فوج کے ایک بڑے حصے کو حکمران پیشہ ورانہ انداز میں استعمال کرنے کے بجائے بطور ذاتی محافظ استعمال کرتے ہیں۔مثلاً ایک لاکھ تیس ہزار نیشنل گارڈز عملاً حکمران سعودی خاندان کے باڈی گارڈز ہیں۔
مصر نے اسرائیل سے آخری جنگ انیس سو تہتر میں لڑی تھی۔اس کے بعد سے فوج کی ترجیحات عسکری سے زیادہ کمرشل ہوتی چلی گئیں۔آج مصری فوج ایک کاروباری سلطنت کا نام ہے جو سیاحتی و تفریحی مراکز سے لے کے تعمیراتی کمپنیوں تک ہر بڑے اور درمیانے کاروبار میں دخیل ہے۔
کیا یہ افواج ایک موثر متحدہ طاقت کی شکل میں کسی مشترکہ کمان میں لڑ سکتی ہیں ؟ عرب افواج کے موضو ع پر ایک سرکردہ امریکی محقق کینتھ پولاک کا مشاہدہ ہے کہ یک زبان و یک نسل و یک ثقافت ہونے کے باوجود باہمی شکوک و شبہات کی بنیادیں بہت گہری اور قبائلی انداز کی ہیں۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل دو ہزار چودہ سے ایک مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم وضع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔مگر آج تک اس لیے کامیابی نہیں ہو سکی کہ چھوٹی ریاستیں اپنے سے بڑی ریاستوں کے عسکری کنٹرول میں ممکنہ موثر کردار سے خوفزدہ ہیں۔ انھیں مقامی کمانڈ سسٹم تشکیل دینے سے زیادہ یقین علاقے کی سلامتی سے متعلق امریکی ضمانتوں پر ہے۔ ان میں سے بہت سی ریاستیں امریکی تائید و مدد کے بغیر کسی جنگ میں کودنے کا تصور نہیں کر سکتیں۔
زیادہ تر خلیجی ریاستوں کا تکیہ امریکی انٹیلی جنس ، زمینی ، فضائی و بحری نگرانی کی امریکی صلاحیت ، امریکی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور فضا میں لڑاکا طیاروں کی ری فیولنگ کرنے والے امریکی فضائیہ کے طیاروں پر ہے۔قطر امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر اور خطے میں سب سے بڑا امریکی ایر بیس ہے۔بحرین نے پانچویں امریکی بیڑے کو لنگرانداز رہنے کی مستقل سہولت فراہم کر رکھی ہے۔یہ سہولتیں ہی انشورنس پالیسی بھی سمجھی جاتی ہیں۔
سعودی عرب امریکا کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدے کے لیے کئی برس سے کوشاں ہے۔مگر امریکا نے اس کے لیے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی شرط لگا رکھی ہے۔جیسا کہ بحرین اور امارات نے تسلیم کیا ہے۔امریکا خلیجی ممالک کا مضبوط ترین حلیف ہونے کے باوجود جدید ترین اسلحہ بشمول ایف تھرٹی فائیو فائٹر جیٹ طیاروں کا جب امارات سے سودا کرتا ہے تو اس کے لیے اسرائیل سے بھی رضامندی لیتا ہے۔یہ رضامندی اس اصول کے تحت ضروری ہے کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کی برتری ہر قیمت پر برقرار رکھے گا۔
مگر اچھی عسکری کارکردگی کے مظاہرے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔مثلاً اماراتی اسپیشل فورسز نے جس طرح دو ہزار پندرہ میں یمن کی بندرگاہ عدن کو حوثی ملیشیا سے چھڑوانے کا پیچیدہ مشن انجام دیا۔اس کی مغربی عسکری ماہرین تعریف کرتے ہیں۔اردن غزہ کی گنجان پٹی میں فضا سے امداد گرانے کا مشکل کام جس مہارت سے کر رہا ہے وہ اس کی خصوصی جنگی صلاحیت کا غماز ہے۔
مگر مسئلہ پھر مقامی مہارت میں خودکفالت کا ہے۔جیسے امارات کی اسپیشل فورسز اور صدارتی محافظوں میں مغربی فوجی مشیروں کی ایک تعداد موجود ہے اور ان کی کمان ایک آسٹریلوی جنرل کرتا ہے۔
دو ہزار انیس میں جب مبینہ ایرانی ڈرون حملے میں سعودی عرب کی نصف تیل پیداوار معطل ہو گئی۔تو اس کے بعد سے خلیجی ریاستوں نے ایک مربوط مشترکہ فضائی دفاعی نظام بنانے کے بارے میں کچھ سنجیدہ اقدامات کیے۔دو ہزار بائیسں میں امریکی دوست عرب ممالک اور اسرائیل نے پیشگی وارننگ سسٹم کو مربوط بنایا ۔اس کا نتیجہ اسرائیل پر براہ راست ایرانی میزائل حملے کی روک تھام میں عرب ممالک کی حصہ داری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مگر روائیتی فوجی ڈھانچے میں تب ہی دوررس تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جب نظام بھی تبدیلی کے لیے تیار ہو۔ عرب ریاستیں نئے دور کے تقاضوں کی تپش محسوس کرتے ہوئے چیونٹی کی رفتار سے ہی سہی اپنی اسلحہ شاپنگ فہرست میں تبدیلی لا رہی ہیں اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔غزہ کی لڑائی میں اے آئی کے عسکری استعمال نے کچھ عرب ممالک کی آنکھیں کھولی تو ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)