لڑکیوں کا ہاکی کھیلنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے زیب النساء

حق تلفی اور ناانصافی میرا حوصلہ پست نہیں کرسکی، زیب النساء

میرٹ کو نظر انداز کرنے کے باعث پاکستان ہاکی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، زیب النساء فوٹو : فائل

وہ خواتین کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہیں۔ ایک رول ماڈل!

حیرت ہوتی ہے، جس معاشرے میں عورت کو کم تر اور حقیر سمجھتے ہوئے گھر کی چار دیواری میں قید کرنے کا رواج ہو، جہاں وہ بے آواز، بے چہرہ ہو، وہاں رہتے ہوئے حصول علم کی خواہش۔ پھر اس کی تکمیل۔ یہی نہیں، اپنی پسند کی زندگی کا انتخاب۔ اور زندگی بھی وہ، جو چل نہیں رہی، دوڑ رہی ہے۔ زندگی، جو فقط گھر سے باہر نہیں لے گئی، بلکہ پورے سماج کی نظروں کا مرکز بنا دیا۔

زیب النساء نے بڑی ہمت کے ساتھ نامساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ حق تلفی، ناانصافی ہوئی۔ نظرانداز کیا گیا، مگر ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ قدموں کو ڈگمگانے نہیں دیا۔ پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ آگے بڑھتی رہیں۔

نیشنل ٹیم میں لیفٹ ہاف کی پوزیشن پر کھیلنے والی زیب النساء کہتی ہیں،''جسں زمین پر آپ کے قدم پڑ گئے، وہ کتنی ہی اجنبی اور اجاڑ ہو، یاد رکھیں، وہیں کہیں راستہ بھی ہوگا۔ میرا یقین ہے کہ آگے بڑھنے والوں کو منزل ضرور ملتی ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔'' مشکلات کو وہ زندگی کا حصہ خیال کرتی ہیں۔ ''ہاں، بندہ لڑکھڑاتا ہے، گھبرا جاتا ہے، مگر میرے حوصلے اور جذبے نے مجھے گرنے نہیں دیا۔ ہمت اور اعتماد انسان کے بڑے ہتھیار ہیں۔'' شاید ان ہی ہتھیاروں کے وسیلے اُنھوں نے قومی ٹیم میں جگہ بنائی۔ کہنا ہے،''مجھے اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسا تھا۔ اور اسی بھروسے کے طفیل میں اس مقام پر پہنچی۔''



وہ گذشتہ بارہ برس سے ہاکی کھیل رہی ہیں۔ سندھ، ریلوے، آرمی اور ریجنل ڈسٹرکٹ کی ٹیموں کی نمایندگی کر چکی ہیں۔ سکھر نے ویمنز ہاکی میں حالیہ برسوں میں جو ٹرافیاں حاصل کیں، اُن کے حصول میں زیب کا کردار مرکزی رہا۔

اس تعارفی ابتدایے کے بعد اب توجہ اُن کے حالاتِ زندگی کی جانب مرکوز کرتے ہیں:

زیب النساء نے 6 جنوری 1990 کو سکھر میں مقیم، نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس اہل کار، محمد شریف خان کے گھر آنکھ کھولی۔ پانچ بہن، پانچ بھائیوں میں اُن کا نمبر آٹھواں ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ اسپورٹس کی سمت آنے والے پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، مگر زیب النساء کا معاملہ مختلف رہا۔ مسائل آئے، مگر پڑھائی میں وقفہ نہیں آیا۔ گھر والوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ ابتدائی تعلیم سچل پبلک اسکول، نیوپنڈ سے حاصل کی۔

ہر بچے کی طرح اس زمانے کی حسین یادیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ 2006 میں انھوں نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، نیوپنڈ سے امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک کیا۔ تعلیم جاری رکھنے کی خواہش سیدھی گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، سکھر لے گئی۔ کالج کے زمانے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں خاصی سرگرم رہیں۔ انٹر کے بعد فزیکل کالج، سکھر میں قدم رکھا۔ ایک برس کا ڈپلوما کیا۔ گریجویشن کرنے کا ارادہ باندھ چکی تھیں۔ 2014 میں امتیازی نمبروں کے ساتھ بی ایس سی کیا۔ اس روز خوشی کے انوکھے تجربے سے گزریں۔

ہاکی کھیلنے کا سودا ذہن میں کب سمایا؟

اِس سوال کے جواب میں کہتی ہیں، والد ان کے ہاکی کے دل دادہ تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اُنھیں ہاکی کھیلتے ہوئے دیکھا۔ تب ہی سے اِس کھیل نے گرویدہ بنا لیا۔ اسکول کے زمانے میں اسپورٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔ ہائی اسکول میں آکر ہاکی ٹیم کا حصہ بنیں۔ ابتدائی ایام میں اسکولز اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ کہتی ہیں،''اسٹوڈنٹ میں ٹھیک ٹھاک تھی، مگر ابتدا ہی میں کھیل کود کی سرگرمیوں کی جانب آگئی۔ بعد میں پوری توجہ اسپورٹس پر رہی۔ تعلیمی نقطۂ نگاہ سے بہت اچھی طالبہ نہیں تھی۔ البتہ گریجویشن کر لیا۔''

ابتدائی دنوں کے ایک واقعے کا بالخصوص ذکر کرتی ہیں،''اسکول کے زمانے میں ہم گھاس پر کھیلا کرتے تھے۔ سکھر میں آسٹروٹرف نہیں تھی۔ جب ٹی وی پر ہاکی ٹورنامنٹس دیکھتی، تو والد سے پوچھتی؛ یہ آسٹروٹرف کیا چیز ہے؟ اِس پر کھیل کر انسان کیسا محسوس کرتا ہے؟ ایک دن والد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا؛ یہ جاننے کا ایک طریقہ ہے کہ تم خوب محنت کرو۔ ایک دن تم خود آسٹروٹرف پر کھیل رہی ہوگی۔ میں نے اُن کی بات پلو سے باندھ لی۔ محنت کی، جس کا مجھے صلہ ملا۔''

جب درپیش مسائل کی بابت پوچھا، تو کہنے لگیں، شوق انسان میں جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اور جذبہ ایک بیج کی طرح ہے، جس کی صحیح طریقے سے دیکھ ریکھ کی جائے، تو وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔




زیب النساء کے بہ قول،''متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے مجھے اسپورٹس کی وہ سہولیات میسر نہیں تھیں، جو ایک اچھے کھلاڑی کی تربیت کے لیے ضروری ہوتی ہیں، مگر حوصلہ بلند تھا۔ میں تکالیف اور پریشانیوں کو خاطر میں نہیں لائی۔ کبھی مایوس نہیں ہوئی۔ چھوٹے موٹے ٹورنامنٹس کھیلتی رہی۔ اور پھر مجھے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے اور خود کو منوانے کا ایک نادر موقع ملا، جس سے میں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔'' یہاں وہ 2008 میں ملایشیا میں ہونے والے جونیر ایشیا کپ کی بات کر رہی ہیں، جو اُنھیں اپنے پہلے غیرملکی دورے پر لے گیا۔

سلیکٹرز کی اس ٹورنامنٹ پر نظر تھی۔ اچھی کارکردگی کی بنیاد پر جن کھلاڑیوں کو نیشنل ٹیم کے کیمپ سے بلاوا آیا، اُن میں سکھر کی زیب النساء بھی شامل تھیں۔ قومی ٹیم کے لیے منتخب ہونا ایک یادگار لمحہ تھا۔ ان کے بہ قول،''بہ ظاہر یہ سہل لگتا ہے کہ آپ ایک ٹورنامنٹ کھیل کر قومی ٹیم میں آگئے، مگر اس کے پیچھے برسوں کی محنت تھی۔'' ٹیم کا حصہ بننے کے بعد اُنھوں نے سنگاپور کا رخ کیا۔ وہاں کھیلی جانے والی سیریز میں اُن کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

بارہ سالہ کیریر میں کئی نشیب و فراز آئے۔ احساس ہوا، چاہے صلاحیت نہ ہو، مگر سفارش ہونی چاہیے، کام بن جاتا ہے۔ کہتی ہیں،''میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود مجھے بعض ہاکی ایسوسی ایشنز کے ذمے داروں کی جانب سے اہم ایونٹس میں نظرانداز کیا گیا، جس کا مجھے بہت دُکھ ہوا۔ میرے شوق اور جذبے کو ٹھیس پہنچی۔'' اِس موڑ پر وہ فکری پیرایے میں بات کرنے لگتی ہیں۔ ''اگر محنت کے باوجود آپ اپنے مقصد میں ناکام رہیں، تو دو انتہائی قسم کے ردعمل سامنے آتے ہیں۔

ایک؛ انسان مایوس ہو کر جدوجہد ترک کر دیتا ہے۔ یوں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوجاتا ہے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ غصہ اور دُکھ انسان کو جوش اور ولولے سے بھر دیتا ہے۔ کچھ ایسا کر گزرنے پر مجبور کر دیتا ہے، جس سے وہ خود کو منوالے۔ میں نے بھی حق تلفی کے بعد دوسرا انتہائی رویہ چنا۔ خود کو منوانے، اپنی صلاحیتوں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی، اور میری محنت کا ثمر آج آپ کے سامنے ہے۔''

تسلیم کرتی ہیں کہ جدوجہد کے زمانے میں مایوس کن لمحات بھی آئے، تاہم ان ہی لمحات نے قدرت پر یقین پختہ کیا۔ احساس ہوا، انسان طوفان میں گھرا ہو، تب بھی امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ طوفان آیا ہے، تو سائبان بھی ضرور ملے گا۔ ''میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ متعدد بار اہم ایونٹس میں مجھے نظرانداز کیا گیا۔ اِس وقت میرا ذہن مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوگیا، تاہم خوش بخت شجاعت صاحبہ نے بہت ساتھ دیا۔ صوبائی وزیر، رؤف صدیقی نے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

ان ہی کی کوششوں کی بدولت مجھے محکمۂ سائٹ میں ملازمت ملی۔ اُنھوں نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی۔'' زیب النساء 2011 میں سائٹ میں بہ حیثیت اکاؤنٹس کلرک بھرتی ہوئی تھیں۔ ابتدائی مشاہرہ 7 ہزار روپے مقرر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔

پاکستان ہاکی کے زوال کی کیا وجوہات ہے؟ اس سوال کا یوں جواب دیتی ہیں،''غیر سنجیدہ اقدامات، فنڈز کی عدم دست یابی، ضرورت کے مطابق گراؤنڈز نہ ہونا؛ اِن اسباب کی وجہ سے پاکستان کا قومی کھیل پستی کی جانب جا رہا ہے۔ ایک اہم وجہ میرٹ کو نظر انداز کرنا بھی ہے، جس کے باعث ہاکی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔''

خواہشات تو کئی ہیں، لیکن سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ سکھر کی لڑکیوں کو ہاکی کی جانب لائیں۔ کہتی ہیں،''میری شروع ہی سے کوشش رہی ہے کہ اپنے شہر کی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کروں۔ اپنا تجربہ اور معلومات اُن سے شیئر کروں، تاکہ وہ بھی اپنی صلاحیتوں کے بل پر اِس شہر کا نام روشن کر سکیں۔'' زیب النساء کے مطابق اندرون سندھ باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں۔ بہت ٹیلنٹ ہے۔ اگر یہاں بھی کراچی کی طرح خواتین کھلاڑیوں کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جائے، تو کئی اچھی پلیئرز نیشنل ٹیم کو مل سکتی ہیں۔



ہاکی کی مجموعی صورت حال سے تو مایوس ہیں، مگر ایک بات کی خوشی ہے کہ اب سکھر میں آسٹروٹرف بچھ گئی ہے۔ کہنا ہے،''سکھر کے کھلاڑیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ یہاں آسٹروٹرف بچھائی جائے، اور جدید ہاکی گراؤنڈ تعمیر کیا جائے۔ اِس مطالبے کے پورے ہونے سے مرد اور خواتین ہاکی پلیئرز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ کھلاڑی جو گراؤنڈ نہ ہونے کے باعث مایوس ہوکر ہاکی سے کنارہ کش ہوگئے تھے، اب دوبارہ میدان میں نظر آرہے ہیں۔''

اپنی صلاحیتیں نکھارے کے لیے، اُن کے بہ قول، خود سے بہتر کھلاڑیوں سے مقابلہ ضروری ہے۔ اِس کے لیے اُنھوں نے دل چسپ طریقہ اختیار کیا۔ سکھر میں آسٹروٹرف بچھنے کے بعد اب وہ مردوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہیں۔ بہ قول ان کے،''اس مشق سے میری صلاحیتوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگلے ایونٹ میں میری کارکردگی مزید بہتر ہوگی۔''

زیب النساء تسلیم کرتی ہیں کہ آج بھی ہمارے ہاں لڑکیوں کا کرکٹ یا ہاکی کھیلنا معیوب سمجھا جاتا ہے، اِسی وجہ سے کئی باصلاحیت لڑکیاں اسپورٹس کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔ اس رویے میں تبدیلی کے لیے اُن کے مطابق تعلیم کا فروغ اور کھیلوں کی ترقی ضروری ہے۔ یہ شکایت بھی ہے کہ سکھر میں خواتین کی اسپورٹس سرگرمیوں میں بعض ایسوسی ایشنز کے مرد حضرات مداخلت کرتے ہیں۔ سیاسی اثر ورسوخ بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وہ ریحان بٹ اور سہیل عباس کے کھیل کی مداح ہیں۔ چاہتی ہیں کہ اُن کی طرح بین الاقوامی ہاکی میں پاکستان کا نام روشن کریں۔
Load Next Story