بلوچستان کا پشتو فارسی و ہزارگی ادب
بلوچستانی ادب کے تناظر میں ہم بلوچی اور براہوی کا تذکرہ کر چکے۔
بلوچستان کی لسانی کثیرالجہتی کا سیاسی تناظر خواہ کیسا ہی المناک کیوں نہ ہو، ثقافتی تناظر میں دلکش ہے۔ اہلِ بلوچستان سے متعلق یہ ایک عمومی خیال ہے کہ یہاں کا ہر دوسرا باسی آپ کو بیک وقت تین تا پانچ زبانیں بولتا ہوا ملے گا۔ بالخصوص کوئٹہ کے رہائشیوں پہ یہ مقولہ صادق آتا ہے۔ کوئٹہ کی منڈی بیک وقت بلوچی، براہوی، پشتو، فارسی اور ہزارگی کے زیر اثر ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ منڈی کی زبان عوام میں جلد اور تیزی سے پھیلتی ہے۔ اس لیے کوئٹہ میں یہ تمام زبانیں عوامی سطح پر خاصا اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ نیز سندھی، سرائیکی اور پنجابی بھی اب اس میں خاطر خواہ حصہ لینے لگی ہیں۔
بلوچستانی ادب کے تناظر میں ہم بلوچی اور براہوی کا تذکرہ کر چکے۔ اس نشست میں ہم بلوچستان کی دیگر اہم زبانوں کا جائزہ لیں گے جو بلوچستان میں تحریری سطح پر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ بلوچی اور براہوی کے بعد پشتو صوبے کی ایک اہم زبان ہے۔ بلحاظِ آبادی بھی اس کا اثر و نفوذ وسیع پیمانے پہ ہے۔ گو کہ پشاور اورکوئٹہ میں بولی جانے والی پشتو میں لہجے کا خاصا اختلاف موجود ہے، اور وہ جو معروف مقولہ ہے کہ ہر دس کلومیٹر پہ زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے، بلوچستان میں اس کی صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ یہاں ہر سوکلومیٹر پہ زبان ہی بدل جاتی ہے۔
بہرکیف پاکستان میں سندھی کے بعد پشتو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے پاس اپنا ایک مشترکہ رسم الخط موجو د ہے۔ لہجے کا اختلاف لگ بھگ ہر زبان میں ہے، لیکن یہ ادب کی مجموعی صورت کو متاثر نہیں کرتا۔ یوں ایک لحاظ سے کوئٹہ سے لے کر پشاور تک پشتو پڑھنے والے کا ایک وسیع حلقہ وجود ہے۔ اس لحاظ سے پشتو لکھنے والوں کو قارئین کی اس شدیدقلت کا سامنا نہیں، جو کہ بلوچی اور براہوی کو ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی سطح تک، پشتو ادب پہ خاطر خواہ کام نہیں ہو پایا۔
بلوچستان کے پشتو ادب میں شاعری اور افسانے کا پہلو حاوی ہے۔ شاعری کی نسبت افسانہ گو کہ مقدار میں کم لیکن اچھا لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ گو کہ افسانوی مجموعے کم لیکن وہ بھی غیر معیاری نہیں ہیں۔ البتہ ناول کی صنف پہ کام ابھی باقی ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح پشتو میں بھی شاعری کی بہتات ہے۔ شعری مجموعوں کے ڈھیر ہیں۔ اس صورت میں معیارکا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ لیکن جدید پشتو شاعری میں بعض لکھنے والوں نے بڑے جاندار تجربات کیے ہیں۔ بالخصوص پشتو نظم کا دامن اس معاملے میں خاصا وسیع ہے۔ دوسرا اہم کام پشتو تنقید کے حوالے سے ہے۔ گو کہ اس ضمن میں اب تک کوئی مربوط کام سامنے نہیں آیا، لیکن پشتو لکھنے والے جدید ادبی تنقید سے بخوبی آگاہ ہیں، جس کا اظہار ان کی تحاریر میں کثرت سے ہوتا رہتا ہے۔
پشتو میں چونکہ تراجم وسیع پیمانے پر ہوئے ہیں، نیز نئے لکھنے والوں کا مطالعاتی میڈیم اردو اور انگریزی رہا ہے، اس لیے وہ جدید ادبی نظریات اور تھیوریز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ افغانستان کے معاملات بھی پشتونوں کو (خواہ ان کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو) براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے جدید پشتو ادب میں نائن الیون کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔
البتہ پشتو لکھنے والوں کا اس بابت کوئی مشترکہ فکری نظام تشکیل نہیں پا سکا۔ ان میں دو واضح نکتہ نظر موجود ہیں۔ اول، وہ ہیں جو افغانستان کو ایک خوش حال جمہوری ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہاں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ امریکا یا یورپ کی مدد کے بغیر افغانستان کو ایک خوش حال جمہوری ریاست بنانا ممکن ہی نہیں، اس لیے وہ پشتون قومی سوال پر تو متفق ہیں لیکن بیرونی مداخلت کو جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ 'جہادی ادب' تخلیق کرنے والے بھی اپنا وجود تو رکھتے ہیں، لیکن ادبی سطح پر وہ نہ تو اتنے فعال ہیں اور نہ ہی ادبی تناظرات سے اس قدر آگا ہ ہیں۔
کوئٹہ میں پشتو ادب کی اشاعت کا بڑا ذریعہ پشتو اکیڈمی ہے، جو سرکار سے سالانہ گرانٹ لیتی ہے۔ حالانکہ بلوچی اور براہوی اکیڈمی کی نسبت پشتو اکیڈمی کے پاس سب سے زیادہ اعلیٰ اور شاندار عمارت موجود ہے۔ یہ سرکار سے سالانہ لاکھوں روپے کی گرانٹ لیتی ہے۔ لیکن یہ ایک عرصے سے ادبی گروہ بندیوں اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو چکی ہے۔ بارہ مہینوں میں یہ پشتو کی بارہ کتابیں بھی قارئین کو نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ پشتو لکھنے والوں نے اپنے تئیں اشاعتی اداروں کے قیام کی کوشش کی ہے اور کچھ احباب نجی سطح پر کتابیں چھاپتے رہتے ہیں۔ مجموعی سطح پر بلوچستان میں تخلیق ہونے والے پشتو ادب سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے سماج سے جڑت رکھنے والا ادب ہے۔ یہاں کے پشتو ادب میں آپ کو پشتون سماج کے تمام عناصر کی رنگ آمیزی ملے گی۔
فارسی اس خطے کی قدیم زبانوں میں سے رہی ہے۔ قیام پاکستان تک یہ ریاست قلات کی سرکاری و درباری زبان ہوا کرتی تھی۔ اس لیے اٹھارویں سے بیسویں صدی تک ہمارے ہاں فارسی شاعری کا دور دورہ رہا ہے۔ غالبؔ کے ایک ہم عصر ناطق مکرانی سے متعلق روایت ہے کہ انھوں نے غالب ؔکے فارسی کلام میں زبان کی ایک غلطی کی نشان دہی غالبؔ کو ایک خط لکھ کر کی تھی، جس کا غالبؔ نے اعتراف بھی کیا تھا اور جوابی خط میں انھیں ہندوستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ ابھی بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے تک ایک طرف مکران، دوسری جانب بولان، اور اُدھر ژوب و لورالائی میں ایسے ادبی حلقے موجود تھے جو فارسی مشاعروں کا باقاعدہ اہتمام کیا کرتے تھے۔
اس سارے عرصے میں اس قدر فارسی ادب تخلیق ہوا کہ جامعہ بلوچستان میں شعبہ فارسی کے سربراہ پروفیسر شرافت عباس مرحوم نے اس بابت پوری ایک کتاب 'بلوچستان میں فارسی ادب کے سو سال' مرتب کر ڈالی۔ لیکن فارسی کا یہ شعبہ بس انھی کے دم سے قایم رہا، اب تو یہ گویا عضوئے معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ جدید عہد میں بلوچستان میں فارسی ادب اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئٹہ میں واقع خانہ فرہنگ ِ ایران اپنے فنڈز کا استعمال اور کارکردگی دکھانے کے لیے ہر تین ماہ بعد فارسی زبان کے کورسز تو کرواتا رہتا ہے لیکن فارسی ادب کی ترویج کے لیے اس نے بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
نیز ہمارے ہاں عمومی خیال یہ تھا کہ فارسی بولنے والے ہزارہ کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ جنھوں نے ایک عرصے سے اس تاثر کی شدت سے نفی کی ہے۔ ان کی نئی نسل سختی سے یہ باور کراتی رہی ہے کہ ان کی مادری زبان ہزارگی ہے، جو فارسی سے کسی قدر قریب تو ضرور ہے، لیکن ایک بالکل ہی الگ زبان ہے۔ بعض فارسی دان ہزارگی کو بالکل اسی طرح فارسی کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں، جیسے بعض پنجابی اہلِ زبان جنوبی پنجاب میں بولی جانے والی سرائیکی کو پنجابی کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہزارہ کمیونٹی نے اپنے مؤقف کی صداقت کے لیے اپنی زبان میں لکھنے، پڑھنے کا سلسلہ وسیع پیمانے پر شروع کر رکھا ہے۔
ابھی گزشتہ برس جب ہم نے کوئٹہ سے بلوچستان کی اہم زبانوں کے ادب کے اردو تراجم پہ ایک ادبی سلسلہ شروع کیا تو اس سلسلے میں ہزارگی ادب کے حصے کے لیے ملنے والی تحریروں نے مجھے واقعی خوشگوار حیرت سے دوچار کیا۔ ہزارگی نظم کے حوالے سے ہم اپنے ایک ہم عصر دوست قادر نائل کے نام اور کام سے تو کسی حد تک آگاہ تھے، لیکن فکشن کے حصے میں ملنے والی مختصر کہانیوں نے ہزارگی کے ایک نئے تناظر سے واقف کرایا۔ ہزارگی میں لکھنے والے یہ نوجوان اپنی معروضات کی ترویج کے لیے ایک سلسلہ وار جریدہ بھی شایع کرتے ہیں۔ جس میں شاعری اور فکشن سمیت مضامین کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کی نمایندہ زبانوں میں ہزارگی جلد ہی فارسی کی جگہ لے لے گی۔ عین ممکن ہے کہ جامعہ بلوچستان میں فارسی ادب کی جگہ، ہزارگی کا شعبہ قایم کر دیا جائے۔
بلوچستانی ادب کے تناظر میں ہم بلوچی اور براہوی کا تذکرہ کر چکے۔ اس نشست میں ہم بلوچستان کی دیگر اہم زبانوں کا جائزہ لیں گے جو بلوچستان میں تحریری سطح پر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ بلوچی اور براہوی کے بعد پشتو صوبے کی ایک اہم زبان ہے۔ بلحاظِ آبادی بھی اس کا اثر و نفوذ وسیع پیمانے پہ ہے۔ گو کہ پشاور اورکوئٹہ میں بولی جانے والی پشتو میں لہجے کا خاصا اختلاف موجود ہے، اور وہ جو معروف مقولہ ہے کہ ہر دس کلومیٹر پہ زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے، بلوچستان میں اس کی صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ یہاں ہر سوکلومیٹر پہ زبان ہی بدل جاتی ہے۔
بہرکیف پاکستان میں سندھی کے بعد پشتو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے پاس اپنا ایک مشترکہ رسم الخط موجو د ہے۔ لہجے کا اختلاف لگ بھگ ہر زبان میں ہے، لیکن یہ ادب کی مجموعی صورت کو متاثر نہیں کرتا۔ یوں ایک لحاظ سے کوئٹہ سے لے کر پشاور تک پشتو پڑھنے والے کا ایک وسیع حلقہ وجود ہے۔ اس لحاظ سے پشتو لکھنے والوں کو قارئین کی اس شدیدقلت کا سامنا نہیں، جو کہ بلوچی اور براہوی کو ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی سطح تک، پشتو ادب پہ خاطر خواہ کام نہیں ہو پایا۔
بلوچستان کے پشتو ادب میں شاعری اور افسانے کا پہلو حاوی ہے۔ شاعری کی نسبت افسانہ گو کہ مقدار میں کم لیکن اچھا لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ گو کہ افسانوی مجموعے کم لیکن وہ بھی غیر معیاری نہیں ہیں۔ البتہ ناول کی صنف پہ کام ابھی باقی ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح پشتو میں بھی شاعری کی بہتات ہے۔ شعری مجموعوں کے ڈھیر ہیں۔ اس صورت میں معیارکا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ لیکن جدید پشتو شاعری میں بعض لکھنے والوں نے بڑے جاندار تجربات کیے ہیں۔ بالخصوص پشتو نظم کا دامن اس معاملے میں خاصا وسیع ہے۔ دوسرا اہم کام پشتو تنقید کے حوالے سے ہے۔ گو کہ اس ضمن میں اب تک کوئی مربوط کام سامنے نہیں آیا، لیکن پشتو لکھنے والے جدید ادبی تنقید سے بخوبی آگاہ ہیں، جس کا اظہار ان کی تحاریر میں کثرت سے ہوتا رہتا ہے۔
پشتو میں چونکہ تراجم وسیع پیمانے پر ہوئے ہیں، نیز نئے لکھنے والوں کا مطالعاتی میڈیم اردو اور انگریزی رہا ہے، اس لیے وہ جدید ادبی نظریات اور تھیوریز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ افغانستان کے معاملات بھی پشتونوں کو (خواہ ان کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو) براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے جدید پشتو ادب میں نائن الیون کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔
البتہ پشتو لکھنے والوں کا اس بابت کوئی مشترکہ فکری نظام تشکیل نہیں پا سکا۔ ان میں دو واضح نکتہ نظر موجود ہیں۔ اول، وہ ہیں جو افغانستان کو ایک خوش حال جمہوری ریاست دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہاں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ امریکا یا یورپ کی مدد کے بغیر افغانستان کو ایک خوش حال جمہوری ریاست بنانا ممکن ہی نہیں، اس لیے وہ پشتون قومی سوال پر تو متفق ہیں لیکن بیرونی مداخلت کو جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ 'جہادی ادب' تخلیق کرنے والے بھی اپنا وجود تو رکھتے ہیں، لیکن ادبی سطح پر وہ نہ تو اتنے فعال ہیں اور نہ ہی ادبی تناظرات سے اس قدر آگا ہ ہیں۔
کوئٹہ میں پشتو ادب کی اشاعت کا بڑا ذریعہ پشتو اکیڈمی ہے، جو سرکار سے سالانہ گرانٹ لیتی ہے۔ حالانکہ بلوچی اور براہوی اکیڈمی کی نسبت پشتو اکیڈمی کے پاس سب سے زیادہ اعلیٰ اور شاندار عمارت موجود ہے۔ یہ سرکار سے سالانہ لاکھوں روپے کی گرانٹ لیتی ہے۔ لیکن یہ ایک عرصے سے ادبی گروہ بندیوں اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو چکی ہے۔ بارہ مہینوں میں یہ پشتو کی بارہ کتابیں بھی قارئین کو نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ پشتو لکھنے والوں نے اپنے تئیں اشاعتی اداروں کے قیام کی کوشش کی ہے اور کچھ احباب نجی سطح پر کتابیں چھاپتے رہتے ہیں۔ مجموعی سطح پر بلوچستان میں تخلیق ہونے والے پشتو ادب سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے سماج سے جڑت رکھنے والا ادب ہے۔ یہاں کے پشتو ادب میں آپ کو پشتون سماج کے تمام عناصر کی رنگ آمیزی ملے گی۔
فارسی اس خطے کی قدیم زبانوں میں سے رہی ہے۔ قیام پاکستان تک یہ ریاست قلات کی سرکاری و درباری زبان ہوا کرتی تھی۔ اس لیے اٹھارویں سے بیسویں صدی تک ہمارے ہاں فارسی شاعری کا دور دورہ رہا ہے۔ غالبؔ کے ایک ہم عصر ناطق مکرانی سے متعلق روایت ہے کہ انھوں نے غالب ؔکے فارسی کلام میں زبان کی ایک غلطی کی نشان دہی غالبؔ کو ایک خط لکھ کر کی تھی، جس کا غالبؔ نے اعتراف بھی کیا تھا اور جوابی خط میں انھیں ہندوستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ ابھی بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے تک ایک طرف مکران، دوسری جانب بولان، اور اُدھر ژوب و لورالائی میں ایسے ادبی حلقے موجود تھے جو فارسی مشاعروں کا باقاعدہ اہتمام کیا کرتے تھے۔
اس سارے عرصے میں اس قدر فارسی ادب تخلیق ہوا کہ جامعہ بلوچستان میں شعبہ فارسی کے سربراہ پروفیسر شرافت عباس مرحوم نے اس بابت پوری ایک کتاب 'بلوچستان میں فارسی ادب کے سو سال' مرتب کر ڈالی۔ لیکن فارسی کا یہ شعبہ بس انھی کے دم سے قایم رہا، اب تو یہ گویا عضوئے معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ جدید عہد میں بلوچستان میں فارسی ادب اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئٹہ میں واقع خانہ فرہنگ ِ ایران اپنے فنڈز کا استعمال اور کارکردگی دکھانے کے لیے ہر تین ماہ بعد فارسی زبان کے کورسز تو کرواتا رہتا ہے لیکن فارسی ادب کی ترویج کے لیے اس نے بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
نیز ہمارے ہاں عمومی خیال یہ تھا کہ فارسی بولنے والے ہزارہ کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ جنھوں نے ایک عرصے سے اس تاثر کی شدت سے نفی کی ہے۔ ان کی نئی نسل سختی سے یہ باور کراتی رہی ہے کہ ان کی مادری زبان ہزارگی ہے، جو فارسی سے کسی قدر قریب تو ضرور ہے، لیکن ایک بالکل ہی الگ زبان ہے۔ بعض فارسی دان ہزارگی کو بالکل اسی طرح فارسی کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں، جیسے بعض پنجابی اہلِ زبان جنوبی پنجاب میں بولی جانے والی سرائیکی کو پنجابی کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہزارہ کمیونٹی نے اپنے مؤقف کی صداقت کے لیے اپنی زبان میں لکھنے، پڑھنے کا سلسلہ وسیع پیمانے پر شروع کر رکھا ہے۔
ابھی گزشتہ برس جب ہم نے کوئٹہ سے بلوچستان کی اہم زبانوں کے ادب کے اردو تراجم پہ ایک ادبی سلسلہ شروع کیا تو اس سلسلے میں ہزارگی ادب کے حصے کے لیے ملنے والی تحریروں نے مجھے واقعی خوشگوار حیرت سے دوچار کیا۔ ہزارگی نظم کے حوالے سے ہم اپنے ایک ہم عصر دوست قادر نائل کے نام اور کام سے تو کسی حد تک آگاہ تھے، لیکن فکشن کے حصے میں ملنے والی مختصر کہانیوں نے ہزارگی کے ایک نئے تناظر سے واقف کرایا۔ ہزارگی میں لکھنے والے یہ نوجوان اپنی معروضات کی ترویج کے لیے ایک سلسلہ وار جریدہ بھی شایع کرتے ہیں۔ جس میں شاعری اور فکشن سمیت مضامین کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کی نمایندہ زبانوں میں ہزارگی جلد ہی فارسی کی جگہ لے لے گی۔ عین ممکن ہے کہ جامعہ بلوچستان میں فارسی ادب کی جگہ، ہزارگی کا شعبہ قایم کر دیا جائے۔