بیاد اظہر جاوید

صہبا لکھنوی صاحب مدیر ’’افکار‘‘ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد افکار بند ہو گیا۔


Doctor Nasir Mustehsan June 19, 2014

ISLAMABAD: اظہر جاوید سب کو ہنسایا کرتے تھے، ان کی لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی، بزم آرائیاں اور یاریاں بہت مشہور ہیں اس کے باوجود ان کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں تھی۔ انھوں نے ''امروز'' اخبار سے رشتہ جوڑا جس پر وہ معتوب ہوئے اور پھر ''تخلیق'' (لاہور سے چھپتا ہے) سے زندگی بھر کا ناتا جوڑا اور ایسا جوڑا کہ اشتہار ملیں نہ ملیں بڑی باقاعدگی سے اظہر صاحب وہ پرچہ نکالا کرتے تھے۔

صہبا لکھنوی صاحب مدیر ''افکار'' ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد افکار بند ہو گیا۔ وزیر آغا مدیر ''اوراق'' ان کے انتقال کے بعد وہ بھی بند ہو گیا اور اگر بند نہیں بھی ہوا تو صاحب فراش ضرور ہے، ایسے ہی ''فنون'' احمد ندیم قاسمی کے بعد بند ہو گیا، لیکن پچھلے دنوں تخلیق کا اظہر جاوید نمبر دیکھا تو ایک مسرت کا احساس ہوا کہ اس دور قحط الرجال میں بعد از اظہر جاوید تخلیق زندہ ہے، پھر مجھے سونان اظہر کا، جو اظہر جاوید کے بیٹے ہیں۔

اپنے والد محترم کے نام خط ملا جس میں انھوں نے لکھا کہ میں کوئی ادیب نہیں، نقاد نہیں اور نہ ہی میری علمی بساط ہے لیکن اپنے والد کا رسالہ میں ضرور نکالوں گا، دل خوش ہوا کہ چلو باپ سے محبت کی یہ ادا بھی خوب ہے بلکہ اگر ایسا بھی خیال مندرجہ بالا رسالوں کے ساتھ بھی ہوا ہوتا تو ایک ریت تو باقی رہتی ویسے بھی جس ماحول میں ہم زندہ ہیں وہاں لکھنا لکھانا، پڑھنا پڑھانا ایک Taboo کی شکل اختیار کر رہا ہے، اگر کوئی آپ سے پوچھے ہاں بھئی! آج کل کیا ہو رہا ہے اور آپ جواب دیں ان دنوں میں منٹو پڑھ رہا ہوں، کرشن پڑھ رہا ہوں ، اب منٹو کو پڑھ لینے کے بعد Waste Land T.S. Eliot پڑھوں گا تو سوال کرنے والا آپ کا جواب سن کر ایسا ظاہر کرے گا جیسے آپ زمین کے باسی نہیں، مریخ کے Alien ہیں، یہ ٹیبو Taboo، یہ ایلیئن Alien ہم ہیں، ہیں کیا دور آ گیا ہے۔

ایسا حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

اظہر جاوید کو میں نے پہلی بار 2000ء مئی میں دیکھا جب میرے والد محترم ڈاکٹر محمد علی صدیق صاحب کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا تو اظہر صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے۔ درمیانے قد کے، رنگ قدرے سانولا، چمکدار آنکھیں، لمبی سی ناک، اس کے ساتھ ساتھ سپید لمبے بال جن کو دیکھ کر چاند کی بڑھیا کا تصور ذہن کے نہاں خانہ سے آنکھوں کے پردوں پر آ جاتا ہے، مشہور کارڈیک سرجن ڈاکٹر عبدالرحمان نے میرے والد کا بائی پاس آپریشن کیا تھا ان دنوں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز، آرٹس کونسل میں بدل گیا تھا۔

صبح و شام مشہور ادیبوں، شاعروں، مصوروں، فنکاروں، اداکاروں سمیت مختلف الجہات قسم کے لوگ آتے تھے۔ کبھی سہام مرزا، منزہ سہام کے ساتھ آ رہے ہیں تو کبھی حکیم محمد سعید اور مسعود احمد برکاتی آ رہے ہیں۔ کبھی نثار کھوڑو تو کبھی ڈاکٹر فاروق ستار۔ ایسے ہی لوگوں میں اظہر جاوید بھی تھے۔ وہ ہنسی مذاق کرنے والے آدمی تھے، والد سے کہا یار! اب تو ٹھیک ہو جا تو لاہور آویں ، نئیں تہ میں آ جاواں قہقہہ۔۔۔۔۔ انھوں نے نئے لکھنے والوں کو تو خوب پروموٹ کیا اور ایسا پروموٹ کیا کہ کبھی وہ اظہر جاوید کو کسی محفل میں دیکھ لیتے تو کنی کترا جاتے جس پر اظہر صاحب بولتے (او کچھ نئیں یار! نوا نوا شوق اے، اے وی کر لینے دیو)

بہت خیال' بہت خواب سو گئے تھک کر

خدا کرے تری یادیں کہیں نہ سو جائیں

(اظہر جاوید)

یوں تو والد محترم کے پاس روزانہ کی بنیاد پر بے انتہا خطوط اور رسالے و کتابیں آتی تھیں لیکن ہر پندرہویں دن سبز لکھائی سے مزین ایک ایسا خط آتا تھا جس کو والد صاحب پہلی فرصت میں پڑھتے اور ایک تبسم سا ان کے چہرے پر آ جاتا اور وہ خط اظہر جاوید کا ہوتا تھا میری ان سے 5-4 ملاقاتیں ہوئیں بخدا میں ایسا محسوس کرتا تھا جیسے ایک زمانے سے اظہرصاحب مجھے جانتے آئے ہیں، اظہر جاوید 4 جنوری 1938 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور سترہ برس کی عمر میں انھوں نے باقاعدہ شعر گوئی اور صحافت شروع کی تھی۔

سرگودھا کے چند ہفت روزہ اخبارات (ضرب مجاہد، رفیق) کی ارادت کی، ممتاز شاعر الطاف مشہدی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ''خلوص'' نکالا، لاہور آ کر ایک ادبی ماہنامے ''عکس نو'' کی ارادت کی اور اسی سلسلے میں کراچی آ گئے، اس کے بعد روزنامہ ''امروز'' لاہور میں رپورٹر ہو گئے، لیکن 1969ء میں انھوں نے ماہنامہ (تخلیق) لاہور سے جاری کیا اور 43 سال تک مسلسل اس کی اشاعت جاری رہی پیسے کی کمی نے ان کے استقلال کو مجروح نہیں کیا۔

وہ خود ہی لفافوں پر پتے لکھتے، پھر ان کو پوسٹ کرتے، یعنی مالک بھی خود، چپراسی بھی خود، ڈاکیے بھی خود ایک آدمی اور اتنے کام اور سب سے بڑی بات ان سارے جھمیلوں کے باوجود ان کے چہرے پر رونق ہر وقت موجود رہتی تھی۔ غزلوں کا اولین مجموعہ ''غم عشق گر نہ ہوتا'' پھر انھوں نے بلغارین افسانوں کا ترجمہ بھی کیا جو بہت خوب ہے۔ اس کے بعد ساحر لدھیانوی سے دلی محبت کے باعث ساحر پر ان کی ایک کتاب بھی آئی نیز تمام عمر لکھنے لکھانے ہی میں گزری، تمام عمر وہ کم پیسوں میں گزارا کرتے رہے لیکن کبھی بھی کسی دوست تک کے سامنے دست دراز نہیں کیا خودداری ان کا وصف ہے، یہ تھی خودداری اس شخص کی جس نے خودی نہ بیچی غریبی میں نام پیدا کیا۔

ویسے تو ہمارے ملک پر فوجی آمروں کا عفریت مسلط رہا ہے لیکن ضیا الحق کا دور پاکستان کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ آزادی تحریر و تقریر کی پابندی، سخت سنسرشپ، روشن خیال ادیبوں اور صحافیوں نے جمہوریت کے سلسلے میں ایک قرارداد پر دستخط کیے، ان دستخط کرنے والوں میں اظہر جاوید بھی تھے، اور دیگر اخبارات کے صحافی بھی۔ ضیا الحق نے ان سب کو ملازمتوں سے برخواست کر دیا۔ بے روزگاری کا یہ وقت اظہر جاوید کے لیے بڑا ہی کٹھن تھا لیکن ہمت نہ ہاری ''تخلیق'' پھر بھی نکلتا رہا اور گھر بھی چلتا رہا۔

اظہر جاوید کی شخصیت کا یہ پہلو قابل قدر ہے کہ انھوں نے کبھی ناجائز طور پر مراعات حاصل کرنے کی کوشش کی نہ ہی ''تخلیق'' کو غیر تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ چاہتے تو وہ تخلیق سے مالی فوائد بھی حاصل کر سکتے تھے لیکن باضمیر انسان مر تو سکتا ہے، جھک نہیں سکتا۔ وہ اپنا کام کرتے رہے، چنانچہ 2012ء میں ان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا جو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یہ اعزاز ان کو 23 مارچ 2013ء کو ملنا تھا لیکن وقت نے مہلت نہ دی۔ 13 فروری 2012ء کی رات کو وہ بالکل صحیح تھے لیکن محبت کے عالمی دن 14 فروری 2014ء کو ہم سے رخصت ہو گئے۔

اظہر جاوید ہمہ جہت شخصیت تھے، لیکن میرے خیال میں ان کی خاص جہت ان کی شاعری ہی ہے ان کی شعری حیثیت ہی انھیں صحافت کے ریگزار میں لائی جہاں وہ تپ کر کندن بننے تک کے عمل سے گزر کر اچھے شاعر اور بہترین صحافی گردانے گئے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی صحافی ہے، ہر کوئی کالم نویس ہے، لیکن کسی کو یہ نہیں پتہ کہ اصل صحافت ہوتی کیا ہے، کیا اس کے رموز ہوتے ہیں اور کیا اس کے مقاصد جب ہی آج کل اچھے صحافی عنقا ہیں کہیں خال خال ہی اچھے اور معتبر صحافی موجود ہیں۔ اظہر جاوید کو صحافت کی وجہ ہی سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا اور صحافت ہی کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ بکی نہ جھکی، آج سیم و زر کے دہانے کھلے ہوئے ہیں اور نام نہاد صحافی خوب ہاتھ بھر بھر کے کما رہے ہیں، حق پر باطل غالب ہے، اور سچ پر جھوٹ، ایمان پر نام نہاد فرقے۔ میں کافی آگے نکل گیا۔

اظہر جاوید کی کتاب ''غم عشق گر نہ ہوتا'' کے مطالعے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ وہ رومانی شاعر تھے، اور ہم رومانیت کے متضاد دور میں سانس لے رہے ہیں غالباً یہ عہد رومانیت شکن عہد ہے، اظہر جاوید، ساحر لدھیانوی، اختر شیرانی، فیض اور ابن انشا سے زیادہ متاثر تھے اور الطاف مشہدی سے قرب تعلق کے باعث، قدرت نے انھیں رومانی مزاج عطا کیا لیکن ان کی اپنی ہی ایک دنیا تھی جس کو آپ بلاکم و کاست رومانی دنیا کے زمرے میں لا سکتے ہیں، ان کے کلام کی مشابہت آپ کلام فراز سے بھی کر سکتے ہیں۔

تمام عمر کی بے چارگی کا حاصل ہیں

یہ چند شعر جو مقبول ہیں حسینوں میں

...............

کچھ زخم سہی کچھ خواب سہی

اب عمر کے باقی سال مرے

اس الجھن میں کٹ جائیں گے

بس آہوں میں بٹ جائیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں