من و یزداں
ذرا سوچیے۔ ان اربوں کہکشائوں میں سورج سے کتنے ہی ستارے ہوں گے۔....
آسمانوں میں گُندھی خاموشی میں بے انت تحیر سانس لیتا ہے۔ تحیر، جو علم کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔
کتنی بیکراں ہے یہ کائنات، لمحہ بہ لمحہ پھیلتی ہوئی، انتہائی منظم، حیرت کا پورا جہان آباد ہے۔ اِس کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے ذرا سورج پر غور کیجیے۔ ہماری زمین اِس زرد گولے کے گرد گردش کرتی ہے۔ اِسی گردش سے لیل و نہار کا ظہور ہوتا ہے، رُت بدلتی ہے، سورج اربوں انسانوں کو اُجالا عطا کرتا ہے، مٹی کو زرخیز بناتا ہے، نباتات اور حیوانات کو حدت بخشتا ہے۔ زمین پر چہل پہل سورج ہی کے دم سے ہے ورنہ تو تاریکی ہمیں نگل لے، ٹھنڈ چاٹ جائے اور یہ سیارہ قبرستان بن جائے۔ سورج ہماری زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
شاید اِسی باعث کسی زمانے میں اِس کی پرستش کی جاتی تھی۔ یہ زمین سمیت 8سیاروں، 162 چاند اور کروڑوں چھوٹے اجرام فلکی کے درمیان کسی شہنشاہ کے مانند ہے لیکن اِس بیکراں کائنات میں سورج فقط ایک معمولی ستارہ ہے۔ اِس جیسے لاکھوں، کروڑوں ستاروں سے ایک کہکشاں جنم لیتی ہے۔ ہمارا سورج ''ملکی وے'' کہکشاں کے کنارے پر ہے۔ ہاں، اِس جھرمٹ میں یہ ایک روشن اور بڑا ستارہ ہے مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ کائنات'' ملکی وے'' جیسی اربوں کہکشائوں پر مشتمل ہے۔ کچھ تو اتنی بڑی ہیں کہ ''ملکی وے'' جیسے کئی جھرمٹ اُن میں سما جائیں۔
ذرا سوچیے۔ ان اربوں کہکشائوں میں سورج سے کتنے ہی ستارے ہوں گے۔ اُن کے گرد بھی سیارے گردش کرتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے، کچھ زمین کے مانند زندگی سے چہک رہے ہوں۔ اتنی وسیع کائنات بے مصرف تو نہیں ہو سکتی۔
آئن اسٹائن نے اِن الفاظ میں وسعت کائنات بیان کرنے کی سعی کی: ''دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرے ہیں، شاید اِسی قدر آسمان میں ستارے ہیں۔ بیش تر اتنے بڑے کہ اُن میں لاکھوں زمینیں رکھی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں، تب بھی کائنات کے گرد چکر لگانے میں ہمیں شاید ایک ارب برس لگیں۔''
اِسے مزید یوں سمجھیں کہ ہمارا سمندر پانی کے جتنے قطروں پر مشتمل ہے، اتنے ہی ستارے کائنات میں تیر رہے ہیں۔ اور سورج اِس عظیم کائناتی سمندر کا فقط ایک قطرہ ہے۔ کائنات کا نظام کشش ثقل بھی تحیرکن تانوں بانوں پر مشتمل ہے۔ اور اِسی کشش کے باعث کچھ ستارے اپنے اندر منہدم ہو کر ''بلیک ہولز'' بن جاتے ہیں۔ روشنی نگلنے لگتے ہیں۔ کتنا حیران کن امر ہے کہ لگ بھگ تیرہ ارب 82 کروڑ برس قبل جنم لینے والی کائنات اپنی تاریخ میں، بنا کسی سقم، انتہائی مربوط طبیعیاتی قوانین کے تحت نمو پاتی رہی۔
جیسے جیسے انسان فضائے بسیط پر غور کرتا جاتا ہے، اُس کی حیرت، ہیبت میں بدلنے لگتی ہے۔ دھیان کائنات کے پیچھے کارفرما ایک آفاقی ذہن کی سمت جاتا ہے۔ خیال گزرتا ہے؛ کائنات اتنی عظیم ہے، تو اِسے عدم سے وجود میں لانے والا کتنا عظیم ہو گا!
یہ کائنات ہی ہے جو ہمیں ہستی کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ستاروں کی حیران کن تنظیم اُس عظیم ذات کے یکتا ہونے کا ثبوت، وسعت اُس کی قدرت کا اشارہ، حسن اُس کے جمال کا عکس، کائنات پر تفکر انسان کو اُس اجلی صف تک لے جاتا ہے جہاں کھڑے ہونیوالے اہل ایمان کہلاتے ہیں۔ درحقیقت یہ کائنات قدرت کا معجزہ ہے۔ یہ آیات (نشانیوں) سے بھری ہوئی ہے۔ علم کے متلاشیوں پر خود کو تہ در تہ آشکار کرتی ہے اور وہ سجدے میں گر جاتے ہیں۔ کبھی مظاہر فطرت پرستش کا موضوع تھے مگر جویان علم نے اُنھیں تحقیق و تسخیر کا موضوع بنا دیا۔ محققین نے ایک بامقصد کائنات دریافت کی جو ایک پختہ اور مربوط آفاقی دانش کی سمت اشارے کرتی تھی؛ اﷲ رب العزت!
یہ منظم کائنات ایک مقدس صحیفہ ہے جس کی جانب کتاب المبین بار بار متوجہ کرتی ہے: ''ارض و سما کی تخلیق اور اختلاف لیل و نہار میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔'' (آل عمران: 190) کلام خدا، عمل خدا کا مطالعہ لازم ٹھہراتا ہے کہ ِاس کی آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنی سے دل منور ہوتے ہیں اور اِس سے پہلوتہی سم قاتل ہے۔ ''کیا اُنھوں نے آسمان اور زمین، اور جو شے بھی اﷲ نے پیدا کی، اُن پر نظر نہیں کی۔ عجب نہیں کہ اُن کی اجل نزدیک آ گئی ہو۔''( الآعراف 185)
بیشک خلائوں میں ایمان کی حرارت تیرتی ہے۔ کیا نہیں کہا گیا: ''جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ تو رحمان کی آفرینش میں کوئی فرق دیکھتا ہے۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھ، تجھے کوئی عیب نظر آتا ہے؟ پھر تو بار بار نگاہ اٹھا کر دیکھ۔ تیری نظر (ہر بار) ناکام تھک کر لوٹ آئے گی۔'' (الملک:3 ، 4)
بلاشبہ ایسا ہی ہو گا مگر اِس کے لیے پہلے ہمیں سر اٹھانا ہوا۔ آسمان کی سمت دیکھنا ہو گا۔ وہ علوم سیکھنے ہونگے جو فضائے بسیط کا فہم عطا کریں۔ وہ آلات بنانے ہونگے جو خلائوں کی وسعتیں پھلانگ جائیں۔ صحیفۂ کائنات کو سمجھنے کے لیے علم ہی اکلوتا راستہ ہے۔ اِس پر چلنا لازم کہ یہی خدا کا حکم ہے۔ ''زمین پر چلو پھرو اور دیکھو، اُس نے کیسے آفرینش کی ابتدا کی۔ (سورۃ عنکبوت: 20)اور حکم عدولی کا نتیجہ پستی ہے۔ شاید ہم اِسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ گو تنبیہ واضح تھی۔ ''کیا جو علم رکھتے ہیں، اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں، جو عقل مند ہوں۔'' (الزمر: 9)
کائنات جامد نہیں؛ ایڈون ہبل کے اِس چونکا دینے والے مفروضے کے برسوں بعد آغاز کائنات پر روشنی ڈالنے والا ''بگ بینگ'' نظریہ سامنا آیا جس نے کئی گتھیاں سلجھائیں مگر یہ معما تو چودہ صدیوں قبل ہی قرآن الحکیم نے حل کر دیا تھا '' آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، تو ہم نے اُنھیں جدا کر دیا۔''( الانبیا: 30)
عزیزو، علم سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ اولین حکم ہی'' اقرا'' تھا۔ اور علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اِسے مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے۔ علم جہالت کی ضد ہے۔ یہ ایمان کو پختگی بخش کر خدا کی عطا کردہ زندگی، اِس کی تخلیق کردہ دنیا کو بہتر بنانے کی آرزو جگاتا ہے۔ یہ علم اور جستجو ہی تھی کہ ہماری صفوں میں جابر بن حیان، الخوارزمی، الکندی، الفاربی، ابن سینا اور ابن الہیثم جیسے دانا پیدا ہوئے۔ موجودہ صورتحال تو ہمارے سامنے ہے۔ علم سے دُوری طوق ندامت بن گئی مگر مایوسی کفر ہے۔ اگر ہم علم کی راہ پر چلنے کا عہد کرلیں، مطالعے، مشاہدے اور غور وفکر کو حرز جاں بنا لیں، تو حقیقی معنوں میں خود کو ''امت وسط'' ثابت کر سکتے ہیں البتہ اِس دوران ہمیں چوکنا رہنا ہو گا۔ دشمن ہماری صفوں میں ہے۔
حلیہ تو ہم سا ہے مگر حقیقتاً وہ دجال عصر کا کرشما ہے۔ اُس کے کئی روپ ہیں۔ کہیں جبہ اور دستار میں چُھپا ہے، کہیں بے ریش ہے۔ اُس نے اپنا ضمیر اور قلم بیچ ڈالا۔ ہمیں الجھانے کے لیے اُس کی زنبیل میں کئی مبہم پیش گوئیاں ہیں۔ وہ ہمیں عذاب سے تو ڈراتا ہے مگر عمل کی ترغیب نہیں دیتا۔ علم کی بابت زبان سے ایک لفظ ادا نہیں کرتا۔ مطالعۂ کائنات کو درخوراعتناء نہیں جانتا۔ سوچنا اُس کے نزدیک گناہ۔ آپ اس کے وعظ اور تحریروں میں کبھی بدعنوانی اور گرانی کا تذکرہ نہیں پائینگے۔ تقریر میں کبھی طبقاتی استحصال کا ذکر نہیں ہو گا۔ بے حیائی کے مضمرات پر کلام کریگا مگر بھوک کی بدبختی بھول جائے گا۔ جذباتیت کا معجون کھلائے گا۔ مغرب کے زوال کا تذکرہ کر کے خود کو ہلکان کر ڈالے گا مگر قوم کو پیروں پر کھڑا ہونے کا کوئی نسخہ نہیں بتائے گا۔
خیر، دشمن کا یہ اُکتا دینے والا کھیل آج نہیں تو کل، اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔ جونہی ہم احکام خداوندی کی جانب متوجہ ہوئے، صحیفۂ کائنات کا مطالعہ شروع کیا، ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔
کتنی بیکراں ہے یہ کائنات، لمحہ بہ لمحہ پھیلتی ہوئی، انتہائی منظم، حیرت کا پورا جہان آباد ہے۔ اِس کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے ذرا سورج پر غور کیجیے۔ ہماری زمین اِس زرد گولے کے گرد گردش کرتی ہے۔ اِسی گردش سے لیل و نہار کا ظہور ہوتا ہے، رُت بدلتی ہے، سورج اربوں انسانوں کو اُجالا عطا کرتا ہے، مٹی کو زرخیز بناتا ہے، نباتات اور حیوانات کو حدت بخشتا ہے۔ زمین پر چہل پہل سورج ہی کے دم سے ہے ورنہ تو تاریکی ہمیں نگل لے، ٹھنڈ چاٹ جائے اور یہ سیارہ قبرستان بن جائے۔ سورج ہماری زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
شاید اِسی باعث کسی زمانے میں اِس کی پرستش کی جاتی تھی۔ یہ زمین سمیت 8سیاروں، 162 چاند اور کروڑوں چھوٹے اجرام فلکی کے درمیان کسی شہنشاہ کے مانند ہے لیکن اِس بیکراں کائنات میں سورج فقط ایک معمولی ستارہ ہے۔ اِس جیسے لاکھوں، کروڑوں ستاروں سے ایک کہکشاں جنم لیتی ہے۔ ہمارا سورج ''ملکی وے'' کہکشاں کے کنارے پر ہے۔ ہاں، اِس جھرمٹ میں یہ ایک روشن اور بڑا ستارہ ہے مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ کائنات'' ملکی وے'' جیسی اربوں کہکشائوں پر مشتمل ہے۔ کچھ تو اتنی بڑی ہیں کہ ''ملکی وے'' جیسے کئی جھرمٹ اُن میں سما جائیں۔
ذرا سوچیے۔ ان اربوں کہکشائوں میں سورج سے کتنے ہی ستارے ہوں گے۔ اُن کے گرد بھی سیارے گردش کرتے ہوں گے۔ عین ممکن ہے، کچھ زمین کے مانند زندگی سے چہک رہے ہوں۔ اتنی وسیع کائنات بے مصرف تو نہیں ہو سکتی۔
آئن اسٹائن نے اِن الفاظ میں وسعت کائنات بیان کرنے کی سعی کی: ''دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرے ہیں، شاید اِسی قدر آسمان میں ستارے ہیں۔ بیش تر اتنے بڑے کہ اُن میں لاکھوں زمینیں رکھی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں، تب بھی کائنات کے گرد چکر لگانے میں ہمیں شاید ایک ارب برس لگیں۔''
اِسے مزید یوں سمجھیں کہ ہمارا سمندر پانی کے جتنے قطروں پر مشتمل ہے، اتنے ہی ستارے کائنات میں تیر رہے ہیں۔ اور سورج اِس عظیم کائناتی سمندر کا فقط ایک قطرہ ہے۔ کائنات کا نظام کشش ثقل بھی تحیرکن تانوں بانوں پر مشتمل ہے۔ اور اِسی کشش کے باعث کچھ ستارے اپنے اندر منہدم ہو کر ''بلیک ہولز'' بن جاتے ہیں۔ روشنی نگلنے لگتے ہیں۔ کتنا حیران کن امر ہے کہ لگ بھگ تیرہ ارب 82 کروڑ برس قبل جنم لینے والی کائنات اپنی تاریخ میں، بنا کسی سقم، انتہائی مربوط طبیعیاتی قوانین کے تحت نمو پاتی رہی۔
جیسے جیسے انسان فضائے بسیط پر غور کرتا جاتا ہے، اُس کی حیرت، ہیبت میں بدلنے لگتی ہے۔ دھیان کائنات کے پیچھے کارفرما ایک آفاقی ذہن کی سمت جاتا ہے۔ خیال گزرتا ہے؛ کائنات اتنی عظیم ہے، تو اِسے عدم سے وجود میں لانے والا کتنا عظیم ہو گا!
یہ کائنات ہی ہے جو ہمیں ہستی کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ستاروں کی حیران کن تنظیم اُس عظیم ذات کے یکتا ہونے کا ثبوت، وسعت اُس کی قدرت کا اشارہ، حسن اُس کے جمال کا عکس، کائنات پر تفکر انسان کو اُس اجلی صف تک لے جاتا ہے جہاں کھڑے ہونیوالے اہل ایمان کہلاتے ہیں۔ درحقیقت یہ کائنات قدرت کا معجزہ ہے۔ یہ آیات (نشانیوں) سے بھری ہوئی ہے۔ علم کے متلاشیوں پر خود کو تہ در تہ آشکار کرتی ہے اور وہ سجدے میں گر جاتے ہیں۔ کبھی مظاہر فطرت پرستش کا موضوع تھے مگر جویان علم نے اُنھیں تحقیق و تسخیر کا موضوع بنا دیا۔ محققین نے ایک بامقصد کائنات دریافت کی جو ایک پختہ اور مربوط آفاقی دانش کی سمت اشارے کرتی تھی؛ اﷲ رب العزت!
یہ منظم کائنات ایک مقدس صحیفہ ہے جس کی جانب کتاب المبین بار بار متوجہ کرتی ہے: ''ارض و سما کی تخلیق اور اختلاف لیل و نہار میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔'' (آل عمران: 190) کلام خدا، عمل خدا کا مطالعہ لازم ٹھہراتا ہے کہ ِاس کی آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنی سے دل منور ہوتے ہیں اور اِس سے پہلوتہی سم قاتل ہے۔ ''کیا اُنھوں نے آسمان اور زمین، اور جو شے بھی اﷲ نے پیدا کی، اُن پر نظر نہیں کی۔ عجب نہیں کہ اُن کی اجل نزدیک آ گئی ہو۔''( الآعراف 185)
بیشک خلائوں میں ایمان کی حرارت تیرتی ہے۔ کیا نہیں کہا گیا: ''جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ تو رحمان کی آفرینش میں کوئی فرق دیکھتا ہے۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھ، تجھے کوئی عیب نظر آتا ہے؟ پھر تو بار بار نگاہ اٹھا کر دیکھ۔ تیری نظر (ہر بار) ناکام تھک کر لوٹ آئے گی۔'' (الملک:3 ، 4)
بلاشبہ ایسا ہی ہو گا مگر اِس کے لیے پہلے ہمیں سر اٹھانا ہوا۔ آسمان کی سمت دیکھنا ہو گا۔ وہ علوم سیکھنے ہونگے جو فضائے بسیط کا فہم عطا کریں۔ وہ آلات بنانے ہونگے جو خلائوں کی وسعتیں پھلانگ جائیں۔ صحیفۂ کائنات کو سمجھنے کے لیے علم ہی اکلوتا راستہ ہے۔ اِس پر چلنا لازم کہ یہی خدا کا حکم ہے۔ ''زمین پر چلو پھرو اور دیکھو، اُس نے کیسے آفرینش کی ابتدا کی۔ (سورۃ عنکبوت: 20)اور حکم عدولی کا نتیجہ پستی ہے۔ شاید ہم اِسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ گو تنبیہ واضح تھی۔ ''کیا جو علم رکھتے ہیں، اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں، جو عقل مند ہوں۔'' (الزمر: 9)
کائنات جامد نہیں؛ ایڈون ہبل کے اِس چونکا دینے والے مفروضے کے برسوں بعد آغاز کائنات پر روشنی ڈالنے والا ''بگ بینگ'' نظریہ سامنا آیا جس نے کئی گتھیاں سلجھائیں مگر یہ معما تو چودہ صدیوں قبل ہی قرآن الحکیم نے حل کر دیا تھا '' آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، تو ہم نے اُنھیں جدا کر دیا۔''( الانبیا: 30)
عزیزو، علم سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ اولین حکم ہی'' اقرا'' تھا۔ اور علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اِسے مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے۔ علم جہالت کی ضد ہے۔ یہ ایمان کو پختگی بخش کر خدا کی عطا کردہ زندگی، اِس کی تخلیق کردہ دنیا کو بہتر بنانے کی آرزو جگاتا ہے۔ یہ علم اور جستجو ہی تھی کہ ہماری صفوں میں جابر بن حیان، الخوارزمی، الکندی، الفاربی، ابن سینا اور ابن الہیثم جیسے دانا پیدا ہوئے۔ موجودہ صورتحال تو ہمارے سامنے ہے۔ علم سے دُوری طوق ندامت بن گئی مگر مایوسی کفر ہے۔ اگر ہم علم کی راہ پر چلنے کا عہد کرلیں، مطالعے، مشاہدے اور غور وفکر کو حرز جاں بنا لیں، تو حقیقی معنوں میں خود کو ''امت وسط'' ثابت کر سکتے ہیں البتہ اِس دوران ہمیں چوکنا رہنا ہو گا۔ دشمن ہماری صفوں میں ہے۔
حلیہ تو ہم سا ہے مگر حقیقتاً وہ دجال عصر کا کرشما ہے۔ اُس کے کئی روپ ہیں۔ کہیں جبہ اور دستار میں چُھپا ہے، کہیں بے ریش ہے۔ اُس نے اپنا ضمیر اور قلم بیچ ڈالا۔ ہمیں الجھانے کے لیے اُس کی زنبیل میں کئی مبہم پیش گوئیاں ہیں۔ وہ ہمیں عذاب سے تو ڈراتا ہے مگر عمل کی ترغیب نہیں دیتا۔ علم کی بابت زبان سے ایک لفظ ادا نہیں کرتا۔ مطالعۂ کائنات کو درخوراعتناء نہیں جانتا۔ سوچنا اُس کے نزدیک گناہ۔ آپ اس کے وعظ اور تحریروں میں کبھی بدعنوانی اور گرانی کا تذکرہ نہیں پائینگے۔ تقریر میں کبھی طبقاتی استحصال کا ذکر نہیں ہو گا۔ بے حیائی کے مضمرات پر کلام کریگا مگر بھوک کی بدبختی بھول جائے گا۔ جذباتیت کا معجون کھلائے گا۔ مغرب کے زوال کا تذکرہ کر کے خود کو ہلکان کر ڈالے گا مگر قوم کو پیروں پر کھڑا ہونے کا کوئی نسخہ نہیں بتائے گا۔
خیر، دشمن کا یہ اُکتا دینے والا کھیل آج نہیں تو کل، اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔ جونہی ہم احکام خداوندی کی جانب متوجہ ہوئے، صحیفۂ کائنات کا مطالعہ شروع کیا، ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔