جو الم گزرے ہیں
کیسے کیسے المناک مناظر ان آنکھوں نے دیکھے کتنی بریکنگ نیوز کتنوں کے نروس بریک ڈاؤن کر گئیں
آنسوؤں کے سمندر میں زخموں کی بادباں ہچکولے کھا رہی ہے میری آنکھوں کے سامنے بیوہ کی سیاہ ساڑھی ہے زیادہ تاریک رات ہے کہیں کوئی روشنی، کوئی کرن، کوئی ستارہ کچھ بھی نہیں امیدوں کے بیاباں میں مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ دریاؤں کا پانی خشک ہو گیا ہے کہ اس نے اپنی جگہ خون کے ابلتے ہوئے فواروں کے لیے چھوڑ دی ہے۔
کیسے کیسے المناک مناظر ان آنکھوں نے دیکھے کتنی بریکنگ نیوز کتنوں کے نروس بریک ڈاؤن کر گئیں، کولڈ اسٹوریج میں جھلسے ہوئے جسم اور سوختہ لاشیں جو پچھلی رات تک زندہ تھیں اپنے پیاروں سے فون پر محو گفتگو رہیں کوئی اپنی ماں کو تسلی دے رہا تھا تو کوئی اپنی رفیق حیات کو اپنے بچوں کو کہ شاید کوئی مسیحا آئے گا اور ان کو اس دکھتی ہوئی فضا سے نکال لے گا کوئی آیا تو ضرور مگر اس وقت جب سب کچھ جل کر راکھ ہو چکا تھا خاک ہو چکا تھا سو منیر نیازی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ:
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہیے
سندھ کے بادشاہ ہمارے بزرگ بڑے سینئر سی ایم صاحب وہاں آئے تو مگر یہ کہہ کر چلے گئے کہ یہ ذمے داری ہماری نہیں وفاق کی ہے اس دوران پریس فوٹو گرافر ان کے مختلف پوز لیتے رہے۔ اسٹوریج میں درد کی شدت سے جلتے ہوئے لوگ چلاتے رہ گئے کہ دیکھو ہمارا انگ انگ جھلس رہا ہے ہمیں اس دنیاوی جہنم سے نکال لو، مگر وہاں تو ایک خاموشی تھی، بے حسی تھی کہ اس ملک کا نظام ہی بھرتے کو بھرو اور مرتے کو مارو میں چل رہا ہے ہمارے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ سندھ میں تو پٹاخہ بھی چل جائے تو ردعمل ہوتا ہے۔
یہ ذمے داری تو سندھ حکومت کی تھی گویا مرنے والوں کی جان کی تو کوئی قیمت ہی نہ تھی یہاں بھی سیاست تھی اور اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوا جا رہا تھا یا خدا اس ملک خداداد کا کیا ہو گا پہلے یہ سوال لمحے بھر کو آتا تھا اور اب لمحہ لمحہ عفریت بن کر اہل وطن کا تعاقب کرتا ہے، میرے سامنے وہ ماں تھی جس کا ایک بچہ تو دو دن پہلے ایئرپورٹ پر حملے کے نتیجے میں شہید ہو گیا تھا اور دوسرا جوان بیٹا کولڈ اسٹوریج کے اندر جل رہا تھا یا جل چکا تھا میرے سامنے وہ آہ و بکا کرتی ہوئی نوجوان بن بیاہی لڑکیاں تھیں جن کی ڈولی اٹھنے سے پہلے ہی ان کے مشفق باپ کا ڈولا اٹھنے والا تھا، زندگی رواں دواں تھی، اسی لمحے افسران مشروبات سے شوق فرما رہے تھے جھنڈا لہراتی گاڑیاں پروٹوکول کے ساتھ گزر رہی تھیں ایوانوں کی رونقیں بحال تھیں اراکین اسمبلی خوش تھے کہ بجٹ میں ان کی تنخواہیں دگنی ہونے والی تھیں۔
درندے بھی اپنی بھوک مٹانے کے بعد کچھ دیر سستا لیتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے اپنے دوسرے شکار کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں یہاں کیسے بے رحم درندے ہیں جن کا شکم بھرتا ہی نہیں۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
اب حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہے حکومت حالات کے کنٹرول میں ہے۔ طبعی موت کا تصور آہستہ آہستہ جیسے ختم ہوتا جا رہا ہے قبرستان سیاستدانوں کی تجوریوں کی طرح بھر گئے ہیں سب ہی پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ان حکمرانوں کے ہاں تقسیم کا کوئی ذکر نہیں صرف جمع ہی جمع ہے شاید انھوں نے دوران تعلیم پلس کے سوال زیادہ حل کیے ہیں۔
ہر ایک کے سینے میں قوم کا درد ہے ہر ایک کے لب پر غریب عوام کی بات ہے وہ عوام جسے شاید آنے والے دنوں میں ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو، سڑکیں، موٹروے پر اربوں روپے خرچ کرنے میں ایک فائدہ ضرور ہے کہ اس مد میں سرکاری خزانے سے نصف حصہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں چلا جائے گا اور اگر آٹا بجلی پانی اور اشیائے خور و نوش سستی کر دیں تو سارا فائدہ عوام اٹھا لیں گے سو بہتر یہی ہے کہ بجٹ بھی ایسا بنایا جائے جس میں سرمایہ داروں کا فائدہ ہو، پرتعیش اور لگژری گاڑیوں کو سستا کر دیا جائے چاہے عوام کے پاس چنگ چی میں بیٹھنے کے بھی پیسے نہ ہوں ایک ایک ہزار گز کے بنگلوں میں تین تین چمکتی دمکتی گاڑیاں ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہر طرح کی مراعات حاصل ہیں پٹرول، بجلی، موبائل، مالی، خانساماں، گارڈ، ہاؤس مینٹینینس، گیس، پانی تو پھر یہ اتنی بہت ساری دولت باہر منتقل نہ کریں تو بے چارے کیا کریں۔
بظاہر سچ تو یہ ہے کہ اس دور سرمایہ داری میں مداری کا نظام چل رہا ہے نوجوانوں کو قرضے بھی مل رہے ہیں سپورٹ پروگرام بھی ہو رہے ہیں لیکن اس میں بھی تخصیص ہے سیاست ہے، اپنی پبلسٹی کی مد میں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں مگر یہ عوام، جو اپنی تباہی کی خود ذمے دار بھی ہے، وہیں کھڑے ہیں اس لیے کہ ان کا انتخاب اپنی باری آنے والے حکمران ہیں جو دعوؤں اور وعدوں میں یکتا ہیں بے ایمانی، چوری، لوٹ مار، اغوا، تاوان کیا کیا نہیں ہے اس پاکستان میں حیا دار انسان کے لیے تو چلو بھر پانی بھی بہت ہوتا ہے مگر جب سارا پانی بکروں، گائے، بھینسوں یہاں تک کہ مرغیوں میں محض اس لیے بھر دیا جائے گا کہ ان کا وزن بڑھ جائے تو پانی کی قلت تو ایک فطری بات ہے۔
سنا ہے کہ روتے روتے آنکھوں کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں مگر دیدوں سے پانی ڈھلنا ایک دوسرا محاورہ ہے اہل علم شاید ان دونوں میں فرق محسوس کر سکتے ہیں، جہاں اور جدھر نظر ڈالیے دکھ ہی دکھ ہیں جو حالات کی مالا میں اتنے بھر چکے ہیں کہ مالا بھی خوابوں کی طرح ٹوٹ گئی ہے پھر بھی۔۔۔۔۔پھر بھی شاید کوئی ہوا کا تازہ جھونکا آئے مگر کب اور کہاں سے؟ یہ سوال عرصے سے فضا میں گردش کر رہا ہے۔ موسم گرما آ چکا ہے اب آم کے پیڑوں پر کوئلیں نہیں کوکتیں اب برسات میں مور رقص نہیں کرتے، اب ہوا کے خنک جھونکوں کی تال پر قمریاں نہیں بولتیں اب بارود کے ڈھیر پر اجسام جلتے ہیں خاک خون اور دھوئیں سے آلودہ اس ماحول میں زندگی، زندگی کی متلاشی ہے۔