کراچی میں نوجوانوں کا بلاناغہ قتل
فلاحی ادارے اور ہمارے نوجوان حادثات اور سانحات کے مواقعوں پر مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں
کراچی سب سے زیادہ ٹیکس وفاقی وصوبائی حکومت کی جھولی میں خوشی خوشی ڈالتا ہے، لیکن بنیادی ضرورتوں سے محرومی اس کا مقدر بن چکی ہے۔
اسی طرح اندرون سندھ کے دیہی علاقے یا گوٹھ ہیں جو بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں جنم لیتی ہیں اور سیکڑوں معصوم بچے ہر سال اپنی جان سے جاتے ہیں۔
دوسری جانب قوم پرستی ہمارے ہاں سندھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، لیکن یہ محبت اور حقوق کی ادائیگی اپنے لوگوں کے لیے ہی مخصوص ہے۔ سندھی بولنے والوں کا جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آتا ہے ، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، چونکہ تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ سندھی بھائی بااخلاق تہذیب یافتہ ہوتے ہیں، خوش اخلاقی سے بات کرتے ہیں آپ کا جو بھی کام ہو وہ ذمہ داری اور اپنا فرض سمجھتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔
ہر ادارے میں سندھی بھائی اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں اپنے گھر خریدتے ہیں یا کرائے پر لے لیتے ہیں۔ دوسری جانب مہاجر نوجوانوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، وہ بھی روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ، بہتر سے بہتر روزگار کی تلاش ہر نوجوان کی طرح مہاجر نوجوانوں کو بھی اپنا وطن، پیارے والدین اور اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبورکر دیتی ہے اور والدین اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے بچوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے انھیں دیار غیر بھیج دیتے ہیں۔
شہر قائد، نوجوانوں کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے، ہرروز دو سے تین اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے صرف ایک موبائل فون اورکچھ نقدی کی خاطر، کیونکہ نوجوان ان چیزوں کو بچانے کے لیے اپنی سی کوشش یا مزاحمت کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر خرید کردی ہیں۔
موبائل فون میں طلباء کے تعلیمی و علمی سرگرمیوں کے حوالے سے نوٹس اورکچھ دستاویزات محفوظ ہوتی ہیں، عزیز واقارب اور دوست احباب کے نمبر ہوتے ہیں، ان کی مائیں اپنے بیٹوں کی صبح و شام خیریت وحفاظت کی دعائیں کرتی ہیں، لیکن یہ قاتل لٹیرے، ڈاکو اور قاتل چورکم ہی پکڑے جاتے ہیں، یوں آتی جاتی سانسوں کا کھیل جاری رہتا ہے، اس وقت تک جب کہ وہ قبر کی آغوش میں نہ اتر جائیں، ماؤں کے دل نکال کر لے جاتے ہیں بناء دل کے کوئی جیتا ہے، یوں سمجھیں بیٹوں کے قتل کے بعد وینٹی لیٹر پر ماں باپ آجاتے ہیں، اگرقاتل پکڑ بھی لیے جاتے ہیں تو وہ سزا کے مراحل سے کم ہی گذرتے ہیں۔
ہماری پولیس جس کا نعرہ ہے'' پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' وہ ایسی مدد کرتے ہیں کہ ایک معمولی سے جرم کے نتیجے میں زندگی کے جنجال اور مسائل سے ہی ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیتے ہیں۔
اس بیچارے نوجوان کی خطا اتنی ہوتی ہے کہ اس نے سگنل توڑا تھا، پولیس نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی وہ نہیں رکا خوف کی وجہ سے کہ پولیس خوامخواہ تنگ بھی کرے گی ہوسکتا ہے کہ اسے جیل پہنچادیا جائے، محض جعلی مقدمہ بنا کر اور سگنل توڑنے پر رقم بھتے کی شکل میں ضرور وصول کی جائے گی اور لائسنس بھی ضبط ہوگا ، لٰہذا ہماری پولیس اسی معمولی سی بات پر سیدھا فائر کردیتی ہے گولی کبھی پیر پر لگتی ہے تو کبھی باقاعدہ سینے پر ماری جاتی ہے، نتیجتاً گھر کا چراغ اس ہی وقت گل ہوجاتا ہے ، ایک نوجوان ماں باپ کی دعاؤں اور بہت سے خواب سجائے گھر سے نکلتا ہے لیکن اس کی واپسی اپنے پیروں پر ہرگز نہیں ہوتی ہے، اس گھر پر قیامت اتر آتی ہے جہاں اچانک گھر کا چشم وچراغ دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ ٹریفک قوانین کا احترام کریں ، صورتحال یوں ہے کہ شہریوں کی ایک تعداد ٹریفک قوانین کا احترام نہیں کرتی،بلا وجہ اور خواہ مخواہ اشارے توڑنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ ٹریفک اشارے کا احترام کرنا ہے تو پھر کیوں قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔قوانین کا احترام نہ کرنا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے،پولیس بھی پھر شہریوں کا یہ رویہ دیکھ کر سخت سلوک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
چوری ڈکیتی کے حالات گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کی شاہراہوں اورگلی کوچوں میں عام ہوچکے ہیں۔ ہر روز، ہرگھنٹے کراچی میں قتل وغارت کی وارداتیں باقاعدگی کے ساتھ کی جاتی ہیں، ارباب اختیار کی خاموشی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ انہیں ان پڑھے لکھے مہذب نوجوانوں اور ان کے گھرانوں سے ذرہ برابر ہمدردی نہیں ہے، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص مقصد کے تحت یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کے تمام افسران واہلکار، دانستہ قتل وغارت کے کھیل کو بڑھانے کے ذمے دار نہیں ہیں،کالی بھیڑیں ہرادارے میں ہوتی ہیں کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ کرپشن سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے اس ہی ملک میں انسانیت کے چہرے کو زندہ اور تروتازہ رکھنے کے لیے بے شمار لو گ موجود ہیں اور ان کے ہی دم سے کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا جاں بلب مریض محض خون کی کمی کے باعث موت کے منہ میں پہنچنے والا ہو، راستے میں گاڑی خراب ہوجائے، ان ہی نازک اوقات میں ہمارے نوجوان بھاگے دوڑے چلے آتے ہیں، پریشان لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اسپتالوںمیں خون دینے پہنچ جاتے ہیں۔
آفرین ہے نئی نسل پر اور ان کے والدین کی تربیت پر جو بناء نفرت و تعصب کے ہر شخص کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ماہ رمضان میں روزے داروں کے لیے افطاری اور پانی کا انتظام کرتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، کتنے ہی سفید پوش حضرات کھانا اپنے گھروالوں کے لیے بھی لے جاتے ہیں، متعدد ادارے دن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ، اور خوب کر رہے ہیں۔
فلاحی ادارے اور ہمارے نوجوان حادثات اور سانحات کے مواقعوں پر مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، ان کے انسانی جذبے کو سلوٹ کرنا چاہیے نہ کہ دن دیہاڑے شریف النفس اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قتل کرکے شہر میں مایوسی ، محرومی اور دکھوں کو بڑھانا چاہیے، خدارا رحم کریں یہ لوگ استحکام پاکستان کے ضامن ہیں، ان کی حفاظت کے لیے انسانیت کا ثبوت دیں اور نوجوانوں کا لہو بہانے سے گریزکریں ۔
اسی طرح اندرون سندھ کے دیہی علاقے یا گوٹھ ہیں جو بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں جنم لیتی ہیں اور سیکڑوں معصوم بچے ہر سال اپنی جان سے جاتے ہیں۔
دوسری جانب قوم پرستی ہمارے ہاں سندھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، لیکن یہ محبت اور حقوق کی ادائیگی اپنے لوگوں کے لیے ہی مخصوص ہے۔ سندھی بولنے والوں کا جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آتا ہے ، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، چونکہ تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ سندھی بھائی بااخلاق تہذیب یافتہ ہوتے ہیں، خوش اخلاقی سے بات کرتے ہیں آپ کا جو بھی کام ہو وہ ذمہ داری اور اپنا فرض سمجھتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔
ہر ادارے میں سندھی بھائی اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں اپنے گھر خریدتے ہیں یا کرائے پر لے لیتے ہیں۔ دوسری جانب مہاجر نوجوانوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، وہ بھی روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ، بہتر سے بہتر روزگار کی تلاش ہر نوجوان کی طرح مہاجر نوجوانوں کو بھی اپنا وطن، پیارے والدین اور اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبورکر دیتی ہے اور والدین اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے بچوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے انھیں دیار غیر بھیج دیتے ہیں۔
شہر قائد، نوجوانوں کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے، ہرروز دو سے تین اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے صرف ایک موبائل فون اورکچھ نقدی کی خاطر، کیونکہ نوجوان ان چیزوں کو بچانے کے لیے اپنی سی کوشش یا مزاحمت کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر خرید کردی ہیں۔
موبائل فون میں طلباء کے تعلیمی و علمی سرگرمیوں کے حوالے سے نوٹس اورکچھ دستاویزات محفوظ ہوتی ہیں، عزیز واقارب اور دوست احباب کے نمبر ہوتے ہیں، ان کی مائیں اپنے بیٹوں کی صبح و شام خیریت وحفاظت کی دعائیں کرتی ہیں، لیکن یہ قاتل لٹیرے، ڈاکو اور قاتل چورکم ہی پکڑے جاتے ہیں، یوں آتی جاتی سانسوں کا کھیل جاری رہتا ہے، اس وقت تک جب کہ وہ قبر کی آغوش میں نہ اتر جائیں، ماؤں کے دل نکال کر لے جاتے ہیں بناء دل کے کوئی جیتا ہے، یوں سمجھیں بیٹوں کے قتل کے بعد وینٹی لیٹر پر ماں باپ آجاتے ہیں، اگرقاتل پکڑ بھی لیے جاتے ہیں تو وہ سزا کے مراحل سے کم ہی گذرتے ہیں۔
ہماری پولیس جس کا نعرہ ہے'' پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' وہ ایسی مدد کرتے ہیں کہ ایک معمولی سے جرم کے نتیجے میں زندگی کے جنجال اور مسائل سے ہی ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیتے ہیں۔
اس بیچارے نوجوان کی خطا اتنی ہوتی ہے کہ اس نے سگنل توڑا تھا، پولیس نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی وہ نہیں رکا خوف کی وجہ سے کہ پولیس خوامخواہ تنگ بھی کرے گی ہوسکتا ہے کہ اسے جیل پہنچادیا جائے، محض جعلی مقدمہ بنا کر اور سگنل توڑنے پر رقم بھتے کی شکل میں ضرور وصول کی جائے گی اور لائسنس بھی ضبط ہوگا ، لٰہذا ہماری پولیس اسی معمولی سی بات پر سیدھا فائر کردیتی ہے گولی کبھی پیر پر لگتی ہے تو کبھی باقاعدہ سینے پر ماری جاتی ہے، نتیجتاً گھر کا چراغ اس ہی وقت گل ہوجاتا ہے ، ایک نوجوان ماں باپ کی دعاؤں اور بہت سے خواب سجائے گھر سے نکلتا ہے لیکن اس کی واپسی اپنے پیروں پر ہرگز نہیں ہوتی ہے، اس گھر پر قیامت اتر آتی ہے جہاں اچانک گھر کا چشم وچراغ دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ ٹریفک قوانین کا احترام کریں ، صورتحال یوں ہے کہ شہریوں کی ایک تعداد ٹریفک قوانین کا احترام نہیں کرتی،بلا وجہ اور خواہ مخواہ اشارے توڑنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ ٹریفک اشارے کا احترام کرنا ہے تو پھر کیوں قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔قوانین کا احترام نہ کرنا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے،پولیس بھی پھر شہریوں کا یہ رویہ دیکھ کر سخت سلوک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
چوری ڈکیتی کے حالات گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کی شاہراہوں اورگلی کوچوں میں عام ہوچکے ہیں۔ ہر روز، ہرگھنٹے کراچی میں قتل وغارت کی وارداتیں باقاعدگی کے ساتھ کی جاتی ہیں، ارباب اختیار کی خاموشی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ انہیں ان پڑھے لکھے مہذب نوجوانوں اور ان کے گھرانوں سے ذرہ برابر ہمدردی نہیں ہے، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص مقصد کے تحت یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کے تمام افسران واہلکار، دانستہ قتل وغارت کے کھیل کو بڑھانے کے ذمے دار نہیں ہیں،کالی بھیڑیں ہرادارے میں ہوتی ہیں کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ کرپشن سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے اس ہی ملک میں انسانیت کے چہرے کو زندہ اور تروتازہ رکھنے کے لیے بے شمار لو گ موجود ہیں اور ان کے ہی دم سے کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا جاں بلب مریض محض خون کی کمی کے باعث موت کے منہ میں پہنچنے والا ہو، راستے میں گاڑی خراب ہوجائے، ان ہی نازک اوقات میں ہمارے نوجوان بھاگے دوڑے چلے آتے ہیں، پریشان لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اسپتالوںمیں خون دینے پہنچ جاتے ہیں۔
آفرین ہے نئی نسل پر اور ان کے والدین کی تربیت پر جو بناء نفرت و تعصب کے ہر شخص کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ماہ رمضان میں روزے داروں کے لیے افطاری اور پانی کا انتظام کرتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، کتنے ہی سفید پوش حضرات کھانا اپنے گھروالوں کے لیے بھی لے جاتے ہیں، متعدد ادارے دن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ، اور خوب کر رہے ہیں۔
فلاحی ادارے اور ہمارے نوجوان حادثات اور سانحات کے مواقعوں پر مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، ان کے انسانی جذبے کو سلوٹ کرنا چاہیے نہ کہ دن دیہاڑے شریف النفس اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قتل کرکے شہر میں مایوسی ، محرومی اور دکھوں کو بڑھانا چاہیے، خدارا رحم کریں یہ لوگ استحکام پاکستان کے ضامن ہیں، ان کی حفاظت کے لیے انسانیت کا ثبوت دیں اور نوجوانوں کا لہو بہانے سے گریزکریں ۔