رانی لاکھوں دلوں پر راج کرنیوالی اداکارہ
رانی 1992 میں دوبارہ شو بزنس سے وابستہ ہوئیں۔ مئی کے آغاز میں وہ کراچی کے ایک اسپتال میں داخل ہوئی
سرخ وسپید چہرہ، بادامی آنکھیں،کشادہ پیشانی،گلابی لب، معصوم مسکراہٹ، دراز زلفیں جب چہرے پر آتیں تو دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا، اس حسین سراپے کی مالک اداکارہ رانی تھیں، ان کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ان کی ذاتی زندگی انتہائی مشکلات کا شکار رہی۔ میری اداکارہ رانی سے کئی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات اداکار محمد علی نے ان سے شباب اسٹوڈیو میں کروائی تھی۔
اداکارہ رانی 1941 میں پیدا ہوئیں،گھر میں غربت کے اندھیرے تھے، ان کی والدہ بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد طلاق لے کر دوسری شادی حق نامی شخص سے کر لی تھی، جبکہ مختار بیگم نے رانی کو بیٹیوں کی طرح پال پوس کر جوان کیا تھا۔ دراصل مختار بیگم نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوہ تھیں اور ان کی بہن گلوکارہ فریدہ خانم اپنے وقت کی معروف گلوکارہ تھیں، انھوں نے رانی کو انورکمال پاشا کی فلم ''محبوب'' میں سیکنڈ ہیروئن کاسٹ کروایا، یہ پہلی فلم تھی جو فلاپ ہوئی۔
مختار بیگم کے کہنے پر آغا جی اے گل جوکہ ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک تھے، نے رانی کو فلم '' اک تیرا سہارا'' میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی، اس کے بعد ان کی فلاپ ہونے والی فلموں میں چھوٹی امی، اک دل دو دیوانے، شبنم، یہ جہاں والے، عورت صنم، سفید خون، عورت کا پیار، بیس دن اور جوکر قابل ذکر ہیں اور انھیں ایک فلاپ اداکارہ قرار دیا گیا۔
میری ایک اور ملاقات 1990 میں اداکارہ رانی سے غزالہ فہیم کے توسط سے ہوئی، یہ رانی کی بہت گہری دوست تھیں اور ایک معروف بوتیک چلاتی تھیں۔ اداکارہ رانی نے دوران گفتگو مجھ سے کہا کہ '' میں وہ بدنصیب ہوں کہ سپراسٹار ہونے کے باوجود ہمیشہ دکھوں اور مصائب کا سامنا کیا۔'' رانی نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ ہم سے تفصیلی کیا۔ کچھ باتیں انھوں نے اپنے ماضی کے حوالے سے ہمیں بتائیں۔
رانی کی ملاقات معروف ہدایت کار حسن طارق سے ہوئی، جنھوں نے شائقین فلم کو سپرہٹ فلمیں دیں۔ حسن طارق بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے مگر رانی نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کا تعلق حیدرآباد دکن (بھارت) سے تھا۔ اب اس کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ فلم '' تقدیر'' میں انھوں نے رانی کو دل کا حال بتا دیا جبکہ حسن طارق شادی شدہ تھے، ان کی پہلی بیوی رقاصہ ایمی مینوالا تھیں جو ان سے بہت محبت کرتی تھیں اور ان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا تھا ،جس میں ان کی طویل بیماری شامل تھی۔
حسن طارق سے شادی کے بعد رانی کی فلم ''دیور بھابھی'' نے سپرہٹ بزنس کیا۔ اس فلم میں وحید مراد، سنتوش کمار بھی تھے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے عمرکے آخری حصے میں ایسٹرن اسٹوڈیو کراچی میں جنرل مینجر رہے۔ رانی کی ایک فلم ''مکھڑا چن ورگا'' ریلیز ہوئی تو اس فلم میں حبیب اور نغمہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور دونوں نے شادی کر لی۔ عنایت حسین بھٹی نے اپنی فلم ''چن مکھنا '' میں رانی کوکاسٹ کیا، یہ فلم سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس کے بعد انجمن، امراؤ جان ادا سپرہٹ فلمیں تھیں۔ ان فلموں کی کامیابی نے رانی کو صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔
فلم ''تہذیب'' کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ اس کا سپرہٹ گیت '' لگا ہے مصرکا بازار دیکھو'' مہدی بھیا نے گایا تھا جب یہ آن ایئر ہوا تو مصرکے سفارتخانے نے اس پر اعتراض کیا کہ آپ مصرکا نام گیت میں کیوں استعمال کر رہے ہیں ، یوں گیت ریڈیو سے آن ایئر ہونا بند ہوگیا پھر اس گیت کے بول '' لگا ہے حسن کا بازار دیکھو '' کردیے گئے، یہ اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا اس فلم نے کمال کا بزنس کیا۔
ان کی پہلی شادی حسن طارق سے ہوئی وہ ناکام ہوئی، راقم نے اس کی ناکامی کی وجہ پوچھی تو کہا '' جب انسان اپنے محسن کو بھول جائے، تو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں نے اپنی منہ بولی والدہ مختار بیگم کا دل دکھایا تو پھر مجھے حساب تو دینا ہوگا۔ حسن طارق سے میرا پہلا جھگڑا '' فلم امراؤ جان'' کے حوالے سے ہوا، انھوں نے موسیقی کا شعبہ خلیل احمد کو دیا جبکہ تہذیب اور انجمن کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی میں انھیں پیار سے بزمی بھیا کہتی تھی، بزمی بھیا عیدی دیتے رمضان میں تحفے تحائف دیتے اور مسکراتے ہوئے کہتے، میری لاہور میں ایک ہی تو بہن ہے حسن طارق کو پیار سے بہنوئی بھیا کہتے۔ (یہ بات نثار بزمی نے بھی ہمیں بتائی تھی)
اداکار محمد علی مرحوم نے بتایا تھا کہ فلم '' ایک گناہ اور سہی'' میں رانی میرے ساتھ کام کر رہی تھیں، دسترخوان لگا تو رانی بھی آگئیں، بریانی پکی تھی میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا '' بھوکی آگئیں کھانے کے لیے'' انھوں نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''آج میں نے نفلی روزہ رکھا ہے'' تو میں نے کہا 'شوٹنگ میں حصہ نہیں لو گی؟، نہیں آج میں فلم کی ڈبنگ کرانے آئی ہوں۔
علی بھائی نے بتایا تھا کہ رانی بہت معصوم اور تہذیب دار خاتون ہیں، ہم ملکہ ترنم نور جہاں کے ہاں چائے پر مدعو تھے، انھوں نے فلم '' ناگ منی'' کے گیت پر رانی کی پرفارمنس کی بہت تعریف کی۔ گیت '' تن تو پے واروں من تو پے واروں'' کی ریلیز کے بعد رانی شہرت کی بلندیوں پر تھیں۔
ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے معروف ہدایت کار نذرالاسلام عرف دادا، بڑے ہدایت کار تھے انھوں نے سیریل خواہش کا آغازکیا، اس سیریل نے کئی گھر اجاڑ دیے۔ اقبال یوسف بڑے ہدایت کار تھے یہ سیریل خواہش کا کام کر رہے تھے کہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
رانی کو بھی اسکرین کے پردے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ کینسر جیسے مرض کا شکار ہوئیں، معروف فلم ساز جاوید قمر سے شادی کی تھی اور انھوں نے بھی انھیں طلاق دے دی۔ ابھی رانی کے نصیب میں ٹھوکریں باقی تھیں، وہ علاج کی غرض سے لندن گئیں وہاں ان کی ملاقات معروف باسٹ بائولر سرفراز نواز سے ہوئی اور انھوں نے تیسری شادی سرفراز سے کی، بعد ازاں سرفراز نے بھی انھیں طلاق دے دی۔
رانی 1992 میں دوبارہ شو بزنس سے وابستہ ہوئیں۔ مئی کے آغاز میں وہ کراچی کے ایک اسپتال میں داخل ہوئیں۔ راقم ان کی عیادت کے لیے روز اسپتال جاتا تھا، انھوں نے مجھے نصیحت کی کہ '' بیٹا، اپنے قلم کی عزت و آبرو اور حرمت کا ہمیشہ خیال رکھنا تو لوگ تم سے محبت کا ثبوت دیں گے یہ میری التجا ہے'' اور پھر اداکارہ رانی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اداکارہ رانی جدوجہد کا ایک استعارہ تھیں، 1993 میں اپنے رب کی طرف لوٹ گئیں۔
یہ شعر ان کی حقیقی زندگی کا ترجمانی کرتا ہے۔
مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی
لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمین نکلی
اداکارہ رانی 1941 میں پیدا ہوئیں،گھر میں غربت کے اندھیرے تھے، ان کی والدہ بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد طلاق لے کر دوسری شادی حق نامی شخص سے کر لی تھی، جبکہ مختار بیگم نے رانی کو بیٹیوں کی طرح پال پوس کر جوان کیا تھا۔ دراصل مختار بیگم نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوہ تھیں اور ان کی بہن گلوکارہ فریدہ خانم اپنے وقت کی معروف گلوکارہ تھیں، انھوں نے رانی کو انورکمال پاشا کی فلم ''محبوب'' میں سیکنڈ ہیروئن کاسٹ کروایا، یہ پہلی فلم تھی جو فلاپ ہوئی۔
مختار بیگم کے کہنے پر آغا جی اے گل جوکہ ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک تھے، نے رانی کو فلم '' اک تیرا سہارا'' میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی، اس کے بعد ان کی فلاپ ہونے والی فلموں میں چھوٹی امی، اک دل دو دیوانے، شبنم، یہ جہاں والے، عورت صنم، سفید خون، عورت کا پیار، بیس دن اور جوکر قابل ذکر ہیں اور انھیں ایک فلاپ اداکارہ قرار دیا گیا۔
میری ایک اور ملاقات 1990 میں اداکارہ رانی سے غزالہ فہیم کے توسط سے ہوئی، یہ رانی کی بہت گہری دوست تھیں اور ایک معروف بوتیک چلاتی تھیں۔ اداکارہ رانی نے دوران گفتگو مجھ سے کہا کہ '' میں وہ بدنصیب ہوں کہ سپراسٹار ہونے کے باوجود ہمیشہ دکھوں اور مصائب کا سامنا کیا۔'' رانی نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ ہم سے تفصیلی کیا۔ کچھ باتیں انھوں نے اپنے ماضی کے حوالے سے ہمیں بتائیں۔
رانی کی ملاقات معروف ہدایت کار حسن طارق سے ہوئی، جنھوں نے شائقین فلم کو سپرہٹ فلمیں دیں۔ حسن طارق بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے مگر رانی نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کا تعلق حیدرآباد دکن (بھارت) سے تھا۔ اب اس کے بارے میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ فلم '' تقدیر'' میں انھوں نے رانی کو دل کا حال بتا دیا جبکہ حسن طارق شادی شدہ تھے، ان کی پہلی بیوی رقاصہ ایمی مینوالا تھیں جو ان سے بہت محبت کرتی تھیں اور ان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا تھا ،جس میں ان کی طویل بیماری شامل تھی۔
حسن طارق سے شادی کے بعد رانی کی فلم ''دیور بھابھی'' نے سپرہٹ بزنس کیا۔ اس فلم میں وحید مراد، سنتوش کمار بھی تھے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے عمرکے آخری حصے میں ایسٹرن اسٹوڈیو کراچی میں جنرل مینجر رہے۔ رانی کی ایک فلم ''مکھڑا چن ورگا'' ریلیز ہوئی تو اس فلم میں حبیب اور نغمہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور دونوں نے شادی کر لی۔ عنایت حسین بھٹی نے اپنی فلم ''چن مکھنا '' میں رانی کوکاسٹ کیا، یہ فلم سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس کے بعد انجمن، امراؤ جان ادا سپرہٹ فلمیں تھیں۔ ان فلموں کی کامیابی نے رانی کو صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔
فلم ''تہذیب'' کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ اس کا سپرہٹ گیت '' لگا ہے مصرکا بازار دیکھو'' مہدی بھیا نے گایا تھا جب یہ آن ایئر ہوا تو مصرکے سفارتخانے نے اس پر اعتراض کیا کہ آپ مصرکا نام گیت میں کیوں استعمال کر رہے ہیں ، یوں گیت ریڈیو سے آن ایئر ہونا بند ہوگیا پھر اس گیت کے بول '' لگا ہے حسن کا بازار دیکھو '' کردیے گئے، یہ اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا اس فلم نے کمال کا بزنس کیا۔
ان کی پہلی شادی حسن طارق سے ہوئی وہ ناکام ہوئی، راقم نے اس کی ناکامی کی وجہ پوچھی تو کہا '' جب انسان اپنے محسن کو بھول جائے، تو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں نے اپنی منہ بولی والدہ مختار بیگم کا دل دکھایا تو پھر مجھے حساب تو دینا ہوگا۔ حسن طارق سے میرا پہلا جھگڑا '' فلم امراؤ جان'' کے حوالے سے ہوا، انھوں نے موسیقی کا شعبہ خلیل احمد کو دیا جبکہ تہذیب اور انجمن کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی میں انھیں پیار سے بزمی بھیا کہتی تھی، بزمی بھیا عیدی دیتے رمضان میں تحفے تحائف دیتے اور مسکراتے ہوئے کہتے، میری لاہور میں ایک ہی تو بہن ہے حسن طارق کو پیار سے بہنوئی بھیا کہتے۔ (یہ بات نثار بزمی نے بھی ہمیں بتائی تھی)
اداکار محمد علی مرحوم نے بتایا تھا کہ فلم '' ایک گناہ اور سہی'' میں رانی میرے ساتھ کام کر رہی تھیں، دسترخوان لگا تو رانی بھی آگئیں، بریانی پکی تھی میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا '' بھوکی آگئیں کھانے کے لیے'' انھوں نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''آج میں نے نفلی روزہ رکھا ہے'' تو میں نے کہا 'شوٹنگ میں حصہ نہیں لو گی؟، نہیں آج میں فلم کی ڈبنگ کرانے آئی ہوں۔
علی بھائی نے بتایا تھا کہ رانی بہت معصوم اور تہذیب دار خاتون ہیں، ہم ملکہ ترنم نور جہاں کے ہاں چائے پر مدعو تھے، انھوں نے فلم '' ناگ منی'' کے گیت پر رانی کی پرفارمنس کی بہت تعریف کی۔ گیت '' تن تو پے واروں من تو پے واروں'' کی ریلیز کے بعد رانی شہرت کی بلندیوں پر تھیں۔
ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے معروف ہدایت کار نذرالاسلام عرف دادا، بڑے ہدایت کار تھے انھوں نے سیریل خواہش کا آغازکیا، اس سیریل نے کئی گھر اجاڑ دیے۔ اقبال یوسف بڑے ہدایت کار تھے یہ سیریل خواہش کا کام کر رہے تھے کہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
رانی کو بھی اسکرین کے پردے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ کینسر جیسے مرض کا شکار ہوئیں، معروف فلم ساز جاوید قمر سے شادی کی تھی اور انھوں نے بھی انھیں طلاق دے دی۔ ابھی رانی کے نصیب میں ٹھوکریں باقی تھیں، وہ علاج کی غرض سے لندن گئیں وہاں ان کی ملاقات معروف باسٹ بائولر سرفراز نواز سے ہوئی اور انھوں نے تیسری شادی سرفراز سے کی، بعد ازاں سرفراز نے بھی انھیں طلاق دے دی۔
رانی 1992 میں دوبارہ شو بزنس سے وابستہ ہوئیں۔ مئی کے آغاز میں وہ کراچی کے ایک اسپتال میں داخل ہوئیں۔ راقم ان کی عیادت کے لیے روز اسپتال جاتا تھا، انھوں نے مجھے نصیحت کی کہ '' بیٹا، اپنے قلم کی عزت و آبرو اور حرمت کا ہمیشہ خیال رکھنا تو لوگ تم سے محبت کا ثبوت دیں گے یہ میری التجا ہے'' اور پھر اداکارہ رانی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اداکارہ رانی جدوجہد کا ایک استعارہ تھیں، 1993 میں اپنے رب کی طرف لوٹ گئیں۔
یہ شعر ان کی حقیقی زندگی کا ترجمانی کرتا ہے۔
مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی
لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمین نکلی