ہائے کتنا شاندار تھا میرا پاکستان
استاد شاگرد کی سرزنش کرتا تھا تو والدین اس سے لڑنے اسکول یا کالج نہیں پہنچ جاتے تھے
1947میں جب ہم نے اپنے لیے ایک ملک تخلیق کیاتھا تو ہمارے پاس قدرتی اور انسانی وسائل اتنے زیادہ تھے کہ ہم ترقی کے میدان میں کئی معجزے دکھلا سکتے تھے۔
1951 کی مردم شماری کے مطابق آبادی بڑھ کر سات کروڑ پچاس لاکھ ہوگئی۔ملک دوحصوں میں تقسیم تھا۔مشرقی بازو کی آبادی چار کروڑ بیس لاکھ جب کہ مغربی بازو جسے مغربی پاکستان کہا جاتاتھا کی آبادی تین کروڑتیس لاکھ تھی۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کی دو تہائی آبادی پاکستان اور ایک تہائی ہندوستان میں رہتی تھی۔
آزادی کے بعد ملک کارقبہ آٹھ لاکھ اکیاسی ہزار مربع کلو میٹر تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبادی کا دبائو کافی کم تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثبت عوامل تھے۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تھا۔ طویل ساحلی پٹی تھی، بلند و بالا پہاڑ تھے،وسیع میدان اور ریگستان تھے۔ چار موسم تھے ۔ بڑے شہر کاروبار کے مرکز تھے ۔ ریل، سڑکوں اورپلوں کا نظام تھا،گیس اور معدنیات کے ذخائر تھے ۔خوراک میں خود کفالت تھی، کئی ملکوں سے سرحدیں ملتی تھیںجن سے تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم تھے۔ فوج کا ایک مضبوط ادارہ تھا۔
انتظامی امور چلانے کے لیے منظم اور تربیت یافتہ بیوروکریسی تھی ۔ فوری طور پر قوانین بنانے کی مشکل درپیش نہیں تھی ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت کام چلایا جاسکتا تھا۔ نظام عدل بھی پہلے سے موجود تھا جسے برطانیہ نے اس دور کے جدید خطوط پر استوار کیاتھا، وکلا کی ایک بڑی تعداد ملک میں موجود تھی ۔ پاکستان کے بانی بھی خود ایک وکیل تھے ۔ ادیبوں، شاعروں،فنکاروں، دانشوروں، صحافیوں اور ہنر مند پیشہ ور افراد بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ڈاک اور تار کا موثر نظام تھا۔
پارلیمانی نظام کا ڈھانچہ اسمبلیوں کی شکل میں موجودتھا۔اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں تھیںجہاں اپنے دور کے اعلیٰ اساتذہ عبادت سمجھ کو بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم دیا کرتے تھے ۔1947 میں پاکستان میں اہم اور مشہور تعلیمی ادارے تھے ۔ پنجاب میں کنگ ایڈورڈکالج، گورنمنٹ کالج لاہور' فارمن کرسچین کالج آف آرٹس، جامعہ پنجاب،کینرڈ کالج اورویمن کالج نمایاں نام ہیں۔ سندھ میں سندھ مدرسۃ الاسلام ، این ای ڈی کالج، ڈائو کالج سمیت کئی ادارے شامل ہیں۔
1947میں پاکستان کونارتھ ویسٹرن ریلوے کا8045 کلو میٹر روٹ کا حصہ ملا جب کہ ہندوستان کے حصے میں3043 کلو میٹر روٹ آیا تھا۔ کراچی میں1858 میں پہلی ریلوے لائن ڈالی گئی تھی۔1861 میں کراچی سے کوٹری تک ٹرین چلائی گئی تھی، پاکستان کو کئی بڑے اور شاندار ریلوے اسٹیشن ملے تھے ۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کا شمار قدیم ترین ریلوے اسٹیشنوں میں ہوتا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر عوام کو متحد اور متحرک رکھنے کے لیے سیاسی جماعتیںتھیں جو مختلف طبقات کی نمایندگی کرتی تھیں۔ قانون ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی مباحثے ہوتے تھے ، حکومتیں بنتی اورٹوٹتی تھیں۔ تحریک پاکستان میںشامل رہنما سیاسی جماعتوں کی قیادت کرتے تھے ۔ ملک کے اندر جلسوں اورجلوسوں کی روایت اور تربیت پہلے سے موجود تھی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں جلسے منعقد ہوا کرتے تھے اور سیاسی کارکن پر جوش تقریروں سے سماں باندھ دیتے تھے، کسانوں اور مزدوروں کی طاقتور تنظیمیں تھیں جو کسی بھی ظلم، جبر اور نا انصافی یا زیادتی کی صورت میں بھر پور احتجاجی تحریکیں چلاتی تھیں۔
دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان سیاسی مناظرے اور مباحثے ہوتے تھے جن سے نوجوانوں کی سیاسی اور فکری تربیت ہوتی تھی۔ ملک میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں اخبارات نکلا کرتے تھے جن کی ادارت اعلیٰ پائے کے صحافی اور دانشور کرتے تھے ۔ پریس کلب تھے جہاں صحافی اور شہری آپس میں ملتے تھے۔ اخبارات میں زبردست کالم اور مضامین شایع ہوتے تھے، ان میں سے بعض مضمون اور کالم ایسے بھی تھے جن کی اشاعت آج ممکن نہیں ہے۔
لوگوں کو تفریح کے ذرایع میسر تھے ۔ فلم انڈسٹری فعال تھی۔ فلم اسٹوڈیو تھے جہاں ہر زبان میں فلمیں بنا کرتی تھیں ، ان فلموں کی کہانیاں ادیب لکھا کرتے تھے ۔ نغمے معروف شاعر تخلیق کرتے تھے ۔ موسیقار اور گلوکار و گلوکارائیں سب اپنی مثال آپ تھے۔سینما گھروں میں فلم دیکھنے والوں کا جمگھٹ لگا رہتاتھا ۔ ٹکٹ لینے اور بلیک کرنے پر جھگڑے ہوتے تھے اور چاقو کا چلنا ایک بڑی خبر اور واقعہ ہوتا تھا۔
1947 میں لاہورفلم کا مرکز تھا۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی یہاںکے اسٹوڈیوز میں فلمیں بنائی جاتی تھیں۔1929 میں لاہور میں پہلی خاموش فلم 'حسن کا دھوکا' بنائی گئی تھی، 1930 میںفلم 'سر فروش'اور1931 میں فریبی ڈاکو نامی فلمیں بنائی گئیں۔1946 میں آغا جی اے گل نے ایورنیواسٹوڈیو قائم کیا، ان کے بعد جے سی آنند نے ایور ریڈی پکچر ز اسٹوڈیو کی بنیا د رکھی ۔1947میں سنیماگھروں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی ۔ صرف مشرقی پاکستان میں 80 سنیما گھر تھے۔
تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کی پہلی فیچر فلم 'تیری یاد' 7 اگست 1948کو ریلیز کی گئی۔۱۹۵۰ میں پاکستان کی پہلی سلور جوبلی کرنے والی فلم 'دو آنسو' سنیما گھروں میں پیش کی گئی ۔ ایوریڈی پکچرز کی جانب سے پہلی گولڈن جوبلی فلم ' سنی'بنائی گئی اور1959 میں 'عمر ماروی' کے نام سے پہلی سندھی زبان کی فلم بنائی گئی۔یہی وہ دور تھا جب احمد رشدی،شوکت حسین رضوی اور ان کی بیگم نور جہاں بمبئی سے لاہور آگئے اور شاہ نور کے نام سے فلم اسٹوڈیو قائم کیا ۔ پڑھے لکھے لوگوںاور بزرگوں کے احترام کی روایت بڑی مضبوط تھی۔
استاد شاگرد کی سرزنش کرتا تھا تو والدین اس سے لڑنے اسکول یا کالج نہیں پہنچ جاتے تھے ۔ کسی بزرگ یا استاد کو آتا دیکھ کر نوجوان ادب سے سلام کرتے تھے ، کسی نوجوان کی کسی غلط حرکت کی شکایت اگر کوئی بزرگ اس کے والدین سے کردیتاتھا تو اس نوجوان کی خوب خبر لی جاتی تھی ۔ بچیوں اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بہت کم تھے ۔ عورتوں پر تشدد کی شرح بہت کم تھی کیونکہ مشترک خاندانی نظام میں بزرگ اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے۔اس حوالے سے کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں۔
اس سلسلے کو فی الحال ہم یہیں رو ک کر دیکھتے ہیں کہ تمام تر مسائل کے ساتھ ہم کو1947 میں جو پاکستان ملا تھا وہ کتنا شاندار تھا، کیاچیز تھی جو ہمارے پاس نہیں تھی لیکن پھر کیا ہوا کہ آج 2024میں ہم سیاسی، معاشی اور معاشرتی سمیت ہر طرح کے بحران میں گھرے ہیں اور فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا اور کس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے؟
اب تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ' ہائے کتنا شاندارتھا میرا پاکستان!'