ایک عام ماں بھی ’بادشاہ گر‘ ہے۔۔۔

ایک ذمہ دار ماں کی مادرانہ شفقت، نگہ داشت، ذہنی تربیت و نشوونما کے انداز کا احاطہ کرتی ہوئی راہ نما کہانی

ایک ذمہ دار ماں کی مادرانہ شفقت، نگہ داشت، ذہنی تربیت و نشوونما کے انداز کا احاطہ کرتی ہوئی راہ نما کہانی۔ فوٹو: فائل

گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ایک شناسا 'ثمر بھائی' کا اصرار تھا کہ ہم ان کی زندگی کی متاعِ عزیز یعنی ان کی امی جان کے بارے میں ایک مضمون لکھ دیں، یوں تو ہم کسی کا مضمون اپنے کھاتے میں ڈالنے کے ہمیشہ سے سخت خلاف ہیں، لیکن ثمر بھائی مُصر تھے کہ ہم ان کی والدہ اور ان کے تعلق کو سن کر انھیں الفاظ کا زیادہ اچھا روپ دے سکتے ہیں، اور ایسا کرنا، مضمون اپنے کھاتے میں ڈالنا ہر گز نہیں ہوا، بلکہ یہ کسی کی بات کو آگے پیش کرنا ہے، جو بطور صحافی ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داری بھی ہے۔

سو، ہم نے ان کی زندگی کے اس قیمتی اور خوب صورت ناتے کے احوال کو قلم بند کرنے کی ہامی بھری اور اِسے اپنی جانب سے 'عالمی یوم ماں' پر اس صفحے کے لیے ایک چھوٹا سا ہدیہ تصور کیا، کیوں کہ اس حقیقی کہانی کے اندر آپ کو کئی موقعوں پر اپنی کتھا اور بپتا محسوس ہوگی۔

ثمر بھائی اپنی والدہ کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ''ان کے بارے میں یہ کہہ دینا کافی ہے کہ زمانے کی غیر موافق ہوا کے سامنے انھوں نے ہمیں چھوٹی بڑی تمام برائیوں اور بری عادتوں سے بچنے کی ایسی پختہ تربیت فراہم کی کہ کبھی غلطی سے بھی ہم سے کوئی ایسی چھوٹی سی بھی نادانی سرزد نہ ہوئی۔ ورنہ گھر سے باہر نکلیے، تو کس کس طرح کے لوگوں سے آپ کا واسطہ اور سابقہ نہیں پڑتا۔ اور تو اور ہمیں اسکول بھی ایسا ملا کہ جس میں ماحول کی صورت حال مناسب تو کیا اچھی خاصی غیر تسلی بخش کہی جا سکتی تھی، اور اس میں بھی ہماری کلاس کچھ زیادہ ہی سوا سیر قسم کی واقع ہوئی تھی، شروع ہی سے پورے اسکول میں بدنام۔

کیسے کیسے اور کہاں کہاں کے بھانت بھانت کے بچے اس میں نہیں پڑھتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی اگر ہم کسی بُری پرچھائیں سے بھی اگر بچے رہے، تو اس میں ہماری امی کا ہی سب سے زیادہ ہاتھ رہا۔ اس کے لیے انھوں نے بھی کوئی کم مشقت تو نہیں کی۔۔۔ ہمیں زیادہ تر وقت گھر ہی پر مصروف رکھنا، اور وہ بھی بغیر کسی باقاعدہ 'اسکرین' کے۔

اس کے ساتھ زمانے کے سرد وگرم سے بچانے کو ایک عرصے تک ہدایت رہی کہ ہمیں صرف گھر سے باہر صرف اپنی گلی ہی میں کھیلنا ہے۔ حالات آج کے مقابلے میں تو بہت اچھے تھے، لیکن اس کے باوجود ہمیں اکیلے گھر سے زیادہ دور جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ ہماری 'مسیت' (گھر میں سپارہ پڑھنے کی جگہ) تو چلیے اگلی گلی میں تھی، لیکن چند گلیوں پار واقع اسکول میں پرائمری تک روزانہ اسکول چھوڑنے اور لینے جانا کوئی آسان بات تو نہ تھی۔ اس وقت بھی پورے اسکول میں چند ہی بچے تھے (بالخصوص بڑی کلاسوں کے) کہ جن کے گھر سے کوئی بڑا انھیں لینے یا چھوڑنے آتا تھا، لیکن ہماری امی نے مسلسل چھے برس تک لگ بھگ بلا ناغہ یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے نبھائی۔

اب جب ہم صبح کی شفٹ میں چَھٹی کلاس میں گئے، تو ہمیں خود بہت عجیب سا لگا کہ اتنے بڑے ہو کر بھی امی کے ساتھ اسکول جائیں اور آئیں، سو پھر خود سے اسکول آنے جانے لگے۔ اس پر بھی بس نہیں، امی نے ہمارے بچپن سے لے کر آج تک کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہمیشہ گھر پر بنائیں اور ہر چیز بہت نفاست سے تیار کی۔ گھر میں پینے کے پانی کو 'ابالنے' کے باقاعدہ اہتمام سے لے کر روزانہ کی ہنڈیا روٹی، چولھا چکی سے لے کر ہماری شام کی چیز کے لیے چائے کے ساتھ کبھی ابلے ہوئے آلو چھولے کی چاٹ، آلو کی کُیاں، کبھی آلو کے چپس، بن کباب، سینڈوچ، پاپ کورن وغیرہ بنانا ان کا روز کا معمول رہا۔

ناشتے میں تعطیل کے روز کبھی حلوہ کچوری، کبھی انڈے والے توس، چینی والی روٹی، الغرض ہر چیز ہی کا اہتمام وہ گھر ہی پر کرتیں۔ اور بات ناشتے کی ہے، تو یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اتنے برسوں میں چاہے صبح پڑھنے جانا ہو یا آج دفتر۔ الحمدللہ، کبھی زندگی کا کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا، کہ جب ہم ناشتے کے بغیر گھر سے نکلے ہوں۔

اس میں امی کے سلیقے اور ہنر کے ساتھ ہاتھ کا ذائقہ ان کی ایسی خوبی اور انفرادیت تھی، جو پھر ہمیں باہر ہوٹلوں، ریستورانوں اور دوسرے گھروں کے کھانے کھانے کے بعد ہی معلوم ہو سکی۔ ورنہ ہم تو اپنے گھر کے کھانوں میں بغیر کوئی بازار کے تیار مسالوں اور مخصوص خوش بو دار مصنوعی ذائقے وغیرہ ڈالے، باورچیوں اور دیگ کے کھانوں کا سا ذائقہ پا لیتے۔ کیا نہاری اور پائے، ہری مرچیں قیمہ، آلو سالن اور قورمہ اور کیا معمول کی دال اور سبزیاں وغیرہ۔ ماشااللہ، ہر ایک ہی میں ایسا لطف ہوتا ہے کہ عام سی ہنڈیا بھی بہت خاص محسوس ہوتی ہے۔

رہی بات ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی کی، تو ہلکی پھلکی ڈانٹ تو بالکل پڑتی رہتی تھی، کئی بار چانٹے اور تھپڑ بھی پڑے، گال پر تو کبھی کمر پر۔ بارہ، تیرہ سال کی عمر تک بھی یہ 'سعادت' ملتی رہی۔ بہت زیادہ نہیں مارا، گنتی ہی کے کچھ مواقع ایسے آئے ہوں گے کہ جب ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور انھیں تھپڑ رسید کرنے پڑ گئے ورنہ رعب سے یا ان کی ناراضی ہی سے کام چل جاتا تھا۔

ہم نے کبھی اسکول کے کسی ٹیسٹ کی آڑ لے کر یا کبھی بہانہ کر کے سپارہ پڑھنے جانے کی چھٹی کی، تو وہ گھر کے کام کرتے کرتے کمرے کا چکر لگا کے دیکھتی رہتیں کہ ہم پڑھ رہے ہیں یا نہیں اور عموماً ایسا ہوتا تھا کہ پڑھنے کے علاوہ ادھر ادھر دھیان بٹا ہوا ہوتا تھا تو بس وہ صرف ایک نظر دیکھ لیتی تھیں اور ان کی نگاہوں سے ان کی ناراضی کی کیفیت پتا چل جاتی تھی۔

ہم نے زندگی میں صرف ایک بار ہی ان سے باضابطہ جھوٹ بولا، جس کا ہمیں آج تک بہت دکھ ہے، کیوں کہ سچ بولتے، تو پھر ہمیں وہ پتھر کی ضرب سے پھاڑنے والے پٹاخے خریدنے کے لیے روپے، دو روپے شاید نہ مل پاتے۔ اس کے علاوہ ایک بار چھپ کر گرمیوں کی ایک دوپہر رنگ چھوڑنے والی اورنج قلفیاں کھائی تھیں، ایک محلے کے معروف دکاں دار سے لی تھی اور دوسری سائیکل پر گھنٹی بجاتا ہوا جو بیچنے آتا تھا، اس سے خریدی تھی۔

آٹھ، آٹھ ٓآنے کی ان قلفیوں کا نارنجی رنگ ہاتھ اور منہ پر آجاتا تھا اور بہت دیر تک نمایاں رہتا۔ ایسے ہی ایک مرتبہ چودہ اگست پر کوئی چار، پانچ روپے خرچ کر لیے ہوں گے، مختلف اسٹیکر اور بیجز وغیرہ میں، جس پر امی نے فقط اتنا کہا تھا کہ گھر میں چھوٹی بہن ہے، تمھیں اس کے لیے کچھ لینے کا خیال نہیں آیا، تو اس وقت ہمیں بہت زیادہ ندامت کا احساس ہوا تھا۔

امی نے ہمارے لیے بچپن میں ایک دو کام اور بھی کیے، جس نے ہماری شخصیت کی تعمیر میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں سے ایک تو یہ کہ انھوں نے کہانیوں اور بچوں کے رسائل کی طرف راغب کیا۔ شاید چھے، سات سال کی عمر سے ہی یہ سلسلہ چل نکلا۔ انھوں نے نہ جانے ایسا کیا گھول کر پلایا تھا کہ ہمیں تو بالکل یاد نہیں کہ کبھی اردو لکھنے یا پڑھنے میں ہمیں کبھی کوئی دشواری محسوس ہوئی ہو۔


الٹا سیدھا یا ٹوٹے پھوٹے انداز میں کچھ نہ کچھ ہم ضرور پڑھ لیتے تھے۔ اپنے اسکول میں کبھی اردو املے کی تیاری تک نہیں کی، یہاں تک کہ اسکول کی اردو کی کتاب شاید نئے نصاب کے ملتے ہی پوری پڑھ ڈالتے تھے، اور جب کلاس میں وہ سبق پڑھائے جاتے تھے، تو چوں کہ وہ سب ہم پہلے ہی پڑھے ہوئے ہوتے تھے، لہٰذا اس مرحلے پر ہم شدید بوریت کا شکار رہتے تھے۔

دوسرا کام اس کے ساتھ امی نے جو کیا وہ کہانیوں کی 'آڈیو کیسٹ' لا کر دینا تھا۔ بتایا تو یہ جاتا ہے کہ ہمیں ایک سے دو بار 'چکن پوکس' ہوا تھا، اس زمانے میں ہمارا جی بہلانے کے واسطے امی نے یہ مفید وموثر طریقہ کار نکالا کہ وہ محلے کی ایک آڈیو کیسٹ کی دکان سے ایک، ایک روپے روزانہ کرائے پر یہ بچوں کی کہانیوں کے کیسٹ لے آتیں اور پھر ہم اپنی بیماری میں آرام کرنے کے دوران لیٹے ہوئے یہ سنتے رہتے۔ اس کہانی سننے نے یقیناً تخیل اور سیکھنے کے عمل کو خوب مہمیز کیا۔

اس کہانی کی بہت سی آوازیں، بہت سے مکالمے اور بہت سے کردار آج بھی ہمارے ذہن میں محفوظ ہیں۔ کیسٹ کرائے پر لانا ہمیں، بالکل اچھا نہیں لگتا تھا، جیسے بڑے ہو کر ہم بہت کم ہی کبھی کرائے پر کتابیں لے کر یا عاریتاً کسی سے کوئی کتاب لے کر پڑھے۔ ہم کتابوں کے معاملے میں بھی 'ملکیت پسند' رہے، کوئی اچھی کتاب ہے، تو بس نئی یا پرانی، اپنی خرید لی، کسی سے ادھار لے کر کتاب یا رسالہ پڑھنا ہمیں کبھی نہیں بھایا۔ اسی طرح بچپن میں بھی ہم یہی ضد کرتے تھے کہ یہ کرائے کی نہیں، ہمیں تو اپنی ذاتی کیسٹ چاہیے، تو امی نے جیسے تیسے سمجھا کر ہمیں اس پر راضی رکھا، کہ اس سے بڑی کفایت سے کام چل رہا تھا۔

بہت سی کہانیاں ایک سے زائد بار بھی لا کر سنیں۔ کیسٹ کی کہانی سے امی کو یہ فائدہ ہوتا تھا کہ امی گھر کے کام کاج میں مصروف رہتیں اور ہم 'ٹیپ ریکارڈر' پر یہ سنتے رہتے، یعنی انھیں باقاعدہ بیٹھ کر ہمیں کہانی سنانے کی بچت ہو جاتی اور بیماری میں ہم کہانی پڑھنے کی مشقت سے باز رہ سکے۔ اسی عرصے میں ایک کیسٹ بچوں کی نظموں کی بھی دلوائی گئی تھی، جس میں بچوں کی بے شمار اردو کی نظمیں مختلف دھنوں کے ساتھ گائی گئی تھیں۔ جس میں چُنّا مُنّا دوچوزے تھے... پانچ چوہے گھر سے نکلے، کرنے چلے شکار... دیکھو ڈاکیا آیا ہے، ساتھ اپنے خط لایا ہے... میرے خدا میرے خدا وغیرہ آج بھی ذہن سے محو نہیں ہوئی ہیں۔

کہانیاں پڑھانا اور سنوانا، یہ دونوں عوامل ایسے تھے، جس نے ہماری اردو کو اتنا اچھا کر دیا کہ ہماری لکھائی اگرچہ اچھی نہ ہوئی، لیکن تحریری صلاحیتیں اور ذخیرۂ الفاظ کو اس سے بہت ڈھارس ہوئی۔ یہی نہیں اپنی زیادہ تعلیم نہ ہونے کے باوجود امی کی اردو بھی بہت شستہ اور معیاری رہی۔ خوش قسمتی سے ددھیال کی طرح ننھیال میں بھی 'آپ جناب' سے بات کرنے کا چلن عام تھا۔

بہت بے تکلفی ہوئی تو چھوٹوں یا برابر سے 'تم' تک تو بات آجاتی تھی، لیکن کبھی 'تو' کا انداز ہمارے ہاں نہیں رہا۔ اس طرح امی کے زیر سایہ اپنی مادری زبان اردو کے بہت سے روایتی الفاظ، محاورے اور مختلف ضرب المثل ایسے گُھٹی میں پڑگئے کہ آج تک کسی اچھی اردو کی کتاب میں وہ الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں، تو ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا اس لفظ کے اصل ہجے اس طرح ہوتے ہیں۔ ہماری امی کی بول چال کا یہ اندازبھی ہماری زبان کو بہتر کرنے میں آج تک معاون ہے۔

کہانیاں پڑھانے کا شوق دلانے کے ساتھ ساتھ ان کہانیوں کے موضوعات پر بھی ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ یہ نہیں کہ رسائل یا کہانیاں لا کر دے دیں اور پھر بے فکر ہوگئیں، جیسے آج کل بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما کر مائیں بے پروا ہوجاتی ہیں، جب ہمیں بچوں کی کہانیاں اور رسالے پڑھنے کا شوق ہوا تو پھر ہم ہر جمعے کی نماز کے بعد اپنے ابو کے ساتھ گھر آتے ہوئے مسجد کے باہر لگائی گئی ایک ٹیبل سے بچوں کا ایک رسالہ لیتے آتے۔ تب شاید ہم سات سال کے رہے ہوں گے، ہمیں وہ شمارے خوب یاد ہیں۔

غالباً چند مہینوں تک یہ سلسلہ تواتر سے چلا، جس میں اکثر کہانیوں کا موضوع کشمیر میں مظالم، کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور لڑائی وغیرہ ہوتا تھا۔۔۔ تصاویر میں بھی ایسے خاکے بنائے جاتے کہ لوگ سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے خون بہہ رہا ہے۔ امی نے جلد ہی اس پر گرفت کی۔ کہنے کو شاید آپ کو یہ بہت معمولی سی بات لگے، لیکن ان کا یہ قدم ہماری ذہنی تربیت اور افکار وخیالات کے تحفظ کے لیے ایک بہت عظیم قدم تھا، انھوں نے ہمارے اس رسالے کے پڑھنے پر مکمل پابندی لگا دی۔ اب ہم نے ان سے ہر طرح کے سوالات کیے کہ آخر ایسا کیوں؟

تو ان کا بہت مناسب اور جامع جواب تھا کہ یہ کہانیاں ذرا 'بڑے بچوں کے لیے ہیں، آپ ابھی چھوٹے ہیں!' بہرحال کسی نہ کسی طرح ہماری ضد کا بھی سدباب کیا اور اس کے بدلے میں پھر ہمیں باقاعدگی سے ماہ نامہ 'نونہال' لا کر دیا گیا اور یوں ہم اس رسالے کے باقاعدہ قاری ہوگئے۔

آج ہم بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھامے ہوئے اس دور میں پلٹ کر دیکھتے ہیں تو امی کے اس اقدام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس وقت ہماری امی ایسا نہ کرتیں، تو شاید ہمارے خیالات وافکار بہت مختلف اور غیر لچک دار رہ جاتے یا پھر ہم یہاں تک پہنچنے میں زندگی کے کچھ برس اور لگا دیتے یا شاید پہنچ ہی نہ پاتے۔۔۔! ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری امی کو صحت وعافیت کے ساتھ ہم پر سلامت رکھے، آمین۔''

ثمر بھائی کی والدہ کی یہ کہانی کہنے کو تو ایک ماں کی شاید ایک عام سی داستان ہے، جس میں کوئی بہت غیر معمولی جدوجہد یا کارنامہ تو موجود نہیں ہے، لیکن آج خود والدین کے درجے پر فائز ہو جانے والوں کو کم وبیش یہ کہانی کچھ اپنی اپنی سی ضرور لگے گی، یہی وجہ ہے کہ ہم نے 'عالمی یوم مادر' کے موقع پر اس کہانی کو قارئین ایکسپریس کے لیے پیش کیا اور اس وسیلے سے نہ صرف دنیا کی ساری ماؤں کو خراج تحسین پیش کیا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ آج کل کی ماؤں کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی یہ پیام دیا ہے کہ دیکھیے کہ نئی نسل کی تربیت کے لیے ماؤں کو کس قدر جاں فشانی اور تپسیا کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا آج کل کی مائیں اس پر غور کریں گی کہ ان معصوم بچوں سے ان کا کس قدر تعلق باقی رہا ہے، وہ ان کی ذہنی اٹھان اور نشوونما پر کس قدر گہری نظر رکھتی ہیں۔ ممکن ہے کہ آج بھی ایسی مائیں ہوں، جو بعینہٖ اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیت کر رہی ہوں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہوگی۔

جیسے ایک استاد کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ گر ہے، تو ماں تو مادرانہ شفقت اور مرتبے کے ساتھ استاذی کا درجہ لیے ہوئے اس سے کہیں زیادہ بادشہ گر ہے۔ وہ چاہے دنیاوی ضابطوں کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ یاغیر معمولی قابلیت کی حامل نہ ہو، لیکن وہ اس کے باوجود اگر وہ چاہے تو ہمارے سماج کے لیے ایک کارآمد، مکمل اور مفید شہری دے سکتی ہے۔

 
Load Next Story