مُعلّم ِ انسانیتﷺ

’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجیے۔‘‘ (القرآن)


Aneela Parveen September 20, 2012
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:’’اے محمدؐ! ہم نے تم کو تمام عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (سورۂ انبیا آیت107) فوٹو: رائٹرز

اﷲ نے قرآن نازل کیا تو اسے پیش کرنے اور اس کے اصول و مقاصد کو واضح کرنے اور اس کے مطابق زندگی کا عملی نمونہ مرتب کرکے دکھانے کے لیے حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو مبعوث فرمایا۔

یہ رسول کریمﷺ کا اعجاز ہے کہ آپؐ داعی قرآن بھی ہیں اور معلم قرآن بھی، آپؐ مبین قرآن بھی ہیں اور نمونۂ قرآن بھی۔

قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے رسول! جو کچھ آپؐ کے رب کی جانب سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے، آپؐ سب پہنچا دیجیے۔''

(سورۃ المائدہ67) رسول پاکؐ نے اﷲ کے کلام کا ہر لفظ پوری دیانت داری سے بنی نوع انسان تک پہنچایا اور اس کلام کا مفہوم اپنے ذاتی عمل سے سمجھایا۔ آپؐ نے قرآن کے خیالات، عقائد، معاملات اور اجتماعیت کا تزکیہ کیا۔ قرآن کے ہر پہلو کو اپنے ذاتی عمل سے اجاگر کیا اور عظیم معاشرہ قائم فرمایا۔ قرآن لفظوں میں مرتب شدہ ہے اور دوسرا قرآن عملی زندگی کے اوراق پر مشتمل رسول کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں جلوہ گر ہے۔

آپؐ کلام الٰہی کو پیش کرنے اور واضح کرنے والے اﷲ کے بااختیار اور سند یافتہ نمائندے ہیں۔ آپؐ نے لوگوں کے اخلاق اور صفات، رسم اور طریقوں کو برائی سے پاک کیا اور کتاب کی اصل غرض و غایت اور اس کا صحیح منشا بتایا۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:''اے نبیؐ! ہم نے آپؐ کو گواہ اور خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اﷲ کے حکم سے اﷲ کی طرف سے دعوت دینے والا اور ایک روشن آفتاب بناکر بھیجا ہے۔'' (سورۃ الاحزاب 45-46)

آپؐ کے حالات زندگی جامعیت کے ساتھ فراہم کیے، یہاں تک کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی کوئی بات آپؐ کی کوئی جسمانی حرکت و سکون، فرحت و انبساط اور غم و غصے کی کوئی ادا، بزم و رزم کی کوئی حرکت ایسی نہیں جو ضبط تحریر میں نہ آچکی ہو۔ارشاد ہوتا ہے:''اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔

اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اﷲ اور رسولؐؐ کی اطاعت قبول کرلو۔'' (سورۂ آل عمران آیت 32-31) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔ قلبی یقین، دلی محبت، آمادگی اور سپردگی کے ساتھ کسی کی پیروی کی جائے تو ہر ادا کی پیروی کو انسان اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے۔

چناں چہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر جو ایمان لائے گا، آپؐ کے ارشادات مانے گا، آپؐ کی پیروی کرے گا، وہی راہ راست پائے گا۔ رسول کریم ﷺ کی پوری زندگی تبلیغ دین میں گزری۔ تبلیغی کامیابی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مبلغ کو اپنے مشن سے ایسی لگن اور ایسا عشق ہو کہ وہ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھے۔ آپؐ نے اس کے لیے اپنی ہر متاع عزیز کو قربان کردیا۔

آپؐ کے یقین کی گرفت بہت زیادہ مضبوط اور مستحکم تھی۔ آپؐ بے لوث ہوکر آگے بڑھے۔ آپؐ کا انداز ایسا پراثر تھا کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ آپؐ ٹھہر ٹھہر کر جامع اور مختصر انداز سے گفتگو فرماتے تھے۔ آپؐ سراپا نمونہ عمل اور بلند اخلاق کے مالک تھے۔ قرآن کریم فرقان مجید میں ارشاد آیا ہے:''اور اے محمدؐ! یقیناً آپؐ اخلاق کے بڑے درجے پر فائز ہیں۔''

رسول مکرم ﷺ کی حیات مبارکہ از ابتدا تا انتہا ایک کھلی کتاب ہے جس کا مطالعہ کرکے ہر ایک ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات کی تکمیل کا ثبوت آپؐ کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:''اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجیے، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ! اور لوگوں سے مباحثہ کیجیے ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔'' (سورۃ النحل آیت 125) آپؐ نے جزوی اصلاح کے مقابلے میں کلی انقلاب کی جدوجہد کی۔

آپؐ کا اولین مقصد ہر مسلمان کی زندگی کو ہدایت الٰہی کے مطابق استوار کرنا تھا۔ آپؐ نے لوگوں کے خیالات، نظریات، اخلاق اور کردار کو سنوارا اور انہیں ایک بالکل نیا انسان بنا دیا۔ اسی طرح تمدن و معاشرے کی اصلاح فرما کر ایک نئے معاشرے کی داغ بیل ڈال کر اس کی تعمیر فرمائی۔ رسول کریم ﷺ نے طاغوت کو شکست دی اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔ بقول حضرت عائشہ:ؓ ''آپؐ کی زندگی سراپا قرآن تھی۔''

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:''اے محمدؐ! ہم نے تم کو تمام عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔'' (سورۂ انبیا آیت107)رسول عربی ﷺ نے مصائب میں صبر و استقلال کے ساتھ رہنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی اس پر خود بھی عمل کرکے دکھایا۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ زندگی کے ہر شعبے میں کیا جاسکتا ہے۔ حضور پرنور ﷺ ایک متحرک درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

گھر میں تشریف فرما ہوتے تو اطاعت و عبادت کے فضائل، امور خانہ داری اور عام معاشرتی مسائل کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا۔ مسجد میں تشریف لاتے تو اجتماع میں طہارت و عبادت، حلال، حرام، حقوق و فرائض، اخلاق و معاشرت، سیاست و معیشت کے نکات و معارف بیان فرماتے۔ مجاہدین کا لشکر جرار جہاد کے لیے کوچ کرتا تو اثنائے سفر اور عین میدان جنگ میں خدا پرستی اور اخلاص مقصد کا سبق دیتے۔

آپؐ انسان ہوتے ہوئے بھی صبروتحمل، حوصلہ، ضبط، فراخ دلی اور وسعت قلبی سے برائی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کا سلوک فرماتے۔ آپؐ مقام انسانیت کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔

دربار نبوی ﷺ میں کوئی غریب نہ چھوٹا تھا اور نہ ہی کوئی دولت مند بڑا۔ کبھی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ سلام میں سبقت، بچوں سے شفقت، کسی کی دل شکنی نہ کرنا، شیریں کلامی کے ساتھ بات کرنا، آپ ﷺ کا مزاج تھا۔ بحیثیت منصف، بحیثیت سپہ سالار، بحیثیت معلم اخلاق، بحیثیت مصلح معاشرہ، بحیثیت قانون ساز، بحیثیت ماہر معاشیات و اقتصادیات، غرض زندگی کے ہر پہلو میں اﷲ کے رسول ﷺ کی قائدانہ صلاحیتیں اعلیٰ مقام پر تھیں۔ آپؐ نے ہر مرحلے پر اور ہر دور کے حالات کے مطابق دعوت دین کی راہیں ہموار کیں۔

آپؐ نے قوموں، قبیلوں، خاندانوں، گروہوں، افراد سب کو اسلام سے روشناس کرایا۔ مدنی دور میں اسلام کے نظم و نسق کی بنیاد کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ مدینے کے یہودیوں کے ساتھ بین الاقوامی اصولوں پر صلح و امن کے تعلقات اعلیٰ اصول پر قائم کیے اور نئے تمدن اور نئی تہذیب کو جنم دیا۔ ایسے ہی انسان کامل کہلاتے ہیں جن کا کمال ہر شعبۂ زندگی میں نظر افروز اور ہمت افزا ہو، جن کی جامعیت سے انسانیت کا کوئی شعبہ خارج نہ ہو۔

پیغمبرانہ دعوت میں تعلیم و تربیت اور علم و عمل کا اتحاد ایک حقیقت ہے۔ آپؐ نے قدیم وحشیانہ جنگلی طریقوں کی اصلاح کی اور جدید قانون صلح و جنگ کو عملاً نافذ کیا۔ اپنے ساتھیوں کو آداب جنگ کی تعلیم دی۔ وقت بوقت تیر اندازی ،گھڑسواری اور نیزے بازی میں حصہ لے کر مجاہدین کے شوق کو بڑھایا۔

اپنی صفات حسنہ کی بدولت دنیا کو توحید و محبت، اخوت و مساوات اور آزادی کا درس دیا۔ چوں کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے، اس لیے آپؐ کو قیامت تک کے لیے نسل انسانی کا معلم، ہادی اور مربی قرار دیا گیا۔ آپؐ نے پہلے تزکیہ نفس کیا اور اپنے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کی، آپؐ کی حیات طیبہ سے بہتر نمونہ تاریخ انسانی میں نہیں ملتا کہ افلاس میں زندگی کیسے بسر کی جائے، مال کے حصول کے بعد زندگی کا کیا ڈھب ہو، ایمان داری سے تجارت کس طرح کی جائے، زراعت میں نفع اندوزی سے کس طرح پرہیز کیا جائے، ضرورت سے زائد مال کا کیا مصرف ہے، عورتوں اور مردوں کے حقوق و فرائض میں مساوات کیسے پیدا کی جائے۔

صلح و جنگ کے آئین کیا ہوں، مسلمانوں کو آپس میں کیسا برتاؤ کرنا چاہیے، غیر مسلموں سے کیسا سلوک کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر زمانے کے مخصوص مزاج کے لحاظ سے پیغمبرانہ اصول دعوت کی تعمیر کی جائے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:''حقیقت میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا، جب کہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور انہیں کتاب اور فہم کی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔'' (سورۂ آل عمران آیت 164)

ﷲ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضور ﷺ اور قرآن کی نعمتیں عطا کیں، اس لیے مسلمانان عالم کا فرض ہے کہ وہ اپنے اصل نصب العین کو فراموش نہ کریں۔ آج کی دنیا کے گوناگوں مسائل مثلاً سیاسی، اخلاقی، معاشرتی، انفرادی، اجتماعی، داخلی، خارجی اور قومی مسائل کا حل صحیح سمت اختیار کرنے میں ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت پر یقین یعنی اﷲ کو حاکم اعلیٰ، سلسلۂ نبوت کو ذریعہ ہدایت اور روز جزا کی جواب دہی کا احساس ہر لمحہ تازہ رکھا جائے تو عہد جدید کے مسائل کا حل آسانی سے مل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں