یورپ کی ڈائری بمع سپر نیشنلزم
باجوہ صاحب آپ کو کبھی توتا کہانی کے اسلوب میں کوئی سبق دیتے دکھائی دیں گے اور کبھی وہ سیدھا سیدھا بتائیں گے
ترک وطن کر جانے والوں کا ادب کیسا ہوتا ہے؟ ایک بار بہت سی تحریریں اس موضوع پر میری نگاہ سے گزریں۔ یوں معلوم ہوا کہ جیسی بہت سی کیفیات پلٹ کر دیکھنے میں ہو سکتی ہیں، اتنی ہی مختلف پرتیں اس نوعیت کے ادب کی بھی ہوتی ہیں۔
نسیم احمد باجوہ صاحب کے کالم پڑھے تو خیال آیا کہ اگر ایسی کیفیات ادب میں راہ پا سکتی ہیں تو پھر کالم میں کیوں نہیں؟ کالم کے ساتھ واردات تو اب ہوئی ہے کہ جسے دو چار سطریں گھسیٹنی آ گئیں ہیں، وہ کالم نگار بن گیا ورنہ اخبار میں چھپنے والے کالم کا شمار تو اب تک ادب عالیہ میں ہی کیا جاتا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے ہمارے بزرگوں کے اخباری کالموں کے ذریعے تخلیق ہونے والا ادب ؛ ادب کے ہر معیار پر پورا اترتا تھا۔
جہاں تک باجوہ صاحب کے قلم سے نکلنے والے ادب یا کالموں کا معاملہ ہے، اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے اور وہ جو کچھ ہمیں بتاتے ہیں، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ترک وطن کر جانے والوں کے ادب کے بارے میں اناس تاسیا کرسٹو نامی محققہ اور نقاد نے بڑی دل چسپ باتیں کہہ رکھی ہیں۔ اس کے مطابق ایسا ادب عجیب و غریب کیفیات کا گورکھ دھندا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہے کہ دل کی دنیا میں ہل چل مچانے والی یادیں، بہت کچھ چھوٹ یا بچھڑ جانے کا صدمہ، جس دنیا میں وہ جا بسے ہوتے ہیں، اس کے مختلف ہونے کا احساس اور اس احساس کے نتیجے میں اپنی بنیادی قومیت اور شناخت پر بڑھا ہوا اصرار اس ادب کی پہچان ہے۔ یہ کیفیت جس کے لیے میں نے احساس کا لفظ استعمال کیا ہے، اس کے لیے اگر ضد کا لفظ استعمال کر لیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ترک وطن کر جانے والوں کی ضد بڑی رومانی قسم کی ہوتی ہے۔ ہمارے فیض صاحب اسی کے بارے میں کہہ گئے ہیں
مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر، کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
اس کا مطلب یہ ہے کہ ترک وطن کر جانے والوں کے ادب میں صرف قوم پرستی نہیں ہوتی، اس سے بڑھ کر کوئی چیز ہوتی ہے۔ زبان کے معاملے میں میرے جیسے کوتاہ قامت کے پاس اس کے اظہار کے لیے کوئی اردو ترکیب تو میسر نہیں ہے لیکن اگر انگریزی سے مدد لی جائے تو یہ شاید سپر نیشنلزم کہلائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ سپر نیشنلزم بھی دو قسم کا ہوتا ہے۔ ان قسموں کو سمجھنے کے لیے میں نے ایک بار پھر اناسی تاسیا کرسٹو سے رجوع کیا۔ یہ خاتون بھاری بھرکم فلسفیانہ اصطلاحوں میں بات کرتی ہے لہذا اس کا کوئی قول نقل کرنے کی ہمت تو میں اپنے اندر نہیں پاتا اس لیے آسانی کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اس کی ایک شکل ہم نے حال ہی میں دیکھ رکھی ہے۔ کوئی بات مرضی کے خلاف ہوگئی تو ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے قومی پرچم کی توہین کر دی۔
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنے پاسپورٹ پھاڑ کر نذر آتش کر دیے۔ معلوم ہوا کہ سپر نیشنلزم کی تہذیب نہ ہو پائے تو جذبہ تمام حدود پھلانگ کر شرمندگی کا سامان پیدا کر دیتا ہے لیکن اگر اسی جذبے کی تہذیب ہو جائے تو وہ اس کی اعلیٰ بلکہ مقدس صورت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ مقدس صورت کیا ہوتی ہے؟ میرے خیال میں اس کی صورت گری کرنے کے لیے مجھے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یوروپ کی ڈائری ہمارے ہاتھوں میں ہے، اسے پڑھ لیجئے۔ باجوہ صاحب آپ کو کبھی توتا کہانی کے اسلوب میں کوئی سبق دیتے دکھائی دیں گے اور کبھی وہ سیدھا سیدھا بتائیں گے کہ بھائیو، ہوش کے ناخن لو، یہ نیا ڈوبتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس کیفیت میں درد مندی کے ساتھ تعمیر کا ایسا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے جو ہمیں یوروپ کی ڈائری میں دکھائی دیتا ہے۔
سپر نیشنلزم اور اس کی راہ سے جنم لینی والی درد مندی اور اخلاص کی یہ کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بیان کے لیے ہمیں اقبال علیہ رحمہ سے مدد لینی پڑے گی۔ وہ فرماتے ہیں ع
بڑی مشکل سے ہوتا ہے دیدہ ور پیدا
یہ مبارک جذبہ بھی اسی دیدہ ور جیسا ہے جس کے پیچھے وطن سے آنے والے، ٹیلی فون، کل کے خط یا آج کے واٹس ایپ پیغامات کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پیغامات کیسے ہوتے ہیں؟ کسی نے ان کی صورت بیان کرتے ہوئے ایک خط کی مثال دی تھی جس میں بتایا گیا تھا:
' دادا جان انتقال کر گئے ہیں، نانی اماں کو لقوہ ہو گیا ہے اور خالہ کی بھینس چوری ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔'
بس، یہ خط ہی قیامت کا ایسا نامہ ہے جو خرابی کی ایسی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کا کوئی توڑ ابھی تک ہمیں میسر نہیں آ سکا۔ مکتوب نگار تو باقی سب خیریت ہے لکھ کر اپنی ذمے داری سے فارغ ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ پڑھنے والا سمجھ دار ہے، اس نے دنیا دیکھ رکھی ہے۔ دی گئی چند بد خبریوں کے بعد خود بہ خود جان جائے گا کہ بہت ساری اچھی باتیں بھی گھر میں ہوئی ہوں گی لیکن وہ سادہ لوح ہرگز نہیں جانتا کہ اس کا وہ پیارا جو گھر بار چھوڑ کر دیار غیر میں جا بسا ہے، اس کا معاملہ اب پہلے جیسا نہیں رہا کہ گھر سے نکلے تو ڈیرے تک اور ڈیرے سے نکلے تو پیلیوں یعنی کھیتوں تک اور وہاں سے ہو کر چوپال میں جا بیٹھے۔ اس کے دکھ اور مصروفیات اب مختلف ہیں۔ تمھارے اشارے اسے الجھا دیتے ہیں۔ اس کی پرواز خیال دور دور تک جا پہنچتی ہے اور مجبور ہو کر وہ حضرت داغ دہلوی کی طرح سوچتے ہوئے یہ پوچھنے لگتا ہے ع
تمھارے خط میں اک نیا سلام کس کا تھا؟
بات زیادہ علامتی نہ ہو جائے اس لیے دو ٹوک وہی بات عرض کرتا ہوں جس پر ہمارے باجوہ صاحب سب سے زیادہ زور دیتے ہیں یعنی صدارتی نظام۔ اس مقصد کے لیے وہ جو دلائل پیش کرتے ہیں، سچ جانیں تو دل کو لگتے ہیں کیوں کہ اس میں درد مندی جھلکتی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے یہاں سے جانے والا پیغام باقی سب خیریت ہے؛ جو طوفان اٹھا سکتا تھا، اٹھا چکا ہے۔
اگر اس آدھے ادھورے پیغام نے بتایا ہو تا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو اس کے پس پشت یہی نا مراد صدارتی نظام تھا اور اگر خدا نہ خواستہ آئندہ کوئی حادثہ ہوا تو اس کا ذمے دار بھی یہی ہو گا کیوں کہ یہ ایسا بدصورت نظام ہے جس میں اگر کوئی ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب سے حمایت حاصل کر لے تو اسے نہ بلوچستان جانے کی ضرورت ہوگی، نہ سندھ کی اور نہ خیبر پختونخوا کی۔ یہ نظام ہماری اکائیوں کو صرف تنہائی میں نہیں بلکہ حد سے بڑھے ہوئے احساس محرومی میں مبتلا کر دے گا۔