9 مئی کے ملزم
حملہ آوروں کو روکا کیوں نہیں گیا تھا، جس ادارے پر حملہ ہوا اس ادارے والے پولیس کی طرح من مانی کرنے میں آزاد نہیں
سانحہ 9مئی کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی ملزمان سزاؤں سے محفوظ ہیں کیونکہ آئین کے تحت اعلیٰ عدالت میں اس سلسلے میں معاملات زیر سماعت ہیں اور 1973 کے آئین اور موجودہ جمہوری نظام میں سانحے کے متاثرین بھی مجبور ہیں اور ذمے داران جن کے خلاف واضح ثبوت بھی موجود ہیں اب تک سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں مگر اپنے کردہ جرائم کے باعث ایک سال سے قید ضرور ہیں اور ایک سال میں ان پر کیا گزری یہ وہی جانتے ہیں یا انھیں قید رکھنے والوں کو پتا ہے کہ ان پر ایک سال کیسا گزرا۔
9 مئی کے اصل متاثرین جن پر حملے ہوئے تھے، اہم جگہیں جلائی گئیں، شہدا کے مجسموں اور یادگاروں کی دن دہاڑے بے حرمتی ہوئی۔ان کے ملزم ابھی تک سزا نہیں پا سکے۔سانحہ 9 مئی حقیقت ہے جس کا ریکارڈ ثبوت موجود ہے۔ 9 مئی اسی ادارے پر حملہ تھا جس کے جوانوں کی اکثریت سیاست سے دور اور آئے دن اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دو صوبوں کے پی اور بلوچستان میں فوجی سپاہیوں، افسروں اور ایک جنرل تک دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
یہ وہی ملک کا مضبوط اور متحد و منظم ادارہ ہے جن کا مقصد ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرنا ہے، اور اس ادارے کا ملک میں احترام ہوتا آیا ہے جو اپنی دلیری اور کارکردگی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کو اقتدار بھی اسٹیبلشمنٹ نے دلایا تھا ۔ اس ادارے کے ساتھ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کو بھی متنازع بنا دیا گیا اور سیاسی رنگ دے دیا گیا۔
کیا کبھی پولیس کے اعلیٰ افسر کی رہائش گاہ، پولیس ہیڈ کوارٹر اور کسی پولیس دفتر بھی ایسا حملہ ہوا نہیں مگر سیاسی انتقام کے باعث9 مئی کو عسکری مقامات کو نشانہ بنوایا گیا اور اس واقعے سے پہلے ہی بانی پی ٹی آئی نے بتا دیا تھا کہ احتجاج کہاں ہونا ہے۔
9 مئی کے حملے اتفاقی یا اچانک نہیں تھے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت تھے اور بانی چیئرمین کی گرفتاری پر احتجاج کے نام پر نہیں بلکہ عسکری مقامات پر جان بوجھ کر حملہ کرایا گیا تھا کیونکہ حملوں کے پس پردہ منظم ادارے کو نقصان پہنچانا تھا مگر ادارے کے داخلی استحکام کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور پی ٹی آئی کے وہ مذموم مقاصد پورے نہ ہو سکے جس کی توقع میں 9 مئی برپا کرایا گیا۔
پولیس کے سپاہی کی وردی پر کسی شہری کی انگلی بھی لگ جائے تو وہ جرم بن جاتی ہے اور پولیس کی قانونی دفعات لاگو ہو جاتی ہیں مگر 9 مئی کو منصوبے کے تحت عسکری مقامات پر حملہ کرنے والوں سے پی ٹی آئی کے بانی کبھی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، کبھی 9 مئی کے سانحے کو مانتے نہیں، کبھی وہ انھیں حکومت کی سازش لگتا ہے، کبھی وہ اس ادارے کو ہی اس کا ذمے دار قرار دے دیتے ہیںکہ ادارے نے حملے ہونے ہی کیوں دیے۔
حملہ آوروں کو روکا کیوں نہیں گیا تھا، جس ادارے پر حملہ ہوا اس ادارے والے پولیس کی طرح من مانی کرنے میں آزاد نہیں بلکہ ادارے کے مقررہ ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں نہ انھیں اوپری حکم کے بغیر کچھ کر لینے کی اجازت ہوتی ہے اور یہی ان کی مجبوری تھی کہ وہ اپنی املاک پر حملے اور انھیں جلایا جانا بے حرمتی ہونا اور خاموشی سے اپنی تباہی دیکھتے رہے۔
آئین کے برعکس ادارے کے بعض بڑے من مانی کرکے محفوظ رہتے ہیں وہاں فوج میں ڈسپلن کی سختی سے پابندی لازمی ہے جہاں کسی کو قانون کو ہاتھ میں لینے پر اداراتی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ادارے کے بعض اہلکار اپنوں کی حمایت میں کوئی غیر قانونی حرکت کر جائیں تو انھیں اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ پولیس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پولیس نے جان بوجھ کر کسی شہری کی جان لے لی ہو تو اس اہلکار کو پھانسی ہوئی ہو مگر فوج میں ایسا ہوا ہے اور ماضی میں حیدرآباد ضلع میں دیہاتیوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ایک فوجی میجر کو ادارے نے بطور سزا پھانسی دی تھی۔
9 مئی کو ایک سال ہو گیا جس کے ذمے داروں کی گرفتاری پولیس نے کی تھی جس میں بے گناہ بھی پکڑے گئے ہوں گے جو تفتیش میں بے گناہ ثابت ہو کر رہا بھی ہوئے ہوں گے اور بعض معمولی سزاؤں کی مدت پوری ہونے پر رہا کیے گئے جس سے عدالت عظمیٰ کو بھی آگاہ کیا گیا مگر 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کا کچھ نہیں بگڑا اور ادارے کی مجبوری ہے کہ اس کے ملزمان نہ صرف سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں بلکہ مفرور اور گرفتار ملزمان عدالتوں کے باعث ایوانوں ہی نہیں اقتدار میں بھی پہنچ گئے اور سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرکے سزاؤں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اب یہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دے۔
9 مئی کے اصل متاثرین جن پر حملے ہوئے تھے، اہم جگہیں جلائی گئیں، شہدا کے مجسموں اور یادگاروں کی دن دہاڑے بے حرمتی ہوئی۔ان کے ملزم ابھی تک سزا نہیں پا سکے۔سانحہ 9 مئی حقیقت ہے جس کا ریکارڈ ثبوت موجود ہے۔ 9 مئی اسی ادارے پر حملہ تھا جس کے جوانوں کی اکثریت سیاست سے دور اور آئے دن اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دو صوبوں کے پی اور بلوچستان میں فوجی سپاہیوں، افسروں اور ایک جنرل تک دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
یہ وہی ملک کا مضبوط اور متحد و منظم ادارہ ہے جن کا مقصد ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرنا ہے، اور اس ادارے کا ملک میں احترام ہوتا آیا ہے جو اپنی دلیری اور کارکردگی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کو اقتدار بھی اسٹیبلشمنٹ نے دلایا تھا ۔ اس ادارے کے ساتھ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کو بھی متنازع بنا دیا گیا اور سیاسی رنگ دے دیا گیا۔
کیا کبھی پولیس کے اعلیٰ افسر کی رہائش گاہ، پولیس ہیڈ کوارٹر اور کسی پولیس دفتر بھی ایسا حملہ ہوا نہیں مگر سیاسی انتقام کے باعث9 مئی کو عسکری مقامات کو نشانہ بنوایا گیا اور اس واقعے سے پہلے ہی بانی پی ٹی آئی نے بتا دیا تھا کہ احتجاج کہاں ہونا ہے۔
9 مئی کے حملے اتفاقی یا اچانک نہیں تھے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت تھے اور بانی چیئرمین کی گرفتاری پر احتجاج کے نام پر نہیں بلکہ عسکری مقامات پر جان بوجھ کر حملہ کرایا گیا تھا کیونکہ حملوں کے پس پردہ منظم ادارے کو نقصان پہنچانا تھا مگر ادارے کے داخلی استحکام کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور پی ٹی آئی کے وہ مذموم مقاصد پورے نہ ہو سکے جس کی توقع میں 9 مئی برپا کرایا گیا۔
پولیس کے سپاہی کی وردی پر کسی شہری کی انگلی بھی لگ جائے تو وہ جرم بن جاتی ہے اور پولیس کی قانونی دفعات لاگو ہو جاتی ہیں مگر 9 مئی کو منصوبے کے تحت عسکری مقامات پر حملہ کرنے والوں سے پی ٹی آئی کے بانی کبھی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، کبھی 9 مئی کے سانحے کو مانتے نہیں، کبھی وہ انھیں حکومت کی سازش لگتا ہے، کبھی وہ اس ادارے کو ہی اس کا ذمے دار قرار دے دیتے ہیںکہ ادارے نے حملے ہونے ہی کیوں دیے۔
حملہ آوروں کو روکا کیوں نہیں گیا تھا، جس ادارے پر حملہ ہوا اس ادارے والے پولیس کی طرح من مانی کرنے میں آزاد نہیں بلکہ ادارے کے مقررہ ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں نہ انھیں اوپری حکم کے بغیر کچھ کر لینے کی اجازت ہوتی ہے اور یہی ان کی مجبوری تھی کہ وہ اپنی املاک پر حملے اور انھیں جلایا جانا بے حرمتی ہونا اور خاموشی سے اپنی تباہی دیکھتے رہے۔
آئین کے برعکس ادارے کے بعض بڑے من مانی کرکے محفوظ رہتے ہیں وہاں فوج میں ڈسپلن کی سختی سے پابندی لازمی ہے جہاں کسی کو قانون کو ہاتھ میں لینے پر اداراتی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ادارے کے بعض اہلکار اپنوں کی حمایت میں کوئی غیر قانونی حرکت کر جائیں تو انھیں اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ پولیس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پولیس نے جان بوجھ کر کسی شہری کی جان لے لی ہو تو اس اہلکار کو پھانسی ہوئی ہو مگر فوج میں ایسا ہوا ہے اور ماضی میں حیدرآباد ضلع میں دیہاتیوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ایک فوجی میجر کو ادارے نے بطور سزا پھانسی دی تھی۔
9 مئی کو ایک سال ہو گیا جس کے ذمے داروں کی گرفتاری پولیس نے کی تھی جس میں بے گناہ بھی پکڑے گئے ہوں گے جو تفتیش میں بے گناہ ثابت ہو کر رہا بھی ہوئے ہوں گے اور بعض معمولی سزاؤں کی مدت پوری ہونے پر رہا کیے گئے جس سے عدالت عظمیٰ کو بھی آگاہ کیا گیا مگر 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کا کچھ نہیں بگڑا اور ادارے کی مجبوری ہے کہ اس کے ملزمان نہ صرف سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں بلکہ مفرور اور گرفتار ملزمان عدالتوں کے باعث ایوانوں ہی نہیں اقتدار میں بھی پہنچ گئے اور سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرکے سزاؤں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اب یہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دے۔