نصیحت اور ہدایت

آج کل کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو نصیحتیں کرتا پھرے

آج کل کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو نصیحتیں کرتا پھرے. فوٹو: فائل

کسی کو نصیحت کرنا یا اسے اچھی بات بتانا گویا اس پر احسان کرنا ہے۔

لیکن عام طور سے لوگ اس احسان کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں۔

جب کہ قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہورہا ہے کہ نصیحت کیا ہے، کسے کی جاتی ہے اور اس سے کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ پھر مسلمانوں پر تو یہ اﷲ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انہیں اپنی آخری کتاب کا تحفہ دے کر ان پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس کتاب کے بعد انہیں کسی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اس کتاب کی موجودگی میں یہ لوگ صحیح راستے سے نہیں بھٹک سکتے اور نہ کوئی انہیں گمراہ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اس مقدس اور حق کتاب کو پورے اہتمام کے ساتھ اپنے دلوں میں بسالیں اور اپنی زندگیوں میں اس کے مطابق عمل کریں۔ قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے سرچشمۂ حیات ہے اور ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں جن کے ہدایت اور راہ نمائی کے لیے یہ کتاب نازل فرمائی گئی ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:''لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔''( سورۂ یونس آیت 57)

اس میں قرآن کریم کی آمد کی خوش خبری دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ صرف الہامی کتاب ہی نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت کچھ ہے، بلکہ سبھی کچھ ہے۔ اس میں نصیحت بھی ہے۔

یہاں نصیحت سے مراد راہ نمائی ہے اور ایسی راہ نمائی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس راستے پر چلنا ہے اور کس سے بہرصورت بچنا ہے۔ اس کے بعد بتایا جارہا ہے کہ اس کتاب مقدس میں دوسری چیز یہ ہے کہ اس میں ایسے ایسے نسخے بیان کیے گئے ہیں جن سے دل کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔ انسان کو دو طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ایک جسمانی بیماریاں اور ایک ذہنی یا دل کی بیماریاں۔

جسمانی بیماریاں اسے زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہنے دیتیں اور ذہنی یا دل کی بیماریاں اسے ایک ٹھیک ٹھاک انسان نہیں رہنے دیتیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو انسان دل کی یا ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے، وہ انسان نہیں رہتا، بلکہ انسانیت کے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ ایسا انسان خدا کا نافرمان بھی بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے انسانیت کرب و اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

ان بیماریوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان اسلامی تعلیمات کو گلے سے لگائے اور خدائے واحد کے پیغام حق کو قبول کرے۔ قرآن کریم سے بڑھ کر تو کوئی راہ نما ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی اور ہدایت ہوسکتی ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری ہے:''یہ قرآن لوگوں کے لیے بیان صریح اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔'' (آل عمران آیت 138)

اہل ایمان غور فرمائیں تو معلوم ہوجائے گا کہ وعظ و نصیحت کسے کہا جارہا ہے۔ بلاشبہہ یہ قرآن کریم ہے جو کتاب حق ہے اور اہل دنیا کے لیے سلامتی اور امن کا پیغام لے کر نازل ہوئی ہے۔ بلاشبہہ اس میں دنیا والوں کے لیے قیامت تک کے لیے راہ نمائی بھی ہے اور ہدایت بھی۔ یہ قرآن ہی تو ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں کیوں اور کس لیے بھیجا گیا ہے اور یہ کہ دنیا میں ہماری آمد کابنیادی مقصد ہمارے رب نے کیا مقرر کیا ہے۔

پھر اسی کتاب کی نصیحت و ہدایت کی روشنی میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہم کس حد تک ہدایات ربانی پر پورے اتر رہے ہیں اور کہاں کہاں ہم سے نافرمانیاں ہورہی ہیں۔


ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو صحیح راستہ بتانے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، ان کی اس خدمت اور ان کے اس جذبے کی قدر کرنے کے بجائے ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور نکتہ چینی بھی۔

حالاں کہ ہمیں صحیح راستہ بتانے والوں یا دوسرے الفاظ میں نصیحت کرنے والوں کا احسان ماننا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں اچھا جان اور سمجھ کر ہماری راہ نمائی کی کوشش کی اور اپنے حساب سے ہمارا بھلا چاہا، مگر لوگوں کی تنقید ہمارا راستہ روک دیتی ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب اہل ایمان کا اصل امتحان ہوتا ہے۔

اگر وہ اپنے عقیدے اور ایمان میں پختہ ہوتے ہیں تو کوئی بھی چیز انہیں بھٹکا نہیں سکتی، لیکن اگر وہ کمزور ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے ایمان میں مضبوط نہیں ہوتے تو وہ جلد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور ان کے راہ حق سے بھٹکنے کا امکان ہوتا ہے۔

ایسے لوگ اگر قرآن کو سینے سے لگائے رکھیں تو اپنے پروردگار کے ارشاد کے مطابق کامیاب ہوں گے، کیوں کہ وہ خود فرمارہا ہے کہ ''یہ قرآن لوگوں کے لیے بیان صریح اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔''مزید ارشاد ہوتا ہے:''ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔ تم ان (کی باتوں) کا کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں۔''

(سورۃ النساء آیت63)یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ وہ یہ کہ بعض لوگ تنقید اور نکتہ چینی سے گھبرا جاتے ہیں اور اسی لیے ان کا وعظ و نصیحت کا جذبہ بھی ماند پڑجاتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں یہ ارشاد ہورہا ہے کہ جو لوگ تم پر تنقید کرتے ہیں یا تمہارا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، تم ان کی پروا مت کرو۔ اﷲ ان کے دل کی باتوں کو خوب جانتا ہے۔

اس لیے تم انہیں نصیحت کرنے کے عمل کو ترک نہ کرو اور اس کام میں مسلسل لگے رہو، اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں۔ گویا ہمارا رب چاہتا ہے کہ ہم وعظ و نصیحت کے کام کو نہ تو ملتوی کریں اور نہ ختم کریں، نہ جانے کب ان کے دلوں پر اثر ہوجائے۔

وعظ و نصیحت ہمیشہ دوسروں کی اصلاح اور ان کی راہ نمائی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ان سے دوسروں کو یقینی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کو نصیحت کررہا ہے تو اس کے پیچھے آپ کے ساتھ اس کی محبت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، ورنہ کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ کسی کو نصیحت کرنے میں اپنا وقت برباد کرے۔

آج کل کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو نصیحتیں کرتا پھرے، ویسے بھی لوگ وقت کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں، ایسے میں اگر کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کا بھلا چاہتا ہے تو یہ اس کے خلوص کا مظہر ہے۔ ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے اور ان کے وعظ و نصیحت کو توجہ سے سننا چاہیے۔

بعض لوگ اپنے سے بڑوں اور بزرگوں کی نصیحت کو غور سے سنتے ہیں اور انہیں قبول کرتے ہوئے ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس سے یقیناً انہیں فائدہ ہوتا ہے۔ اگر فوری فائدہ نہیں پہنچتا تو بعد میں آنے والے وقت میں ضرور ہوتا ہے۔ دوسری جانب بعض نادان لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی بزرگ یا بڑے کی نصیحت مشکل سے ہی سنتے ہیں اور اکثر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں۔

جب کہ بعض لوگ تو نصیحت کو سننے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے، بلکہ وہ دوسروں کے نصیحت کرنے پر برا بھی مانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اچھی باتوں کو سننے اور قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ ان کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ جو نصیحت انہیں بالکل بے لوث انداز سے کی جارہی ہے، ان کے دل ان نصیحتوں کو قبول نہیں کرتے۔

تاج دار انبیاءﷺ کا طریقہ تھا کہ لوگوں کو اچھی باتیں بتائی جائیں، انہیں خوش خبریاں سنائی جائیں، انہیں ڈرانے یا خوف زدہ کرنے والی باتیں بتاکر مایوس اور دل شکستہ نہ کیا جائے۔سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:''دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انہیں متنفر نہ کرو۔''

اس ارشاد رسولؐ میں کتنی بڑی ہدایت پوشیدہ ہے۔ ہمارا دنیاوی اور معاشرتی مزاج کچھ ایسا ہے کہ ہم اچھی باتیں سننا چاہتے ہیں، خوش خبریوں کے متمنی رہتے ہیں۔ ڈر اور خوف والی باتیں سن کر ہم خود بھی پریشان اور خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی باتیں ہر گز نہ سنیں جن سے ہمارے اعصاب کشیدہ اور دل پریشان ہوتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے اہل ایمان کو یہ ہدایت فرمائی کہ ''دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوش خبری سناؤ اور زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انہیں متنفر نہ کرو۔''
Load Next Story