مسجد اسلامی وحدت کا مرکز
’’مسجدیں اﷲ کے لیے ہیں لہٰذا ان میں اﷲ کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔‘‘
مساجد اﷲ کے گھر اور اسلام کے سب سے بڑے مراکز ہیں جہاں اہل ایمان دن رات عبادات کرتے ہیں۔
اﷲ نے قرآن مجید میں بار بار مساجد کی فضیلت اور اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:''بے شک! سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے قائم کی گئی، وہ وہی ہے جو مکے میں واقع ہے۔
اسے خیر و برکت دی گئی اور تمام جہانوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔'' (سورۂ آل عمران 96)
اسی طرح سورۂ نور میں ارشاد ہوا:''نور کی ارضی جلوہ گاہیں مساجد ہیں۔ اس کے نور کی طرف ہدایت ( پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اﷲ نے حکم دیا ہے۔'' (سورۃ النور36)
یہاں گھروں سے مراد مسجدیں ہے اور مسجد کا لفظ سجدہ سے نکلا ہے یعنی وہ پاک جگہ جہاں اﷲ کی بندگی کی جاتی ہے اور اسے سجدہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں جہاں مسلمان پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، وہ جگہ مسجد کہلاتی ہے۔
سرکار دوعالم ﷺ کو یہ منفرد اور عظیم اعزاز عطا ہوا کہ آپؐ کی امت کے لیے تمام زمین مسجد بنا دی گئی۔ اﷲ اور اس کے محبوب کریم ﷺ نے مساجد کی تعمیر کرنے اور انہیں آباد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں آباد کرنے اور انہیں تعمیر کرنے والوں کی صفات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:''اﷲ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو اﷲ اور روز آخرت کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوۃ دیں اور اﷲ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں جہاں اس کے سو ا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔'' (سورۃ التوبہ18)
اﷲ رب العزت نے بنی آدم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اے بنی آدم! ہر مسجد میں یا ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت آراستہ رکھو۔'' (سورۃ الاعراف31)
سورۂ جن میں ارشاد ہوا:''مسجدیں اﷲ کے لیے ہیں لہٰذا ان میں اﷲ کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔''
مساجد کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ کے ارشادات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
٭''جس نے اﷲ کی رضا کے لیے مسجد بنوائی، اﷲ نے اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا۔''
٭''اﷲ کی محبوب ترین جگہیں مساجد ہیں۔''
٭''جس شخص کو مسجد سے محبت کرتے ہوئے اور اس کی خدمت کرتے ہوئے دیکھو، اس کے مومن ہونے کی شہادت دو۔''
''جب تم کسی شخص کو مسجد میں آنے کا عادی پائو تو اس کے گواہ بن جائو۔''
حضور پاک ﷺ نے جب مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو قبا کے مقام پر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی، اس کے بعد مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، وہ مسجد نبوی ﷺ ہے۔ اسی مسجد کو ملت اسلامیہ کی عظیم درس گاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اﷲ کے رسول کریم ﷺ نے اسی مقام پر صحابہ کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق فرمائی۔ گویا اسلامی تعلیم کا آغاز مساجد سے ہوا، یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور تاقیامت رہے گا۔
مسجد مسلمانوں کی اجتماعی وانفرادی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی وعظ و نصیحت، درس و تدریس اور اجتماعی عبادات کے لیے مساجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
حضور ﷺنے اسلامی تعلیمات کی شمع مسجد نبوی میں روشن کی۔ مساجد ہر دور میں اسلام کے مرکز رہی ہیں۔ خلفائے راشدین اور مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں بے شمار مساجد تعمیر کرائیں جہاں قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مساجد لوگوں کی فلاح کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہاں سے لوگوں کو درس وہدایت بھی ملتی ہے اور زندگی گزارنے کے صحیح آداب بھی سکھائے جاتے ہیں۔
سرکار دوعالم ﷺ اور صحابۂ کرام کے دور میں قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ہر قسم کے امور مساجد میں طے کیے جاتے تھے۔ مسجدوں میں پابندی سے آنے اور نماز ادا کرنے والوں سے ان کی رائے پوچھ کر تمام معاملات طے کیے جاتے تھے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں قاضیوں اور ججوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مقدمات کے فیصلے مساجد میں کریں۔ حضرت علی کوفے کی مسجد میں مقدمات کے فیصلے خود فرماتے تھے۔ اسلام میں اخوت و بھائی چارے پر بہت زور دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے:''اے ایمان والو! اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔'' (سورۂ آل عمران 63)
مساجد اسی اتفاق و اتحاد کو مضبوط بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جہاں امیر و غریب اور گورے و کالے سب برابر ہوتے ہیں۔ سب ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک ساتھ جھکتے ہیں۔ اسلامی بھائی چارے اور اخوت کی یہ بہترین مثال ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو مساجد کا صحیح معنیٰ میں احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
اﷲ نے قرآن مجید میں بار بار مساجد کی فضیلت اور اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:''بے شک! سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے قائم کی گئی، وہ وہی ہے جو مکے میں واقع ہے۔
اسے خیر و برکت دی گئی اور تمام جہانوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔'' (سورۂ آل عمران 96)
اسی طرح سورۂ نور میں ارشاد ہوا:''نور کی ارضی جلوہ گاہیں مساجد ہیں۔ اس کے نور کی طرف ہدایت ( پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اﷲ نے حکم دیا ہے۔'' (سورۃ النور36)
یہاں گھروں سے مراد مسجدیں ہے اور مسجد کا لفظ سجدہ سے نکلا ہے یعنی وہ پاک جگہ جہاں اﷲ کی بندگی کی جاتی ہے اور اسے سجدہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں جہاں مسلمان پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، وہ جگہ مسجد کہلاتی ہے۔
سرکار دوعالم ﷺ کو یہ منفرد اور عظیم اعزاز عطا ہوا کہ آپؐ کی امت کے لیے تمام زمین مسجد بنا دی گئی۔ اﷲ اور اس کے محبوب کریم ﷺ نے مساجد کی تعمیر کرنے اور انہیں آباد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں آباد کرنے اور انہیں تعمیر کرنے والوں کی صفات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:''اﷲ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو اﷲ اور روز آخرت کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوۃ دیں اور اﷲ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں جہاں اس کے سو ا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔'' (سورۃ التوبہ18)
اﷲ رب العزت نے بنی آدم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اے بنی آدم! ہر مسجد میں یا ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت آراستہ رکھو۔'' (سورۃ الاعراف31)
سورۂ جن میں ارشاد ہوا:''مسجدیں اﷲ کے لیے ہیں لہٰذا ان میں اﷲ کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔''
مساجد کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ کے ارشادات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
٭''جس نے اﷲ کی رضا کے لیے مسجد بنوائی، اﷲ نے اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا۔''
٭''اﷲ کی محبوب ترین جگہیں مساجد ہیں۔''
٭''جس شخص کو مسجد سے محبت کرتے ہوئے اور اس کی خدمت کرتے ہوئے دیکھو، اس کے مومن ہونے کی شہادت دو۔''
''جب تم کسی شخص کو مسجد میں آنے کا عادی پائو تو اس کے گواہ بن جائو۔''
حضور پاک ﷺ نے جب مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو قبا کے مقام پر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی، اس کے بعد مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، وہ مسجد نبوی ﷺ ہے۔ اسی مسجد کو ملت اسلامیہ کی عظیم درس گاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اﷲ کے رسول کریم ﷺ نے اسی مقام پر صحابہ کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق فرمائی۔ گویا اسلامی تعلیم کا آغاز مساجد سے ہوا، یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور تاقیامت رہے گا۔
مسجد مسلمانوں کی اجتماعی وانفرادی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی وعظ و نصیحت، درس و تدریس اور اجتماعی عبادات کے لیے مساجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
حضور ﷺنے اسلامی تعلیمات کی شمع مسجد نبوی میں روشن کی۔ مساجد ہر دور میں اسلام کے مرکز رہی ہیں۔ خلفائے راشدین اور مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں بے شمار مساجد تعمیر کرائیں جہاں قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مساجد لوگوں کی فلاح کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہاں سے لوگوں کو درس وہدایت بھی ملتی ہے اور زندگی گزارنے کے صحیح آداب بھی سکھائے جاتے ہیں۔
سرکار دوعالم ﷺ اور صحابۂ کرام کے دور میں قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ہر قسم کے امور مساجد میں طے کیے جاتے تھے۔ مسجدوں میں پابندی سے آنے اور نماز ادا کرنے والوں سے ان کی رائے پوچھ کر تمام معاملات طے کیے جاتے تھے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں قاضیوں اور ججوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مقدمات کے فیصلے مساجد میں کریں۔ حضرت علی کوفے کی مسجد میں مقدمات کے فیصلے خود فرماتے تھے۔ اسلام میں اخوت و بھائی چارے پر بہت زور دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے:''اے ایمان والو! اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔'' (سورۂ آل عمران 63)
مساجد اسی اتفاق و اتحاد کو مضبوط بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جہاں امیر و غریب اور گورے و کالے سب برابر ہوتے ہیں۔ سب ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک ساتھ جھکتے ہیں۔ اسلامی بھائی چارے اور اخوت کی یہ بہترین مثال ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو مساجد کا صحیح معنیٰ میں احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین