کراچی بدکاری میں ناکامی پر پولیس نے خاتون کے شوہر کو ہی مقدمات میں ملوث کردیا
ایس ایچ اوقائدآباداورتفتیشی افسر گزشتہ2برس سے بدکاری پرمجبورکررہے تھے، شکیلہ
پولیس افسران کی جانب سے خاتون سے زیادتی میں ناکامی پر اس کے شوہر کو ہی جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے پر پولیس حکام نے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
پولیس افسران نے شوہر کو تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور بیوی کو خواہش پوری کرنے پر مجبور کرتے رہے، عدالت نے خاتون کے شوہر کو ضمانت پر رہا کرکے ازسرنو تحقیقات کی سفارش کی تھی، تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر حق نواز بلوچ اور جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے خاتوں مسماۃ شکیلہ کی دائر درخواست اور اعلیٰ افسران کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں اس کے شوہرمحمد اقبال کو اسلحہ ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں ضمانت پر رہا کردیا، خاتون نے بتایا کہ وہ گارمنٹ فیکٹری میں مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے۔
تھانہ قائد آباد کا تفتیشی افسر احمد یار مجید کالونی میں غیرقانونی دھندوں میں ملوث ہے وہ اسے2 برس سے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے مجبور کررہا تھا، دو بازاری لڑکیوں کو گھر بھیج کر رات گزارنے پر مجبور کرتا رہا۔
انکار پر کئی بار میرے شوہر محمد اقبال کو غیرقانونی حراست میں رکھا اور تھانے میں ایس ایچ او احمد عاصم، احمد یار ، مقصود ، ایوب ڈوگر نے شوہر کو برہنہ کرکے تشدد کیا اور بجلی کے کرنٹ لگائے، ایس ایچ او اور احمد یار نے زیادتی کی کوشش کی انکار پر شوہر محمد اقبال کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، معلوم ہوا کہ شوہر کو ڈیفنس تھانے میں اسلحہایکٹ کے الزام میں بند کردیا بھاگ دوڑ کرکے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج جنوبی عبدالقدوس میمن کی عدالت سے ضمانت منظور کرائی۔
10مئی 2014 کو جیل سے ضمانت پر رہا ہوکر شوہر محمد اقبال گھر مجید کالونی آیا تو پولیس افسران نے اسے دوبارہ حراست میں لے کر رہائی کیلیے ایک لاکھ روپے رشوت مانگی، افسران 19مئی کو40 ہزار روپے ادا کرنے اور انکی خواہش کے مطابق کام کرنے پر شوہر کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن میں نے برے کام کرنے انکار کیا تو شوہر کو 2 جعلی مقدموں میں ملوث کرکے جیل بھجوادیا،پولیس افسران کے خلاف ایس ایس پی انویسٹی گیشن سید عباس رضوی کو درخواست دی لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا پھرایس ایس پی ملیر رائو انوار کو درخواست دی جنھوں نے ڈی ایس پی خالد کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ دریں اثناء شکیلہ بانوکی سابقہ ایس ایچ او قائد آباد احمد عاصم اور تفتیشی افسر احمد یار کے خلاف درخواست پر ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے ڈی پی او ملیر سے تحقیق کرائی،دوران تحقیق کئی اہم افراد سے بیانات لیے گئے جس سے ثابت ہوا ۔
پولیس افسران نے درخواست گزار سے زیادتی کی کوشش کی اوراس کے شوہر کو غیرقانونی حراست میں رکھا، اہل علاقہ نے بیانات میں بتایا کہ خاتون غریب اور مقامی فیکٹری میں ملازم ہے اس کے شوہر پر پولیس افسران نے جھوٹے مقدمات قائم کیے ہیں،احمد یار نے اسے بدکاری کیلیے مجبورکرتا ہے، تحقیقاتی رپورٹ میں افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی سفارش کی گئی،ایس ایس پی حاجی جاوید نے قائد آباد تھانے کے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے،رپورٹ ایس ایس پی ملیر کو ارسال کردی گئی ہے۔
دوسری جانب مجید کالونی کی رہائشی مسماۃ شکیلہ بانو نے درخواست میں انکشاف کیا ہے کہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی احمد یار نے ظلم کی انتہا کردی تھی اسکی 6 ماہ کی بیٹی ماہم کا انتقال ہوگیا تھا اہل خانہ اس کی تدفین کے لیے جارہے تھے کہ احمد یار نے اس کے شوہر محمد اقبال کو حراست میں لیا اور تدفین کے لیے جانے سے روک کر تھانے لے گیا اس نے فوری طور پر ایس ایچ او ناصر ملکانی سے شکایت کی اور اصل حقائق سے آگاہ کیا تو اس نے شوہر کو رہا کیا تھا۔
پولیس افسران نے شوہر کو تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور بیوی کو خواہش پوری کرنے پر مجبور کرتے رہے، عدالت نے خاتون کے شوہر کو ضمانت پر رہا کرکے ازسرنو تحقیقات کی سفارش کی تھی، تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر حق نواز بلوچ اور جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے خاتوں مسماۃ شکیلہ کی دائر درخواست اور اعلیٰ افسران کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں اس کے شوہرمحمد اقبال کو اسلحہ ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں ضمانت پر رہا کردیا، خاتون نے بتایا کہ وہ گارمنٹ فیکٹری میں مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے۔
تھانہ قائد آباد کا تفتیشی افسر احمد یار مجید کالونی میں غیرقانونی دھندوں میں ملوث ہے وہ اسے2 برس سے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے مجبور کررہا تھا، دو بازاری لڑکیوں کو گھر بھیج کر رات گزارنے پر مجبور کرتا رہا۔
انکار پر کئی بار میرے شوہر محمد اقبال کو غیرقانونی حراست میں رکھا اور تھانے میں ایس ایچ او احمد عاصم، احمد یار ، مقصود ، ایوب ڈوگر نے شوہر کو برہنہ کرکے تشدد کیا اور بجلی کے کرنٹ لگائے، ایس ایچ او اور احمد یار نے زیادتی کی کوشش کی انکار پر شوہر محمد اقبال کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، معلوم ہوا کہ شوہر کو ڈیفنس تھانے میں اسلحہایکٹ کے الزام میں بند کردیا بھاگ دوڑ کرکے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج جنوبی عبدالقدوس میمن کی عدالت سے ضمانت منظور کرائی۔
10مئی 2014 کو جیل سے ضمانت پر رہا ہوکر شوہر محمد اقبال گھر مجید کالونی آیا تو پولیس افسران نے اسے دوبارہ حراست میں لے کر رہائی کیلیے ایک لاکھ روپے رشوت مانگی، افسران 19مئی کو40 ہزار روپے ادا کرنے اور انکی خواہش کے مطابق کام کرنے پر شوہر کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن میں نے برے کام کرنے انکار کیا تو شوہر کو 2 جعلی مقدموں میں ملوث کرکے جیل بھجوادیا،پولیس افسران کے خلاف ایس ایس پی انویسٹی گیشن سید عباس رضوی کو درخواست دی لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا پھرایس ایس پی ملیر رائو انوار کو درخواست دی جنھوں نے ڈی ایس پی خالد کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ دریں اثناء شکیلہ بانوکی سابقہ ایس ایچ او قائد آباد احمد عاصم اور تفتیشی افسر احمد یار کے خلاف درخواست پر ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے ڈی پی او ملیر سے تحقیق کرائی،دوران تحقیق کئی اہم افراد سے بیانات لیے گئے جس سے ثابت ہوا ۔
پولیس افسران نے درخواست گزار سے زیادتی کی کوشش کی اوراس کے شوہر کو غیرقانونی حراست میں رکھا، اہل علاقہ نے بیانات میں بتایا کہ خاتون غریب اور مقامی فیکٹری میں ملازم ہے اس کے شوہر پر پولیس افسران نے جھوٹے مقدمات قائم کیے ہیں،احمد یار نے اسے بدکاری کیلیے مجبورکرتا ہے، تحقیقاتی رپورٹ میں افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی سفارش کی گئی،ایس ایس پی حاجی جاوید نے قائد آباد تھانے کے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے،رپورٹ ایس ایس پی ملیر کو ارسال کردی گئی ہے۔
دوسری جانب مجید کالونی کی رہائشی مسماۃ شکیلہ بانو نے درخواست میں انکشاف کیا ہے کہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی احمد یار نے ظلم کی انتہا کردی تھی اسکی 6 ماہ کی بیٹی ماہم کا انتقال ہوگیا تھا اہل خانہ اس کی تدفین کے لیے جارہے تھے کہ احمد یار نے اس کے شوہر محمد اقبال کو حراست میں لیا اور تدفین کے لیے جانے سے روک کر تھانے لے گیا اس نے فوری طور پر ایس ایچ او ناصر ملکانی سے شکایت کی اور اصل حقائق سے آگاہ کیا تو اس نے شوہر کو رہا کیا تھا۔