اذان

توحید کا اعلان اور شرک کی نفی ہے

لغت میں اذان کے معنیٰ پکار کر آگاہ کرنے کے ہیں۔ فوٹو فائل

SUKKUR:
اذان کی ابتدا مدینہ منورہ میں 1 ہجری میں ہوئی اس سے پہلے نماز، اذان کے بغیر ہی ادا کی جاتی تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت تک بہت کم تھی اور انہیں نماز کے لیے جمع کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی اور وہ آسانی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے جمع ہوجاتے تھے۔

لیکن جب نبی کریم ﷺ مکۃ المکرمہ سے مدینۂ منورہ تشریف لائے تو اس کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔ پھر مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد بھی نماز کے وقت لوگوں کو مسجد میں جمع کرنے کے لیے کسی خاص طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

اس موقع پر صحابۂ کرام نے مختلف طریقے تجویز کی۔ مثلاً گھنٹی بجانا، گھڑیال اور ناقوس بجانا، ڈھول پیٹنا یا کسی اونچی جگہ پر آگ جلاکر لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ اس وقت مختلف اقوام میں یہی طریقے رائج تھے۔ مگر نبی کریمﷺ نے مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی بھی طریقے کو پسند نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام طریقوں میں دوسرے مذاہب کی مشابہت پائی جاتی تھی اور اﷲ کے نبیﷺ نماز کی دعوت عام دینے کے لیے کوئی منفرد طریقہ چاہتے تھے۔

مسلم کی حدیث کے مطابق صحابہ نے باہمی مشاورت سے حضرت عمرؓ کے تجویز کردہ طریقے کو پسند کیا اور وہ طریقہ فطرت انسانی کے عین مطابق تھا ۔ یعنی آواز دے کر بلانا۔

اذان کے الفاظ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عبداﷲ بن زیدؓ کو خواب میں الہام ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے اس کی تائید فرمائی کہ یہ خواب حق ہے۔ لہٰذا آپؐ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ( کیوں کہ ان کی آواز بلند تھی) اس طرح اسلام میں نماز سے قبل اذان دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

لغت میں اذان کے معنیٰ پکار کر آگاہ کرنے کے ہیں۔ اس سے مراد خبردار کرنا بھی ہے۔ شرعی اصطلاح میں فرض نمازوں سے قبل بلند آواز میں مخصوص کلمات کے ساتھ عام لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع یا دعوت دینے کو اذان کہا جاتا ہے۔ ان مخصوص کلمات کی تعداد پندرہ ہے ۔ لیکن فجر کی اذان میں حی الفلاح کے بعد الصلوٰۃ خیرمن النوم کے زائد الفاظ کو دو مرتبہ کہاجاتا ہے۔

اسی طرح سے اقامت کی تکبیر میں حی الفلاح کے بعد قد قامت الصلوٰۃ کے زائد الفاظ دو مرتبہ کہے جاتے ہیں جس کا مقصد لوگوں کو اس بات کی اطلاع دینا ہے کہ جماعت کھڑی ہوگئی ہے۔

اذان سنت موَکدہ ہے لیکن اس کی تاکید فرض جیسی ہے۔ یہ توحید باری تعالیٰ کا اعلان اور رسالت نبی کریمﷺ پر ایمان کا اقرار ہے۔ اﷲ اکبر کی صدائے دل نواز حق و صداقت کی سربلندی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت ، عظمت و بزرگی، ہمیشگی اور بقاء کا مستقبل پیغام ہے۔

اذان عبادت الٰہی کے لیے ندا اور نماز کی ادائیگی کے لیے بلاوا ہے۔ مختصر یہ کہ اذان بجائے خود ایک دعوت و تبلیغ حق ہے اور اس طرح سے کہ اذان میں چار مرتبہ یہ اعلان ہوتا ہے کہ اﷲ سب سے بڑا ہے ، اس سے بڑا کوئی نہیں۔ عظمت ، بزرگی، بڑائی اور بلندی صرف اﷲ کے لیے ہے اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں جن کے آنے پر نبوتیں ختم ہوگئیں جن کا پیغام آخری پیغام الٰہی ہے اور نماز کے لیے بلاوا، سعادت اور فلاح و کامیابی کی ضمانت ہے۔

٭اذان حکم الٰہی:
فرض نماز سے پہلے اذان کے لیے قرآن میں احکامات موجود ہیں۔


٭ سورۂ حٰم سجدہ کی آیت 33 میں ارشاد ہوتا ہے:''اور اس شخص سے احسن بات اور کس کی ہوسکتی ہے جو اﷲ کی طرف بلائے، نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔''

قرآن پاک کی اس آیت میں صاف طور پر اذان کا حکم نہیں دیا گیا، صرف اﷲ کی طرف بلاوے کا عام حکم دیا گیا ہے۔ بعض اہل بصیرت کے نزدیک اس آیت کا اطلاق اذان پر ہوتا ہے، کیوں کہ اذان اﷲ کی طرف واضح بلاوا ہے۔

٭ سورۂ مائدہ آیت 58 میں ارشاد ہوتا ہے:''اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھہرا لیتے ہیں، یہ اس لیے کہ وہ بے عقل ہیں۔''

٭ سورۃ الجمعہ آیت 9 میں ارشاد ہوتا ہے:''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جمعے کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اﷲ کے ذکر کی طرف جلدی آجایا کرو، اور خریدو فروخت چھوڑ دو، اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے۔''

ان آخری دو آیات میں نماز سے پہلے اذان کے لیے واضح حکم الٰہی موجود ہے۔

٭مقاصد اذان:
اذان اور نماز لازم و ملزوم ہیں ۔ اس کے چند مقاصد درج ذیل ہیں:

اﷲ تعالیٰ حق سبحانہ کی کبریائی ، عظمت و بزرگی اور حاکمیت کا ہر روز پانچ بار سرعام اور سربام اعلان کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اﷲ تعالیٰ کو جو کچھ کسی نے جانا اور سمجھا ہے، اﷲ اس سے بھی بلند و بالا اور ورا الورا ہے۔

٭توحید باری تعالیٰ کا اعلان: اذان کا پہلا ہی بول قطع شرک یعنی شرک کو ختم کرنے والا ہے۔ اذان کا پہلا بول اﷲ اَکبر (اﷲ سب سے بڑا ہے) اور آخری بول، لا الہ الا اﷲ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں) ہے یعنی اعلان توحید باری سے شروع ہوکر اعلانِ توحید پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اذان کا ایک ایک لفظ توحید الٰہی کا منادی اور اس کی طرف پکار ہے۔ باالفاظ دیگر اذان توحید باری کی مکمل تعلیم اور شرک کی کامل نفی ہے۔

٭ اﷲ تعالیٰ کی ذات واحد اور لاشریک پر ایمان اور رسالت محمدیﷺ کی شہادت اور اقرار کرنا۔

٭ نماز کی حقیقت، اہمیت اور غرض و غایت سے دنیا والوں کو آگاہ کرنا۔

٭ اہل ایمان کے لیے نماز کی دعوت اور اقامت صلوٰۃ کی اطلاع دینا۔

مختصر یہ کہ اذان توحید باری تعالیٰ کا اعلان اور شرک کی کامل نفی ہے۔ بنیادی اسلامی تعلیمات کا اعلان و اعادہ ہے، کیوں کہ یہی منادی اسلام کا مشن، عبادات اسلامی کا عنوان اور دوسرے الفاظ میں ہدایت و سعادت کا آغاز ہے اور افضل ترین عبادت نماز کی طرف بلاوا اور اس کے قیام کا اعلان ہے۔
Load Next Story