معروف سائنس دان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور شدید متاثر ہوگئے۔
جامعہ کراچی کے سائنسی تحقیق کے لیے معروف ادارے آئی سی سی بی ایس کے ملازمین نے انتظامیہ کی جانب سے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کی بحیثیت ڈائریکٹر ایک بار پھر تقرری کو مسترد کردیا ہے۔
ملازمین و اساتذہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ادارے کے 70 سے 80 فیصد ملازمین نے کام سے انکار کرتے ہوئے قلم چھوڑ ہڑتال کردی ہے، جس میں ادارے کے سائنس دان، اساتذہ اور ریسرچرز بھی شامل ہوگئے ہیں، جس کے بعد بین الاقوامی شہرت کے حامل اس ادارے میں سائنسی تحقیق کا کام شدید متاثر ہوگیا ہے۔
یہ ادارہ ملک کے معروف سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی کوششوں سے قائم ہوا تھا، جس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ملازمین نے یونیورسٹی کے چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ادارے کے بی او جی میں شامل بعض مخیر حضرات کی باتیں ماننے کے بجائے حقیقت کا ادراک کریں۔
اساتذہ و غیر تدریسی عملے نے منگل کی دوپہر آئی سی سی بی ایس کے باہر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کے ملازمین ڈاکٹر اقبال چوہدری کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں ہیں،لہٰذا اقبال چوہدری کی تعیناتی کے نوٹی فکیشن کو واپس لے کر 3 سینئر پروفیسرز میں سے کسی کی تعیناتی بطور ڈائریکٹر کی جائے۔ ملازمین نے اعلان کیا کہ ادارے میں ہڑتال جاری رہے گی ۔
پریس کانفرنس میں ادارے سے ڈاکٹر عابد، ڈاکٹر مشرف، علی کاظمی ،سفیر کے علاوہ انجمن اساتذہ کی نمائندہ ندا علی ، رکن سنڈیک ڈاکٹر ریاض اور سابق رکن ڈاکٹر منصور بھی موجود تھے۔
ملازمین کا کہنا تھاکہ ون مین شو چلایا جاتا رہا ہے۔ 20 سال تک کو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعیناتی نہیں کی گئی۔ سینئر پروفیسرز اور مایہ ناز سائنسدانوں کی حق تلفی کی جاتی رہی ہے۔ ملازمین کو ایک دہائی سے ریگولر نہیں کیا گیا اور اب ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے قانونی طور پر بی او جی کے تحت مقرر کی گئی ڈائریکٹر ڈاکٹر فرزانہ شاہین کو سبکدوش کردیا گیا ہے۔
ڈاکٹر منصور نے کہا کہ وائس چانسلر نے بظاہر ایمرجنسی پاور کا استعمال کرتے ہوئے تو ایکٹ کے مطابق کام کیا ہے، تاہم اسی ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ادارے کا یہ کام ادارے کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ ملازمین کے احتجاج سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ یہ کام ادارے کے مفاد میں نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال پر ''ایکسپریس '' نے ڈاکٹر اقبال چوہدری کے دفتر جاکر ان سے بھی مؤقف لینے کی کوشش کی، تاہم وہ دفتر میں موجود نہیں تھے اور فون کرنے پر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
علاوہ ازیں اس معاملے پر ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 ماہ میں اس ادارے میں بہت کچھ ایسا ہوا ہے جس سے ادارہ damage ہوا فیکلٹی کے مابین اختلاف ڈالنے کی کوشش کی گئی ریسرچ گرانٹ اور تحقیقی دوروں کی این او سی روکی گئی ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ احتجاج کررہے ہیں اور ہڑتال پر ہیں وہ سب میرے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں میں کسی کے خلاف نہیں اور سب سے بات کروں گا ایڈوائزر کی تقرری نہ ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایڈوائزر لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن تقرری نہیں کی گئی۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈوائزر کا لفظ ڈاکٹر اقبال چوہدری نے خود اجلاس کے منٹس سے نکلوایا تھا ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری پر جو آڈٹ پیراز آئے ہیں دراصل وہ ان پیراز کو کلیئر کرنے کے لیے آئے ہیں۔