پنجاب میں چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیےکونسل کے قیام پرغور

نیشنل کمیشن برائےانسانی حقوق اوریونیسیف نے کونسل سمیت چائلڈلیبرپالیسی کیلیےمحکموں اوراسٹیک ہولڈرز سے تجاویزطلب کرلیں

فوٹو: فائل

پنجاب میں چائلڈلیبر کے سدباب کے لیے صوبائی سطح پر چائلڈ لیبر کونسل کے قیام پرغور کیا جارہا ہے۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اور یونیسف پاکستان نے کونسل کے قیام سمیت چائلڈلیبرپالیسی کے لیے محکمہ ایجوکیشن، لیبر، چائلڈپروٹیکشن بیورو ،سوشل پروٹیکشن اتھارٹی سمیت مختلف این جی اوز اور اسٹیک ہولڈر سے تجاویز طلب کرلیں۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 12 کروڑ 76 لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے جبکہ آبادی کا تقریباً 44 فیصد 18 سال سے کم عمر افراد پرمشتمل ہے۔ پنجاب چائلڈلیبرسروے 2019-20 کے مطابق صوبے میں 5 سے14 سال کی عمر کے بچوں میں چائلڈلیبر کی شرح 13.4 فیصد جبکہ 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں چائلڈ لیبر کی شرح 16.9 فیصد ہے۔

1996 میں کیے گئے چائلڈلیبرسروے میں 5 سے 14 سال کی عمر تک کے بچوں میں چائلڈلیبر کی شرح 8.2 فیصد تھی جو 2019-20 میں بڑھ کر 13.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو حکومت کے چائلڈلیبر میں کمی کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق نے منگل کے روز لاہور میں چائلڈلیبرکے سدباب کے لیے مختلف سرکاری محکموں خاص طور پر محکمہ تعلیم، لیبرڈیپارٹمنٹ ، ووکیشنل ٹریننگ ، چائلڈ پروٹیکشن بیورو ،محکمہ صحت اور سوشل پروٹکشن اتھارٹی سمیت بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم این جی اوز کے نمائندوں سے مشاورت کی اور ان سے تجاویز مانگی ہیں۔


قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پنجاب کے سربراہ ندیم اشرف کہتے ہیں کہ چائلڈلیبر کا خاتمہ اس طرح ممکن نہیں کہ لوگوں کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں جرمانے اورسزائیں دی جائیں بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ چائلڈ لیبر کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چائلڈ ورک اور چائلڈ لیبر میں بھی فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

ندیم اشرف نے بتایا کہ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ صوبائی سطح پرایک ایسی کونسل کی ضرورت ہےجس میں تمام متعلقہ سرکاری محکموں اور اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے شامل ہوں ۔ اس کونسل کی سربراہی وزیر اعلی پنجاب کے پاس ہوگی۔ یہ کونسل چائلڈلیبرکے سدباب کے لیے بنائی گئی پالیسی پرعمل درآمد کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے مابین کوآرڈنیشن کرے گی۔

یونیسف پاکستان کی نمائندہ فرح الیاس نے چائلڈلیبرکے خاتمے سے متعلق بنائے جارہے پالیسی ڈرافٹ پرروشنی ڈالی اور اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق یونیسیف کے اشتراک سے پنجاب کے چار اضلاع جن میں اوکاڑہ، ساہیوال، مظفر گڑھ اور رحیم یار خاں شامل ہیں وہاں چائلدلیبر کے خاتمے کے لیے ماڈل پراجیکٹ شروع کرنے جارہا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم سرچ فارجسٹس کے سربراہ افتخارمبارک نے کہا چائلڈلیبر کی بڑی وجہ غربت ہے۔ غربت میں کمی کے لیے حکومت کی طرف سے مختلف پروگراموں کے ذریعے امدادی رقوم فراہم کی جارہی ہیں۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سمیت پنجاب میں اس وقت آٹھ مزید امدادی پروگرام چل رہے ہیں اور کئی افراد ایسے ہیں جو متعدد امدادی پروگراموں میں رجسٹرڈ ہیں اور رقوم لے رہے ہیں۔ اس سے قوم کو بھکاری بنایا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہنرمندی کو فروغ دینے کی ضرروت ہے۔

پنجاب ووکیشنل سینٹر کے حکام کےمطابق انہیں حکومت کی طرف سے زکوٰۃ کی رقم میں سے پہلے ایک ہزارملین روپے ملتے تھے جو کم ہوکر 478 ملین رہ گئے ہیں، ان کے پاس ٹریننگ حاصل کرنے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔
Load Next Story