پاکستان ایک نظر میں یہ نامعلوم افراد

ہمارے لیڈروں اور ان دادا گیروں کے درمیان کچھ ایسی صفات مشترک ہیں جو ان دونوں کو اٹوٹ رشتوں میں باندھے رکھتی ہیں.

ہمارے لیڈروں اور ان دادا گیروں کے درمیان کچھ ایسی صفات مشترک ہیں جو ان دونوں کو اٹوٹ رشتوں میں باندھے رکھتی ہیں.

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت سے جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گیا، وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔

پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سرعام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لامحالہ انجام یہی ہونا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا۔ تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند مسلم لیگ ن کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ طاقت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اچکوں، اٹھائی گیروں اور بدمعاشوں کے سہارے ہی چلتی رہی ہیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں اتنا واضح ہے کہ ہمارے لیڈروں اور ان دادا گیروں کے درمیان کچھ ایسی صفات مشترک ہیں جو ان دونوں کو اٹوٹ رشتوں میں باندھے رکھتی ہیں۔ یہ لوگ جلسے جلوسوں میں 'زندہ باد مردہ باد' کے نعرے لگاتے ہیں، ہڑتالوں میں نامعلوم افراد بن کر توڑ پھوڑ کرتے اور املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ، گلی محلوں میں دھونس دھاندلی اور دنگا فساد کے ذریعے اپنے لیڈر کا رعب اور دبدبا قائم رکھتے ہیں اور ضرورت پڑے تو مخالفین کا پتہ صاف کر کے اپنے لیڈر کی نظروں میں سر خرو ہوجاتے ہیں۔ ابھی یہی دیکھ لیجئے کہ مسلم لیگ ن کا نامعلوم فرد گلو بٹ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کی برکت سے معلوم بن چکا ہے، اور اس کو ' گرفتار ' کر کے پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے لیکن لگتا یوں ہی ہے کہ حسبِ روایت باقی جماعتوں کے نامعلوم افراد کی طرح یہ بھی ناکافی ثبوتوں اور گواہوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے باعزت بری ہوجائے گا، اور دوبارہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لے گا۔ ن لیگ جو ہمیشہ سے گولی اور گالی کی سیاست سے پاک ہونے کا دعویٰ کرتی تھی اب عین چوراہے میں اپنی پاکدامنی نیلام کر بیٹھی۔

جو بھی ہو ن لیگ کا یہ نامعلوم فرد پولیس کی سر پرستی میں جس 'احساس ذمہ داری' سے اپنا فرض پورا کر رہا تھا، اس سے صاف لگتا ہے کہ ن لیگ والے قادری کے انقلاب سے بظاہر جتنی بے اعتنائی برتیں ، خواجہ سعد رفیق قادری صاحب کو بہروپیا ، فراڈیا اور منافق قرار دے کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی جتنی کوشش بھی کریں، کہیں اندر ہی اندر یہ خوف ضرور موجود ہے کہ قادری انقلاب لائے نہ لائے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں۔

قادری صاحب اور ان کی بھولی بھالی جماعت کا قد کاٹھ یقیناَ اتنا نہیں کہ ان سے موجود حکومت کو کسی قسم کا کوئی خوف محسوس ہو۔ اصل خوف ان خفیہ ہاتھوں سے ہے جو قادری صاحب کو کینیڈا کے ٹھنڈے ٹھارنخلستان سے اٹھا کر پاکستان کے تپتے ہو ئے ریگزار میں لا کھڑا کر رہے ہیں۔


مسلم لیگ ن کی حکومت تحریک انصافوں، عوامی لیگوں اور عوامی تحریکوں کو خاطر میں لانے والی نہیں تھی لیکن برا ہو خفیہ ہاتھ کا جس نے ان انقلاب آوروں کے سر پردستِ شفقت رکھ کر ن لیگ کے بگ مینڈیٹ کا سار اکانفیڈنس خاک میں ملا دیا۔

طاہر القادری کی سالانہ انقلاب یاترا ان کے دیرینہ خواب کے عین مطابق اس دفعہ خون سے رنگین ہے۔ یہ ان مظلوموں کے خون سے لت پت ہے جو اپنی آنکھوں پر بندھی انقلاب کی پٹی سے تلخ حقیقتوں کا ادراک نہ کر سکے۔ پچھلے سال بھی پیپلز پارٹی کے دور میں قادری صاحب اسلام آباد کے ڈی چوک کو کربلا بنانے کی آرزو رکھتے تھے اور کینٹینر میں کھڑے ہو کر اپنے خطبات میں انہوں نے کربلا کے واقعات کو نہایت گلو گیر انداز میں بیان کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن وہ تو بھلا ہو حکومت کی بے عملی کا کہ قادری صاحب کو انقلاب کی خواہش سینے میں دبا کر واپس کینیڈا جانا پڑا۔

لیکن اس دفعہ حالات بدل چکے ہیں۔ اب ن لیگ کی حکومت خفیہ ہاتھ کی چالوں سے پریشان ہوچکی ہے۔ اب بوکھلاہٹ میں کئے گئے فیصلے، نادان مشیروں اور نامعلوم افراد پر انحصار خودکشی کے برابر ہو گا۔

لہذا 23 جون کو جب انقلاب اسلام آباد میں لینڈ کرے گا تو حکومت کو ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر اور ہر قدم پھو نک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ اسی میں ان کی بہتری ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story