نقل مافیا اور آپریشن راہ راست
سندھ سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی نقل مافیا بھرپور انداز میں سرگرم ہے۔
طلبا کا مستقبل واٹس ایپ کے رحم و کرم ہے۔ پرچہ آؤٹ ہوجاتا ہے، واٹس ایپ پر حل ہوکر آجاتا ہے اور ملک کا مستقبل جن کے ہاتھوں میں ہے، ان کے ہاتھوں پر نقل کا رنگ آجاتا ہے۔
پرچے میں کیا آئے گا؟ کس مضمون کی تیاری کس انداز میں کرنی ہے؟ اس سے زیادہ اب طلبا کو یہ فکر ہوتی ہے کہ ہمارا امتحانی مرکز کہاں ہوگا؟ طلبا اب ان ہی امتحانی مراکز میں امتحان دینے کے خواہش مند ہیں جہاں نقل کے اعتبار سے طلبا کو خوب مستفید کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ نقل اب ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ نقل کا وائرس ہمارے بچوں کی نسوں میں داخل کیسے ہوا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ نقل کے اس نظام کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا قصور والدین کا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ اب اس ناجائز عمل کو والدین کی جانب سے برا نہیں سمجھا جاتا۔ والدین ادارے میں داخلے کے وقت خود یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس اسکول کا امتحانی مرکز ایسی جگہ پڑتا ہے جہاں نقل عام ہو تاکہ بچے کا داخلہ وہیں کرایا جائے۔ امتحانات کے دوران والدین خود اسکول انتظامیہ، جسے وہ سال بھر مافیا کہتے ہیں، کے پاس جاتے ہیں اور ان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو نقل کرائی جائے تاکہ ان کا رزلٹ اچھا آئے۔
والدین کی اکثریت امتحانی مراکز کی انتظامیہ کو مختلف ذرائع سے سفارشیں کراتے ہیں اور پیسے بھی ادا کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے کی اس عمل میں مدد کی جائے اور اس طرح اپنے ہاتھوں سے جہاں وہ اپنے بچوں کا مستقل خوشی خوشی تباہ کرتے ہیں وہیں معاشرے میں نقل جیسے بدنما عمل کو بڑھاوا دینے میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیے وہ بچہ معاشرے کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرے گا جس کی اپنی تعلیمی بنیاد کھوکھلی ہو؟ وہ طالب علم ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیسے کرے گا جو خود ابتدا سے ہی کرپشن میں ملوث رہا ہو؟
والدین کے بعد اس تباہی کا ذمے دار کرپٹ نظام اور اس کے کارندے ہیں۔ کرپٹ نظام کا نمبر والدین کے بعد اس لیے ہے کیوں کہ اگر والدین ہی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں جس میں نقل جیسی کرپشن کا کوئی عمل دخل نہ ہو، والدین بچوں کو اچھی تعلیم دیں، پڑھائی کے معاملے میں ان کی کڑی نگرانی کریں اور امتحانات میں ان پر یہ واضح کردیں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو وہ غیر قانونی، غیر شرعی اور غیر اخلاقی عمل یعنی نقل میں ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کریں گے تو یقیناً نقل مافیا اور کرپٹ نطام خود ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ لوگ آخر کماتے کس سے ہیں؟ یقیناً ان ہی والدین سے جو اپنے بچے کو نقل کی بدولت آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ ناجائز خواہش ختم ہوجائے تو ان کے دھندے بند ہوجائیں اور ملک کا تعلیمی نظام بھی بہتر ہوجائے۔
اس مکروہ دھندے میں جہاں والدین اور متعلقہ بورڈز اور محکمہ تعلیم کے لوگ ملوث ہیں، وہیں اس سسٹم میں بڑے کردار قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے بھی ادا کرتے ہیں۔ آخر اتنے سال گزر جانے کے بعد آج تک ہم اس نظام کو ختم کیوں نہیں کرسکے؟ واضح رہے کہ بڑے عہدوں پر وہی لوگ براجمان ہوتے ہیں جو سسٹم کو مال دے کر اسی نظام سے کمانے آتے ہیں۔ ان کےلیے ملک میں کوئی بڑی سزا موجود نہیں اور پھر نگراں خود بھی ان کے ساتھ مل کر اس کام میں اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔ اس سسٹم کی کمر توڑنے کےلیے وزیراعظم سے لے کر وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر تعلیم سے لے کر صوبائی وزیر تعلیم کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ علاقائی سطح پر ٹیمیں تشکیل دینا ہوں گی، ڈپٹی کمشنرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل اختیارات دینا ہوں گے۔
یہ نقل کا کلچر اب ملک کےلیے دہشتگردوں کی طرح خطرناک بن چکا ہے، لہٰذا یہ لازم ہے کہ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے دہشتگردوں کو علمی دہشتگردی سے روکا جائے اور ان کے خلاف ملکی سطح پر آپریشن راہ راست کا آغاز کیا جائے۔ ملک میں سیکڑوں ٹاسک فورسز موجود ہیں۔ وزیراعظم کو نقل کی روک تھام کےلیے بھی ٹاسک فورس کو تشکیل دینا ہوگا اور اس سلسلے میں صوبائی وزرائے اعظم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ پہلے مرحلے میں متعلقہ محکموں میں ایسے افسران تعینات کیے جائیں جو اس سسٹم کے خلاف فعال کردار ادا کرسکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محکمہ تعلیم کے افسران کو اضافی اختیارات دے کر امتحانی مراکز پر تعینات کیا جائے۔ گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے امتحانی مراکز بنانے کے بجائے ٹاؤن کی سطح پر بڑے امتحانی مراکز قائم کیے جائیں۔ امتحانی مراکز پر رینجرز اور پولیس موجود ہو اور سرکاری اساتذہ کو مجسٹریٹ کے اختیارات دے کر امتحانی مراکز پر بٹھا دیا جائے۔ اب نقل میں امتحانی مرکز کا کوئی عملہ ملوث ہو، کوئی غیر متعلقہ شخص، والدین یا اسکول کا کوئی مالک، ان کے خلاف اسی وقت سخت کارروائی کی جائے۔
یقین جانیے جب اس ملک سے بڑے دہشتگرد نیٹ ورک ختم ہوسکتے ہیں تو نقل مافیا کا نیٹ ورک ختم کرنا کیا مشکل ہے؟ بس حکومت کو سنجیدہ ہونا ہوگا اور اس بھرپور انداز میں کام کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہمیں پستی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وزیراعظم صاحب آپ جتنی چاہے غیر ملکی سرمایہ کاری کرادیں، ہمیں جتنا چاہے قرض مل جائے، ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے کیوں کہ اقوام میرٹ اور تعلیم سے آگے بڑھتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔