عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں فیصل واوڈا

جسٹس بابر ستار کو سال بعد چیزیں یاد آرہیں، اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں کافی ہوگیا

سیاست دان دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے رکھ سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے۔

شواہد یا ثبوت کے بغیر عدالت کارروائی نہیں کرتی، میری پگڑیاں اچھالی گئیں اب پاکستان کی پگڑی جو اچھالے گا ان کی پگڑیوں کا فٹ بال بنائیں گے، اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں کافی ہو گیا۔ یہاں نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا سیاست دان اگر دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جسٹس منصور شاہ اور جسٹس عائشہ احد کے سامنے بیٹھ کر آپ کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے، اطہر من اللہ بہت اصول پسند آدمی ہیں۔

وہ نہ حماقت کرتے ہیں نہ کرنے دیں گے۔ میرا گمان ہے جسٹس اطہرمن اللہ کسی سے نہیں ڈرتے، نہ کسی سے ملتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے سے بھی نہیں ملتے۔ وہ شہ سرخیوں کیلئے فیصلہ نہیں کرتے۔ رات کے اندھیروں میں کسی سے نہیں ملتے۔ اطہر من اللہ جیسے تاریخی جج سے ایسی غلطی نہیں ہو سکتی۔ ضمانتیں آپ دیتے ہیں، بہت کچھ جانتا ہوں، بہت کچھ سمجھتا ہوں، راز ہیں، شواہد ہیں اور میرا ہوم ورک ہے۔

چھٹی کے دن جسٹس بابر ستار کی جانب سے پریس ریلیز آتی ہے،30اپریل کو میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو خط لکھا، جج بننے سے پہلے جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ کیا۔ اس کی کوئی قانونی چیز ہو گی جو ہمیں نہیں مل رہی، آرٹیکل19اے کے تحت ہر پاکستانی انفارمیشن لے سکتا ہے، اب ابہام بڑھ رہا ہے۔ ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا، ایک سال بعد آپ نے پھر الزام لگایا۔ اب آپ کو شواہد دینا پڑیں گے۔ اگر معاملہ جج بننے سے پہلے کا ہے اور ریکارڈ نہیں ہے تو پھر سوالات ہوں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو مداخلت کرنا ہو گی۔


مجھے اعتراض نہیں کہ وہ میڈیا پر تجزیہ دیتے تھے، دہری شہریت ہو تو مجھے کوئی ایشو نہیں۔ اگر الزام لگانے والے کے پاس ثبوت نہیں تو اداروں پر الزام نہ لگائیں۔ اگر شواہد نہیں ہیں، سب زبانی ہے تو پھر مسئلہ ہے۔ پندرہ دن گزر گئے، ہمیں ریکارڈ نہیں مل رہا۔ پاکستان کسی کے باپ کا نہیں ہے۔ جو میرے لئے ہو گا وہ سب کے لئے ہو گا۔ آپ نے سوشل میڈیا پر نوٹس لیا ، آپ کو دیگر معاملات، کراچی اور پنجاب میں ریپ کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خود احتسابی کی بات کی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہئے۔سستی روٹی پر حکم امتناع، نسلہ ٹاور کی شنوائی نہیں۔ ریکوڈک پر اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، کس قانون کے تحت زرداری کو 14 سال جیل ہوئی؟۔ بلیک لا ڈکشنری کے تحت تنخواہ نہ لینے پر نواز شریف کو سزا دی ، پی آئی اے اسٹے آرڈر، سستی روٹی اسٹے آرڈر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ سیاست دان اگر دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ بارڈر پر فوجی اور پولیس والے جانیں دیں گے، کہاں آئین میں لکھا ہے؟۔ آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دیں ان کا تمسخر اڑایا جائے۔ امید ہے کہ جواب جلد آئے گا، محاذ آرائی سے دو ررہیں۔ ان کاموں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنی ذات نہیں سارے پاکستان کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی لگائیں۔

30 اپریل کواسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوںکوخط لکھا مگر 15 روزہوگئے مگر کوئی جواب نہیں آیا، جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد چیزیں یاد آرہی ہیں۔ صرف الزمات سے کام نہیں چلے گا اب الزامات کے شواہد بھی دینا پڑیں گے۔ اگر الزامات کا ریکارڈ نہیں توتشویش ہوگی۔ پردوں کے پیچھے باتیں نہ کریں۔اگرفوج نہیں ہوگی تو پاکستان بھی نہیں بچے گا، شہادتوں کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
Load Next Story