پاکستان ایک نظر میں یہ ہے لیاری المعروف منی برازیل

برازیل سے لاکھوں میل دور پاکستان کے سب سےجدید شہرکراچی کی سب سے قدیم بستی لیاری اس وقت منی برازیل کا منظر پیش کررہی ہے

عالمی کپ 2014 کی بات کی جائے تو اس وقت منی برازیل یعنی (لیاری) میں ہوم ٹیم برازیل ہی ہاٹ فیورٹ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جرمنی کے چاہنے والے ہیں ۔ فوٹو: اے ایف پی

کہتے ہیں جو باہرسےنظر آتا ہے اندر سےوہ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ بولنے والے نے یہ جملہ توکسی خاص پس منظر میں کہا ہوگا لیکن اگر یہی بات لیاری کے حوالے سے موجودہ حالات میں کہی جائے تو بے جا نہ ہوگی۔لیاری شہر کراچی کا قدیم ترین اور گنجان آبادی والا علاقہ ہے جہاں ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراداپنے اپنے کلچر کے حساب سے سالوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اس کی اصل شناخت کو مسخ کرکےنہ صرف پیش کیا جارہا ہے بلکہ دہشت اور خوف کی علامت کے طور پر دنیا کودکھایا جارہا ہے۔



مجھے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس بلاگ کو پڑھنے والے لیاری کے نام سے ڈر کراسے پڑھے بغیر کہیں ڈیلیٹ یا بند ہی نہ کردیں کیونکہ جو کچھ ٹی وی اور اخبارات میں بلکہ دوستوں کی محفلوں میں لیاری سے متعلق دکھایا اور بتایا جاتا ہے اسے سن کرتو مضبوط سے مضبوط اور بہادر وجراء ت مند شخص بھی خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگر اس پر خوف طاری نہ بھی ہو تو کم سے کم گھبرا ضرور جاتا ہے۔



دنیا کےسب سے مقبول ترین کھیل فٹبال کے عالمی مقابلےبرازیل میں جاری ہیں لیکن ہزاروں میل دورموجود پاکستان کے سب سے جدید شہر کراچی کی سب سے قدیم بستی لیاری اس وقت منی برازیل کا منظر پیش کررہی ہےجہاں گلی گلی ،کوچہ کوچہ ،نگر نگر فٹبال ٹیموں کے رنگ برنگی جھنڈے اورمعروف فٹبالرز کی تصاویر سے سجی ہوئی ہیں ۔



آپ نے یہاں کے مشہور علاقے جیسے ،کلا کوٹ، بغدادی،چاکیواڑہ اور فلاں فلاں کے نام تو سن ہی رکھیں ہوں گے لیکن کبھی فٹبال چوک،عثمان پارک،گبول پارک، پیپلز اسٹیڈیم ،لیاری فٹبال گراؤنڈ ،عید گاہ گراؤنڈ اور اس جیسے کئی کھیل کے میدان ہیں جن کا نام آپ نے کم ہی سنا ہوگا کیونکہ بعض لوگ جان بوجھ علاقے کر اصل شناخت کو دکھانا نہیں چاہتے یا جن جو ہمت کر کے دکھا سکتے ہیں وہ ایسا کرنےکی زحمت نہیں کرتے۔



یہ گراؤنڈ رات کو میچ شروع ہوتے ہی اسٹیڈیم کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں ۔بڑی بڑی اسکرینیں، من پسند ٹیموں کے جھنڈے اورپسندیدہ کھلاڑیوں کی شرٹیں پہن کر شائقین میچ دیکھنے پہنچ جاتے ہیں ۔یہاں کے شائقین کی ایک خاص بات روایتی انداز اور مخصوص کلچر ہے،میچ دیکھنے کیلئے آنے والے شائقین اکیلے نہیں آتے بلکہ ٹولیوں کی صورت میں جمع ہوکر آتے ہیں ،چہروں پر من پسند ٹیموں کے جھنڈے پینٹ کرکے اپنے ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں اور ایک خاص قسم کا باجا جو یہاں کافی مشہور ہے اس کی گونج پر رقص کیا جاتا ہے۔میچ شروع ہوتے ہی سب لوگ تحمل کے ساتھ میچ دیکھتے ہیں اور اس مجمعہ کو کوئی سیکورٹی رسک بھی نہیں ہوتا اِسی لیے یہاں سیکورٹی کے انتظامات نہیں کیے جاتے ۔لوگوں کے جوش و خروش کا یہ حال ہے کہ بس ادھر گول ہوا نہیں کہ لوگ خوشی کے مارے دیوانے ہوجاتے ہیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کر دیوانہ وار ناچنے لگتے ہیں۔ پھر پسندیدہ ٹیم کے جتنے پر جو جشن ہوتا ہے اس کے تو کہنے ہی کیا۔




عالمی کپ 2014 کی بات کی جائے تو اس وقت منی برازیل یعنی (لیاری) میں ہوم ٹیم برازیل ہی ہاٹ فیورٹ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جرمنی کے چاہنے والے ہیں حالانکہ کے پرتگال اور ارجنٹائن کی ٹیمیں بھی یہاں کی مشہور ٹیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ تو بات مشہور ٹیموں کی تھی مگر کھلاڑیوں کی فہرست میں لیونل میسی ،کرسٹیانورونالڈہ اور نیمار کے پرستار سب سے زیادہ ہیں۔



نوجوانوں میں برازیل کی ٹی شرٹ اور کرسٹیانو رانالڈو کا ہیراسٹال بے حد مقبول ہے،پرستاروں کی بہت بڑی تعداد نے ان انٹرنیشنل فٹبالرز کے اسٹائلز کو کاپی کررکھا ہے اس کے علاوہ موٹرسائیکلوں، گھروں اور مختلف انجمنوں کے دفاتر پر برازیل کے جھنڈر لہرائے گئے ہیں ۔



اس کھیل سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہےکہ برازیل اور میکسکو کے میچ سے قبل یہاں بغیر کسی سیاسی جماعت یا گروپ کی سرپرستی کے بغیر ایک ریلی نکالی گئی جس میں ٹیموں کے پرچم تھامے نوجوانوں نے خوب نعرے بازی کی اور جگہ جگہ رقص کرکے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا۔



ٹیلنٹ سے مالا مال اس پسماندہ بستی میں فٹبال کے علاوہ سائیکلنگ، گدھا گاڑی ریس، کراٹے، باکسنگ، باڈی بلڈنگ اوردیگر کھیل بھی مشہور کھیلے جاتے ہیں۔کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں چھوٹے بڑے اسپورٹس کلب اورجمنازیم موجود نہ ہوں اور بغیرکسی حکومتی سرپرستی اور تعاون کے اپنی مدد آپ کے تحت کھلاڑیوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے لیاری سے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی ایک بہت بڑی کھیپ نکلی ہے اور جس طرح کا جوش و جذبہ یہاں پایا جاتا ہے اُمید تو یہی ہے کہ آئندہ بھی بڑے نام یہاں سے نکلیں گے ۔

بات کچھ لمبی ہوگئی لیکن چونکہ اس قدر منفی پروپیگنڈا اور غلط تاثر لیاری کے حوالے سے دیا جاتا ہے کہ یہ سب بیان کرنا پڑا۔

اپنی پوری بات رکھنے کے بعد اُمید کرتا ہوں کہ اب تو آپ لیاری ضرور آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story