ہنگلاج ماتا مندر کا میلہ
ہندوؤں کے مقدس مقام سے متعلق دل چسپ روایات
''میرا بیٹا درشن جب چھوٹا تھا تو پیدائشی طور پر اُس کے دل میں سوراخ تھا میں نے بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا سب نے کہا اِس کا آپریشن مشکل ہے، یہ بچہ اگر گیارہ سال تک زندہ رہے تو بڑی بات ہے، ڈاکٹروں کے جواب سے مجھے بہت مایوس ہوئی پھر میں نے ' ہنگلاج ماتا' سے منّت مانگی اور کہا کہ اگر وہ میرے بیٹے کو تن درستی عطا کریں گی تو میں اُن کے در پر حاضر ہوجاؤں گی اور میٹھے کی نیاز دوں گی اور اُن کے منڈپ پر جھنڈا بھی لہرائوں گی۔
اِس دوران میں اپنے بیٹے کے دل کا معائنہ مسلسل کرواتی رہی اور ابھی جب پچھلے مہینے میں نے چیک اپ کرایا تو میرے بیٹے کے دل کا سوراخ مکمل طور پر بند ہوچکا تھا اور بالکل تن درست تھا، حیدرآباد میں دل کے سرجن ڈاکٹر کشن نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کے دل کا سوراخ اب مکمل طور پر بھر چکا ہے اور آج میرے بیٹے کی عمر بارہ سال ہے اور میں بارہ سال بعد اپنے خاندان سمیت ہنگلاج ماتا کی منّت کو اُتارنے ''اگور ندی'' سے پیدل چل کر یہاں آئی ہوں۔''
ہنگلاج ماتا مندر کے سامنے بیٹھی حیدرآباد سے یہاں پہنچنے والی ہندو یاتری ''لکشمی'' نے گود میں بیٹھے اپنے بارہ سالہ بیٹے ''درشن'' کے ماتھے کو چومتے ہوئے ہمیں یہ قصہ سنایا۔
مجھے گذشتہ دنوں ہنگلاج ماتا کے مندر میں ہندو برادری کی جانب سے تین روزہ میلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ''شیوا منڈلی کمیٹی'' کے پریس سیکریٹری پرکاش کمار لاسی نے ہمیں تین روزہ مذہبی میلے کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور مندر کے مختلف حصوں کا دورہ بھی کرایا جہاں ہندو یاتری اپنی مذہبی رسومات و عبادات میں مصروف تھے اس دوران بہت سے یاتری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اُن سے میری بات چیت ہوئی۔
مکران کوسٹل ہائی وے پر ہنگول ندی سے متصل تاریخی ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔ یہ ہندوؤں کا ایک تاریخی مقام ہے، یہ مندر کراچی سے 160 کلو میٹر جب کہ گوادر سے تقریباً 430 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس مندر کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے ہنگلاج دیوی، ہنگلاج ماتا، نانی پیر، ہنگلاج اماں یہ اِس کے مختلف نام ہیں۔
ہنگلاج ماتا مندر کے حوالے سے عام روایت یہ ہے کہ ہزاروں سال قبل ہنگلاج نانی لسبیلہ کے علاقے ''لاہوت لامکاں'' سے عبادت کے لیے ہنگلاج (ہنگول) میں آتی تھی اور اسی مقام پر چلّہ کشی کرتی تھیں۔ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہنگلاج دیوی ایک طاقت ور دیوی تھی اور اُس نے ہنگول قوم کے ظالم حاکم راجہ ہنگلاج کا سر قلم کردیا تھا۔
ہندو کمیونٹی کے مطابق سکھ مت کے بانی بابا گُرو نانک صاحب نے بھی ہنگلاج ماتا کے مندر میں حاضری دی تھی، بابا جی گرو نانک کے والدین چوں کہ خود ہندو دھرم سے تعلق رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے ہنگلاج ماتا کے مندر میں کافی وقت گزارا جب کہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی ہنگلاج ماتا کے مندر میں حاضری دے چکے ہیں اور وہ انہیں نانی کے نام سے پکارتے تھے۔
کالی ماتا کا ایک مندر پسنی کے سمندر میں واقع جزیرہ ''ہفت لار'' میں بھی تھا، اس مندر کی اب صرف باقیات موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ہندو یاتری جزیرہ ہفت لار پر جا کر کالی ماتا کے مندر میں عبادت کرتے تھے۔ جزیرہ ہفت لار پر کالی ماتا کے مندر کے حوالے سے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جزیرہ ہفت لار پر کالی ماتا مندر کا ایک پجاری ہنگلاج دیوی کا دیوانہ تھا اور اُس کے روحانی عشق میں مبتلا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ پجاری مچھلی کا روپ دھار کر ہنگلاج ماتا (دیوی) کی ملاقات کے لیے ہنگلاج جایا کرتا تھا۔
ایک اور روایت کے مطابق ایک روز یہی پجاری جب ہنگلاج ماتا سے ملاقات کرنے کے لیے مچھلی کا روپ دھار کر سمندر میں تیر تے ہوئے ہنگلاج (ہنگول) کی طرف جا رہا تھا کہ اورماڑہ کے نزدیک سمندر میں کچھ ماہی گیروں نے اُسے مچھلی سمجھ کر اُس کا شکار کرنا چاہا اور لوہے کی ایک بڑی ہُک سے اُس کے پیٹھ کو چیر دیا اور وہ مچھلی ہُک سمیت سمندر میں غائب ہوگئی۔
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ایک غار میں گذشتہ ماہ کے آخر میں ہندؤوں کا مذہبی تہوار 'ہنگلاج ماتا تیرتھ یاترا' منایا گیا، جسے پاکستان میں ہندو کمیونٹی کا سب سے بڑا تہوار مانا جاتا ہے۔ موسم بہار کے آغاز پر منعقد ہونے والے اس تین روزہ مذہبی تہوار میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے ہندو یاتریوں نے شرکت کی۔ کنڈ ملیر کے نزدیک ہنگول دریا کے کنارے ہنگلاج ماتا کے نام سے مشہور اس مندر کو نانی مندر کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مندر کے منتظمین کے مطابق یہ مندر اور یہ تہوار ہزاروں سال قدیم ہے۔ ان کا کہنا ہے: ''یہ رسم تب شروع ہوئی جب بھگوان وشنو نے دیوی ستّی کو مار کر اس کے جسم کے 51 ٹکڑے کیے۔ بھگوان وشنو کے مارنے کے بعد دیوی ستّی کا سر یہاں شری ہنگلاج شیوا منڈلی میں آ گرا تھا، جسے اب ہنگلاج ماتا تیرتھ یاترا کہا جاتا ہے۔''
حکومت بلوچستان کے مطابق اس پہاڑی سلسلے میں ہندو زائرین کے لیے پانی، بجلی، رہائش اور طبی کیمپ وغیرہ کے انتظامات کے ساتھ سی سی ٹی وی کیمرے اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں۔ ہندو یاتریوں کے مطابق گذشتہ برسوں کی نسبت اس سال صوبائی حکومت کے انتظامات بہتر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہنگلاج ماتا ہمارا سب سے بڑا تیرتھ ہے۔ یہاں پر بلوچستان حکومت نے جو انتظامات کیے، اس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی عقیدت مند یہاں آتے تھے، جن میں مختلف ریاستوں کے حکم ران شامل تھے۔
2006 میں انڈیا کے 86 رکنی وفد نے انڈیا کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی سربراہی میں ہنگلاج ماتا مندر کی یاترا کی تھی۔
ہنگلاج ماتا کا مندر ضلع لسبیلہ کے قریب ہنگول نیشنل پارک کے سنگم پر ہے۔ یہ علاقہ تقریباً 6 لاکھ 9 ہزار 43 ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور اس علاقے کو 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور یہ علاقہ بلوچستان کے تین اضلاع لسبیلہ آواران اور ضلع گوادر تک پھیلا ہُوا ہے۔
ایک سال بلوچستان حکومت کی سفارشات پر واپڈا نے ہنگول کے مقام پر ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جس سے تقریباً ایک لاکھ کے قریب بارانی زمین کاشت کے قابل ہوجاتی لیکن ہندو برادری اور اس کے سرگردہ راہ نمائوں نے یہاں پر ڈیم تعمیر کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ڈیم تعمیر ہونے کے بعد ہنگلاج ماتا کا مندر مکمل طور پر زیر آب آجائے گا۔ چوں کہ یہ ایک حساس مذہبی مسئلہ تھا بعد میں بلوچستان اسمبلی نے ایک متفقہ رائے سے قرارداد منظور کرکے اس ڈیم کی تعمیر روک دی تھی۔
ہندو برادری کے لوگ ہنگلاج ماتا کے مندر میں ہر سال اپریل کے مہینے میں آکر تین روزہ میلہ کا انعقاد کرتے ہیں اور اس مذہبی میلہ میں لاکھوں ہندو یاتری شریک ہوتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہنگلاج دیوی سے جو بھی منّت مانگی جائے تو وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔
''شیوامنڈلی کمیٹی'' کے پریس سیکریٹری پرکاش کمار لاسی نے بتایا کہ اس سال میلے میں تین لاکھ کے قریب یاتریوں نے شرکت کی ہے جو ایک بڑی تعداد ہے، یاتریوں کی صحیح تعداد کی معلومات کے حوالے سے پرکاش کمار لاسی نے بتایا کہ اگور ندی پر ہنگلاج ماتا کا جو مین گیٹ ہے وہاں پر سیکوریٹی اہل کار گاڑیوں کا اندراج کرتے ہیں جس سے یاتریوں کی تعداد کے بارے صحیح معلومات مل جاتی ہیں۔
ہنگلاج ماتا کے مندر سے 12کلو میٹر دور ریگستانی علاقے میں مٹی کے دو اونچے پہاڑ جنہیں ہندو یاتری ''چندرگپ '' کہتے ہیں ہندو یاتری ان پہاڑوں پر چڑھ کر وہاں عبادت کرتے ہیں چندر گپ پر چڑھنا اور وہاں عبادت کرنا ہنگلاج ماتا کے تین روزہ مذہبی میلہ کی اہم رسم میں شمار ہوتا ہے۔
''چندرگپ'' پہاڑ پر چڑھنے کے لیے چار سو سے زاید سیڑھیاں لگائی گئی ہیں ایک زمانے میں یہاں جب سیڑھیاں نہیں تھیں تو ہندو یاتریوں کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنا خاصا دشوار ہوتا تھا اور بہت سے یاتری پہاڑ سے گر کر زخمی اور ہلاک بھی ہوجاتے تھے۔ ہندو یاتری چندرگپ پر چڑھ کر وہاں کی گیلی مٹی اپنے چہرے پر مل کر پھر کنڈ ملیر کے سمندر جا کر نہا لیتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے صحافی دوستوں کے ساتھ جب میں کنڈ ملیر پہنچا تو کنڈ ملیر کے سمندر کے کنارے سیکڑوں کی تعداد میں ہندو یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے موجود تھے۔ کنڈ ملیر کے ساحل کو ''گولڈن بیچ '' بھی کہا جاتا ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے بننے سے پہلے یہ ساحلی علاقہ صرف یہاں کے مقامی ماہی گیروں کی کشتیوں کے لنگر انداز کرانے کا مسکن تھا اور اپریل کے مہینے میں جب ہنگلاج ماتا کا تین روزہ میلہ سجتا تو ہندو یاتری یہاں آکر اپنے مذہبی رسومات کی ادائی کیا کرتے تھے۔
کنڈ ملیر کے سمندر کنارے ایک ساٹھ سالہ ہندو یاتری گھنیش کمار سے جب میں نے پوچھا کہ کنڈ ملیر کے ''گولڈن بیچ '' پر آکر آپ کو کیسا لگ رہا ہے تو انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا: ''وہ گذشتہ تیس برسوں سے ہنگلاج ماتا کے میلے میں شرکت کرتے آرہے ہیں کوسٹل ہائی وے بننے سے قبل کنڈ ملیر کا ساحل انتہائی صاف ہوتا تھا یہاں کے قدرتی مناظر انتہائی دل کش ہُوا کرتے تھے لیکن اب یہاں چاروں طرف گندگی ہی گندگی ہے۔'' انہوں نے بتایا کہ بیس سال پہلے ہندو یاتریوں کے لیے یہاں پر نہانا اتنا مشکل نہیں ہوتا تھا لیکن ابھی یہاں کافی بھیڑ ہوتی ہے صاف پانی کا مسئلہ ہے، ہندو یاتریوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ غسل خانوں اور بیت الخلاء کا ہے حکومت اگر یہ سہولیات فراہم کرے تو ہندو یاتری ان کے احسان مند رہیں گے۔
میں نے گھنیش کمار کو بتایا کہ ایک رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان میں 2 کروڑ 20 لاکھ سے زاید پاکستانی عوام بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں تو اب حکومت بلوچستان کی حکومت یہاں کنڈ ملیر کے مقام پر ہندو یاتریوں کے لیے غسل خانے اور بیت الخلاء کیسے بنا سکتی ہے؟ میرے جواب سے وہ بہت فکرمند اور مایوس ہوئے، میں نے اپنی باتوں سے گھنیش کمار کو مایوس کردیا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
اِس دوران میں اپنے بیٹے کے دل کا معائنہ مسلسل کرواتی رہی اور ابھی جب پچھلے مہینے میں نے چیک اپ کرایا تو میرے بیٹے کے دل کا سوراخ مکمل طور پر بند ہوچکا تھا اور بالکل تن درست تھا، حیدرآباد میں دل کے سرجن ڈاکٹر کشن نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کے دل کا سوراخ اب مکمل طور پر بھر چکا ہے اور آج میرے بیٹے کی عمر بارہ سال ہے اور میں بارہ سال بعد اپنے خاندان سمیت ہنگلاج ماتا کی منّت کو اُتارنے ''اگور ندی'' سے پیدل چل کر یہاں آئی ہوں۔''
ہنگلاج ماتا مندر کے سامنے بیٹھی حیدرآباد سے یہاں پہنچنے والی ہندو یاتری ''لکشمی'' نے گود میں بیٹھے اپنے بارہ سالہ بیٹے ''درشن'' کے ماتھے کو چومتے ہوئے ہمیں یہ قصہ سنایا۔
مجھے گذشتہ دنوں ہنگلاج ماتا کے مندر میں ہندو برادری کی جانب سے تین روزہ میلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ''شیوا منڈلی کمیٹی'' کے پریس سیکریٹری پرکاش کمار لاسی نے ہمیں تین روزہ مذہبی میلے کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور مندر کے مختلف حصوں کا دورہ بھی کرایا جہاں ہندو یاتری اپنی مذہبی رسومات و عبادات میں مصروف تھے اس دوران بہت سے یاتری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اُن سے میری بات چیت ہوئی۔
مکران کوسٹل ہائی وے پر ہنگول ندی سے متصل تاریخی ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔ یہ ہندوؤں کا ایک تاریخی مقام ہے، یہ مندر کراچی سے 160 کلو میٹر جب کہ گوادر سے تقریباً 430 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس مندر کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے ہنگلاج دیوی، ہنگلاج ماتا، نانی پیر، ہنگلاج اماں یہ اِس کے مختلف نام ہیں۔
ہنگلاج ماتا مندر کے حوالے سے عام روایت یہ ہے کہ ہزاروں سال قبل ہنگلاج نانی لسبیلہ کے علاقے ''لاہوت لامکاں'' سے عبادت کے لیے ہنگلاج (ہنگول) میں آتی تھی اور اسی مقام پر چلّہ کشی کرتی تھیں۔ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہنگلاج دیوی ایک طاقت ور دیوی تھی اور اُس نے ہنگول قوم کے ظالم حاکم راجہ ہنگلاج کا سر قلم کردیا تھا۔
ہندو کمیونٹی کے مطابق سکھ مت کے بانی بابا گُرو نانک صاحب نے بھی ہنگلاج ماتا کے مندر میں حاضری دی تھی، بابا جی گرو نانک کے والدین چوں کہ خود ہندو دھرم سے تعلق رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے ہنگلاج ماتا کے مندر میں کافی وقت گزارا جب کہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی ہنگلاج ماتا کے مندر میں حاضری دے چکے ہیں اور وہ انہیں نانی کے نام سے پکارتے تھے۔
کالی ماتا کا ایک مندر پسنی کے سمندر میں واقع جزیرہ ''ہفت لار'' میں بھی تھا، اس مندر کی اب صرف باقیات موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ہندو یاتری جزیرہ ہفت لار پر جا کر کالی ماتا کے مندر میں عبادت کرتے تھے۔ جزیرہ ہفت لار پر کالی ماتا کے مندر کے حوالے سے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جزیرہ ہفت لار پر کالی ماتا مندر کا ایک پجاری ہنگلاج دیوی کا دیوانہ تھا اور اُس کے روحانی عشق میں مبتلا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ پجاری مچھلی کا روپ دھار کر ہنگلاج ماتا (دیوی) کی ملاقات کے لیے ہنگلاج جایا کرتا تھا۔
ایک اور روایت کے مطابق ایک روز یہی پجاری جب ہنگلاج ماتا سے ملاقات کرنے کے لیے مچھلی کا روپ دھار کر سمندر میں تیر تے ہوئے ہنگلاج (ہنگول) کی طرف جا رہا تھا کہ اورماڑہ کے نزدیک سمندر میں کچھ ماہی گیروں نے اُسے مچھلی سمجھ کر اُس کا شکار کرنا چاہا اور لوہے کی ایک بڑی ہُک سے اُس کے پیٹھ کو چیر دیا اور وہ مچھلی ہُک سمیت سمندر میں غائب ہوگئی۔
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ایک غار میں گذشتہ ماہ کے آخر میں ہندؤوں کا مذہبی تہوار 'ہنگلاج ماتا تیرتھ یاترا' منایا گیا، جسے پاکستان میں ہندو کمیونٹی کا سب سے بڑا تہوار مانا جاتا ہے۔ موسم بہار کے آغاز پر منعقد ہونے والے اس تین روزہ مذہبی تہوار میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے ہندو یاتریوں نے شرکت کی۔ کنڈ ملیر کے نزدیک ہنگول دریا کے کنارے ہنگلاج ماتا کے نام سے مشہور اس مندر کو نانی مندر کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مندر کے منتظمین کے مطابق یہ مندر اور یہ تہوار ہزاروں سال قدیم ہے۔ ان کا کہنا ہے: ''یہ رسم تب شروع ہوئی جب بھگوان وشنو نے دیوی ستّی کو مار کر اس کے جسم کے 51 ٹکڑے کیے۔ بھگوان وشنو کے مارنے کے بعد دیوی ستّی کا سر یہاں شری ہنگلاج شیوا منڈلی میں آ گرا تھا، جسے اب ہنگلاج ماتا تیرتھ یاترا کہا جاتا ہے۔''
حکومت بلوچستان کے مطابق اس پہاڑی سلسلے میں ہندو زائرین کے لیے پانی، بجلی، رہائش اور طبی کیمپ وغیرہ کے انتظامات کے ساتھ سی سی ٹی وی کیمرے اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں۔ ہندو یاتریوں کے مطابق گذشتہ برسوں کی نسبت اس سال صوبائی حکومت کے انتظامات بہتر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہنگلاج ماتا ہمارا سب سے بڑا تیرتھ ہے۔ یہاں پر بلوچستان حکومت نے جو انتظامات کیے، اس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی عقیدت مند یہاں آتے تھے، جن میں مختلف ریاستوں کے حکم ران شامل تھے۔
2006 میں انڈیا کے 86 رکنی وفد نے انڈیا کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی سربراہی میں ہنگلاج ماتا مندر کی یاترا کی تھی۔
ہنگلاج ماتا کا مندر ضلع لسبیلہ کے قریب ہنگول نیشنل پارک کے سنگم پر ہے۔ یہ علاقہ تقریباً 6 لاکھ 9 ہزار 43 ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور اس علاقے کو 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور یہ علاقہ بلوچستان کے تین اضلاع لسبیلہ آواران اور ضلع گوادر تک پھیلا ہُوا ہے۔
ایک سال بلوچستان حکومت کی سفارشات پر واپڈا نے ہنگول کے مقام پر ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جس سے تقریباً ایک لاکھ کے قریب بارانی زمین کاشت کے قابل ہوجاتی لیکن ہندو برادری اور اس کے سرگردہ راہ نمائوں نے یہاں پر ڈیم تعمیر کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ڈیم تعمیر ہونے کے بعد ہنگلاج ماتا کا مندر مکمل طور پر زیر آب آجائے گا۔ چوں کہ یہ ایک حساس مذہبی مسئلہ تھا بعد میں بلوچستان اسمبلی نے ایک متفقہ رائے سے قرارداد منظور کرکے اس ڈیم کی تعمیر روک دی تھی۔
ہندو برادری کے لوگ ہنگلاج ماتا کے مندر میں ہر سال اپریل کے مہینے میں آکر تین روزہ میلہ کا انعقاد کرتے ہیں اور اس مذہبی میلہ میں لاکھوں ہندو یاتری شریک ہوتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہنگلاج دیوی سے جو بھی منّت مانگی جائے تو وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔
''شیوامنڈلی کمیٹی'' کے پریس سیکریٹری پرکاش کمار لاسی نے بتایا کہ اس سال میلے میں تین لاکھ کے قریب یاتریوں نے شرکت کی ہے جو ایک بڑی تعداد ہے، یاتریوں کی صحیح تعداد کی معلومات کے حوالے سے پرکاش کمار لاسی نے بتایا کہ اگور ندی پر ہنگلاج ماتا کا جو مین گیٹ ہے وہاں پر سیکوریٹی اہل کار گاڑیوں کا اندراج کرتے ہیں جس سے یاتریوں کی تعداد کے بارے صحیح معلومات مل جاتی ہیں۔
ہنگلاج ماتا کے مندر سے 12کلو میٹر دور ریگستانی علاقے میں مٹی کے دو اونچے پہاڑ جنہیں ہندو یاتری ''چندرگپ '' کہتے ہیں ہندو یاتری ان پہاڑوں پر چڑھ کر وہاں عبادت کرتے ہیں چندر گپ پر چڑھنا اور وہاں عبادت کرنا ہنگلاج ماتا کے تین روزہ مذہبی میلہ کی اہم رسم میں شمار ہوتا ہے۔
''چندرگپ'' پہاڑ پر چڑھنے کے لیے چار سو سے زاید سیڑھیاں لگائی گئی ہیں ایک زمانے میں یہاں جب سیڑھیاں نہیں تھیں تو ہندو یاتریوں کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنا خاصا دشوار ہوتا تھا اور بہت سے یاتری پہاڑ سے گر کر زخمی اور ہلاک بھی ہوجاتے تھے۔ ہندو یاتری چندرگپ پر چڑھ کر وہاں کی گیلی مٹی اپنے چہرے پر مل کر پھر کنڈ ملیر کے سمندر جا کر نہا لیتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے صحافی دوستوں کے ساتھ جب میں کنڈ ملیر پہنچا تو کنڈ ملیر کے سمندر کے کنارے سیکڑوں کی تعداد میں ہندو یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے موجود تھے۔ کنڈ ملیر کے ساحل کو ''گولڈن بیچ '' بھی کہا جاتا ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے بننے سے پہلے یہ ساحلی علاقہ صرف یہاں کے مقامی ماہی گیروں کی کشتیوں کے لنگر انداز کرانے کا مسکن تھا اور اپریل کے مہینے میں جب ہنگلاج ماتا کا تین روزہ میلہ سجتا تو ہندو یاتری یہاں آکر اپنے مذہبی رسومات کی ادائی کیا کرتے تھے۔
کنڈ ملیر کے سمندر کنارے ایک ساٹھ سالہ ہندو یاتری گھنیش کمار سے جب میں نے پوچھا کہ کنڈ ملیر کے ''گولڈن بیچ '' پر آکر آپ کو کیسا لگ رہا ہے تو انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا: ''وہ گذشتہ تیس برسوں سے ہنگلاج ماتا کے میلے میں شرکت کرتے آرہے ہیں کوسٹل ہائی وے بننے سے قبل کنڈ ملیر کا ساحل انتہائی صاف ہوتا تھا یہاں کے قدرتی مناظر انتہائی دل کش ہُوا کرتے تھے لیکن اب یہاں چاروں طرف گندگی ہی گندگی ہے۔'' انہوں نے بتایا کہ بیس سال پہلے ہندو یاتریوں کے لیے یہاں پر نہانا اتنا مشکل نہیں ہوتا تھا لیکن ابھی یہاں کافی بھیڑ ہوتی ہے صاف پانی کا مسئلہ ہے، ہندو یاتریوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ غسل خانوں اور بیت الخلاء کا ہے حکومت اگر یہ سہولیات فراہم کرے تو ہندو یاتری ان کے احسان مند رہیں گے۔
میں نے گھنیش کمار کو بتایا کہ ایک رپورٹ کے مطابق پورے پاکستان میں 2 کروڑ 20 لاکھ سے زاید پاکستانی عوام بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں تو اب حکومت بلوچستان کی حکومت یہاں کنڈ ملیر کے مقام پر ہندو یاتریوں کے لیے غسل خانے اور بیت الخلاء کیسے بنا سکتی ہے؟ میرے جواب سے وہ بہت فکرمند اور مایوس ہوئے، میں نے اپنی باتوں سے گھنیش کمار کو مایوس کردیا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی انہیں مایوس نہیں کریں گے۔