ہندوستانی لوک سبھا کے لیے انتخابات
ہمیں پاکستان میں ان سے جتنا بھی اختلاف ہو مگر اپنے ملک کے لیے وہ لگن سے بے حد محنت کرنے والے سیاستدان ہیں
ہندوستان میں سات مرحلوں پر مشتمل عام انتخابات جاری ہیں۔ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 83 کے مطابق ہر پانچ سال کے لیے لوک سبھا (قومی اسمبلی) کا انتخاب ضروری ہے۔
ہندوستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں،لوک سبھا یعنی ایوانِ زیریں اور راجیہ سبھا یعنی ایوانِ بالا پر مشتمل ہے۔2024 کے عام انتخابات بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات ہیں کیونکہ اس میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد پچھلے تمام انتخابات سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی آبادی کم و بیش ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔اس آبادی کا کوئی ستر فی صد یعنی 970ملین لوگ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔2024 کے عام انتخابات کے ساتھ آندھرا پردیش ، اروناچل پردیش،اڑیسہ اور سکم کی ریاستی اسمبلیوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
علاوہ ازیں 12 ریاستی اسمبلیوں کی 25سیٹوں پر ضمنی انتخابات بھی ساتھ ہی منعقد ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ 2019کے عام انتخابات کے بعد ایک کروڑ پچاس لاکھ مزید افراد ووٹ دینے کے اہل بن گئے ہیں۔
ہندوستانی لوک سبھا کی کل543 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں سات مرحلوں میں ہونے والے یہ انتخابات 17اپریل کو شروع ہوئے اور یہ پہلی جون کو مکمل ہوں گے۔ووٹوں کی گنتی 4جون کو ہو گی اور امید ہے کہ اسی شام کو نتائج موصول ہونا شروع ہو جائیں گے۔مکمل نتائج آنے میں تین یا اس سے زیادہ دن لگ سکتے ہیں۔آپ دیکھیں کے یہ انتخابات 44دنوں پر محیط ہیں لیکن ہر کوئی اپنے انتخابی نظام پر بھروسہ رکھتا ہے اور عام طور پر نتائج کو قبول کیا جاتا ہے۔
انتخابات سے 48گھنٹے پہلے انتخابی مہم ختم کر دی جاتی ہے اور انتخابی عملہ اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر چنائو کی تیاری کر لیتا ہے۔پہلے مرحلے کے انتخابات 17اپریل کو ہوئے۔یہ انتخابات 21ریاستوں میں لوک سبھا کی 101 نشستوں کے لیے ہوئے۔دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 80نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات 11ریاستوں میں 94نشستوں کے لیے ہوئے۔
چوتھا مرحلہ ابھی سوموار 13مئی کو پایہء تکمیل کو پہنچا جس میں 10 ریاستوں کی 46لوک سبھا نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ 20مئی کو پانچویں مرحلے کے انتخابات ہوں گے جس میں 8ریاستیں حصہ لیں گی اور49نمائندے منتخب کریں گی۔چھٹے مرحلے میں8ریاستیں حصہ لیں گی اور 56نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ساتواں اور آخری مرحلہ پہلی جون کو مکمل ہوگا جس میں بھی 8ریاستوں میں ووٹر 57نشستوں پر اپنے نمائندے منتخب کر کے لوک سبھا بھیجیں گے۔
ہندوستان میں ملٹی پارٹی سسٹم رائج ہے لیکن زیادہ تر مقابلہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس کے امیدواروں کے درمیان ہوتا ہے البتہ مغربی بنگال میں عام طور پر کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کا پلہ بھاری رہتا ہے۔موجودہ لوک سبھا بھارتی تاریخ کی 17ویں لوک سبھا ہے جس کی مدت 16جون2024کو ختم ہو جائے گی۔
ان انتخابات میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔وہ انڈین نیشنل کانگریس سے باہر کے واحد سیاسی لیڈر ہیں جو اتنے لمبے عرصے سے برسرِ اقتدار ہیں۔
نریندر مودی جی ستمبر1950میں ریاست گجرات میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے گجرات کے ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بناتے رہے۔بعد میں انھوں نے بی جے پی کو اپنی سیاست کے لیے چنا اور ساتھ ہی اس کی ڈنڈا بردار تنظیم آر ایس ایس میں شامل ہو گئے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ انھوں نے کئی سال کھانا مانگ کر کھایا۔
کاش ہمارے ہاں بھی نچلے طبقے کے ہونہار،ترقی پسند افراد سیاست میں اوپر آئیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھال کر روشن پاکستان بنائیں۔ ہمیں پاکستان میں ان سے جتنا بھی اختلاف ہو مگر اپنے ملک کے لیے وہ لگن سے بے حد محنت کرنے والے سیاستدان ہیں۔
ہندوستانی جی ڈی پی سات فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔جی ڈی پی میں یہ بڑھوتی،اتنی بڑی آبادی کے ساتھ حاصل کرنا بہت مشکل تھا لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں لگتی کیونکہ ہندوستان صرف آئی ٹی پروڈکٹس کی مد میں 24ارب ڈالر سے زیادہ بر آمد کر رہا ہے۔آٹی ٹی کی فیلڈ میں اس حیران کن کارکردگی کی بنیاد ساٹھ کی دہائی میں رکھ دی گئی تھی۔
نرسمہا رائو اور من موہن سنگھ نے ہندوستان کو تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا،ہندوستان کے پاس زرِ مبادلہ کے کافی ذخائر ہیں۔اس وقت 50ہزار کلومیٹر لمبائی کی ہائی ویز تعمیر ہو رہی ہیں۔سڑکوں کے اس جال سے پورا ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائے گا۔کھیت کھلیان سے منڈیوں اور بازاروں تک رسائی ممکن ہو گی۔اچھی اور کشادہ سڑکیں ترقی کی شاہراہیں ہوتی ہیں۔نرسمہا رائو ،من موہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی نے بہت اچھے کاموں کی شروعات کیں جن کا ثمر اب مل رہا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے کسی بھی انتخابات میں ہندوستان موضوعِ بحث نہیں رہتا لیکن ہندوستان میں ہونے والے کسی ایک بھی الیکشن میں ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کا تذکرہ نہ رہا ہو۔پاکستان کو تباہ کرنے ،آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات کو چھیننے والے بیانات ہندوستانی عوام کو شاید بہت بھاتے ہیں،اس لیے نریندر مودی اپنے سیاسی جلسوں میں پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کرتے اور داد وصول کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کی کوشش کرتے ہیں۔
2024 کے حالیہ انتخابات میں البتہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمان زیادہ رگیدے گئے۔ ہندوتوا کے داعی جناب نریندر مودی نے راجستھان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ان کوحملہ آور در انداز اور گھُس بیٹھیے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے اس ملک میں داخل ہوکر ہندو عورتوں سے شادیاں رچائیں اور دھڑا دھر بے شمار بچے پیدا کیے۔ان کے بیان کے مطابق مسلمان بچے پیدا کرنے کی مشین بنے رہے۔یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ وہ خود 6بھائی ہیں،اسی طرح ان کے والد کے بھی 6 بھائی تھے۔
اگر وہ مسلمانوں پر زیادہ بچے پیدا کرنے کا الزام لگا رہے ہیں تو خود ان کا اپنا خاندان بھی اسی الزام کی زد میں آتا ہے۔اگر بی جے پی آیندہ 5سال کے لیے حکومت بناتی ہے تو مسلمان جو پہلے ہی نشانے پر ہیں ان کا ہندوستان میں جینا دوبھر ہو جائے گا۔پاکستان کی مسلح افواج اور وزارتِ خارجہ کو کمر کس لینی چاہیے۔مسلح افواج کو سرحدوں کی کڑی نگرانی کرنی ہو گی اور انٹیلی جنس اداروں کو بہت فعال ہونا ہو گا۔جناب نریندر مودی انتخابات جیت کر کوئی بھی مس ایڈونچر کر سکتے ہیں۔ تیاری اور آگاہی بہترین دفاعی حکمتِ عملی ہے۔
ہندوستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں،لوک سبھا یعنی ایوانِ زیریں اور راجیہ سبھا یعنی ایوانِ بالا پر مشتمل ہے۔2024 کے عام انتخابات بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات ہیں کیونکہ اس میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد پچھلے تمام انتخابات سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی آبادی کم و بیش ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔اس آبادی کا کوئی ستر فی صد یعنی 970ملین لوگ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔2024 کے عام انتخابات کے ساتھ آندھرا پردیش ، اروناچل پردیش،اڑیسہ اور سکم کی ریاستی اسمبلیوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
علاوہ ازیں 12 ریاستی اسمبلیوں کی 25سیٹوں پر ضمنی انتخابات بھی ساتھ ہی منعقد ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ 2019کے عام انتخابات کے بعد ایک کروڑ پچاس لاکھ مزید افراد ووٹ دینے کے اہل بن گئے ہیں۔
ہندوستانی لوک سبھا کی کل543 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں سات مرحلوں میں ہونے والے یہ انتخابات 17اپریل کو شروع ہوئے اور یہ پہلی جون کو مکمل ہوں گے۔ووٹوں کی گنتی 4جون کو ہو گی اور امید ہے کہ اسی شام کو نتائج موصول ہونا شروع ہو جائیں گے۔مکمل نتائج آنے میں تین یا اس سے زیادہ دن لگ سکتے ہیں۔آپ دیکھیں کے یہ انتخابات 44دنوں پر محیط ہیں لیکن ہر کوئی اپنے انتخابی نظام پر بھروسہ رکھتا ہے اور عام طور پر نتائج کو قبول کیا جاتا ہے۔
انتخابات سے 48گھنٹے پہلے انتخابی مہم ختم کر دی جاتی ہے اور انتخابی عملہ اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر چنائو کی تیاری کر لیتا ہے۔پہلے مرحلے کے انتخابات 17اپریل کو ہوئے۔یہ انتخابات 21ریاستوں میں لوک سبھا کی 101 نشستوں کے لیے ہوئے۔دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 80نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات 11ریاستوں میں 94نشستوں کے لیے ہوئے۔
چوتھا مرحلہ ابھی سوموار 13مئی کو پایہء تکمیل کو پہنچا جس میں 10 ریاستوں کی 46لوک سبھا نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ 20مئی کو پانچویں مرحلے کے انتخابات ہوں گے جس میں 8ریاستیں حصہ لیں گی اور49نمائندے منتخب کریں گی۔چھٹے مرحلے میں8ریاستیں حصہ لیں گی اور 56نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ساتواں اور آخری مرحلہ پہلی جون کو مکمل ہوگا جس میں بھی 8ریاستوں میں ووٹر 57نشستوں پر اپنے نمائندے منتخب کر کے لوک سبھا بھیجیں گے۔
ہندوستان میں ملٹی پارٹی سسٹم رائج ہے لیکن زیادہ تر مقابلہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس کے امیدواروں کے درمیان ہوتا ہے البتہ مغربی بنگال میں عام طور پر کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کا پلہ بھاری رہتا ہے۔موجودہ لوک سبھا بھارتی تاریخ کی 17ویں لوک سبھا ہے جس کی مدت 16جون2024کو ختم ہو جائے گی۔
ان انتخابات میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم جناب نریندر مودی مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔وہ انڈین نیشنل کانگریس سے باہر کے واحد سیاسی لیڈر ہیں جو اتنے لمبے عرصے سے برسرِ اقتدار ہیں۔
نریندر مودی جی ستمبر1950میں ریاست گجرات میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے گجرات کے ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بناتے رہے۔بعد میں انھوں نے بی جے پی کو اپنی سیاست کے لیے چنا اور ساتھ ہی اس کی ڈنڈا بردار تنظیم آر ایس ایس میں شامل ہو گئے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ انھوں نے کئی سال کھانا مانگ کر کھایا۔
کاش ہمارے ہاں بھی نچلے طبقے کے ہونہار،ترقی پسند افراد سیاست میں اوپر آئیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھال کر روشن پاکستان بنائیں۔ ہمیں پاکستان میں ان سے جتنا بھی اختلاف ہو مگر اپنے ملک کے لیے وہ لگن سے بے حد محنت کرنے والے سیاستدان ہیں۔
ہندوستانی جی ڈی پی سات فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔جی ڈی پی میں یہ بڑھوتی،اتنی بڑی آبادی کے ساتھ حاصل کرنا بہت مشکل تھا لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں لگتی کیونکہ ہندوستان صرف آئی ٹی پروڈکٹس کی مد میں 24ارب ڈالر سے زیادہ بر آمد کر رہا ہے۔آٹی ٹی کی فیلڈ میں اس حیران کن کارکردگی کی بنیاد ساٹھ کی دہائی میں رکھ دی گئی تھی۔
نرسمہا رائو اور من موہن سنگھ نے ہندوستان کو تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا،ہندوستان کے پاس زرِ مبادلہ کے کافی ذخائر ہیں۔اس وقت 50ہزار کلومیٹر لمبائی کی ہائی ویز تعمیر ہو رہی ہیں۔سڑکوں کے اس جال سے پورا ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائے گا۔کھیت کھلیان سے منڈیوں اور بازاروں تک رسائی ممکن ہو گی۔اچھی اور کشادہ سڑکیں ترقی کی شاہراہیں ہوتی ہیں۔نرسمہا رائو ،من موہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی نے بہت اچھے کاموں کی شروعات کیں جن کا ثمر اب مل رہا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے کسی بھی انتخابات میں ہندوستان موضوعِ بحث نہیں رہتا لیکن ہندوستان میں ہونے والے کسی ایک بھی الیکشن میں ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کا تذکرہ نہ رہا ہو۔پاکستان کو تباہ کرنے ،آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات کو چھیننے والے بیانات ہندوستانی عوام کو شاید بہت بھاتے ہیں،اس لیے نریندر مودی اپنے سیاسی جلسوں میں پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کرتے اور داد وصول کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کی کوشش کرتے ہیں۔
2024 کے حالیہ انتخابات میں البتہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمان زیادہ رگیدے گئے۔ ہندوتوا کے داعی جناب نریندر مودی نے راجستھان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ان کوحملہ آور در انداز اور گھُس بیٹھیے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے اس ملک میں داخل ہوکر ہندو عورتوں سے شادیاں رچائیں اور دھڑا دھر بے شمار بچے پیدا کیے۔ان کے بیان کے مطابق مسلمان بچے پیدا کرنے کی مشین بنے رہے۔یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ وہ خود 6بھائی ہیں،اسی طرح ان کے والد کے بھی 6 بھائی تھے۔
اگر وہ مسلمانوں پر زیادہ بچے پیدا کرنے کا الزام لگا رہے ہیں تو خود ان کا اپنا خاندان بھی اسی الزام کی زد میں آتا ہے۔اگر بی جے پی آیندہ 5سال کے لیے حکومت بناتی ہے تو مسلمان جو پہلے ہی نشانے پر ہیں ان کا ہندوستان میں جینا دوبھر ہو جائے گا۔پاکستان کی مسلح افواج اور وزارتِ خارجہ کو کمر کس لینی چاہیے۔مسلح افواج کو سرحدوں کی کڑی نگرانی کرنی ہو گی اور انٹیلی جنس اداروں کو بہت فعال ہونا ہو گا۔جناب نریندر مودی انتخابات جیت کر کوئی بھی مس ایڈونچر کر سکتے ہیں۔ تیاری اور آگاہی بہترین دفاعی حکمتِ عملی ہے۔