شہرت اور ایڈونچرز پر مبنی حکمرانی کا نظام
بنیادی مسئلہ ترقی ، خوشحالی اور پائیدار ترقی سے جڑے ایجنڈے کے فہم اور ادراک کا ہے
پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی خامیاں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی حکمرانی کا نظام نہ تو منصفانہ بنیادوں پر قائم ہے اور نہ اس میں شفافیت کا پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
آج کی جدید دنیا میں جو حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے جو اصول اختیار کیے جاتے ہیں ان سے بھی ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔دو ہی پہلو سمجھ میں آتے ہیں ۔اول، ہم میں صلاحیتوں کا فقدان ہے اور ہم سمجھنے سے عملی طور پر قاصر ہیں کہ آگے کیسے بڑھا جاسکتا ہے ۔ دوئم، اچھی حکمرانی ہماری ترجیحات کاحصہ نہیں اور ہم جان بوجھ کر ایک ایسے نظام کو قوت فراہم کرتے ہیں جس میں ان کے ذاتی مفادات کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
بنیادی مسئلہ ترقی ، خوشحالی اور پائیدار ترقی سے جڑے ایجنڈے کے فہم اور ادراک کا ہے۔کیونکہ ہم دعویٰ یا عملی اقدامات ترقی کی بنیاد پر کرتے ہیں مگر ہماری حکمت عملیاں یا عملدرآمد کا نظام ترقی کی بجائے کمزور اور محروم طبقات کو حقیقی ترقی سے بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔
ترقی کے تناظر میں ایک بنیادی منطق یہ ہوتی ہے کہ ہم نے لوگوں کی سیاسی ، سماجی ،قانونی اور معاشی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے یا پھر ان کی عملی حالت اسی انداز میں رکھنا ہے کہ وہ حقیقی ترقی یا خود مختاری سے محروم رہیں۔ ہماری مجموعی ترقی کی بحث اول تو مجموعی طور پر مرکزیت کے نظام کی بنیاد پر کھڑی ہے۔کیونکہ ہم اختیارات کی تقسیم کے خلاف اور اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔
خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام بھی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہماری حکمت عملی میں خیراتی بنیادوں پر ترقی کا ماڈل ہے اور ہم لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خیراتی طور پر حکومتی ترقی کا حصہ بنیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بیشتر حکومتوں کے منصوبوں میں پائیدار ترقی کے مقابلے میں خیراتی حکمت عملی کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔اس طرز کی حکمت عملی لوگوں کو حکومتوں یا خوشحال طبقہ کے سہاروں تک محدود کر دیتی ہے اور لوگ خود سے کچھ کرنے کی صلاحیت سے بہت دور چلے جاتے ہیں ۔
آج کل ہماری حکمرانی کے نظام میں ایک طرف خیراتی منصوبہ بندی یا ترقی کا ماڈل غالب ہے یا اس ماڈل کی بنیاد پر شہرت حاصل کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرتا ہے۔ یہ حکمت عملی کسی ایک حکومت یا کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ ہمیں اس کھیل میں تمام حکمران طبقات ، سیاسی جماعتیں، کھلاڑی اور شوبز ستارے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس ماڈل کے ذریعے اوپر آنے والے جو نظام چلاتے ہیں،اس کے تحت حقیقی ترقی ہورہی ہو یا نہیں یا لوگوں کو بنیادی حقوق منصفانہ بنیادوں پر مل رہے ہوں یا نہیں مگر میڈیا اور بالخصوص اب سوشل میڈیا پر ان کی امیج بلڈنگ مسلسل جاری رہتی ہے ، کروڑ روپے روپوں سے جو میڈیا مہم چلائی جاتی ہے، اس میں سب اچھا ہوتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مختلف ذرائع کی مدد سے یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ اس لیڈر جیسا کوئی اور نہیں ہے ، اگر کوئی حکومت میں ہو تو ہر طرف ترقی ہی ترقی دکھائی جاتی ہے، ویڈیوز بنا کر لوگوں کو بناوٹی ترقی کے نام پر گمراہ کیا جاتا ہے ۔اس طرز کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے اس میں عقل ودانش یا منطق کی بجائے ہمیں ہوشیاری، شاطری اور دھوکہ بازی ذہنیت نظر آتی ہے کیونکہ عقل اور دانش کو دکھاؤے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم امیج بلڈرز کی دنیا میں رہ کر خوب ترقی کررہے ہیں جب کہ عملی میدان میں ہماری ترقی کا عمل کافی تلخ اور دکھ بھرا ہے جس میں محرومی کی سیاست کو غلبہ ہے ۔
ہمیں سسٹم چلانے والوں سے جس فہم وفراست، تدبر اور بردباری کی ضرورت ہے، جدید بنیادوں پر ترقی کا خاکہ درکار ہے، وہ کہیں بالادست نظر نہیں آتا ۔ حکمران طبقہ نہ تو کوئی بڑی دوراندیشی سے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتا ہے اور نہ ہی نظام میں موجود بنیادی سطح کی خامیوں سمیت ادارہ جاتی عمل میں اسٹرکچرل ریفارمز کے لیے تیار ہیں۔
ایک فرسودہ حکمرانی کا نظام جو اپنے اندر بنیادی نوعیت کی بہت زیادہ خامیاں رکھتا ہو اس پر محض مرہم پٹی لگا کر ترقی کرنا خود کو دھوکہ دینے سے جڑا ہوتا ہے ۔کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام شارٹ کٹ کی بنیاد پر چلتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے نعروں ، دعوؤں اور نمود و نمائش کی بنیاد پر لوگوں کو حکومت کے نام پر اپنے قریب کیا جاسکتا ہے ۔مگر سچ یہ ہے کہ ہماری حکمت عملیوں کی وجہ سے ریاست، حکومت اور عوام میں تواتر کے ساتھ خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔
ہم روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم سے لے کر صوبوں میں موجود وزیراعلیٰ تک یا وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیروں اور مشیروں کی فوج در فوج تک ، یا انتظامی اداروں اور ان کے سربراہان سے لے کر بڑے بڑے ریاستی عہدوں پر موجود افراد تک ہمیں حقیقی حکمرانی سے جڑے شفافیت کے پہلو نظر نہیں آتے ۔آٹے کا بحران ہو یا چینی کا یا بجلی ، گیس سمیت پٹرول ، ڈیزل سمیت بہت سے معاملات پر سوائے جذباتی نعروں کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ کھیل محض حکمران طبقہ تک محدود نہیں بلکہ حزب اختلاف کی سیاست کو بھی دیکھیں تو وہ بھی حکومت مخالفت کی بنیاد پر ایک جذباتی نوعیت کے بیانیہ کو بنیاد بنا کر سیاست کرتے ہیں۔
ہماری سوچ کھیل ختم، پیسہ ہضم یا مٹی پاؤ سمیت عدم جوابدہی کے نظام سے جڑی ہوئی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہمیں ترقی کے عمل سے بہت دور لے گئی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اقتدار کے کھیل میں یا حکمرانی کے نظام میں سیاسی وارداتوں کے ماہر ہوگئے ہیں ۔سیاست دان ہوں ، اسٹیبلیشمنٹ ہو، بیوروکریسی ہو ، قانونی ادارے ہوں یا تاجر و صنعت کار سب ہی حکمرانی کے نظام میں موجود بگاڑ کے ذمے دار ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہم حکمرانی کے نظام کو ٹھیک کرنے نہیں آئے بلکہ پہلے سے جو بھی نظام موجود ہے اسی کو بگاڑ رہے ہیں ۔حکمرانی کا نظام سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے ایسی اصلاحات کرلی جو ان کو کسی نہ کسی محاذ پر جوابدہ بنائے تو وہ کیونکر ان اصلاحات کی حمایت کریں گے ۔
یہ جو ہم نے حکمرانی کے نظام میں مافیا پر مبنی گٹھ جوڑ کرلیا ہے اس کا علاج کیسے تلاش کیا جاسکے گا۔کیا جوابدہی کے نظام کے بغیر ہم اپنی حکمرانی کے نظام کو درست کرسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا۔یہ جو ادارہ سازی کا عمل کمزور ہوا ہے یا اس میں جو بربادی نظر آرہی ہے اس کا نقصان سب سے زیادہ عام یا کمزور آدمی کو ہوا ہے ۔کیونکہ عوامی ترجیحات کو بنیاد بنا کرمسائل کے حل کی تلاش یا اسے فیصلے کرنا جو براہ راست عوام کی ترجیحات کو طاقت دیتا ہو ہم اس سے دور کھڑے ہیں ۔ جو وسائل ایسے ایسے منصوبوں پر برباد کیے جارہے ہیں جن کو ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھا ، وہ غالب ہے۔
حکمران طبقہ کی اصل مجبوری اپنی سیاسی شہرت یا سیاسی تشہیر ہے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر حکمران طبقہ اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دیتا ہے ، وسائل خرچ کرتا ہے اور لوگوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا ہے ۔اسی نظام میں بیوروکریسی حکمرانوں کا اس کمزوری کا خوب فائدہ اٹھاتی ہے اور ان کو اس طرز کے مشورے دیے جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں گے ۔ لیکن یہ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ حکمرانوں کی اس شہرت پر مبنی مہم کی ایک بھاری قیمت عام اور کمزور آدمی کو اپنی محرومی کی سیاست کے طور پر ادا کرنا پڑرہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے منشور کو دیکھیں تو اس میں کوئی ایسا تجزیہ ممکن نہیں کہ یہ ہمارے حقیقی روڈ میپ کی نشاندہی کرسکے ۔ نہ ہی حکومتی سطح پر ایسے سوچنے سمجھنے والے تھنک ٹینک موجود ہیں یا غیر سیاسی یا غیر حکومتی سطح پر سوچنے اورسمجھنے والے لوگوں کی باتوں کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے، جو سنجیدہ طلب مسئلہ ہے ۔
اس کا علاج ایک ہی ہے کہ حکمرانی کے نظام سے جڑے تمام فریقوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نظام اس طرح سے نہیں چل سکے گا ۔ یہ نظام اپنی سطح پر افادیت کھو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں نظام کی ساکھ بھی ختم ہورہی ہے ۔ اس لیے ایسے مرض کا علاج جو کینسر سے جڑا ہوا ہے اس کا علاج کسی بھی طور پر ڈسپرین کی گولی سے ممکن نہیں ہوگا۔
آج کی جدید دنیا میں جو حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے جو اصول اختیار کیے جاتے ہیں ان سے بھی ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔دو ہی پہلو سمجھ میں آتے ہیں ۔اول، ہم میں صلاحیتوں کا فقدان ہے اور ہم سمجھنے سے عملی طور پر قاصر ہیں کہ آگے کیسے بڑھا جاسکتا ہے ۔ دوئم، اچھی حکمرانی ہماری ترجیحات کاحصہ نہیں اور ہم جان بوجھ کر ایک ایسے نظام کو قوت فراہم کرتے ہیں جس میں ان کے ذاتی مفادات کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
بنیادی مسئلہ ترقی ، خوشحالی اور پائیدار ترقی سے جڑے ایجنڈے کے فہم اور ادراک کا ہے۔کیونکہ ہم دعویٰ یا عملی اقدامات ترقی کی بنیاد پر کرتے ہیں مگر ہماری حکمت عملیاں یا عملدرآمد کا نظام ترقی کی بجائے کمزور اور محروم طبقات کو حقیقی ترقی سے بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔
ترقی کے تناظر میں ایک بنیادی منطق یہ ہوتی ہے کہ ہم نے لوگوں کی سیاسی ، سماجی ،قانونی اور معاشی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے یا پھر ان کی عملی حالت اسی انداز میں رکھنا ہے کہ وہ حقیقی ترقی یا خود مختاری سے محروم رہیں۔ ہماری مجموعی ترقی کی بحث اول تو مجموعی طور پر مرکزیت کے نظام کی بنیاد پر کھڑی ہے۔کیونکہ ہم اختیارات کی تقسیم کے خلاف اور اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔
خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام بھی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہماری حکمت عملی میں خیراتی بنیادوں پر ترقی کا ماڈل ہے اور ہم لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خیراتی طور پر حکومتی ترقی کا حصہ بنیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بیشتر حکومتوں کے منصوبوں میں پائیدار ترقی کے مقابلے میں خیراتی حکمت عملی کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔اس طرز کی حکمت عملی لوگوں کو حکومتوں یا خوشحال طبقہ کے سہاروں تک محدود کر دیتی ہے اور لوگ خود سے کچھ کرنے کی صلاحیت سے بہت دور چلے جاتے ہیں ۔
آج کل ہماری حکمرانی کے نظام میں ایک طرف خیراتی منصوبہ بندی یا ترقی کا ماڈل غالب ہے یا اس ماڈل کی بنیاد پر شہرت حاصل کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرتا ہے۔ یہ حکمت عملی کسی ایک حکومت یا کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ ہمیں اس کھیل میں تمام حکمران طبقات ، سیاسی جماعتیں، کھلاڑی اور شوبز ستارے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس ماڈل کے ذریعے اوپر آنے والے جو نظام چلاتے ہیں،اس کے تحت حقیقی ترقی ہورہی ہو یا نہیں یا لوگوں کو بنیادی حقوق منصفانہ بنیادوں پر مل رہے ہوں یا نہیں مگر میڈیا اور بالخصوص اب سوشل میڈیا پر ان کی امیج بلڈنگ مسلسل جاری رہتی ہے ، کروڑ روپے روپوں سے جو میڈیا مہم چلائی جاتی ہے، اس میں سب اچھا ہوتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مختلف ذرائع کی مدد سے یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ اس لیڈر جیسا کوئی اور نہیں ہے ، اگر کوئی حکومت میں ہو تو ہر طرف ترقی ہی ترقی دکھائی جاتی ہے، ویڈیوز بنا کر لوگوں کو بناوٹی ترقی کے نام پر گمراہ کیا جاتا ہے ۔اس طرز کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے اس میں عقل ودانش یا منطق کی بجائے ہمیں ہوشیاری، شاطری اور دھوکہ بازی ذہنیت نظر آتی ہے کیونکہ عقل اور دانش کو دکھاؤے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم امیج بلڈرز کی دنیا میں رہ کر خوب ترقی کررہے ہیں جب کہ عملی میدان میں ہماری ترقی کا عمل کافی تلخ اور دکھ بھرا ہے جس میں محرومی کی سیاست کو غلبہ ہے ۔
ہمیں سسٹم چلانے والوں سے جس فہم وفراست، تدبر اور بردباری کی ضرورت ہے، جدید بنیادوں پر ترقی کا خاکہ درکار ہے، وہ کہیں بالادست نظر نہیں آتا ۔ حکمران طبقہ نہ تو کوئی بڑی دوراندیشی سے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتا ہے اور نہ ہی نظام میں موجود بنیادی سطح کی خامیوں سمیت ادارہ جاتی عمل میں اسٹرکچرل ریفارمز کے لیے تیار ہیں۔
ایک فرسودہ حکمرانی کا نظام جو اپنے اندر بنیادی نوعیت کی بہت زیادہ خامیاں رکھتا ہو اس پر محض مرہم پٹی لگا کر ترقی کرنا خود کو دھوکہ دینے سے جڑا ہوتا ہے ۔کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام شارٹ کٹ کی بنیاد پر چلتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے نعروں ، دعوؤں اور نمود و نمائش کی بنیاد پر لوگوں کو حکومت کے نام پر اپنے قریب کیا جاسکتا ہے ۔مگر سچ یہ ہے کہ ہماری حکمت عملیوں کی وجہ سے ریاست، حکومت اور عوام میں تواتر کے ساتھ خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔
ہم روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم سے لے کر صوبوں میں موجود وزیراعلیٰ تک یا وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیروں اور مشیروں کی فوج در فوج تک ، یا انتظامی اداروں اور ان کے سربراہان سے لے کر بڑے بڑے ریاستی عہدوں پر موجود افراد تک ہمیں حقیقی حکمرانی سے جڑے شفافیت کے پہلو نظر نہیں آتے ۔آٹے کا بحران ہو یا چینی کا یا بجلی ، گیس سمیت پٹرول ، ڈیزل سمیت بہت سے معاملات پر سوائے جذباتی نعروں کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ کھیل محض حکمران طبقہ تک محدود نہیں بلکہ حزب اختلاف کی سیاست کو بھی دیکھیں تو وہ بھی حکومت مخالفت کی بنیاد پر ایک جذباتی نوعیت کے بیانیہ کو بنیاد بنا کر سیاست کرتے ہیں۔
ہماری سوچ کھیل ختم، پیسہ ہضم یا مٹی پاؤ سمیت عدم جوابدہی کے نظام سے جڑی ہوئی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہمیں ترقی کے عمل سے بہت دور لے گئی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اقتدار کے کھیل میں یا حکمرانی کے نظام میں سیاسی وارداتوں کے ماہر ہوگئے ہیں ۔سیاست دان ہوں ، اسٹیبلیشمنٹ ہو، بیوروکریسی ہو ، قانونی ادارے ہوں یا تاجر و صنعت کار سب ہی حکمرانی کے نظام میں موجود بگاڑ کے ذمے دار ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہم حکمرانی کے نظام کو ٹھیک کرنے نہیں آئے بلکہ پہلے سے جو بھی نظام موجود ہے اسی کو بگاڑ رہے ہیں ۔حکمرانی کا نظام سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے ایسی اصلاحات کرلی جو ان کو کسی نہ کسی محاذ پر جوابدہ بنائے تو وہ کیونکر ان اصلاحات کی حمایت کریں گے ۔
یہ جو ہم نے حکمرانی کے نظام میں مافیا پر مبنی گٹھ جوڑ کرلیا ہے اس کا علاج کیسے تلاش کیا جاسکے گا۔کیا جوابدہی کے نظام کے بغیر ہم اپنی حکمرانی کے نظام کو درست کرسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا۔یہ جو ادارہ سازی کا عمل کمزور ہوا ہے یا اس میں جو بربادی نظر آرہی ہے اس کا نقصان سب سے زیادہ عام یا کمزور آدمی کو ہوا ہے ۔کیونکہ عوامی ترجیحات کو بنیاد بنا کرمسائل کے حل کی تلاش یا اسے فیصلے کرنا جو براہ راست عوام کی ترجیحات کو طاقت دیتا ہو ہم اس سے دور کھڑے ہیں ۔ جو وسائل ایسے ایسے منصوبوں پر برباد کیے جارہے ہیں جن کو ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھا ، وہ غالب ہے۔
حکمران طبقہ کی اصل مجبوری اپنی سیاسی شہرت یا سیاسی تشہیر ہے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر حکمران طبقہ اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دیتا ہے ، وسائل خرچ کرتا ہے اور لوگوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا ہے ۔اسی نظام میں بیوروکریسی حکمرانوں کا اس کمزوری کا خوب فائدہ اٹھاتی ہے اور ان کو اس طرز کے مشورے دیے جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں گے ۔ لیکن یہ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ حکمرانوں کی اس شہرت پر مبنی مہم کی ایک بھاری قیمت عام اور کمزور آدمی کو اپنی محرومی کی سیاست کے طور پر ادا کرنا پڑرہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے منشور کو دیکھیں تو اس میں کوئی ایسا تجزیہ ممکن نہیں کہ یہ ہمارے حقیقی روڈ میپ کی نشاندہی کرسکے ۔ نہ ہی حکومتی سطح پر ایسے سوچنے سمجھنے والے تھنک ٹینک موجود ہیں یا غیر سیاسی یا غیر حکومتی سطح پر سوچنے اورسمجھنے والے لوگوں کی باتوں کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے، جو سنجیدہ طلب مسئلہ ہے ۔
اس کا علاج ایک ہی ہے کہ حکمرانی کے نظام سے جڑے تمام فریقوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نظام اس طرح سے نہیں چل سکے گا ۔ یہ نظام اپنی سطح پر افادیت کھو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں نظام کی ساکھ بھی ختم ہورہی ہے ۔ اس لیے ایسے مرض کا علاج جو کینسر سے جڑا ہوا ہے اس کا علاج کسی بھی طور پر ڈسپرین کی گولی سے ممکن نہیں ہوگا۔